قرآن حکیم کا سائنسی اعجاز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرمحی الدین حبیبی

Share

Quran and Science قرآن

قرآن حکیم کا سائنسی اعجاز

ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985

دانائے سبل، ختم الرسل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک ایک ایسا صحیفہ ربانی پہنچایا ہے، جو صرف سرچشمۂ ہدایت ہی نہیں، بلکہ ’’خزینۂ حکمت‘‘ بھی ہے۔ قرآن حکیم کا یہ بھی ایک عظیم اعجاز و امتیاز ہے کہ عصر حاضر کے علومِ جدیدہ سے متعلق اہم بنیادی و اساسی کلیات کا یہ چودہ سو سال ہی سے حامل ہے، بلکہ مستقبل میں بھی انسانی علم و دانش سے تعلق رکھنے والی باتیں بھی قرآن مجید میں تدبر کرنے والوں کے لیے بہ منشائے الٰہی ظاہر ہوتی رہیں گی، کیوں کہ عصر حاضر اور مستقبل کا ہر علم و فن ، جو روحِ اسلام کا مخالف نہ ہو، اس فکرانگیز کتابِ الٰہی کے حقائق و معارف سے الحاق رکھے گا،

چنانچہ ندائے قرآن ہے: ’’کیا یہ لوگ تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو قرآن کے اوّلین مخاطب تھے اور جن کی تربیت راست ایوانِ نبوت میں ہوئی تھی ایک ایک سورہ پر برسوں تدبر فرماتے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک روایت کے مطابق سورۂ بقرہ پر مسلسل آٹھ برسوں تک تدبر فرمایا تھا:
قرآن مجید اپنی نشانیاں و آیات بیان کرتے ہوئے بیشتر مقامات پر ’’غور و فکر کرنے والوں کے لیے‘‘ ، ’’عقل و فہم والوں کے لیے‘‘ اور ’’نصیحت پکڑنے والوں کے لیے‘‘ جیسے کلمات سے ہم سے تدبر کا مطالبہ کرتا ہے اور آفاق و انفس کی دنیا میں قدرت کی نشانیاں دکھلانے کا وعدہ بھی کرتا ہے، تاکہ حق سب پر ثابت ہوجائے ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ’’عنقریب تم پر آفاق اور انفس (اندر) کی دنیا میں قدرت کی نشانیاں صاف صاف ظاہر کردی جائیں گی، حتیٰ کہ تم پر حق (کی نشانیان) واضح ہوجائیں گی۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ آئیسٹامین جیسا یہودی محقق اور عظیم سائنس داں ان ہی نشانیوں کو دیکھ کر وحدانیت کا یوں قائل ہوا کہ ’’جو کوئی سنجیدگی کے ساتھ سائنسی علوم کی تحقیق میں منہمک ہوگا اس حقیقت کا اعتراف ضرور کرے گا کہ کائنات کے قوانین میں ایک ہستی ضرور کارفرما ہے۔ یہ ایسی ہستی ہے جو بے پناہ عظمت اور فوقیت کی حامل ہے، جس کے سامنے ہماری توانائیاں بے بس اور نتیجتاً ہمیں اس کے آگے جھکنا پڑے گا۔‘‘
