فن اصلاحِ سخن اور سید نظیرعلی عدیلؔ

Share

 سید نظیرعلی عدیلؔ

محمد عظمت اللہ خان

(پی ایچ ڈی،ریسرچ اسکالر،اردواورینٹل،عثمانیہ یونیورسٹی)

فن اصلاحِ سخن اور سیدنظیر علی عدیلؔ

اصلاحِ سخن کی روایت اردو شاعری کی اہم روایت رہی ہے ، جس نے قندیل کی طرح شاعری کی راہِ ارتقاء میں جہت نمائی کے لئے فکر اور فن کی روشنی مہیا کی ہے ، لفظ و معنی کے باہمی رشتوں ، شعری تلازموں ، بحور و اوزان کی نزاکتوں اور تراکیب کی خوش آہنگی کے معنی کیا ہیں ؟ تازہ و اردانِ بساطِ سخن کو اس سے آگاہی بخشنے اور نکاتِ فن کو ان کے خاطر نشاں بنانے کے لئے اساتذۂ سخن نے عہد بعہد جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ، ان کے تذکرے اور ان کی تفہیم کے بغیر ہم شاعری کی تاریخ کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکتے ہیں ، زیرنظر مضمون میں حیدرآباد دکن کے ایک مشہور و معروف استاد شاعر سید نظیر علی عدیلؔ کی فن اصلاح سخن سے متعلق خدمات کا مختصر طور پر ذکر کیا جاتا ہے، جس سے ان کی شاعرانہ ، فنکارانہ اور استادانہ صلاحیتیں عیاں ہوتی ہیں ، یہاں پہلے اصلاحِ سخن اور مصلحِ سخن کی تعریف پیش کی جاتی ہے ۔

