چوتھی قسط : حقیقتِ نماز اور مقصدِ نماز :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

چوتھی قسط
حقیقتِ نماز اور مقصدِ نماز

مفتی کلیم رحمانی
پوسد (مہاراشٹر) الہند
09850331536

حقیقتِ نماز اور مقصدِ نماز کی تیسری قسط کے لیے کلک کریں

قرآن کے اکیسویں پارے کی پہلی آیت کی تشریح ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔اِنَّ الْصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ ، یعنی بیشک نماز روکتی ہے بے حیائی اور بُرے کاموں سے، چونکہ نماز کا پیغام نمازی کے لئے بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکنے کا باعث بنتا ہے اس لئے نماز کے متعلق یہ بات کہی گئی ، لیکن یہ کیفیت بھی نمازی کے اندر اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب کہ اس کو اپنی نماز کے پیغام کا علم ہوگا۔

نماز کے علم میں خصوصیت کے ساتھ منکرات کا علم ہے اس لئے کہ مذکورہ آیت و حدیث میں نماز کو برائیوں سے روکنے والی چیز قرار دیا گیا ہے لیکن یہ افسوس ہے کہ ابھی زیادہ تر نمازیوں کو خود اپنی زندگی میں موجود اور معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کا علم نہیں ہے اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان نمازیوں میں برائیوں کو جاننے کا جذبہ تک نہیں پایا جاتا جب کہ سورۂ فاتحہ کی آخری آیت جو کہ ہر نماز کی بھی آیت ہے ، غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الْضَّآلِّیْنَ کہہ کرہر نمازی نے ہر طرح کی گمراہی اور برائی سے واقف ہونے اور بچنے کا تقاضہ اپنے اوپر عائد کر لیا اب اگر وہ ہر طرح کی گمراہی اور برائی سے واقف نہیں ہورہا ہے تو خود وہ اپنی نماز کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور ظاہر ہے جو خود اپنی نماز کی خلاف ورزی کرے اس کی نماز کیسے اسے برائیوں سے بچا سکتی ہے؟
اسی طرح اِھِدِنَا الْصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کہہ کر ہر نمازی نے زندگی کے تمام شعبوں میں نیکی کے راستہ سے واقف ہونے اور اسے اختیار کرنے کی ذمہ داری اپنے اوپر
عائد کر لی ، اب اگر وہ زندگی کے تمام شعبوں میں نیکی کے راستہ کا علم حاصل نہیں کرتا ہے تو وہ صریح طور سے اپنی نماز کی خلاف ورزی کر رہا ہے ، گویا کہ ایک نمازی کیلئے ضروری ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق دین اسلام کی تعلیمات کا علم حاصل کرے اور اس پر عمل کرے اسی طرح ایک نمازی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق غیر اسلامی چیزوں کا علم حاصل کرے اور ان سے بچے ، لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ بہت سے نمازیوں نے نماز کے علم میں ابھی زندگی کے متعلق سیدھے اور غلط راستہ کو جاننے کو شامل ہی نہیں کیا بلکہ صرف نماز کی ادائیگی کے طریقہ اور فرائض و واجبات و سنتوں کو جاننے کو ہی نماز کا مکمل علم سمجھ لیا، جب کہ یہ صرف نماز کی ادائیگی کا علم ہے اور اللہ تعالیٰ نے صرف نماز کو ادا کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ نماز کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے اس لئے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ نماز پڑھنے والے نماز کو زندگی میں قائم کرنے کا بھی علم حاصل کرے تاکہ زندگی میں نماز عملی لحاظ سے بھی قائم ہو اور نماز کے متعلق اللہ کا حکم بھی پورا ہو۔
نماز کے اسی اقامت کے تصور کی بناء پر ماضی میں مسلمانوں میں کسی گناہ اور برائی کے سرزد ہونے کی بناء پر علماء اور مفتیان کرام سے یہ پوچھنے کا رجحان عام تھا کہ فلاں شخص فلاں برائی میں مبتلا ہے تو اس کی نماز درست ہے یا نہیں تو علماء اور مفتیان کی طرف سے جواب آتا تھا کہ اس شخص کی نماز درست نہیں ہے تو ظاہر ہے نہ یہ سوال نماز کی ادائیگی کے درست اور نا درست ہونے کے متعلق کیاجاتا تھا اور نہ جواب نماز کی ادائیگی کے درست اور نادرست کے متعلق دیا جاتا تھا ، بلکہ یہ سوال نماز کے قائم ہونے اور نہ ہونے کے متعلق کیا جاتا تھا اور جواب بھی نماز کے قائم ہونے اور نہ ہونے کے متعلق دیا جاتا تھا لیکن مسلمانوں
میں اب برائی اور گناہ کے سرزد ہونے کی صورت میں علماء اور مفتیان کرام سے نماز کی درست ہونے اور نہ ہونے کے متعلق سوال کرنے کا رجحان بھی بہت کم ہو گیاہے، اور علماء و مفتیان کرام کی طرف سے نماز کے درست ہونے اور نہ ہونے کے جواب کا رجحان بھی بہت کم ہو گیا ہے اس کی اصل وجہ یہی ہیکہ نماز کو صرف ایک ادائیگی کی عبادت کے طور پر سمجھ لیا گیا ہے جب کہ وہ پورے دین کی ایک نمائندہ عبادت ہے اور اس کا مقصد زندگی میں اس کو قائم کرنا ہے۔ماضی قریب کے ایک اسلامی مفکر اور شاعر اسلام علامہ اقبالؒ نے بھی نماز کے اسی وسیع تصور کو جا بجا اپنے کلام میں پیش کیا ہے اور ساتھ ہی نماز کے ناقص تصور پر جابجا طنز اور تنقید بھی کی ہے چناچہ ایک جگہ فرماتے ہیں۔
سطوتِ توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی
وہ نماز یں ہند میں نذرِ برہمن ہوگئیں
مذکورہ شعر کے پہلے مصرعہ میں جہاں علامہ اقبالؒ نے دین میں نماز کے وسیع تصور کو پیش کیا وہیں دوسرے مصرعہ میں ہندوستان میں نماز کا جو محدود تصور اور برہمنی کرَن ہو گیا اس پر طنز بھی کیا ہے ۔ علامہ اقبالؒ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو نمازیں کبھی دین اسلام کی سر بلندی کا ذریعہ تھی وہی نمازیں ہندوستان میں صرف پرستش کا ذریعہ ہو گئیں، جس طرح برہمنوں کے پاس مندروں میں پوجا پاٹ کا تصور ہے، کہ اس پوجا کا نظام زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تو ہندوستانی مسلمانوں نے بھی مسجد میں نماز کے نام پر کی جانے والی عبادت کو نظام زندگی سے الگ کر دیا، جب کہ نماز اسی لئے فرض ہوئی کہ پوری زندگی اس کے مطابق گذرے، ایک اور شعر میں علامہ اقبالؒ نے نماز کے اسی ناقص تصور پر تنقیدکی چنانچہ فرماتے ہیں۔
مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدہ کی اجازت
نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
مُلّا کا لفظ فارسی زبان میں دین کا علم رکھنے والے کیلئے استعمال ہوتا ہے جس کو اردو میں عالم کہتے ہیں، علامہ اقبالؒ نے مذکورہ شعر میں ہندوستانی علماء کے ناقص تصور دین پر تنقید کی ہے کہ انہوں نے نماز کی ادائیگی کی اجازت کو اسلام کی آزادی سمجھ لیا جب کہ اسلام کی آزادی بالکل اور چیز ہے اور نماز کی ادائیگی کی اجازت اور چیز ہے ، اسی قبیل کے ایک اور شعر میں فرماتے ہیں۔

قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے ؟
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام

مذکورہ شعر میں بھی علامہ اقبالؒ نے ائمہ کے ناقص تصور دین کو واضح کیا کہ انہوں نے صرف نماز کی ادائیگی کی امامت کو قوم کی امامت کے قائم مقام سمجھ لیا جب کہ نماز کی ادائیگی کی امامت اور چیز ہے اور قوم کی امامت بالکل اور چیز ہے ، یقیناًنماز کی امامت کے ساتھ قوم کی امامت کا تصور بھی جُڑا ہوا ہے لیکن وہ صرف نماز کی ادائیگی کی امامت کے ساتھ نہیں جُڑا ہوا ہے بلکہ نماز کے وسیع تصور کی امامت کے ساتھ جُڑا ہوا ہے جس میں نماز کو معاشرہ میں قائم کرنے کا عمل بھی شامل ہے۔ علامہ اقبالؒ کے مذکورہ اشعار سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ علامہ اقبالؒ نے ’ہند‘ کا لفظ پاکستان کے پس منظر میں استعمال کیا ہے بلکہ علامہ اقبالؒ کے مذکورہ اشعار آج سے تقریباً ایک سو سال پہلے کے ہیں جب کہ پاکستان او ر بنگلہ دیش کا کوئی وجود نہیں تھا اور یہ دونوں ملک بھی ہندوستان ہی کا حصہ تھے، خود علامہ اقبالؒ کا انتقال ۱۹۳۸ ؁ء میں ہوا یعنی پاکستان کے وجود میں آنے سے نو سال پہلے اس لئے کہ پاکستان کا وجود ۱۹۴۷ ؁ء میں ہوا۔ اور کسی کو یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونی چاہئے کہ علامہ اقبالؒ نے
ہندوستانی علماء و ائمہ پر خوامخواہ تنقید کی ہے بلکہ خود علامہ اقبالؒ کے دوسرے اشعار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علامہ اقبالؒ نے تنقید برائے نصیحت کی ہے اور نہایت درد و دلسوزی کے ساتھ علامہ اقبالؒ نے ہند کے علماء ائمہ اور عوام کو نماز کے وسیع تصور کا پیغام دیا ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔

خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو
وہ سجدہ جس میں ہے ملت کی زندگی کا پیام