امام غزالی، علامہ سیوطی اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہم نے قرآن میں حکمت، علمِ کائنات اور نظمِ کائنات سے متعلق آیات کی نشاندہی کی ہے اور کوئی سات سو سے زائد ایسی آیات کا ذکر کیا ہے، بلکہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ایسے بہت سے علوم بھی ہوسکتے ہیں، جن تک ابھی انسانی ادراک نہیں پہنچ سکا۔‘‘ وہ قرآن حکیم کو معرفتِ الٰہی اور افعالِ الٰہی کا سمندر کہتے ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ قرونِ اولیٰ اور وسطیٰ کے مسلمان حکماء اور سائنسدانوں نے اپنی علمی و تحقیقی کاوشوں سے ساتویں صدی عیسوی کے اواخر سے چودہویں صدی عیسوی تک ایک انقلاب برپا کردیا تھا، گویا سات سو سال تک مسلم سائنسدانوں کی ایسی حکمرانی رہی کہ رابرٹ بریفو کو اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ’’تعمیر انسانیت‘‘ میں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ’’ہماری سائنس عربوں کی مرہونِ منت ہی نہیں کہ انہوں نے چونکا دینے والے انکشافات یا انقلابی نظریات پیش کیے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ عربوں کے زیربار احسان ہے، یعنی اس کا وجود ہی ان کی بدولت ہے۔‘‘ ان معروف ترین مسلمان علماء و حکماء کی کہکشاں میں الکندی، رازی، ابن سینا ، ابن رشد، خوارزمی، فارابی، البیرونی ، الزہراوی، المسعودی ، جابر بن حیان، ابن خلدون، عمر خیام ، ایوبی اور ابن فہر وغیرہ شامل ہیں، جنہوں نے فلکیات، ریاضیات، ارضیات، کیمیا، طبعیات، جغرافیہ، طب اور حیاتیات جیسے سائنسی علوم میں حیران کن اور فقید المثال تحقیقات و ایجادات انجام دیں۔ یہی تحقیقات مغرب کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے رہبری و رہنمائی کا سامان بنیں۔ یہ بڑی دلخراش اور دلدوز داستان ہے کہ کس طرح ہم اپنی کوتاہیوں ، غفلت اور حالات کی ناہمواریوں کا شکار ہوکر ایسے پیچھے ہوئے کہ آج یوروپ و امریکہ کو علومِ جدیدہ اور سائنس کی امامت سونپ دی۔
یہاں یہ بات بھی واضح ہوجائے کہ قرآن مجید عقائد، شرعی احکام اور زندگی کے ہر نظام کی وضاحت کرتے ہوئے ، حکمت اور علومِ جدیدہ کی تحصیل کے لیے تحریک بھی دیتا ہے، چنانچہ یوروپ و امریکہ میں نہ صرف پچھلی صدیوں کے جید مسلمان سائنسدانوں کی تحقیقات کے ترجمے ہوئے، بلکہ آج بھی اس صدق و صفا سے بھرپور کتابِ الٰہی کے ایک ایک لفظ پر غور ہوتا ہے اور حکیمانہ نصوص قرآنی سے متاثر ہوکر علوم جدید کی طرف قدم بڑھایا جاتا ہے اور ہم ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ’’تم میں سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا‘‘ رکھتے ہوئے بھی عصری علوم کی تحصیل میں نہایت ہی پسماندہ ہیں۔ خیر امت کے اعزاز کو برقرار رکھنے کے لیے مؤمن کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ علومِ جدیدہ اور سائنس میں کمال حاصل کرے اور اسلام کی ابدیت کو جتاتے رہیں اور سربلندی و سرفرازی کی امامت سے متصف ہوں۔
ذیل میں مختلف عنوانات کے تحت قرآنی آیات کو پیش کیا گیا ہے اور اختصار کے ساتھ تشریح کرتے ہوئے یہ بتلایا گیا ہے کہ کس طرح قرآن مجید کے ابدی حقائق سے سائنسی اصول ہم آہنگ ہوتے ہیں۔
