سفرنامہ ۔ حیدرآباد میں تین دن :- عمران عاکف خان

Share
عمران عاکف خان

سفرنامہ
حیدرآباد میں تین دن

عمران عاکف خان
جواہر لال نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی

موبائل:09911657591

میرا شہر لوگاں سوں معمور کر
رکھیا جوں تو دریا میں من یا سمیع
(قلی قطب شاہ)
کہتے ہیں ،سفر سقر ہے یا انگلش والا ’سفر ‘ مگر ایسا کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ سفر وسیلۂ ظفر بھی ہے۔یہ اس کا افادی اور مثبت پہلو ہے۔ چنانچہ جو افراد مختصرمدتی یا طویل مدتی ہمہ طرح کا سفر کرتے ہیں ان سے پوچھیے کہ انھوں نے اپنے دامن کتنی نعمتوں سے بھر لیے۔انھوں نے اتنی سی مدت میں کیا کیا دیکھ لیا اور انھیں کیا کیا مل گیا۔

انھوں نے اسی عمر میں اپنے سے کئی گنا بڑی دنیا دیکھ لی۔ایک تہذیب دیکھ لی۔ایک تمدن سے وہ آشنا ہوگئے۔دانشوروں،مفکروں،عالموں،فاضلوں اور دنیا کا نظام چلانے والوں سے ملاقات ،ہم کلامی،تبادلۂ خیالات وغیرہ سفر کے ہی مرہون منت ہوتے ہیں۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم سفر کے ذریعے ہی تعلقات استوار کرتے ہیں یا انھیں مضبوط کرتے ہیں۔اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ ’’اس دنیا میں سفر سے بہتر کچھ نہیں ۔جو سفر کرتے ہیں وہ سب اچھائیوں کو پاتے ہیں،جو سفر نہیں کرتے ہیں وہ بس سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔’’ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اداراک اس مرحلے سے گزر کر ہی ہوتا ہے۔
یہ میرا حیدرآباد کا سفر ہے اس شہر کا سفر جسے ہندوستان کا دوسرا صدر مقام ہونے کا شرف حاصل ہے۔
اس شہر کا سفر جسے چھے سو سال قبل گولکنڈہ کے عظیم القدر بادشاہ قلی قطب شاہ نے بسایا تھا ۔واضح رہے کہ حیدر آباد، حیدر کرارحضر ت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بسایا گیا ہے نہ کہ مسماۃ ’’بھاگ متی /حیدر محل ‘‘کے نام پر جیسا کہ پرو فیسر ڈاکٹر محی الدین قادری زور ؔ نے کہا ہے۔اس کی تصدیق ماہر دکنیات پرو فیسر ہارون خاں شیروانی اور ڈاکٹر سیدہ جعفر کے اس مشترکہ بیان سے ہوتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں:
’’شاہان گولکنڈہ چوں کہ شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے تھے اس لیے حضرت حیدر کرار رضی اللہ عنہ کے نام پر انھوں نے حیدرآباد بسایا نہ کسی بھاگ متی کے نام پر کیوں کہ قلی قطب شاہ کی بارہ پیاریوں میں بھاگ متی نام کی کوئی خاتون نہیں تھیں ۔ ۔ ۔ چنانچہ رہی بات اس عام مغالطے کی ،تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے سیکولرزم کے نام پر یہ غلط فہمی پھیلائی ہے۔‘‘ (مضمون: مسعود حسین خاں بہ حیثیت ماہر دکنیات۔از پروفیسر محمد علی اثر۔جہان اردو)
