مقصدِ علم اور مولانا سید ابو اعلیٰ مودودیؒ :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مولانا سید ابو اعلیٰ مودودیؒ

مقصدِ علم کے متعلق
مولانا سید ابو اعلیٰ مودودیؒ کے تفسیری کلمات

مفتی کلیم رحمانی
پوسد (مہاراشٹر)
09850331536

قرآن مجید کی سورۂ توبہ کی آیت ۱۲۲ کے تحت مولانا سید ابو اعلیٰ مودودیؒ اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں لکھتے ہیں۔ وَماَ کَانَ الْمُو مِنوُنَ لِیَنْفِرُوْں کَاَ فّۃََ فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْ قَۃِ مِّنھُمْ طآَ ءِفَۃ’‘ لِّیَتَفَقَّھوْا فیِ الدّینْ وَ لِیَُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْ ا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَ رُوْنَْ (سورہ توبہ۱۲۲) ترجمہ: اور یہ مناسب نہیں ہے کہ سب ایمان والے نکل جائے ،پس ایسا کیوں نہیں ہوا کہ ہر گروہ اور بستی میں سے ایک جماعت نکلتی تاکہ دین میں سمجھ بوجھ پیدا کرتی اور جب اپنی قوم کے پاس واپس آتی تو انہیں بھی ڈراتی تاکہ وہ نافرمانی سے بچتے۔