حیاتیات: حیاتیای سائنس کی یہ مسلم الثبوت تحقیق ہے کہ ہر جاندار شئے کی پانی سے نمو ہوئی ہے، جب کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے : ’’ہم نے ہر جاندار شئے کو پانی سے پیدا کیا، تو یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔‘‘ (۲۱؍ ۲۰) نظریۂ ارتقاء کی ڈارونی صراحت سے قرآن اتفاق نہیں کرتا، بلکہ نفس ارتقاء جو ایک حقیقت ہے ، جس کے بارے میں قرآن یہ وضاحت کرتا ہے کہ ہر شئے مرحلہ وار ترقی کرتی ہے، تخم بارآور ہوکر درخت بنتا ہے اور نطفہ ترقی پاکر ایک شکل اختیار کرتا ہے۔ نوع در نوع ارتقاء نہیں ہوتا، بلکہ ہر نوع میں خالق کائنات کے منشاء کے مطابق ہی ترقی و بالیدگی ہوتی ہے، چنانچہ سورہ مؤمنون میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے بنایا ، پھر ہم نے نطفہ ٹھہرایا، نطفہ کو لوتھڑے کی شکل دی، لوتھڑے کو بوٹی کی شکل دی، بوٹی سے ہڈیاں بنائیں، ہڈیوں کو گوشت کا جامہ پہنایا اور پھر ہم اس کو ایک دوسری صورت میں لے آئے۔ اللہ بڑی برکت والا اور احسن ترین خالق ہے۔‘‘
نباتات: نباتات میں نر و مادہ کی حقیقت، علم نباتات کی خاطر خواہ ترقی کے بعد ہی معلوم ہوئی، جب کہ قرآن چودہ سو سال قبل ہی اس بات کا اعلان کرچکا ہے کہ کہ ’’کیا وہ نہیں دیکھتے زمین کی طرف کہ ہم نے نباتات میں مکرم جوڑے بنائے ہیں۔‘‘ مزید وضاحت کے ساتھ نباتات کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ہم نے آسمان سے پانی برسایا، پھر تمام معزز زوج (نر و مادہ) کو اُگایا‘‘ (سورہ لقمان) نباتات میں زیرگی کے عمل (Pollination) کے تحت نر پھول کا زیرہ مادہ پھول تک مختلف حشرات الارض اور ہوا کی وساطت سے رسائی حاصل کرتا ہے اور بارآوری و بالیدگی عمل میں آتی ہے، جو ایک نوع کی حد تک محدود ہوتی ہے، اختلاط النوع نہیں ہوتا، یعنی گلاب کے زیرہ کو گیند کا پھول قبول نہیں کرتا۔ شاید اسی لیے ایک محترم لقب ’’زوج کریم‘‘ سے نوازا گیا ہے۔ ویسے لفظ ’’زوج‘‘ جنس تحقیقی کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے، نہ کہ جنس قیاسی کی طرف جیسے ٹوکرا اور ٹوکری وغیرہ۔
فلکیات: تو قرآن حکیم کا خصوصی موضوع ہے۔ سب سے پہلے یہ بتلایا گیا کہ رات، دن ، سورج، چاند اور ستارے ، اللہ کے حکم سے انسان کے لیے مسخر کردیئے گئے ہیں اور کہا گیا کہ ’’یہ نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے۔‘‘ (۱۶؍۱۲) پھر یہ بھی واضح کردیا گیا کہ ’’اجرام سماوی خلاء میں تیر رہے ہیں اور محوِ گردش ہیں۔‘‘ صدیوں پہلے قرآن کی حقیقت کس طرح آج کی سائنسی تحقیقات سے مطابقت رکھتی ہے، اس کا اندازہ کیا عقل و فہم رکھنے والے نہیں لگا سکتے؟ مزید برآن قرآن مجید نے یہ بھی صاف صاف بتلا دیا ہے کہ ’’یہ اجرامفلکی آسمان میں کسی سہارے کے بغیر اپنے اپنے مستقر پر گردش کررہے ہیں۔‘‘ ’’اللہ نے (اجرامِ فلکی) کو بغیر کسی ستون (عمد) کے بلند کیا ہے۔‘‘ (سورہ رعد) اور کہا گیا ہے کہ اللہ اس آسمان کو تھامے ہوئے ہے، تاکہ وہ زمین پر گر نہ جائے بغیر اس کی اجازت، بے شک اللہ تمام لوگوں کے لیے رؤف و رحیم ہے۔ (سورۂ حج : ۶۵)