پولیس ایکشن 1948کے بعد حیدرآباد کی نشاۃ ثانیہ ہوئی۔ریاست حیدرآباد بزور طاقت انڈین یونین میں شامل کی گئی اور اس کے تین ٹکڑے کر کے شہر حیدرآباد کو اس کا صدر مقام بنایا گیا۔ان دنوں ریاست حیدرآباد تقسیم در تقسیم کی شکارہے۔تلنگانہ اور آندھرا ۔ حیدرآباد کرناٹک اور حیدرآباد مہاراشٹرا(مرٹھواڑہ)۔ اس کے جغرافیائی حصے ہیں۔
حیدر آباد انڈین یونین میں شامل تو ہوا مگر اس کے لیے اس شہر فرخندہ حال کو آگ اور خون کے دریا سے ہوکر نکلنا پڑا۔ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مسلمان کو یہاں ہندوستانی پولیس کی گولیوں،ٹینکوں،دبابوں اور سنگینیوں کا سامنا کرنا پڑا۔مگر حیدرآباد حسب دستور/روایت سنبھلا اور اس کی نئی تعمیر میں شہر کی دو جماعتوں نے نمایاں اور تاریخ ساز کردار ادا کیا۔(1) کل ہند مجلس تعمیر ملت(2)کل ہندمجلس اتحاد المسلمین ۔اول الذکر جماعت نے مسلمانان حیدرآباد کو دینی ،اخلاقی اورتہذیبی اعتبار سے مضبوط کیا یعنی دینی،تعمیری، فکری اور اصلاحی بنیادوں پر باشندگان حیدرآباد و ریاست کو مضبوط کیا اور ثانی الذکر جماعت نے سیاسی اور انتظامی طور پر ریاست کو مضبوط کیا اور انھیں دنیا بھر میں ایک مستحکم اور قوی شناخت دلائی ۔ ۔ ۔ آج بھی یہ دونوں جماعتیں فعال ہیں اور مسلسل اپنے مشن پر گامزن ہیں ۔مسلسل ترقی پذیر ہیں اور شہرو ریاست کے عوام بالخصوص مسلمانوں میں مقبول ہیں۔
قلی قطب شاہ کی اپنے شہر کو دی جانے والی وہ دعا اللہ تعالیٰ نے قبول کی اورآج وہ حقیقت بن کر ہمارے سامنے موجود ہے۔اس کا شہر ’لوگاں سوں‘ایسے ہی ’معمور‘ہے جیسے ’دریا‘میں’سمیع‘نے’من‘رکھے ہیں۔
ذکراسی شہر حیدرآبادِ فرخندہ حال کے سفر کا ہے۔نیز وہاں گزرنے والے تین دنوں کا۔میری کوشش ہوگی کہ ایک ایک لمحے اور وہاں بیتے ایک ایک پل کا قصہ لکھوں ۔ ۔ ۔

27 نومبر 2017 کی ایک دوپہر میں میرا ’انفنکس نوٹ۔15‘موبائل وائبریٹ ہوا ۔نمبر UNKNOWN تھا ۔میں نے کال ریسیو کی۔دوسری جانب سے سلام کیا گیا،میں نے جواب دیا۔کالر نے نام لے کر تصدیق چاہی ،میں نے اپنے نام پر ہی مہر ثبت کی ۔اس کے بعد انھوں نے جو تفاصیل بتائیں اور باتیں کیں ان کا حاصل یہ تھاکہ اسی شام میں نے حیدرآباد روانگی کی تیاریاں کرلیں ۔روانگی اور واپسی کے ٹکٹس بک کیے۔پھر مقرر ہ تاریخ /دن(5؍دسمبر2017) کو حضرت نظام الدین ریلوے اسٹیشن سے حیدرآباد کے لیے روانہ ہوگیا۔ٹرین نے متعینہ وقت کے بجائے کچھ تاخیر سے عالمی شہرت یافتہ سکندرآباد ریلوے اسٹیشن پر چھوڑا۔اس وقت صبح کے 4:00 بج رہے تھے۔ اسٹیشن پر اترکر لوکل ٹرین کا ٹکٹ لیا اور پلیٹ فارم نمبر دس سے لنگم پلّی ،حیدرآباد پہنچ گیا۔رات کا آخری پہر سائیں سائیں کررہا تھا۔کبھی کبھی سناٹا پھیل جاتا جسے بھاری بھرکم ٹرک یا قریب ہی واقع راجیو گاندھی انٹر نیشنل ائیر پورٹ پر اترنے والے جہاز ارتعاش پیدا کر دیتے ۔
