نظام اسلامی اور نظام جمہوری :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

نظام اسلامی اور نظام جمہوری
ایک مطالعہ

مفتی کلیم رحمانی
پوسد (مہاراشٹر)
09850331536

نظامِ جمہوریت کی حقیقت و ابتداء
آج کے دور کے باطل نظام کا مشہور و معروف نام جمہوریت ہے،لیکن ابلیس لعین یعنی شیطان نے اس کو کچھ اس طرح خوبصو رت دُلہن کی طرح بناؤ سینگار کرکے پیش کیا ہے کہ بڑے بڑے عالم و زاہد اور تارِکُ الدّدنیا لوگ اس کے دامِ فریب میں آگئے،اور آج سے ایک سو سال پہلے ایک ایک مفکّر اسلام علّامہ اقبال ؒ نے اُمت کو جمہوریت کے فتنہ اور قباحت سے جو آگاہ کیا تھا اس کو بھی نظر انداز کر دیا ۔چنانچہ علامہّ علامہ اقبال ؒ نے جمہوریت کی حقیقت و قباحت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا۔
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے جس میں
بندوں کو گِنا کر تے ہیں ،تولہ نہیں کرتے
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دین،سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تَر
دیواستبدار جمہوری قبا میں پائے کوب
تو جسے سمجھتا ہے آزادی کی ہے نیلم پری
علامہ اقبال نے جمہوریت کا یہ تعارف آج سے ایک سو سال پہلے پیش کیا تھا جبکہ جمہوری نظام کے نقصانات اتنے ظاہر نہیں ہوئے تھے جو بعد میں ظاہر ہوئے اور آج تو ہر شخص اپنی آنکھوں سے اس نظام کی خرابیوں کو دیکھ رہا ہے لیکن ہر شخص اس کے جادو میں ایسا گرفتار ہے کہ اسی کی تعریف میں لگا ہوا ہے۔جمہوری نظام سے اسلئے بھی انسانوں کے مسائل حل نہیں ہو سکتے چونکہ اس کا آغاز ہی مُثبت طریقہ سے نہیں ہوا بلکہ اس کا آغاز ہی ایک ردّ عمل کے طور پر ہوا ،اور جو چیز کسی رد عمل کے طور پر وجود میں آتی ہے اس میں کوشش کے باوجود اعتدال اور انصاف باقی نہیں رکھا جا سکتا اور اگرکوئی ردّ عمل میں اعتدال اور انصاف کی کوشش کرے تو ردّ عمل کی تحریک ٹھنڈی پڑ جاتی ہے،اس لئے عام طور سے ردّ عمل کی تحریکات میں اعتدال اور انصاف کی بات کرنے والے افراد نہیں ہوتے اوراگر ہو ں بھی تو ان کی باتوں کی طرف کوئی توجہّ نہیں دیتا اور ردّ عمل کی تحریک میں ان کی
حیثیت مخالف گروہ کی ہو کر رہ جاتی ہے۔جمہوریت کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج سے دو ڈھائی سو سال پہلے جبری اور خاندنی بادشاہی نظام کی مخالفت میں ردّ عمل کے طور پر جمہوری نظام کا جنم ہوا تھا،چنانچہ آج بھی دنیا کے کئی ممالک میں جمہوری نظام کا جنم نہیں ہوا اور آج بھی وہ کئی ممالک میں بچپن کی عمر میں ہے اور بہت تھوڑے ممالک میں جوانی کی عمر کو پہنچا ہوا ہے۔لیکن اس حقیقت کا انکشاف بھی جمہوری نظام کے حاملین کے چہرے پر اس کی ناکامی کا زبردست طمانچہ ہے کہ جن جن ممالک میں آج جمہوری نظام جوانی کی عمر کو پہونچا ہوا ہے ،ان ممالک میں سیاسی افراتفری سیاسی ظلم و ستم سیاسی استحصال اُن ممالک سے کئی زیادہ ہے جن میں ابھی جمہوری نظام پیدا نہیں ہوا یا ابھی ابتدائی حالت میں ہے،کیا یہ صورت حال جمہوری نظام کے پورے طور سے ناکامی کی دلیل نہیں ہے؟پھر بھی اگر کوئی اس نظام پر اصرار کرے یا اسی کو بہترسمجھے تو کیا یہ سچائی کا انکار اور جھوٹ کا اقرار نہیں ہے؟