مذکورہ بالا دو آیتوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ تمام اجرام فلکی خلاء میں ایک توازن و تناسب کے ساتھ اپنے اپنے مدار میں محوِ گردش ہیں اور یہ باہمی کشش و قوت تجاذب کے تحت ہی ممکن ہے، جس سے ہر سائنس کا طالبِ علم واقف ہے۔ علاوہ ازیں سورج کو ایک روشن چراغ کہا گیا ہے، جب کہ چاند کو نور والا فرمایا گیا ہے اور سورہ و الشمس میں مزید وضاحت کے ساتھ ارشاد ربانی ہے: ’’اور قسم ہے سورج کی ، جو خوب روشن ہے اور چاند کی جو اس کے پیچھے آتا ہے۔‘‘ یعنی روشن تو سورج ہے اور چاند کی روشنی مستعار لی ہوئی ہے، کیوں کہ وہ سورج کی منعطف شدہ روشنی سے منور ہے۔ انسان نے خلاء کی تسخیر کرلی اور چاند پر بھی قدم جمائے، جو دیگر اقوام کے لیے حیرت و استعجاب کی بات ہوسکتی ہے، لیکن حاملین قرآن کے لیے یہ کوئی تعجب خیز معاملہ نہیں کہ ایسے امکانات کی جانب قرآن حکیم نے واضح اشارے دیئے ہیں، چنانچہ سورہ رحمان میں انسانوں اور جنوں کے گردہ سے مخاطب ہوکر فرمایا گیا کہ اگر تم زمین و آسمان کے کناروں سے نکل جانا چاہتے ہو تو نکل جاؤ، مگر کسی زور کے بغیر نہیں نکل سکتے۔‘‘ مفسرین نے لفظ ’’سلطان‘‘ کی تصریح میں زور، علم ، ادراک ، سند اور اختیار کے معنی بتلائے ہیں اور خلاء میں راکٹ کے زور ہی سے قدم رکھا جاسکتا ہے۔ خلائی سائنس کے ادراک سے ہی بنی نوعِ انسان کو یہ عزت ملی ہے کہ انسان کو خلیفہ فی الارض کے لقب سے نوازا گیا اور کہا گیا کہ ’’ہم نے اولادِ آدم کو عزت بخشی۔ یہ سب تسخیر کائنات کی تفصیل بتلاکر یہ بھی تنبیہ کردی گئی کہ ’’سورج اور چاند وغیرہ کو سجدہ نہ کرو، پوجا نہ کرو، بلکہ سجدہ کے لائق تو اللہ ہی ہے۔‘‘
طبعیات: طبعی سائنس کی دنیا میں مادہ ہی سب کچھ ہے۔ انیسویں صدی تک مادہ کے خواص میں یہ شامل رہا کہ وہ جگہ گھیرتا ہے، وزن رکھتا ہے اور ناقابل تقسیم ہے، بلکہ غیرفانی ہے، لیکن بیسویں صدی میں اس کی تقسیم عمل میں آگئی ہے اور وہ الیکٹرون ، پروٹون اور نیوٹران (Electron , Proton , Neutron) میں بٹ گیا ہے، بلکہ اپنی انتہائی ، ارتقائی صورت میں فناکر ہوکر قوت میں تبدیل ہوجاتا ہے، جو ایک غیرمادی شئے ہے۔ قرآن کا اعجاز ’’کل من علیہا فان‘‘ یہاں بہت خوبی سے ہم آہنگ ہوتا ہے کہ ہر چیز فنا ہوتی ہے، چہ جائیکہ وہ مادہ ہی کیوں نہ ہو اور یہ بات بیسویں صدی میں نہیں، بلکہ ساتویں صدی عیسوی ہی میں قرآن حکیم نے بڑے حکیمانہ انداز میں بتلا دی ہے اور اب ہر مادّہ پرست کہتا ہے کہ مادہ فنا ہوتا ہے۔ سورہ ’’الزلزلۃ‘‘ میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’جو کوئی ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کو دیکھے گا اور جو کوئی ذرہ برابر بدی کرے گا وہ اس کو دیکھے گا۔