میں اسٹیشن سے باہر آیا توآٹو والوں نے گھیر لیا:’کہاں جانا ہے…کہاں جانا ہے؟‘
’گچی باؤلی!‘
’کہاں …کہاں..!!؟‘
’اردو یونیورسٹی!‘میں نے کہا۔
’تین سو لگیں گے…!‘ایک بولا۔
مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ دوسرے بھی ایسے ہی بولیں گے۔لہٰذامیں چپ چاپ اسٹیشن کے باہر آیا اور سڑک پر کھڑے ایک آٹو والے سے بات کی۔اس نے 120 کہا جو مجھے اسٹیشن میں موجود بھیڑیوں سے بہت حد تک مناسب لگا۔میں نے سامان اندر رکھا اور آٹو سے چل پڑا۔ہوا میں مناسب خنکی تھی اور صبح کے وقت کی نکھری خوشبو مشام جاں کو معطر کررہی تھی۔
اللہ اللہ !دہلی میں کیسا موسم ہو کہ دن میں بھی سورج نظر نہ آئے ،شدید و تکلیف دہ ٹھنڈ الگ اور یہاں، سپیدۂ صبح کے طلوع کے وقت بھی راحت بخش ہوا اورخنکی۔راستے میں آٹو والا روایتی/رسمی سوال ۔جواب کررہا تھا۔اسی اثنا میں حیدرآباد سینٹر ل یونیورسٹی کا صدر دروازہ گزرا ۔HCU کا مین گیٹ کیا گزرا کہ وہ سب واقعات ایک ایک کرکے ذہن پر گرنے لگے جو ایک ڈیڑھ سال قبل یہاں واقع ہوئے تھے۔روہت ویمولا کا ایڈمنسٹریٹیو مرڈر(چاہے کوئی کچھ مانے۔ہم طلبا تو یہی کہیں گے!)اس کے بعدیہاں کے ہاسٹلس میں موجود طلبا کو دی جانے والی مختلف اذیتیں ،جواب میں طلبا کا احتجاج، رد عمل میں انتظامیہ کی جانب سے ان کی معطلی اور مختلف سزائیں۔کیا کیا نہ ہوا وہاں۔پھر آسمانوں سے بلند کرنے والے یہ ہنگامی سر،یہ احتجاجی شعلے بارش کی بوچھاروں کی مانند دبتے چلے گئے۔اب تک تو وہ فائل منوں اور ٹنوں فائلوں کے نیچے دب گئی ہوگی۔بہت کم لوگ ہوں گے جنھیں یہ واقعات اصل صورت میں یاد ہوں گے۔
گچی باؤلی،ٹیلی کام نگر کا اَوَر برج شروع ہوگیا تھا۔ آس پاس آسمانوں سے باتیں کرتیں عمارتیں رعنائی و صفائی میں ایک دوسرے سے بازی لے جارہی تھیں ۔ان کے ہر فلور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے آفس اور سوشل میڈیا کے چینلس ہاؤسز تھے۔ حیدرآباد کی گلوبل ویویو والی ہائی ٹیک سٹی یہاں سے نظر آرہی تھی ۔میں نے آٹو والے سے کہا: ’ بھیا فرسٹ کٹ سے یوٹرن لے لیجیے گا!۔‘
’اوکے!‘اس نے مختصرکہا ۔
یوٹرن لیا گیا اور پھر کچھ دور چلنے کے بعد آٹو لیفٹ سائڈ موڑدیا گیا ۔جہاں لوہے کے کمان پر لکھا تھا’’مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ،حیدرآباد‘‘ قریب آدھے کلومیٹر چلنے کے بعد یونیورسٹی کا باب العلم نظر آیا۔ سیکوریٹی گارڈوں نے رسمی انکوائری کی۔ جب انھیں بتادیا گیا کہ’’ یونیورسٹی گیسٹ ہاؤس ‘‘ جاناہے تو اسٹوپ بریکٹ ایک طرف سرکاکر آٹو کے لیے جگہ دیدی گئی۔آٹو یونیورسٹی میں داخل ہوا اور ایک دم سے یہاں کی ہوائیں استقبال کے لیے دست بستہ ہوگئیں ، جیسے وہ مہمانوں کا انتظار ہی کررہی ہوں۔سپیدۂ صبح اب تک نمودار ہوچکا تھا اور ہلکا ہلکا اجالا پھیل رہا تھا ۔ایڈمن اور دیگر تعلیمی و ثقافتی عمارتوں کے پاس سے گزرتا ہوا آٹو یونیورسٹی گیسٹ ہاؤس پہنچا۔کرایہ حاصل کر کے ’آٹو انکل ‘تو واپسی کے لیے مڑے اور میں گیسٹ ہاؤس ریسپشن کی طرف ۔