اصلاح کے معنی : درست کرنے ، غلطی یا عیب کو دور کرنے ، تصحیح کرنے اور بنانے سنوارنے کے ہیں ، اصطلاحی معنی میں اصلاحِ سخن اس فنی یا ادبی عمل کو کہتے ہیں جس میں کوئی استاد کسی شاگرد کے کلام نظم و نثر کو بنانے، سنوارنے اور ترقی دینے یا آراستہ و پیراستہ کرنے کی غرض سے ترمیم و تنسیخ یا حذف و اضافہ کرتا ہے ۔
مصلح شعر : معائب و محاسن شعر کا جائزہ لیتا ہے ، محاسن کو باقی رکھ کر مزید محاسن پیدا کرنے کے لئے عیوب و اسقام پر نشتر زنی کرتا ہے اور انہیں فاسد مادے کی طرح نکال باہر کرتا ہے اور شعر کو معنوی اور لسانی اعتبار سے درست کرتا ہے ۔
شعر گوئی کے لئے جتنی صلاحیت درکار ہوتی ہے ، سخن فہمی اور اصلاحِ شعر کے لئے اس سے زیادہ قابلیت مقصود ہوتی ہے ، اس لئے یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ شعر گوئی سے زیادہ مشکل سخن فہمی اور اصلاحِ سخن کا کام ہے ، اسی لئے اصلاحِ سخن کے فن کی اہمیت و افادیت ہر دور میں مسلّم رہی ہے ، اور اردو شاعری میں اصلاحِ سخن کی روایت اتنی محکم رہی ہے کہ بڑے سے بڑا فنکار بھی بے استادا کہلوانے سے شرماتا ہے اور کچھ نہیں تو فرضی استاد ہی گھڑلیتا ہے ، غالبؔ اور ان کے فرضی استاد عبدالصمد کا معاملہ اسی نوعیت کا ہے ، غرض دکن میں اردو میں اصلاحِ سخن کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ فن میں ایک اہم اور معتبر نام جانشین صفیؔ اورنگ آبادی ، حضرت سید نظیر علی عدیلؔ کا بھی ہے، جنہوں نے اصلاحِ سخن کے فریضہ کو بحسن و خوبی انجام دیا ہے اور لسانی و فنی دائرہ میں اہم اور وقیع خدمات کے ذریعہ اپنی علمی و ادبی شناخت کو استحکام بخشا ہے ۔
اساتذۂ سخن کی اصلاحوں پر ایک سرسری نظر ڈالنے ہی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بعض اساتذہ نے شاگردوں کے کلام پر اصلاح تو دی ہے مگر وجہہ اصلاح بیان نہیں کی ہے ، بعض اساتذوں نے بالالتزام وجہہ اِصلاح (توجیہہ) بھی تحریر کی ہے ، جس سے شاگرد ، مبتدی یا قاری کو علم ہوجاتا ہے کہ شعر میں کیا نقص راہ پاگیا تھا اور زبان و بیان ، عروض و قواعد ، خارجی یا معنوی کونسی غلطی راہ پاگئی تھی اور اس کو کس طرح دور کیا گیا ہے ، سید نظیر علی عدیلؔ ان اساتذہ میں شامل ہیں ، جنہو ں نے اصلاحوں کی توجیہہ لکھنے کاخاص اہتمام کیا ہے ، انہوں نے وجہہ اصلاح ، معائب اور نقائص کی نشاندہی کی ہے اور فنِ شاعری کے ان سربستہ رازوں کا بھی انکشاف کیا ہے ، جنہیں بعض استادوں نے علم سینہ کا درجہ دے رکھا تھا ، اس طرح کی اصلاحیں ہماری ادبی تاریخ کا قیمتی سرمایہ ہیں اور اس انداز کی اصلاحوں اور توجیہوں نے اردو شاعری کی نشوونما ، زبان کے ارتقاء اور فنکارانہ اسالیب کے فروغ میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے ۔
دکن میں سید نظیر علی عدیلؔ اس لحاظ سے بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں کہ ان کے تلامذہ کا حلقہ وسیع تھا ، انہوں نے اپنے شاگردوں کی ذہنی و فنی تربیت جس اخلاص اور دل سوزی سے کی ہے وہ بے شک قابل قدر ہے ، حضرت نظیر علی عدیلؔ کی بقلم خود تیار کردہ فہرست میں ۱۴۰؍ شاگردوں کے نام درج ہیں جو حیدرآباد ، اضلاع اور دیگر ممالک و مقامات پر سکونت پذیر تھے ،جن میں مسرور ؔ عابدی ، ڈاکٹر فاروق شکیلؔ ، ڈاکٹر راہیؔ ، افضل تسلیمؔ ، اشہرؔ ندیمی ، مظہر محی الدین مظہرؔ ، رؤف رحیم ؔ ، شاہدؔ عدیلی ، راشد احمد راشد ؔ ، احمد قاسمیؔ ، رشید احمد رشیدؔ ، فیاض اخترؔ ، اشرفؔ حیدرآبادی ، غیاث عارفؔ ، شمیم الدین شمیمؔ ، نظام الدین عازمؔ ، شہابؔ ، سلیم الدین ہاشمیؔ ، بشارت علی بشارتؔ ، مبین شریف مبینؔ ، رحمت سکندرآبادی ، صدیق کوثرؔ ، رنگاراؤ رنگینؔ ، بشیر النساء ، للیتا دیوی شکلاؔ ، امجد علی امجدؔ ، مومن کوثر شمس آبادی وغیرہ شعراء کے نام اہم ہیں ، علاوہ ازیں بیرونی ممالک پاکستان ، مدینہ منورہ ، جدہ ، مسقط ، عمان ، کویت ، برطانیہ ، کینیڈا اور ٹورنٹو وغیرہ مقامات پر موجود متعدد شعراء نے اپنے کلام پر ان سے اصلاح لی ہے۔

عدیلؔ کا طرزِ اصلاح :
سید نظیر علی عدیلؔ کی اصلاحوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ تلامذہ کے اشعارمیں بنیادی طور پر ان کے مرکزی خیال کو باقی رکھتے تھے اور الفاظ کے الٹ پھیر یا تقدیم و تاخیر سے بظاہر معمولی مگر اہم اصلاح کرتے تھے ،جس سے شعر کو ہمالیائی قامت عطا ہوتی تھی اور وہ صوری و معنوی لحاظ سے خوبصورت ہوجاتا تھا ، ان کی اصلاحوں کے مطالعہ سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ انہوں نے شاعری کے معائب خصوصاً شتر گربہ ، تعقید لفظی ، غلط محاورہ بندی ، حشو و زوائد ، دولخت ، ناموزونیت اور سقوطِ حروف سے احتراز نیز تذکرہ و تأنیث کی رعایت ، املا اور الفاظ کے صحیح استعمال پر خصوصی توجہ دلاتے اور معائب حتی کہ متروکات سے بھی احتراز کرنے کی تاکید کرتے تھے ،جو پختہ کار و کہنہ مشق، جید اور ایک اعلیٰ مصلح سخن کی خوبیوں میں سے ہے ۔

