بچوں کے ادیب اسمٰعیل میرٹھی : – ڈاکٹر رضوانہ بیگم

Share
اسمعٰیل میرٹھی

بچوں کے ادیب اسمٰعیل میرٹھی

ڈاکٹر رضوانہ بیگم

کسی بچہ کی تربیت اور ذہنی نشو ونما کا پہلا مکتب آغوشِ مادر ہے۔ اس کے بعد وہ شفیق استاد کے سایہ تربیت میں پروان چڑھتا ہے اور بچے کی شخصیت کو نکھار نے اور بھر پور بنانے میں اہم رول ادا کر تے ہیں۔ ان دونوں بچوں کے لئے مفید اور دلچسپ کتابیں تحریر کرنے کے کام کے اولین مراکز لاہور اور میرٹھ تھے۔
میرٹھ کی سرزمین نثر وادب سے ہمیشہ سرسبز شاداب رہی ہے یہاں کی ذر خیز مٹی سے نثرو نظم کی فصل اگتی رہی ہے ۔ جن شعراء وادبا نے میرٹھ کو عالمی شہرت دلائی ان میں قلق میرٹھی، رنج میرٹھی، حفیظ میرٹھی، حامد اللہ افسر میرٹھی، اور اسمٰعیل میرٹھی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان لوگوں میں اسمٰعیل میرٹھی کو اولیت تونہیں فوقیت کا درجہ حاصل ہے۔ اور مولوی اسمٰعیل میرٹھی مجاہدوں کی فہرست میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔

مولوی اسمٰعیل میرٹھی کا سلسلہ نسب خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے ملتا ہے۔ ان کے آباو اجداد محمد ظہیر الدین بابر کے عہدہ ہندوستان وارد ہوئے تھے۔
شیخ محمد اسمٰعیل نام میرٹھ وطن ۱۸۴۴ ؁ سال ولادت ، عربی وفارسی کی تعلیم حاصل کر پائے ۔ گھریلو ذمہ داری کا بوجھ اٹھا نا پڑا سولہ برس کی عمر میں محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے وہ بہت محنتی انسان تھے۔ایک دن فارسی کے ہیڈ مولی مقرر ہوئے۔ ملازمت کے سلسلے میں سہارنپور اور میرٹھ میں قیام رہا۔ کچھ عرصہ بعد آگرہ کے سنٹرل اسکول سے متعلق وابسطہ ہوئے ۔ ۱۸۹۱ ؁ میں پنشن لے کر وطن لوٹ آئے باقی زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کر تے ہوئے ۱۹۱۷ ؁ میں وفات پائی۔
ان کے تصنیفی کارناموں کا جائیزہ لیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ وہ بیک وقت شاعر بھی ہیں اور نثر نگار بھی انہوں نے اسکول کے بچوں کے لئے درسی کتابیں لکھیں جو بہت مقبول ہوئیں۔
حکیم محمد سعید لکھتے ہیں:
’’ مولانا کی خوبی ہے کہ انہوں نے نو نہالوں کو پوری اہمیت دی اور ان کا خاص طور پر خیال یہ تھا کہ بچے صرف علم ہی نہ سیکھیں بلکہ وہ اپنی اخلاقی اور تہذیبی روایات سے باخبر رہیں‘‘۔
(۱) پیش لفظ بچوں کے اسمٰعیل میرٹھی از نعیم زبیری (ص ۴)
ان کی کتابوں کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ انہیں بچوں کی نفسیات سے گہری واقفیت ہے اس کے علاوہ وہ مدرس کا پیشہ اختیار کر نے کے سبب تعلیمی مسائل پر غور و فکر کا موقع ملا۔
مولانا اسمٰعیل میرٹھی نے ادب کی مختلف اصناف میں جو خدمات انجام دیں ہیں وہ ان کی شخصیت کو تاریخ ساز بناتی ہیں۔ وہ نظم جدید کے ارتقاء میں ان کا خصہ اور ادب اطفال میں انکا کار نامہ ہیں۔
پروفیسر احتشام حسین رقم طراز ہیں:
’’ تعلیمی نقطۂ نظر سے با خدا بطہ معیاری کو شش محمد اسما عیل کا حصے تھی۔ سعدی ہند اور بچوں کے اسماعیل دونوں لقب ان کے لئے مناسب تھے‘‘۔(2) ارفو کی کہانی مئی 1964 ، ناشر سید انصار حسین لکھنؤ (ص 43)
اردوشاعری پر ان کا بڑا احسان ہے۔ انہوں نے پہلی بار چھوٹی چھوٹی انگریزی نظموں کے ترجمے کئے۔اور اس کا میابی کے ساتھ کہے کہ ان کا حسن بر قرار رہا بے قافیہ نظمیں لکھ کر انہو ں نے اردو شاعری میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔یہ نظمیں ایسی دلکشی اور اتنی مترنم ہیں کہ قافیے کی کمی کا احساس بھی نہیں ہو تا۔ یہ نظمیں بچوں کے لئے لکھی گئی ہیں۔
ڈاکٹر امیر اللہ خاں شاہین اپنے مضمون ’’میرٹھ میں اردو شاری کا ارتقاء میں کچھ اس طرح گو یا ہوئے:
’’کین حلقہ میرٹھ نے کچھ اخلاقی نظموں کو چن کر ایک نصابی کتاب بنائی تھی اور ان نظموں کا قلق میرٹھی نے ترجمہ کیا تھا ۔ مولانا اسماعیل نے اس خوبصورت ترجمے کو دیکھا تو اس کا بڑا اثر ہوا اور اس کے بعد سے ہی ان کی شاعری نے ایک نیا موڑ لیا۔ (3) تخلیق وتنقید از ڈاکٹر امیر اللہ خاں شاہین۔
نثر ہو یا نظم بچوں کے لئے وہ جو کچھ لکھتے تھے وہ سبق آموز ہو تا ہے۔ نصیحت کی بات میں دلکشی بھی ہو یہ بہت مشکل کام ہے لیکن مولوی اسماعیل میرٹھی نے اس کام کو نہایت کامیابی کے ساتھ انجام دیا ہے۔
مولانا اسماعیل میرٹھی کی نظموں کا اولین مجموعہ 1885 ء میں ’’ریذہ جواہر‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعہ میں چھ نظمیں ایسی شامل ہیں جو انگریزی نظموں کا ترجمہ ہیں۔ اور وہ اس طرح سے ہیں۔
(1) کیڑا 1867 ۔ (2) ایک قانع مفلس 1867۔ (3) موت کی گھڑی 1867۔ ( 4) قادر ولیم 1867۔ (5) حب وطن 1867۔ (6) انسان کی خام خیالی 1868۔
(1)کیڑا: پندرہ اشعار پر مشتمل یہ نظم مولانا اسماعیل میرٹھی کی تخیل پرواری اور فن تر جمہ نگاری کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ اس نظم میں اخلاقی درس بھی دیا گیا ہے۔ اس نظم میں مور کی خوبصورتی اور کیڑے کی زندگی کے حسن کا موازنہ کر کے انسان کو ہمدردی کا سبق دیا گیا ہے۔ نظم اس خوبی سے ترجمہ کی گئی ہے کہ ترجمہ کا گمان یا احساس بھی نہیں ہو تا ۔ بلکہ یہ ایک تخلیقی نظم ہونے کا احساس دلاتی ہے یہ اشعار پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی نظم نگاری کو ذرایہ کوئے:

تم اس کیڑے کو دیکھو تو لگاتار
تمہاری راہ میں ہے گرم رفتار
کس سوراخ میں دن کاٹتا ہے
سویرے اٹھ کے شبنم چاٹتا ہے
اسے قدرت نے ذرین پر دےئے ہیں
کچھ ایک سرخی وسبزی بھی لئے ہیں

(2) حب وطن: اس نظم میں ملک اسپین کی ایک طوطیٰ کا قصہ نظم کیا گیا ہے۔ اس طوطیٰ کو ایک شخص اسپین سے خرید کر اپنے ملک لے گیا۔ طوطیٰ کا اس ملک میں دل نہ لگا اور وہ اداس رہنے لگی ۔ ایک روز اسپین سے ایک مسافر آیا اور اس نے اسپینی زبان میں سلام کیا یہ سنتے ہی طوطی باغ باغ ہو گئی یہ نظم اٹھارہ اشعار پر مشتمل ہے۔لیکن چند اشعار پر ہی غور و فکر کر لیں تو اس کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