ریسپشنسٹ سورہا تھا۔گارڈ نے اسے جگایا۔نہایت خندہ پیشانی سے ملا وہ اور مجھے ضروری کارروائی کے بعد ’D-22 سوٹ ‘سکنڈ فلور کی چابی دیدی۔میں سامان کھینچتا ہوا ’سوٹ‘ پہنچا اور سنہری رنگ کا تالہ کھول کر سب سے پہلے بدن جکڑدینے والے کپڑوں سے آزاد ہوا ۔
اب سونے کا وقت کہا ں تھا،صبح بہت صاف ہوچکی تھی اور افق مشرق میں سنہرے لہریے گہرے ہو گئے تھے ،جیسے وقت سے پہلے سورج کو نکال دیں گے۔ مگر وہ اپنے ہی وقت پر نکلا۔میں فریش ہوکر باہر نکل آیا اور اپنے سینئر ڈاکٹر احمد علی جوہر کے ساتھ اردو یونیورسٹی کیمپس کی سیر کرنے لگا۔اس دوران جے این یو کی ہلچل،جے این یو کی باتیں،موجودہ سرگرمیوں کا روداد،علم کے تذکرے فکر و نظر کے مباحثے۔اس کے بعد ہم دونوں واپس گیسٹ ہاؤس پہنچے ۔اب تک ناشتے کا وقت ہوچکا تھا اور ڈائننگ ہال مہمانوں کا منتظر تھا۔میں جوہر صاحب کے ساتھ پہنچا جہاں چند اور مہمان پہلے سے موجود تھے۔ان سے ملاقات اورتعارف ہوا ۔ان میں اورنگ آباد سے تشریف لائے ڈاکٹر عبد العزیز عرفانؔ ،الہ آبادسے تشریف لائے ڈاکٹر عبد المحئی۔ کلکتہ سے ڈاکٹر محمود ریاض اور ڈاکٹر افروز حیدر رضوی وغیرہ تھے۔وہ سب بہت اچھے انسان تھے اور اچھے اسکالر،تعلیم سے بہر ور اور علم و ادب سے شغف رکھنے والو ں کی قدر کر نے والے۔

7؍دسمبر 2017
انوگرل سیشن :-
ناشتہ ہوا اور چند ضروری امور کے بعد CSE کوچنگ اکیڈمی کے پرشکوہ آڈیٹوریم میں مولانا ابوالکلام آزاد چیئر (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی)کے زیر اہتمام’’مولا آزاد اور نظریہ تعمیر ملک (Vision of Maulana Azad and Nation Building) ‘‘ کے موضوع پر دو روزہ سیمینار کے افتتاحی اجلاس کاآغازترانۂ اردو یونیورسٹی اور نیشنل اینتھم کے ساتھ ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر شکیل احمد (پرووائس چانسلر) نے کی ۔ پروگرام کی نظامت پروفیسر چیئر ڈاکٹر ابو صالح شریف نے کی۔مہمان خصوصی اور مقررین کے طور پر پدم بھوشن پروفیسر کیرتی پاریکھ ،پدم شری ڈاکٹر این آر مادھو مینن۔مسٹر جی۔سدھیر آئی اے ایس(ریٹائرڈ) مسٹر اے۔کے۔ خان۔آئی پی ایس (ریٹائرڈ) اور پروفیسر امیتابھ کندو نے اسٹیج کو زینت بخشی۔ان سب مقررین اور مہمانان نے متعلقہ موضوعات اور عنوانات سے بصیرت افروز خطاب بھی کیا ۔ مولانا آزاد کی تعلیمی بصیرت،تعلیمی نظریات اور تعلیمی افکار پر سیر حاصل گفتگو کی جسے سامعین نے بے حد پسند کیا اور تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے ان کو خراج تحسین و تسلیم پیش کیا۔