اصلاح کے نمونے :
درجہ ذیل سطور میں استاذِ سخن نظیر علی عدیلؔ کی اصلاحوں کے چند نمونے مع توجیہات پیش کئے جاتے ہیں ، تاکہ پتہ چلے کہ انہوں نے معائب و محاسن پر کس طرح گہری نظر رکھتے ہوئے اپنے شاگردوں کے کلام پر اصلاح دی ہے ، ملاحظہ ہوں ؂
اصل شعر ؂
مسرورؔ کھیل سمجھے ہیں احباب عشق کو
جینا فراقِ یار میں آفت سے کم نہیں

(مسرورؔ عابدی)
اصلاح ؂
مسرورؔ کھیل سمجھے ہیں احباب عشق کو
جینا فراقِ یار میں مرنے سے کم نہیں

توجیہہ :۔ اس شعر میں حضرت عدیلؔ نے مصرعۂ اولیٰ کو بعینہ باقی رکھا اور مصرعِ ثانی میں لفظ آفت کو ’’مرنے‘‘ فعل سے بدل دیا، اس لئے کہ اسی مصرعِ میں قبل ازیں ’’جینا‘‘ فعل بھی ہے ، جس سے معنوی طور پر تضاد و تقابل پیدا ہوگیا ، نیز مرنا فعل بطورِ محاورہ بھی مستعمل ہے ، جس سے آفت ہی نہیں بلکہ آفات کی غمازی مکمل طور پر ہورہی ہے ، جو عشق کو مستلزم ہیں ، اس طرح یہ ایک لفظ کی بظاہر معمولی مگر اہم اصلاح ہے ۔
اصل شعر ؂
پیاس جب یہ بجھا نہیں سکتا
کیا ضرورت ہے پھر سمندر کی

(فاروق شکیلؔ )
اصلاح ؂
تشنگی جب بجھا نہیں سکتا
کیا ضرورت ہے پھر سمندر کی

توجیہہ :۔ یہاں استاد نے صرف مصرعۂ اولیٰ میں سے لفظ ’’ یہ‘‘ کو قلم زد کرتے ہوئے لفظ پیاس کے متبادل و مترادف لفظ ’’تشنگی‘‘ کو رکھا ، جس سے وزن میں برابری بھی ہوگئی اور یہ لفظ ’’ یہ ‘‘ جو از قبیل حشو و زوائد تھا ، اس سے بھی نجات ملی ، اس طرح شعر کی بندش چست ہوگئی ۔
اصل شعر ؂
ہماری سعئ پیہم بھی کوئی کیا سعئ پیہم ہے
وہی ہوتا ہے آخر جو انہیں منظور ہوتا ہے

(افضل تسلیمؔ )
اصلاح ؂
ہماری سعئ پیہم سے بہل جاتا ہے دل لیکن
وہی ہوتا ہے آخر جو انہیں منظور ہوتا ہے

توجیہہ :۔ یہاں مصرعۂ ثانی علی حالہ ہے ، صرف مصرعِ اول میں اصلاح کی گئی ہے ، وجہ یہ ہے کہ مصرعِ اول کے آخر میں لفظ ’’ہے ‘‘ ہے ،جس سے ترادفِ ردیفین کا عیب واقع ہورہا ہے ، حضرت عدیلؔ نے اس عیب کے درآنے کی بناء پر مصرعِ اول میں تبدیلی کی جس سے ترادفِ ردیفین کا عیب دور ہوگیا اور مفہوم اور واضح ہوگیا ۔
اصل شعر ؂
جب تم ہی روٹھ جاؤ اتنا ہمیں بتاؤ
دیکھے گا کون آکر رعنائیاں ہماری

(اشہرؔ ندیمی)
اصلاح ؂
جب تم ہی روٹھ جاؤ ، اتنا ہمیں بتاؤ
دیکھے گا کون آخر رعنائیاں ہماری

توجیہہ :۔یہاں استاد نے صرف مصرعِ ثانی میں لفظ ’’آکر‘‘ کو لفظ ’’آخر‘‘ سے بدل کر شعر کی تاثیر میں اضافہ کردیا ، حقیقتہً یہاں ’’آخر ‘‘ ہی کا محل ہے ، علاوہ ازیں ’’ دیکھے گا ‘‘ میں خود بہ خود ’’آکر‘‘ کے معنی بھی موجود ہیں ،اس لئے بھی اس کی ضرورت نہ تھی ، غرض اس طرح ایک ہی لفظ کی تبدیلی اور اصلاح سے بیانیہ کیفیت میں زبردست اضافہ ہوا ہے ،جس سے شعریت بڑھ گئی ۔
اصل شعر ؂
اپنا سمجھ کے دیکھ لیں اک بار کم سے کم
کیجئے عطا ہمیں دیدار کم سے کم