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا

الفاظ و معافی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلّا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور

رہ گئی رسم اذاں روحِ بلالیؓ نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی

مسجد یں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصاف حجازیؓ نہ رہے

تیری نماز بےُ سرور تیرا امام بے حضور
ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر

جو میں سرسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملیگا نماز میں

جیسا کہ اس سے پہلے یہ بات عرض کی جا چکی کہ انسانی اور اسلامی زندگی کا کوئی تقاضہ ایسا نہیں ہے جو نماز میں شامل نہ کیا گیا ہو۔
انسانی اور اسلامی زندگی کا ایک اہم تقاضہ یہ ہے کہ انسان کے سامنے دن بھر میں وقفہ وقفہ سے اللہ کے ایک معبود ہونے اور محمدﷺ کے رسول ہونے کی دعوت دی جائے ساتھ ہی مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد میں حاضر ہونے کا اعلان ہو، چنانچہ اس ضرورت کا انتظام اللہ تعالیٰ نے ہر فرض نماز سے پہلے اذان کا حکم دیکر کر دیا ، چنانچہ اذان میں جہاں نماز کا اعلان ہے وہیں اسلام کی دعوت بھی ہے بلکہ اذان کے پندرہ کلمات میں سے صرف دو کلموں میں نماز کا اعلان ہے بقیہ تیرہ کلمات میں اسلام کی دعوت ہے اور وہ بھی بہت جامع انداز میں یہی وجہ ہے کہ اذان کے بعد کی دعا میں اذان کو مکمل دعوت قراردیا گیا ہے چنانچہ آنحضورﷺ سے اذان کے بعد کی جو دعا منقول ہے اس میں اَللّٰھُمَّ رَبَ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ کے الفاظ ہیں (یعنی اے اللہ اس مکمل دعوت کے رب ،)مطلب یہ کہ اذان کے کلمات میں مکمل اسلام کی دعوت ہے، کاش کہ مسلمان شعوری طور سے اذان کے تمام کلمات کا مفہوم و مطلب سمجھ لیں تو دن میں سے پانچ مرتبہ انہیں اسلام کی مکمل دعوت کا شعور حاصل ہو جائیگا ، اسی طرح مسلمان اگر غیر مسلموں کو اذان کے کلمات کا مفہوم و مطلب سمجھا دیں تو روزانہ ان کے سامنے اذان کی آواز کے ذریعہ پانچ مرتبہ اسلام کی مکمل دعوت پہونچ جائیگی اس کے باوجود اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو وہ خود اس کے ذمہ دار ہوں گے مسلمانوں پر ان کے اسلام قبول نہ کرنے کا الزام نہیں آئیگا، کیونکہ مسلمانوں نے دن میں سے پانچ مرتبہ انہیں اذان سنا کر اسلام کی دعوت پہونچادی، لیکن افسوس ہے کہ ابھی خود مسلمانوں نے اذان کے تمام کلمات کا مفہوم و مطلب پورے طور پر نہیں سمجھا اور اگر کچھ مسلمانوں نے سمجھا بھی تو ان میں سے بہت کم لوگوں نے اذان کے کلمات کی دعوت قبول کی
اذان کے پہلے کلمہ کی دعوت ہی اَللّٰہُ اَکْبَرْ کی دعوت ہے اور یہی کلمہ اذان میں سب سے زیادہ دُہرایا جاتا ہے یعنی ایک اذان میں چھ مرتبہ جس کے معنی اللہ سب سے بڑا ہے، اور صرف ذات کے لحاظ سے بڑا ہونے کے نہیں ہے بلکہ حکم کے لحاظ سے بھی سب سے بڑا ہونے کے ہے ، اب جائزہ لیا جاسکتا ہے کہ کتنے پنجوقتہ نمازیوں اور تہجد گزاروں نے زندگی کے تمام معاملات میں اللہ کے حکم کو سب سے بڑا سمجھا ہوا ہے، زندگی کے تمام معاملات میں اللہ کے حکم کو سب سے بڑا سمجھنا تو درکنار بہت سے پنجوقتہ نمازی اور تہجد گزار ان افراد اور تحریکات کی مخالفت کرتے ہیں جو زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ ہی کے حکم کو سب سے بڑا ماننے کی بات کرتی ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ ابھی بہت سے پنجوقتہ نمازیوں اور تہجد گزاروں نے بھی اذان کے پہلے کلمہ کی دعوت کو پورے طور پر قبول نہیں کیا بلکہ صرف عبادت کے شعبہ میں قبول کیا ہوا ہے، جب کہ اذان کے پہلے کلمہ کی دعوت ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کے حکم کی بڑائی تسلیم کی جائے چاہے وہ معاملات کا شعبہ ہو یا تجارت کا شعبہ ہو یا سیاست کا شعبہ ہو، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں میں اذان کی دعوت کو سمجھنے اور قبول کرنے کی تحریک چلائی جائے، اس لئے کہ انسانوں اور مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل اذان کی دعوت کو سمجھنے اور قبول کرنے میں ہے۔

Share
Share
Share