پہلا سیشن:(ویژن اینڈ ایجو کیشن)
انوگرل سیشن 12:30بجے ختم ہوا اس کے بعد لنچ کے لیے بذریعہ بس ہم سب مہمان گیسٹ ہاؤس میس پہنچے ۔لنچ کیا اور پندرہ بیس منٹ بعد دوروزہ پروگرام کا پہلا سیشن شروع ہوا۔جس کی صدارت پروفیسر کیرتی پاریکھ نے کی۔اس سیشن میں تقریباً بارہ مقالہ نگاروں نے ’’مولانا آزاد اور نظریہ تعمیر ملک‘‘ تھیم تلے متعدد عناوین سے مقالے پیش کیے ۔
اس سیشن، بلکہ پورے سیمینار کی ایک اچھی بات یہ رہی کہ ہر مقالے کے بعد فوراًسوالات و جوابات کا سلسلہ بھی رکھا گیا۔مقالہ نگار جواب دیتا اور پھر اپنی جگہ لیتا۔اس کے بعد دوسرے مقالہ نگار کا نمبر آتا اور وہ بھی اسی ترتیب سے ہوکر گزرتا۔ایسا میں نے پہلی بار دیکھا جو بہت اچھا لگا اورحیرت انگیز بھی۔یہ سیشن پانچ بجے شام تک چلا اس کے بعد ٹی بریک اور پھر چھٹی۔
چھٹی کے بعد میں چند ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ کیمپس گھومنے لگا ۔اب تک ان سے اچھی خاصی جان پہچان ہوچکی تھی۔تھوڑی دیر بعد میں اور ڈاکٹر عبد المحئی صاحب ہی رہ گئے ۔ہم لوگ مین گیٹ سے ہوتے ہوئے باہر نکلے اور حیدرآبادی چائے ،سموسے کھانے کے لیے ایک کیفے میں چلے گئے ۔باتیں ،تذکرے کیا کیا نہیں تھا۔ہم دونوں ہی تھوڑے سے عرصے میں بہت کچھ کہنا،سننا ،جان لینا ،سمجھ لینا چاہتے تھے۔پتا نہیں کیوں۔اس سوال نے آج تک مجھے بے چین کررکھا ہے۔

8؍دسمبر2017:
دوسرا دن،دوسرا سیشن(ڈیولپمنٹ پریسپکٹیو)
اس سیشن کا آغاز پروفیسر امیتابھ کندو کی صدارت میں 9:30پر شروع ہوا ۔
اس سیشن میں بالخصوص ریسرچ اسکالرس نے مقالے پیش کیے ۔پوری ترتیب گزشتہ کل والی ہی تھی۔سامعین نے متعدد سوالات کیے اور مقالہ خوانوں نے جوابات دیے۔نماز جمعہ سے قبل یہ سیشن ختم ہوا۔بعد ازاںیونیورسٹی کے انڈور اسٹیڈیم میں نماز اداکی گئی ۔سنن و نوافل کے بعد بذریعہ بس لنچ کے لیے جانا ہوا ۔
نمازجمعہ اور لنچ کے بعد اسی سیشن کا دوسرا اجلاس شروع ہوا۔جس میں بقیہ مقالہ نگاروں نے اپنے مقالے پیش کیے ۔

پینل ڈسکیشن(ریلوینس آف مولانا آزاد ان کنٹمپریری انڈیا)
اس پینل کے شرکا میں جندل یونیورسٹی آف لا ،سونی پت کے ڈاکٹر محسن عالم بھٹ ،ڈاکٹر محسن رضا خان مقامی دانشوران ڈاکٹر گوتم پنگلے ،ڈاکٹر عبد السبحان کے نام نمایاں تھے۔اس پینل کی صدارت پروفیسر مولانا ابو الکلام آزاد چیئر ڈاکٹر ابو صالح شریف نے کی۔آخری سیشن ڈھائی گھنٹے چلنے کے بعد 4:30تک جاری رہا ۔ اس کے بعد تمام مقالہ نگاروں کو معززین کے ہاتھوں سرٹیفکیٹ تقسیم کیے گئے۔پانچ بجے ٹی بریک ہوا اس کے بعد خصوصی شکریے کے ساتھ نیشنل اینتھم کے بعد پروگرام ختم ہوا اور پھر ہم سب لوگ باہر آگئے۔شام کاسورج ابھی تک پچھلی پہاڑیوں سے جھانک رہا تھا جیسے آخری سلام کررہا ہو۔پھر وہ دھیرے دھیرے لامتناہی گہرائیوں میں اترتا چلا گیا۔