(اشرف ؔ حیدرآبادی)
اصلاح ؂
جلوہ دکھائیے ہمیں اک بار کم سے کم
رہنے نہ پائے حسرتِ دیدار کم سے کم

توجیہہ :۔ بنیادی طور پر اس شعر میں دوعیب ہیں ، ایک ناموزونیت (جو دوسرے مصرع میں ہے) اور دوسرا شتر گربۂ صیغی ، بایں طور کہ مصرعِ اول میں ’’دیکھ لیں‘‘ ہے اور مصرعِ ثانی میں ’’ کیجئے ‘‘ ہے ،اس طرح صیغوں کے اختلاف کی وجہہ سے شتر گربۂ صیغی کا عیب درآیا تھا ، حضرت عدیلؔ نے اصلاح کرکے ان دو عیوب سے نجات دے دی ۔
اصل شعر ؂
جاویدؔ کی اچھائیاں بھی عیب ہیں
اب مرا سونا بھی پیتل ہوگیا

(محمد حسین جاویدؔ )
اصلاح ؂
خوبیاں بھی ہوگئیں جاویدؔ عیب
اب مرا سونا بھی پیتل ہوگیا

توجیہہ :۔ مصرعِ اول میں لفظ جاوید ؔ کو مکمل طور پر نہیں باندھا گیا تھا ،اس لئے اس میں ناموزونیت درآئی تھی ، حضرت عدیلؔ نے الفاظ کی تقدیم و تاخیر سے کام لیتے ہوئے مصرعِ اول کو بے عیب اور چست کردیا ،جس سے اس کی روانی میں بہت روانی آگئی ۔
اصل شعر ؂
تھی خطا گندم کی بھی یہ تو کوئی کہتا نہیں
حضرتِ آدم تو شاہدؔ مفت میں بدنام ہے

(شاہدؔ عدیلی)
اصلاح ؂
تھی خطا گندم کی خود یہ تو کوئی کہتا نہیں
کھانے والا اس کو شاہدؔ مفت میں بدنام ہے

توجیہہ :۔ مصرعِ اول میں بھی قدرے اصلاح کی گئی ہے مگر بنیادی طور پر مصرعِ ثانی اصل میں اصلاح کا محور ہے ، اس لئے کہ لفظ ’’حضرت ‘‘ (جو عموماً تعظیم کے لئے مستعمل ہوتا ہے )کا تقاضا یہ ہے کہ ردیف ’’ہے‘‘ (واحد) نہیں بلکہ ’’ہیں‘‘ (بصیغۂ جمع) لانا چاہئیے ،جو یہاں متعذر اور غیر متصور ہے ، اس لئے حضرت کے لفظ کو ’’کھانے والا ‘‘ کہہ کر اس عیب کو دور کردیا ،جس سے زبان و بیان کی درستی ہوگئی اور ردیف کی کامیاب رعایت بھی ہوگئی ۔
اصل شعر ؂
جلا کے میرے گھروندے کو یوں نہ اتراؤ
کہ میرے گھر سے لگا دیکھنا ترا گھر ہے

(رؤف رحیمؔ )
اصلاح ؂
لگانے والے مرے گھر کو آگ سوچ اتنا
لگا ہوا مرے گھر سے ہی خود ترا گھر ہے