‘‘ علامہ عبداللہ یوسف علی نے انگریزی میں ’’ذرّہ برابر‘‘ کا ترجمہ جوہری وزن (Atomic Weight) کیا ہے، جس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ہر جوہر (ایٹم) کا ایک وزن ہوتا ہے، جو ایک اقل ترین وزن ہے، جس کا انسان ادراک و اندازہ کرسکتا ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہر شئے کے جوہر کا وزن الگ الگ اور جداگانہ ہوتا ہے۔ واقعی ’’إنَّ کُلَّ شَئٍ خَلَقْنَاہٗ بَقَدَرٍ‘‘ کی تفسیر اس سے بہتر کیا ہوسکتی ہے کہ قوانین قدرت میں ایک توازن و تناسب کو اُجاگر کیا گیا ہے۔
علم البحر: امریکہ میں طب عالمِ اسلامی کانفرنس میں حکیم محمد سعید صاحب (ہمدرد) نے یہ دلچسپ واقعہ بیان کیا کہ فرانسیسی بحریہ کے ایک افسر ژاکس کوستیو نے اپنے بحری سفر کے دوران یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ جبل الطارق کے قریب بحرہ روم اور بحیرہ اوقیانوس کے پانی مدغم ہوجاتے ہیں، لیکن ان سمندروں کے پانی جداگانہ خاصیت رکھتے ہیں۔ ان میں ایک میٹھا اور دوسرا کھارا ہے۔ فرانسیسی افسر نے اس منظر کا بیان فرانس کے مشہور سرجن اور محقق مورس بوکائی سے کیا تو بوکائی نے اس کو سمجھایا کہ اس بات کا ذکر قرآن (مجید) چودہ سو برس پہلے کرچکا ہے۔ (بحوالہ معارف) چنانچہ سورہ فرقان میں ارشاد ہے: ’’اور وہی جس نے ملائے دو دریا، یہ میٹھا ہے پیاس بجھاتا ہے اور یہ کھارا ہے کڑوا۔‘‘ صد آفریں کہ مستند غیرمسلم سائنسداں ، قرآن مجید کی وساطت سے اپنے تجسس و تحقیق کی پیاس بجھا رہے ہیں۔
تمثیلی تولیدی عمل : (Cloning) فروری ۱۹۹۷ء ؁ میں یہ خبر عام ہوئی کہ ڈاکٹر دیلمٹ (اسکاٹ لینڈ) نے غیرجنسی طریقہ سے تمثیلی تولیدی عمل کے ذریعہ ایک بھیڑ کی افزائش کی ہے، یعنی ایک ہی فرد (ماں) کے ذریعہ بغیر نر کے تولیدی مادہ سے یہ کارنامہ انجام دیا گیا ہے، جس میں ایک مادہ بھیڑ کے تھن کے خلیہ کا اتصال، ایک دوسری مادہ بھیڑ کے بیضہ سے کیا گیا، جس کے خلیہ سے اس کا مرکز نکال دیا گیا تھا، گویا اس کے توارثی پیغام کو رد کردیا گیا۔ اس طرح ایک تیسری بھیڑ بچہ پیدا ہوا، جو حیاتیاتی تمثیل کا ایک تہلکہ خیز کارنامہ رہا۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے راقم السطور کا مضمون مؤرخہ ۲۳ ؍ مارچ ۱۹۹۷ء ؁ ’’سیاست‘‘) یہاں قرآنی نقطۂ نظر اس نفس مسئلہ میں پیش کرتا ہے کہ ’’مرد‘‘ کے عمل دخل کے بغیر صرف ’’مادہ‘‘ کے ذریعہ بھی تولیدی عمل ہوسکتا ہے، جو اللہ کی قدرت سے بعید نہیں، چنانچہ قرآن حکیم نے چودہ سو سال قبل ہی ایسے امکانات کی طرف اشارہ کردیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹر ویلمٹ نے حسبِ ذیل آیات ہی سے اپنی تحقیق کے لیے Inspiration حاصل کیا ہو۔ ارشادِ ربانی ہے: (حضرت بی بی مریم) نے کہا کس طرح میرے بچہ ہوگا، حالانکہ مجھے کسی بشر نے چھوا بھی نہیں۔ کہا ویسے ہی (بغیر مرد) کے ہوگا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ جیسا چاہے پیدا فرماتا ہے۔ جب کسی چیز کو پیدا فرمانا چاہتا ہے تو فرماتا ہے کہ ’’ہوجا‘‘ پس وہ ہوجاتی ہے۔‘‘ (آل عمران: ۴۷) آج سائنس کی ترقی و تحقیق کی بدولت ہم اس بات کا ادراک کرنے کے موقف میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ’’کن‘‘ (ہوجا) میں کیا رازہ پوشیدہ تھے، بلکہ یہ حقیقت ان اقوام کے لیے ایک تازیانہ ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نعوذ باللہ ’’ابن اللہ‘‘ کہتے ہیں۔ بہرحال Cloning کے اس طریقہ عمل کی یہاں تائید کرنا مقصود نہیں ہے، بلکہ اس قرآنی حقیقت کو واضح کرنا تھا کہ ’’تولیدی عمل‘‘ بغیر مرد کے بھی انجام پاسکتا ہے، جس سے کلامِ الٰہی کے سائنسی اعجاز کا پہلو منور ہوتا ہے۔
سطورِ بالا میں قرآن کے سائنسی اختصاص و امتیاز کو پیش کرنے کی ایک مختصر سی عاجزانہ کوشش کی گئی ہے، تاکہ تعلیم یافتہ سائنسی ذہن، مغرب کی سائنسی ترقی سے مرعوب نہ ہو۔ ویسے اور بھی بہت سے موضوعات جیسے حفظانِ صحت، تغذیہ، طب اور کائنات کی آفرینش وغیرہ رہ گئے ہیں، جن پر آئندہ انشاء اللہ لکھا جائے گا۔ ویسے قرآن حکیم کے تمام تر سائنسی اعجاز و اختصاص کا احاطہ کرنا شخص واحد کے لیے زمان و مکان کے لزوم کے ساتھ صرف دشوار ہی نہیں ، بلکہ ناممکن ہے، کیوں کہ عصر رواں کی تحقیقات کا تو ہم جائزہ لے سکیں گے، لیکن عصر فردا یعنی مستقبل کے تحقیقی انکشافات کو ملحوظ رکھتے ہوئے زمانے کے مدبرین و محققین ہی اس کام کو انجام دے سکیں گے اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔
اس ضمن میں قرآن کریم خود گویا ہے کہ ’’کہہ دو اگر میرے رب کے کلمات کے لیے سمندر بھی سیاہی بن جائے، تو میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں گی اور اس سے قبل کہ سمندر ہی (خشک) ختم ہوجائیں گے، اگرچہ اس کی مدد کے لیے ہم اس جیسا ایک اور (سمندر) لائیں۔‘‘ عصر حاضر کا یہ تقاضہ و مطالبہ ہے کہ ہم نئی نسل کو علوم جدید سے آراستہ کریں، نئی ٹیکنالوجیز کی تحصیل ہو اور اسی کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رہے کہ وہ اسلامی علوم سے بھی درجہ بہ درجہ صلاحیت کے مطابق آراستہ ہوتے رہیں۔ ادھر دینی مدارس بھی اس بات کا اہتمام کریں کہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء کو عصری علوم سے بھی آگہی ہو، کیوں کہ جب کسی قوم کو علمی قیادت نصیب ہوتی ہے تو خودبخود دوسری قیادتیں اس کی ماتحت بن جاتی ہیں۔
Dr. Mohiuddin Hbibi
mohiuddin habibi

Share

One thought on “قرآن حکیم کا سائنسی اعجاز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرمحی الدین حبیبی”

Comments are closed.

Share
Share