9؍دسمبر 2017:فری دن
یہ دن فری تھا جسے میں نے نہایت یاد گار اور خوشگوار انداز سے گزارا۔دن کے پہلے پہر میں ایڈیٹر ہفت روزہ’گواہ ‘ اور چیئرمین ’میڈیا پلس ایڈورٹائزمنٹ ‘ڈاکٹر فاضل پرویز صاحب کے آفس جامعہ نظامہ کمپلیکس ،گن فاؤنڈری اپوزٹ ایس بی آئی،عابڈس پہنچا ۔ جناب والا نے میرا پر تپاک استقبال کیا۔ آنجناب کے ساتھ پانچ گھنٹوں کی رفاقت ایک ناقابل فراموش رفاقت تھی ۔یہ ملاقات ،یہ رفاقت حیدرآباد اور دہلی کی صحافت ، حیدرآباد اور دہلی کے علمی حلقوں اور ان دونوں شہروں کے ادبی حال و احوال تبادلۂ خیالات پر مشتمل تھی ۔اسی دوران فاضل پرویز صاحب نے اپنے ہفت روزہ کے لیے میرا انٹرویو لیا۔یہیں بلیک ٹی کے کئی دورچلے اور میڈیا پلس آفس کی شاندار لابی میں لنچ کیا گیا جہاں سے آس پاس کی عالی شان عمارتیں ،کشادہ سڑکیں اور ان پر دوڑتی بھاگتی گاڑیاں،بسیں،بائیکس اور موٹریں دکھائی دے رہی تھیں چل رہی تھیں ۔ بہت دلکش نظارہ تھاوہ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ایک لمبی سی رنگ برنگی چادر پھیلی ہوئی ہو اورایک طرف سے چل کر دوسری طرف جارہی ہو ۔جانے کہاں ۔
شام گھرتی آرہی تھی اور سورج انتہائی بے قراری اور بے تابی سے جانے کہاں بھاگا جا رہا تھا۔ ،پھر میں نے ضروری سامان سمیٹا اور ڈاکٹر فاضل پرویز صاحب سے رخصت لے کر واپس یونیورسٹی کے لیے روانہ ہوگیا۔براہ مہدی پٹنم،میں گچی باؤلی پہنچا اور وہاں سے پیدل یونیورسٹی کیمپس اور پھر گیسٹ ہاؤس ۔ یہاں ڈاکٹر جانثار معین اور ڈاکٹر احمد علی جوہر صاحب راستے میں ملے پھر ہم تینوں ایک ساتھ گیسٹ ہاؤس پہنچے اور دیر تک علمی ادبی باتیں کرتے رہے۔ابھی باتوں کا سلسلہ جارہی تھا کہ مایاناز محقق و ناقد اور سابق صدر شعبۂ اردو موہن لال سکھاڈیایونیورسٹی(سینٹرل)ادے پور، پرو فیسر فاروق بخشی صاحب کا فون آیا (میں ان سے دن میں ملنے کا وقت لے چکا تھا) میں نے انھیں گیسٹ ہاؤس کا ایڈریس دیا ۔آنجناب نے اپنے ایک ہونہار شاگرد کو بھیجا جس کے ساتھ میں یونیورسٹی کے قریب واقع ان کا گھر پہنچا۔یہ آں جناب پروفیسر سے میری پہلی ملاقات تھی ۔کیا خوب انسان ہیں وہ اورخلوص سے بھرپور استاذ۔ان کی باتوں سے دانشوری اور نئی نسل کے لیے فکر مندی ہویدا تھی ۔نہایت تپاک سے ملے اور پر تکلف ماحضر پیش کیا۔اس سے زیادہ علمی ،ادبی،ثقافتی اور حوصلہ افزا جو باتیں انھوں نے کیں، وہ انمول تھیں ۔میں انھیں کبھی نہیں بھول سکتا ۔واقعی وہ ایک اچھے استاذ اور مدبر ہیں جو ان کو زیبا بھی ہے اور ان کے شایاں بھی ۔اللہ پاک انھیں سلامت رکھیں۔آمین!