ایک اسپین کی جواں طوطی
جو کہ بچپن سے تھی اسیر ہوئی
سب قرارش کر دئے لاچار
تھا یہاں اور انگ لیل ونہار
اس دیارِ غریب میں آکر
سرد خطہ میں پرورش پاکر
اس اثناء میں ایک مرد غریب
آیا اسپین سے ملا کے قریب
اس نے طوطی سے جا سلام کیا
حرف اسپین میں سلام کیا

(3) قادر ولیم: زندگی اور موت پر ایک نوجوان اور ایک بزرگ وبرتر ہستی کے درمیان سوال و جواب کے پیدائے میں جو بیس اشعار پر مشتمل یہ نظم ایک عمدہ نظم کہی جاسکتی ہے۔ اس کے بھی کچھ اشعار دیکھئے۔

میں نے اپنے خدا کو رکھا یاد
نہ کیا اس سے نفس کو آزاد
وہی اب میرا دستگیر ہوا
لطف یزداں عطائے پیر ہوا

(4) انسان کی خام خیالی: اکیس (21) اشعار پر مشتمل اس نظم میں اولاً دوسری مخلوقات کا ذکر کر کے یہ دکھا یا گیا ہے کہ انسان کے علاوہ سبھی فطری طور پر زندگی گذارتے ہیں۔ اس نظم میں خوشی کی انتہا کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ انسان کی خام خیالی تو اسکا مرکزی خیال ہے چند اشعار پیش نظم ہیں۔

ائے دیدۂ وران آثار
دنیا میں ہیں کیسے کیسے جاندار
ایسا تو بتاؤ کوئی حیوان
جیسا نادان ہے یہ انسان
انسان ہے اگر چے سب پہ فائق
مشہور ہے اشرف الخلائق
اڑتا ہے مگر اس کا خاکا
پتلا ہے یہ سہو اور خطا کا

یہ سچائی ہے کہ میرٹھ کے دومایہ ناز فرزند قلق میرٹھی اور مولانا اسماعیل میرٹھی ہی اپنے لوگ تھے جنہوں نے الجھن پنجاب کے مشاعروں سے کافی قبل اہل ادب کو منظوم تراجم کے ذریعہ انگریزی نظم کو خوبیوں سے روشناس کرایا۔
سیفی پریمی لکھتے ہیں:
’’ مولانانے فکر ومشاہدہ اور جدید سائنسی نقطہ نظر کی مدد سے عمل قدرت کو ثبوت میں پیش کر کے انسانی کردار کی روشنی کے لئے ذہنی بالید گی کا سامان فراہم کیا ہے ۔ مثلاً نرم مزاجی طبیعت کی رسائی ماحول کے مطابقت صدمے سے ریزہ نہ ہونا تواضع کے ساتھ عمل کی کارفرمائی جغا سہنا مگر ہموار رہنا اس مصرعے میں نفسیات اشارہ بھی ہے یعنی متوازن دل و دماغ ہی انسان کو محبوب ومقبول بناتا ہے‘‘۔
اسماعیل میرٹھی حیات وخدمات از سیفی پریمی (164) ۔ 4
اسماعیل میرٹھی نے تو خیز ذہنوں کو زیادہ متاثر کیا ہے ان میں صحیح ذوق پیداکرنے میں ان کا کلام نے کافی مدد دی۔