مذکورہ آیت کی تفسیر میں مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ اپنی تفسیر تفہیم القرآن کی جِلد دوّم میں تحریر فرماتے ہیں (اس آیت کا منشا سمجھنے کے لئے اسی سورہ توبہ کی( آیت ۹۷) پیش نظر رہنی چاہئے کہ بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہے اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اُس دین کی حدود سے نا واقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے۔وہاں صرف اتنی بات بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا تھا کہ دارالاسلام کی دیہاتی آبادی کا بیشتر حصہ مرض نفاق میں اس وجہ سے مبتلا ہے کہ یہ سارے کے سارے لوگ جہالت میں پڑے ہوئے ہیں ،علم کے مرکز سے وابستہ نہ ہونے اور اہل علم کی صحبت میسر نہ آنے کی وجہ سے اللہ کے دین کی حدود ان کو معلوم نہیں ہیں۔اب یہ فرمایا جارہا ہے کہ دیہاتی آبادیوں کو اس حالت میں پڑا نہ رہنے دیا جائے بلکہ ان کی جہالت کو دور کرنے او ر ان کے اندر شعور پیدا کرنے کا اب با قائدہ انتظام ہونا چاہئیے۔اس غرض کے لئے یہ کچھ ضروری نہیں ہے کہ تمام دیہاتی عرب اپنے گھروں سے نکل نکل کر مدینہ آجائیں اور یہاں علم حاصل کریں۔اس کے بجائے یہ ہونا چاہئیے کہ ہر علاقے اور ہر بستی اور ہر قبیلے سے چند آدمی نکل کر علم کے مرکزوں مثلاً مدینہ ،مکہ اور ایسے ہی دوسرے مقامات میں آئیں۔اور یہاں دین کی سمجھ پیدا کریں ،پھر اپنی اپنی بستیوں میں واپس جائیں اور عامَۃالنّاس کے اندر بیداری پھیلانے کی کوشش کریں۔ یہ ایک اہم ہدایت تھی جو تحریکِ اسلامی کو مستحکم کرنے کے لئے ٹھیک موقع پر دی گئی۔ابتداء میں جبکہ اسلام عرب میں بالکل نیا نیا تھا اور انتہائی شدید مخالفت کے ماحول میں آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا اس ہدایت کی کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس وقت تو اسلام قبول کرتا ہی وہ شخص تھا جو پوری طرح اسے سمجھ لیتا تھا اور ہر پہلو سے اسے جانچ پرکھ کر مطمئن ہو جاتا تھا ۔مگر جب یہ تحریک کامیابی کے مرحلوں میں داخل ہوئی اور زمین میں اسکا اقتدار قائم ہوگیا تو آبادیاں کی آبادیاں فوج در فوج اس میں شامل ہونے لگیں جن کے اندر کم لوگ ایسے تھے جو اسلام کو اسکے تمام مقتضیات کے ساتھ سمجھ بوجھ کر اس پر ایمان لائے تھے،ورنہ بیشتر لوگ محض وقت کے سیلاب میں غیر شعوری طور پر بہہ چلے آرہے تھے ۔نو مسلم آبادی کا یہ تیز رفتار پھیلاؤ بظاہر اسلام کے لئے سبب قوّت تھا ،کیونکہ بیروانِ اسلام کی تعداد بڑھ رہی تھی ،لیکن فی الحقیقت اسلامی نظام کے لئے ایسی آبادی کسی کام کی نہ تھی بلکہ الٹی نقصان دہ تھی جو شعورِ اسلامی سے خالی ہو اور اس نظام کے اخلاقی مطالبات پورے کرنے کے لئے تیار نہ ہو۔چنانچہ یہ نقصان غزؤہ تبوک کی تیاری کے موقع پر کھُل کر سانے آگیا تھا ۔اس لئے عین وقت پر اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی کہ تحریک اسلامی کی یہ توسیع جس رفتار کے ساتھ ہو رہی ہے اسی کے مطابق اس کے استحکام کی تدبیر بھی ہونی چاہئیے اور وہ یہ ہے کہ ہر حصہ آبادی میں سے چند لوگوں کو لے کر تعلیم و تربیت دی جائے ،پھر وہ اپنے اپنے علاقوں میں واپس جاکر عوام کی تعلیم و تربیت کا فرض انجام دیں یہاں تک کہ مسلمانوں کی پوری آبادی میں اسلام کا شعور اور حدود اللہ کا علم پھیل جائے۔یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہئیے کہ تعلیم عمومی کے جس انتظام کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے اس کا اصل مقصد عامّۃ النّاس کو محض کوخواندہ بنانا اور ان میں کتاب خوانی کی نوعیت کا علم پھیلانا نہ تھا بلکہ واضع طور پر اسکا مقصد حقیقی یہ متعین کیا گیا تھا کہ لوگوں میں دین کی سمجھ پیدا ہو اور ان کو اس حد تک ہوشیار اور خبردار کردیا جائے کہ وہ غیر مسلمانہ رویہ زندگی سے بچنے لگیں۔ یہ مسلمانوں کی تعلیم کا وہ مقصد ہے۔ جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود متعین فرما دیا ہے اور ہر تعلیمی نظام کو اسی لحاظ سے جانچا جائے گا کہ وہ اس مقصد کو کہاں تک پورا کرتا ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام لوگوں میں نوشت و خواند اور کتاب خوانی اور دُنیوی علوم پھیلانا نہیں چاہتا ۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام لوگوں میں ایسی تعلیم پھیلانا چاہتا ہے جس کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے وہ یہ کہ لوگوں میں دین کی سمجھ پیدا ہو اور ان کو اس حد تک ہوشیار و خبردار کردیا جائے کہ وہ غیر مسلمانہ رویہ زندگی سے بچنے لگیں۔ورنہ ایک شخص اپنے وقت کا آئن شتائن اور فرائڈ ہوجائے لیکن دین کے فہم سے عاری اور غیر مسلمانہ رویہ زندگی میں بھٹکا ہوا ہو تو اسلام ایسی تعلیم پر لعنت بھیجتا ہے۔اس آیت میں لفظ لِیَتَفَقَّھُوافِی الدِّینِ جو استعمال ہوا ہے اس سے بعد کے لوگوں میں ایک عجیب غلط فہمی پیدا ہو گئی جس کے زہریلے اثرات ایک مدت سے مسلمانوں کی مذہبی زندگی پر بھی بری طرح چھائے ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے تو تَفَقُّہُ فیِ الدِّینِ کو تعلیم کا مقصود بتایا تھا جس کے معنی ہیں دین کو سمجھنا،اس کے نظام میں بصیرت حاصل کرنا ،اس کے مزاج اور اس کی روح سے آشنا ہونا ،اور اس قابل ہو جانا کہ فکر و عمل کے ہر گوشے اور زندگی کے ہر شعبے میں انسان یہ جان سکے کہ کونسا طریقِ فکر اور کونسا طرزِ عمل روحِ دین کے مطابق ہے ،لیکن آگے چل کر جو قانونی علم اصطلاحاً فقہ کے نام سے موسوم ہوا اور جو رفتہ رفتہ اسلامی زندگی کی محض صورت (بمقابلہ رح)کا تفصیلی علم بن کر رہے گیا ۔لوگوں نے اشتراکِ لفظی کی بنا پر سمجھ لیا کہ بس یہی وہ چیز ہے جس کا حاصل کرنا حکمِ الٰہی کے مطابق تعلیم کا منتہائے مقصود ہے۔حالانکہ وہ کُل مقصود نہیں بلکہ محض ایک جزوِ مقصود تھا۔اس عظیم الشّان غلط فہمی سے جو نقصانات دین اور پیروانِ دین کو پہنچے ان کا جائزہ لینے کے لئے تو ایک کتاب کی وسعت درکار ہے۔مگر ہم یہاں اس پر متنبّہ کرنے کے لئے مختصراً اتنا اشارہ کئے دیتے ہیں کہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کو جس چیز نے روحِ دین سے خالی کرکے محض جسمِ دین اورشکلِ دین کی تشریح پر مرتکز کر دیا ،اور بالآخر جس چیز کی بدولت مسلمانوں کی زندگی میں ایک بڑی بے جان ظاہرداری،دین داری کی آخری منزل بن کر رہے گئی،وہ بڑی حد تک یہی غلط فہمی ہے۔(منقول:،تفہیم القرآن جلد ۲ صفحہ ۵۰۔۵۱)
——-

مفتی کلیم رحمانی
Share
Share
Share