توجیہہ :۔ یہ ہے کہ مصرعِ اول میں ’’نہ اتراؤ‘‘ جمع کا صیغہ ہے اور مصرعِ ثانی میں’’ترا‘‘ کا صیغہ واحد ہے جو اس کی ضد ہے ، بیک وقت ایک مفہوم کے لئے صیغوں کی تبدیلی سے شتر گربگی کا عیب پیدا ہوتا ہے اور یہاں یہ عیب ہے ،اس لئے استاد نظیر علی عدیلؔ نے صیغوں کی درستی کردی ،جس سے یہ عیب نہ رہا اور شعر کا مفہوم بھی الفاظ کے اعتبار سے درست ہوگیا ۔
مذکورہ بالا شعری اصلاحات سے سید نظیر علی عدیلؔ کی استادانہ و فنکارانہ صلاحیتوں کا اندازہ اچھی طرح ہوجاتا ہے ، انہوں نے شاگردوں کے کلام پر جس اخلاص سے اصلاح دی ہے وہ یقیناً قابل رشک اور لائق قدر ہے ،اس لئے کہ مختلف الخیال اور الگ الگ مزاج و منہاج کے حامل متعدد بلکہ ۱۴۰؍ شعراء کے کلام پر اصلاح دینا یقیناً ایک عظیم کارنامہ ہے ،جس سے عہدابر آ ہونے کے لئے غیر معمولی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں اور حق یہ ہے کہ اصلاحِ سخن کا حق وہی ادا کرسکتا ہے جو فن عروض و بلاغت ، زحافات کے استعمال ، بحور و اوزان ، زبان و بیان ، معانی ، بدیع ، بیان ، محاورہ بندی و دیگر معائب و محاسن اور عروضی آزادیوں وغیرہ کے ساتھ ساتھ تاریخ ادب سے مکمل واقف اور معتبر و مستند مشاہیر کے ادبی کارناموں سے بھی آگاہ ہو ، ان باتوں کی روشنی میں جب ہم استاذِ سخن سید نظیر علی عدیلؔ کی ادبی ، شعری اور اصلاحِ سخن پر مشتمل خدمات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات بے غبار ہوجاتی ہے کہ قدرت نے انہیں ان تمام خوبیوں سے متصف فرمایا تھا جو ایک اعلیٰ درجے کے استادِ فن اور مصلح سخن کے لئے ناگزیر ہوتی ہیں ، علاوہ ازیں انہوں نے متعدد شعراء کرام کے مجموعہ ہائے کلام کی مکمل طور پر اصلاح کی خدمت بھی انجام دی ہے ،جو یقیناً وقت طلب اور نہایت دماغ سوزی و جگر کاوی کا کام ہے ۔
عصر حاضر میں خصوصیت کے ساتھ ادبی دنیا کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ شاگرد اور مبتدی شاعر ایک عرصۂ دراز تک اپنے استاذ سے فن ، عروض اور زبان و بیان کی نزاکتیں سیکھتا ہے اور اپنے کلام پر اصلاح لیتا ہے مگر جب شہرت کی بلندیوں کو چھولیتا ہے تو پھر اپنے استاد کو یکسر فراموش کردیتا ہے بلکہ استاد کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتا ، اس لئے آج کل شائع ہونے والے بیشتر شعری مجموعوں میں شعراء کے اساتذہ کا نام نہیں ملتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ استاد کے حقوق سے بے پرواہی یا سیاست اور مصلحت کا شکار ہونے کی بناء پر ہوتا ہے جو ادبی دیانتداری کے تقاضے کے خلاف ہے ، کاش آج ہر شاعر و سخنور اپنے استاد کی اصلاحوں کو محفوظ اور جمع کردیتا تو یہ ایک بہت بڑی ادبی خدمت ہوتی ، جس سے نوواردانِ بساط سخن کو آگاہی اور روشنی ملتی اور افادہ و استفادہ کا سلسلہ جاری رہتا ، آج شعراء کی تعداد ان گنت ہے جبکہ اصلاح سخن سے متعلق کتابیں انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں ، جن میں علامہ سیمابؔ اکبر آبادی کی ’’دستور الاصلاح‘‘ اور علامہ ابراؔ حسنی کی میری اصلاحیں (دو حصے) اور اصلاح الاصلاح اور پروفیسر عنوان ؔ چشتی کی ’’ اصلاح نامہ‘‘ (مع ضمیمہ) وغیرہ کتابیں نسبتاً مشہور ہیں ۔
آج فن اصلاحِ سخن کے موضوع پر بھی خصوصیت کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے ، استاذِ سخن سید نظیر علی عدیلؔ کے دور میں اور اس سے پہلے بھی حیدرآباد دکن میں متعدد اساتذۂ سخن گزرے ہیں ، کاش ان کی بھی اصلاحاتِ شعری کتابی شکل میں محفوظ ہوجاتیں تو یہ ادب پر اور بالخصوص دکنی ادب پر بڑا احسان ہوتا ۔

محمد عظمت اللہ خان
محمد عظمت اللہ خان

Article:Nazeer Ali Adeel
Written by Azmatullah Khan
(Cell No. +919705853523)
******

Share

One thought on “فن اصلاحِ سخن اور سید نظیرعلی عدیلؔ”

Comments are closed.

Share
Share