جمہوری نظام کو عمل میں لانا دراصل ممکن بھی نہیں چنانچہ آج جن ممالک میں جمہوری نظام قائم ہے اس کو یہودی اِزم کہنا زیادہ صحیح ہے،کیونکہ جتنی بھی سیاسی پارٹیاں جمہوری طریقہ سے اقتدار تک پہونچ رہی ہے ان کی پُشت پردنیا کی یہودی لابی ہی ہے اور پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد صرف دیڑھ کروڑ ہے،جن کا تناسب دنیا کی پوری آبادی میں پاؤ فیصد سے بھی کم بنتا ہے ،اسلئے کہ اس وقت دنیا کی کُل آبادی چھ؍۶ ارب سے زیادہ ہورہی ہے ۔اگر پوری دنیا میں یہود کی تعداد چھ کروڑ ہوتی تب کہا جا سکتا تھا کہ دنیا میں یہود کی تعداد ایک فیصد کے قریب ہے ،لیکن یہود کی تعداد صرف دیڑھ کروڑ ہے،اس سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ دراصل جمہوریت کے نام پر دنیا میں چند مُٹھی بھر یہودیوں کی حکومت ہے،جو کندھے اور ہاتھ کے طور پر دنیا کے چند عیسائیوں ،مسلمانوں اور مشرکین کو استعمال کرتے ہیں۔جمہوری نظام کا ایک دوسرے پہلو سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ اسلامی نظام کا راستہ روکنے کے لئے وضع کیا گیا ہے،یہی وجہ ہے کہ جن اسلامی پارٹیوں نے جمہوریت کے راستے سے اسلامی نظام کو قائم کرنے کی کوشش کی اور عوام نے انہیں جمہوری طریقہ سے منتخب بھی کیا ،لیکن اس کے باوجود ان کو اقتدار نہیں سنبھالنے دیا گیا ،جیسے ۱۹۹۲ ؁ء میں الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ نے دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی لیکن اسے اقتدار تو کیا ملا اُلٹا اسے غیر قانونی پارٹی
قراردے دیا گیا،اسی طرح ۲۰۰۴ ؁ء میں فلسطین کی اسلامی تنظیم حمّاس نے انتخابات میں اکثریت حاصل کی تو اسے بھی اقتدار سے محروم کر دیا گیا اور غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔یہ بات اور ہے کہ بعد میں حماس نے اسلامی جہاد کا راستہ اختیار کرکے غزاء میں دوبارہ اقتدار حاصل کر لیا،اسی طرح ۲۰۱۳ ؁ء میں مصر میں اسلامی جماعت اِخوانُ الْمُسلِموُنْ نے ڈاکٹر محمد مرسی کی قیادت میں انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو ایک سال کے اندر انہیں اقتدار سے ہٹا کر جیل میں ڈال دیا گیا،اور اِخوانُ الْمُسلِمون کو غیر قانونی قرار دے کر اس کے لاکھوں افراد کو جیل میں بند کر دیا گیا اور ہزاروں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا،اور ہزاروں کو گولیوں سے بھُون دیا گیا۔یہ چند مثالیں ہیں جنہوں نے مغرب کے وضع کر دہ جمہوریت کے راستے سے اسلامی نظام کو لانے کی کوشش کی جبکہ اسلامی نظام ، اسلامی جہاد کے راستہ سے آتا ہے اور اسلامی جہاد کا راستہ آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی آنحضورؐ کی نبوت ،دعوت اور جہاد سے متعین ہو گیا۔جس میں آنحضور ﷺ کے دورِ مکّی کی تیرہ سالہ جدّو جہد ہے اور دس سالہ دورِ مدنی کی جدّو جہد ہے ،دورِ مکّی کی جدّو جہد ایک طرح سے انسانی معاشرہ میں اسلامی سیاست کا بیج ڈالنے اور اسلامی سیاست کو قائم کرنے والی فوج کی تیاری کا دور ہے،اور دورِ مدنی کی جدّ و جہد براہِ راست غیر اسلامی فوج سے مسلّح مقابلہ کی جدو جہد ہے،چنانچہ باطل سے مُسلّح مقابلہ کا نتیجہ میں ہی جنگ بدر ،جنگِ اُحد ،جنگِ احزاب اور دیگر معرکے پیش آئے اور اس طرح نبی ﷺ کی تئیس ۲۳ سالہ جدّو جہد کے نتیجے میں پورے