ڈاکٹر عبدالوحید کی رائے ہے:
’’ مولانا اسماعیل نے جس اہنماک اور بچوں کے نفسیاتی مطالعہ کے بعد یہ کتابیں لکھیں ہیں۔ جو مولانا آزاد کو بھی نصیب نہ ہوسکا ہے۔ (جدید شعراء اردو عبدالوحید۔ لاہور ص46)۔
مولانا اسماعیل میرٹھی کے اکثر نظموں کا مقصد اصلاح قوم ہے اس غرض سے انہوں نے کہیں بے جان اشیا کا سہارا لیا۔ اور ان کے کردار وعمل کی آڑ میں قوم کو محنت بہتر اخلاق اور قوت عمل کی تلقین کی اور کبھی یہی سبق انہوں نے جانوروں کے اوصاف وعادات اور خرابیوں وبرائیوں کے ذریعہ دیا۔
جگر بریلوی کا یہ کہنا ہے کہ:
’’حقیقت یہ ہے کہ روانی میں مولانا کی بعض نظمیں مثنوی تخرالبیان سے بھی آگے نظر آتی ہیں۔ اور جس سہل ممتنع کو غالب سے خاص طور پر منسوب کیا جاتا ہے مولانا اس کے بادشاہ تھے‘‘۔
روہیل کھنڈ اخبار بریلی 5 ستمبر 1966ء
اسماعیل میرٹھی کی نظموں میں خیرو شر کی طاقتیں زور آزمائی کر تی دکھائی دیتی ہیں اور آخر کار حق و سچائی کی فتح کے ذریعہ وہ قوم کو صراط مستقیم کا پتہ دیتے ہیں۔
ان کی نظموں میں مقامی رنگ پایا جاتا ہے علامات، تشبیہات و اشعارات اور الفاظ بھی پوری طرح مقامی ہیں ہمالہ اور’’ ایک گنوار اور قوس قزح‘‘اس کی بہتر مثالیں ہیں۔ ان کی شاعری میں وہی رجحان پایا جاتا ہے۔ کیوں کہ انہوں نے زندگی کا بغور مشاہدہ کیا۔ اور اس کو اپنے احساس کا مر کز بنا یا یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں وہی زندگی کے حسین مناظر بھی ملتے ہیں اور تلخ تجربات بھی شام کو چر اغوں کی روشنی، صبح کو پرندوں کی آوازیں جونپڑے،کچے مکان، چراگاہوں میں چرتے مویشی مختلف جانوروں جانداروں وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔ جو ان کو اپنے معاصرین میں جدا اور ممتاز مقام عطا کر تا ہے۔ چند مثالیں دیکھئے۔

مئی کا آن پہونچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ریڑی تک پسینہ
زمین ہے یا کوئی جلتا تو اہے
کوئی مشعلہ ہے یا پچھوا ہواہے
نہ کچھ پوچھو غریبوں کے مکاں کی
زمین کا فرش ہے چھت آسماں کی
(گرمی کا موسم)

کسان اب چلا کھیت کو چھوڑ کر
کہ گھر میں کرے چین سے شب بسر
(رات)

ہر ادیا ہے کھیت کو ہلتی ہیں بالیاں
پودے بھی جھومتے ہیں لچکتی ہے ڈالیاں
(ہواچلی)

کون دیتا ہے مجھے یاں پھیلنے
کھالیا گھوڑے گدھے یا بیل نے
(ایک پودا اور گھاس)

ہوئی برباد کھیتی تھک گئے بیل
گئی گذری کسانوں کی کمائی
(خشک سالی)

مولانا محمد حسین آزاد حالی اور ان کے رفقاء نے یقیناًنظم جدید کی مقبولیت کے لئے شعوری کوشش کی۔ ا ور اس کو مقبول بھی بنایا۔ پروفیسر حامد قادری دبستان تاریخ اردو میں رقم طراز ہیں۔
’’ حالی وآزاد کے ہم عصرا ہویں صدی کے بہترین شاعر مولوی محمد اسماعیل میرٹھی ہیں جن کی نظمیں محاسن شاعری میں آزاد وحالی دونوں سے بہتر ہیں‘‘۔(داستان تاریخ اردو از حامد حسین قادری 388)
مولانانے اپنے گردو پیش کی رنگ برنگی دنیا سے بچوں کی دلچسپی یا ان کے لئے مختلف نظمیں صرف بچوں کے لئے کہی ہیں۔ یہ نظمیں نصابی کتابوں میں موجود ہیں۔ اور ان کی بہت سی نظمیں آموز باتیں تلاش کر ان کو خوبصورت نظموں میں ڈھال دیا کر تے تھے۔ گھروں میں کتے، بلی اور مرغیاں پالے جاتے ہیں۔ اور یہی جانور بچوں کے لئے خاص دلچسپی کے حامل ہو تے ہیں۔ مولانا نے بچوں کی اس نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ’’ اسلم کی بلی‘‘ اور ’’ہمارا کتا‘‘ ۔ ’’ٹیپو ‘‘ جیسے دلچسپ نظمیں کہیں۔

چھوٹی سے بلی کو میں کر تا ہوں پیار
صاف ستھری ہے بڑی کھلاڑ
گود میں لیتا ہوں تو کیا گرم ہے
گالے کی مانند رواں نرم ہے

(اسلم کی بلی)
صبرو محنت میں ہے سر فرازی
سست کچھو لے نے جیت لی بازی
نہیں قصہ یہ دل لگی کے لئے
بلکہ عبرت ہے آدمی کے لئے
(کچھوا اور خرگوش)