اب تک بہت رات ہوچکی تھی،سر سے واپسی کی اجازت چاہی جو بہت ساری دعاؤں ، محبتوں اور خندہ پیشانی کے ساتھ ملی ۔میں واپس گیسٹ ہاؤس سوٹ پہنچا۔ آنکھوں میں نیند کسی ناقابل برداشت بوجھ کی مانند گرنے لگی تھی جس کا نتیجہ یہی نکلا کہ میں بستر پر دراز تھا۔
10؍تاریخ۔ دم واپسیں:
آج اتوار تھا ۔یعنی مکمل چھٹی کا دن۔جس دن سڑکوں پر بے تحاشا بھیڑہوتی ہے اور بڑی بڑی دکانیں بند۔آج ہی میری واپسی بھی تھی جس کے لیے میں نے سامان پیک کیا اور ساڑھے دس بجے گیسٹ ہاؤس چھوڑ دیا۔ مجھے یادتھا کہ اتوار کے دن تاریخی چار مینار کے دامن میں مغربی جانب واقع لاڈ بازار میں اسی دن پرانی کتابوں کا بازار لگتا ہے۔جہاں بے شمار قیمتی اور نایاب کتابیں سستے داموں میں ملتی ہیں۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہاں وہ کتابیں مل جاتی ہیں جواب ناپید ہوچکی ہیں ،مگر ہیں بڑے کام کی۔ متعددبے مثال کتابیں اور دستاویز وہاں موجود ہوتی ہیں۔میں بھی اسی شوق میں لاڈ بازار پہنچا مگر یہ دیکھ کر انتہا ئی افسوس ہوا کہ دور دور تک کوئی دکان نہیں تھی۔میں سر پیٹ کر رہ گیا ۔اب ہو بھی کیا سکتا تھا ۔میں بجھے اور افسردہ دل وہاں سے آگے بڑھا اور ’نمرہ بیکر ی اینڈ کیفے ‘شاپ سے حیدرآباد کے مشہور ’عثمانیہ بسکٹ‘خریدے ۔پھر سڑک پر سامان کھینچتا ہوا شاہ علی بنڈاچوک پہنچا اور وہاں سے سکندر آباد ریلوے اسٹیشن کے لیے ٹیکسی آرڈر کی ۔ایک گھنٹے کے دورانیے میں ٹیکسی نے اسٹیشن پہنچایا۔اس وقت 1:00بج رہا تھا اور حضرت نظام الدین ۔سکندر آباد دورانتو ایکسپریس ‘ بس چلنے کو تیار تھی ۔میں اپنے کوچ اور سیٹB-21 تک پہنچا اور باقی سفر نہایت آرام سے طے ہوا ۔22گھنٹوں کی مسافت کے بعد میں اب دہلی میں ہوں۔یہاں کے آلودگی بھر ے دن رات ہیں اور میں ہوں۔
—–

Share
Share
Share