عرب میں اسلام ہر لحاظ سے غالب آگیا ،اب قیامت تک اسلام کو غالب کرنے کا راستہ صرف اور صرف آنحضور ﷺ کی تئیس ۲۳ سالہ جدّو جہد معیار اور نمونہ ہے ،البتہ جدّوجہد و غلبہ کی مدّت میں فرق ہو سکتا ہے اور ضرور ہو سکتا ہے،کیونکہ دینِ اسلام کے اصل مخاطب انسان ہے اس لحاظ سے غلبۂ اسلام کے سلسلہ میں انسانی وسائل و مسائل کا بنیادی دخل ہے آنحضور ﷺ کی تئیس ۲۳ سالہ نبوی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ کا اصل مخالف اور مزاحم گِروہ اہلِ مکّہ کا تھا ،یقیناً بعد میں مشرکین مکہ کے ساتھ عرب کے دوسرے قبائل اسی طرح یہود و نصاریٰ اور منافقین بھی اسلام دشمنی میں شامل ہو گئے۔لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ فتح مکہ تک
آنحضور ﷺ اور اہل ایمان کی دشمنی میں پیش پیش مکہ والے ہی تھے یہی وجہ ہے ہے کہ جب آٹھ (۸) ہجری میں مکہ فتح ہو گیا تو پورے عرب میں اسلام دشمنی کا زور ٹوٹ گیا اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کی تحریک کے اصل دشمن اور مخالف آنحضور ﷺ کی تئیس (۲۳) سالہ نبوی زندگی میں سے اکیس (۲۱) سالہ نبوی زندگی میں صرف مشرکین مکہ تھے،جن میں تیرہ سال ہجرت سے پہلے کے ہیں اور آٹھ سال ہجرت کے بعد کے ہیں ۔اب اگر آج سے ساڑھے چودہ سال پہلے دورِ نبوی میں مکہ کی انسانی آبادی کی تحقیق کی جائے تو دس (۱۰) ہزار انسانوں سے زیادہ نہیں ملے گی جن میں سے بالغ آبادی پانچ ہزار ہوگی اور پانچ ہزار نا بالغ آبادی ہوگی،مکہ کی اس سے زیادہ آبادی نہ ہونے کا ثبوت تاریخ اور سیرت کی مختلف کتابوں سے مل جائے گا ،اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ہجرت کے ایک سال کے بعد جنگِ بدر ہوئی تو تو ابو جہل کی کوشش کے با وجود مکہّ سے صرف ایک ہزار کا لشکر نکلا اس کے ایک سال کے بعد جنگِ احد میں یقیناًمکہ والوں کی قیادت میں تین چار ہزار کا لشکر آیا لیکن ان میں بہت سے لوگ مکہ کے باہر کے تھے جو مکہ والوں کاساتھ دینے کے لئے آئے تھے ،پھر اس کے دو سال کے بعد پانچ ہجری میں جنگِ خندق کے موقع پر اس سے بڑا لشکر تقریباً دس ہزار پر مشتمل مکہ والوں کی قیادت میں مدینہ پر حمہ آور ہوا ،لیکن ایک طرح سے یہ عرب کے مختلف قبیلوں کا متحد ہ لشکر تھا،اس لئے اس جنگ کو جنگِ احزاب بھی کہتے ہیں۔عربی میں لشکر کو حزب کہتے ہیں اور احزاب اس کی جمع ہے۔ویسے اگر آج گہرائی سے دیکھا جائے تو غزوۂ خندق کے موقع پر آنحضور ﷺ اور ایمان والوں کو دین و ایمان کی خاطر جس طرح کے حالات کا سامان تھا اور مشرکین مکہ اور ان کے حلیف لشکروں نے اسلامی نظام کو ختم کرنے کی جو تدبیر اور سازش کی تھی آج کے دور کے اسلام دشمنوں نے عالمی سطح پر اسلامی نظام کو ختم کرنے کی وہی تدبیر و سازش کر رکھی ہے،چنانچہ اسی کے لئے عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے ادارہ کا قیام عمل میں آیا ہے جس کے تقریباً دو ۲ سو ممالک رکن ہیں جن میں سے امریکہ ،برطانیہ ،فرانس،روس ،چین ،جرمنی کو بنیادی اور فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے بلکہ آج کل تو صرف امریکہ ہی کو ان تمام ممالک نے فیصلہ کن حیثیت دے دی ہے ۔