مولانا کی کلیات میں دو نظمیں’’ نظم بے قافیہ‘‘ کے عنوان کے تحت تحریر کی گئی ہیں ان کے عنوانات ’’ تاروں بھری رات‘‘ اور ’’چڑیا کے بچے‘‘ ہیں۔

’’تاروں بھری رات‘‘
اے چھوٹے چھوٹے تاروں
کہ چمک دمک رہے ہو
تمہیں دیکھ کر نہ سووے
مجھے کس طرح غیر
کہ تم اونچے آسماں پر
جو ہے کل جہاں لے اعلیٰ
ہوئے روشن اس روش سے
کہ کس نے جز دئے ہیں
(گھرا اور لعل گویا)

’’چڑ یا کے بچے‘‘
دوتین چھوٹے بچے چڑیا کے گھونسلے میں
چپ چاپ لگ رہی ہے سینے سے پانی ماں کے
چڑیا نے مامتا سے پھیلا کے دونوں بازو
اپنے پروں کے اندر بچوں کو ڈھک لیا ہے
اسطرح روز ملا کر ت ہے ماں حفاظت
سردی سے اور ہوا ہے رکھتی ہے گرم ان کو
اڑ تے پھرو گے پھر پھر ائے چھوٹے ،بچوں لیکن
کوا بری بلا ہے اس سے خدائے بچائے

مولانا اسماعیل کی درسی کتابوں نے ایک لمبے عرصے تک نہ صرف بچوں کو تعلیم دی بلکہ ان کی تربیت کر نے میں ایک کلیدی رول ادا کیا۔ جیسے نثری کاوشوں میں (1) لقذک اردو 1894۔ (2) اردو کو اس برائے نارمل اسکول 1897۔ (3) کمک اردو اور ادیب ۔ (4) سفینہ اردو ۔ (5) سواد اردو 1914 ۔ (6) قواعد اردو جلد اول و دوم ۔ (7) ترجمان فارسی 1898۔ وغیرہ شامل ہیں۔
’’مولوی صاحب صرف بچوں کے شاعر نہیں ان کا عاشقانہ اور صوفیانہ کلام بھی قابل توجہ ہے۔سادگی اور نفاست ان کے کلام کا خاص وصف ہے غزل میں انہوں نے غالب کا انداز اختیار کر نے کی کوشش کی ہے۔ اور غالب کی غزلوں پر غزلیں بھی کہی ہیں‘‘۔تاریخ ادب اردو ،پروفیسر نوالحسن نقوی (ص 154، 155)
اسمٰعیل میرٹھی نے غزل کے علاوہ قصیدہ مرثیہ، مثنوی، رباعی سبھی کچھ کہا ہے ۔ جو ان کے وہی کارواں وہی قافلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یادہو۔
وہی کارواں وہی قافلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی منزلیں وہی مرحلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی بغض ہے وہی کھوٹ ہے وہی ضرف ہے وہی چوٹ ہے
وہی سود ہے وہی فائدہ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

شاداب علیم نظم جدید کی تثلیث میں اس طرح رقم طراز ہیں:
اسمٰعیل میرٹھی نے اردو نصابی کتب کی تدوین وتربیت کے مقدس فریضے کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ انجام دیا اور اپنی نصابی کتابوں کے ذریعہ نئی ادبی اور سماجی آگہی کو نئی نسل کے شعوع کا جز بنا دیا۔ انہوں نے کئی نسلوں تک ادبی مذاق کی آبیاری کی اور نئی نسلوں کی تربیت کر نے اور ان کو ایک اچھا انسان بننے میں ان کی معاونت کی۔
(نظم جدید کی تثلیث از شاداب علیم ، ص 156)
لہٰذا میرٹھی ہی نہیں بلکہ پوری ادبی دنیا مولوی اسماعیل میرٹھی کی گداں قدر خدمات اور شاعری میں ان کے قابل اضافے کو بھی فراموش نہیں کر سکتی ان کی نثرو نظم سے ایک ایسا جہاں روشن ہے جس سے لوگ ہمیشہ فیضیاب ہو تے رہیں گی۔
——-
Dr. Rizwana Begum
Asst. Prof. of (Urdu)
College of Languages, Mallepally,
,Mozampura Jamia Masjid.
Hyderabad-500001

Share
Share
Share