چنانچہ آج دنیامیں جہاں کہیں بھی اسلامی نظام کی بات اُٹھتی ہے چاہے وہ جمہوری راستہ ہی سے کیوں نہ اٹھے اقوام متحدہ کا لشکر امریکی فوج کی قیادت میں میدان میں آجاتا ہے ،لیکن اس سلسلہ میں سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ بہت سے مسلم ممالک بھی اس ادارے کے رکن بنے ہوئے ہیں جبکہ ان ممالک کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس اسلام دشمن ادارہ سے اپنا تعلق توڑ لیتے اور اقوام متحدہ کے ظلم و ستم کو ختم کرنے کے لئے اسلامی متحدہ کے ادارہ کی بنیاد رکھتے اور اس سے وابستہ ہوتے او ر دوسرے ممالک کو بھی اس ادارے سے وابستہ ہونے کی دعوت دیتے تو بہت سے غیر مسلم ممالک بھی اسلامی نظام اور اسلامی جنگ و امن و صلح کے پیمانے کو دیکھ کر اس کے رکن بن جاتے اور دنیا میں اسلامی متحدہ کا ادارہ ہی سب سے بڑا دارہ ہوتا ،اسلامی اتحاد کو ایک طرح سے انسانی اتحاد بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ انسانوں کو متحد کرنے کی بنیاد صرف اسلام کے پاس ہے۔اب جبکہ عالمی سطح پر اسلامی نظام کو اربوں انسانوں کی دشمنی کا سامنا ہے اور کروڑوں اسلام دشمن فوج اور پولیس اسلامی نظام کے غلبہ کا راستہ روکنے میں لگی ہوئی ہے تو ظاہر ہے اسلامی نظام کے غلبہ کے لئے کئی صدیا ں بھی لگتی ہے تو اس کو بہت دیر سے آنے والا غلبہ نہیں کہا جا سکتا، اور کیسے کہا جا سکتا ہے جب کہ آخری نبی محمدﷺ کی قیادت میں چلنے والی اسلامی تحریک کا راستہ صرف دس ہزار آبادی رکھنے والا شہر اکیس (۲۱) سال تک اسلامی تحریک کا راستہ روک سکتا ہے ۔ جب کہ اسی شہر مکہ میں آنحضورﷺ کو چالیس سال تک صادق و امین کہا گیا ۔ویسے بھی اہلِ ایمان صرف اسلامی نظام کے غلبہ کی جدّو جہد ہی کے مکلّف اور جواب دہ ہیں۔مطلب یہ کے اسلامی نظام کی جد و جہد کے نتیجے میں اگر سینکڑوں اور ہزاروں سالوں میں بھی اسلام کو سیاسی غلبہ حاصل نہ ہو تو اہل ایمان سے اس سلسلہ میں نہیں پوچھا جائے گا۔چنانچہ قرآن میں ایک مقام پر حضرت نوح ؑ کی دینی دعوت اور جدّو جہد کی مدّت کا تذکرہ ہے جو ساڑھے نو سو سال پر پھیلی ہوئی تھی اور جس کے نتیجے میں صرف بیاسی (۸۲) افراد نے دین کی دعوت قبول کی تھی ،لیکن اس سلسلہ میں اللہ کی طرف سے حضرت نوح ؑ کی باز پُرس نہیں ہوئی،بلکہ نوح ؑ کی دعوت جھٹلانے والی قوم کو عذابِ الہیٰ سے ہلاک کر دیا گیا ۔البتہ اس سلسلہ میں اہل ایمان ضرور اس بات کے مُکلّف اور جوابدہ ہے کہ وہ
دینِ اسلام کو مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے پیش کریں اور اس کے مکمل غلبہ کی جدّو جہد کریں،باطل حکمرانوں کی ناراضگی سے بچنے کے لئے اسلام کو صرف عبادات کے طور پر پیش کرنا یا اسلام کے غلبہ کی مشکلات کو دیکھ کر باطل نظام سے سمجھوتہ کر لینا دینِ اسلام کے ساتھ بدترین خیانت ہے ،اور اللہ کی حاکمیت میں کھُلا ہوا شرک ہے،اور شرک بہت بڑا ظلم اور گناہ ہے۔ویسے تو اسلام کے دونوں ہی دور یعنی اسلام کی سیاسی مغلوبیت کا دور اور اسلام کے سیاسی غلبہ کا دور ایمان والوں سے جان و مال کی قربانی کے تقاضے کرتے ہیں اور دونوں ہی دور ایمان والے بغیر جان و مال کی قربانی کے نہیں گزار سکتے،لیکن اسلام کی سیاسی مغلوبیت کا دور کچھ زیادہ ہی جان و مال کی قربانی کا تقاضہ کرتا ہے اور اس دور کی جان ومال کی قربانی کا اجر بھی کچھ زیادہ ہی ہے۔

Share
Share
Share