افسانہ : عذاب :- ڈاکٹر صفیہ بانو ۔اے ۔شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو

افسانہ :
عذاب

ڈاکٹر صفیہ بانو ۔اے ۔شیخ

انسان کی خوبصورتی محض اس کے رنگ و روپ میں ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کی خوبصورتی کا اصل مغز اس کے کردار میں چھُپا ہوا ہوتا ہے ۔ جس طرح انسان کی زندگی میں اس کی خوبصورتی معانی رکھتی ہے ٹھیک اُسی طرح اس کا کردار بھی اس کے لیے بہت ہی اہمیت رکھتا ہے ۔

ایسی باتیں میری ماں مجھے اکشر و بیشتر بتایا کرتی تھی، لیکن میں نے کبھی ان پر غور ہی نہیں کیا ۔ہم جس معاشرے میں رہتے ہے وہاں لڑکیوں کے لیے قائدے بنائے گئے ہیں مثلاً لڑکیاں خوبصورت ہونی چایئے ، تعلیم یافتہ ہونی چاہیے ،سیلائی ، کڑھائی، بُنائی جیسے ہنر آنے چاہیے وغیرہ وغیرہ ۔
اچانک اس روز مجھے بہت بے چینی ہونے لگی ۔ میں سمجھ نہیں پارہی تھی کہ آخر ہونے والا کیا ہے ؟ اُس سے پہلے کچھ جاننے کی کوشش کرتی کہ ہمارے پڑوسی قریشی جمال کی امّی کے چیخنے کی آواز سنائی دی۔ وہ بار بار بچاؤ بچاؤ ،ارے میری بیٹی کو کوئی بچاؤ ،دیکھتے ہی دیکھتے ناہید ہ آگ کی لپٹوں میں پوری طرح جھلس چکی تھی۔ آخر کار ناہیدہ آگ کی لپٹوں میں آئی کیسے ؟،میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا ۔ اِدھرناہیدہ کی امّی بے ہوس ہوگئی اور اُدھر ناہیدہ کو ہسپتال لے جایا گیا ،لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی ۔ناہیدہ کی موت ایک سنسی خیز موت بن کر رہ گئی ۔اُس روز کے بعد یک بعد دیگر محّلے کو لوگ اپنا اپنا مکان بیچ کر دوسری جگہ منتقل ہونے لگے۔ دیکھتے دیکھتے رحیم چاچا سے لر کے کریم چاچا بلکہ اب تو غفّار بھائی اور ملیک صاحب بھی اس محلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے ۔جب سے ناہیدہ کیا آگ کی لپٹوں میں جلی کہ سارا محلہ اسکی موت کی دہشت میں درہم برہم ہوگیا ۔
میں اُس حادثے کی بھول چکی تھی۔ میں نے سی بی آئی آفیسر بننے کی خواہش میں، میں نے سائنس کا مضمون اختیار کرکے پڑھائی کی تھی، جس کے بعد محکمہ پولیس میں سی بی آئی چانچ آفیسر کی حیثیت سے میرا تقرر ہوگیا ۔سب سے پہلے میں نے رشیدنامی نوجوان لڑکے کا کیس سول کیا ،آخر رشید کی موت محض حادثہ تھی کہ یا پھر سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا قتل ؟ دراصل یہ ساری سازش رشید کے امّی کے بھائی کی تھی جو رشتے میں رشید کے ماماجی ہے ۔ رشید کے ماماجی عرف سلیم خان جو اپنی لڑکی نازیہ کا رشتہ رشید سے کروانا چاہتے تھے مگر رشید نے نازیہ کو ناپسند فرمایا۔ یہ بات اس کے ماماجی کو ناگوار گزری اور انہوں نے ہی ترکیب لڑاتے ہوئے اس کی گاڑی کے بریک فیل کروادئیے تاکہ وہ ایک حادثہ سمجھا جائے ،اس کام کے لیے میکینک کو رشیدکے ماماجی نے دس ہزار نقدرقم دیے تھے ۔تفتیش سے سارے راز کھُل کر سامنے آگئے ۔ رشید کے ماما جی نے اپنا گناہ قبول کرلیا۔ اُسی عوض میں اُس کے ماما جی کو عمر قید کی سزا ہوگئی۔
میرے ہاتھوں میں جب ناہیدہ کی کیس فائل آئی تو میں تھوڑی دیر کے لیے میں بے حس ہوگئی ۔لیکن میں نے جب اُس کا کیس پڑھا تو اندازہ ہواکہ ناہیدہ آگ کی لپٹوں میں جھلسائی گئی ۔ میں نے اس کیس کو اچھی طرح پڑھا ، میں اُس وقت پڑھائی کو لے کر پریشان تھی اسی لیے اُس بات کو اس نظر سے دیکھا ہی نہیں ،خیر اب ناہیدہ کی موت کا کیس سلجھ جائے گا کہ ناہیدہ کی موت محض حادثہ تھی کہ پھر سوچی سمجھی سازش ؟دراصل ناہیدہ کی موت کے بعدسارا محلہ ویران ہوگیا کیونکہ اس کی موت کو اندھے عقائد نے اس قدر بڑھاوا دیا کہ وہ ا ب بھی ناہیدہ کی روح بھٹکنے کا دعویٰ کرتے ہے ۔ناہیدہ کی والدہ نے جاتے وقت ہمیں اپنے دوسرے گھر کا پتہ دیا تھا ۔ میں نے فوراً اس پتے کو تلاش کرکے وہاں پہنچ گئی ، ناہیدہ کی والدہ نے مجھے پہچاننے سے انکار کردیا ۔لیکن جب میں نے انھیں کمالالدین خاں میرے والد اور میری والدہ آمنہ خاتون کا نام لیا تب جاکر انہوں نے صباکہہ کر بلایا ،اچھا تو تم ہمارے پرانے پڑوسی کی بیٹی ہوں ۔ ناہیدہ کی والدہ نے میرے امیّ اور ابّو کی خیریت معلوم کرنے کے بعد کیسے آنا ہوا سوال کیا ؟ میں نے ان سے صاف صاف کہہ دیا کہ میں جانتی ہوں جمیلہ خالہ آپ کی بیٹی ناہیدہ کی موت کوئی حادثہ نہیں تھی بلکہ اُس کا قتل ہوا تھا ۔ اتنے میں جمیلہ خالہ کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا ۔ وہ میری اکلوتی بیٹی تھی ۔ نہ جانے اُس وقت کیا ہوا جب وہ باورچی خانے میں چائے کی طلب کو بجھانے کی غرض سے گئی ، بس ایک چیخ کی آواز آئی امّی .!میں کچھ سمجھتی جب تک تو میری بیٹی ناہیدہ آگ کی لپٹوں میں جھلس چکی تھی ۔ میں نے سوال پر سوال پوچھنا شروع کیا تاکہ معلوم ہوسکے کہ معاملہ کیا تھا ۔ناہیدہ نے کالج کے پہلے ہی سال میں داخلہ لیا تھا ،اُس کی ایک عزیز دوست سائمہ اُسے روزانہ ملتی تھی لیکن ناہیدہ کی موت سے دو روز قبل وہ نہ ہی گھر آئی اور نہ ہی اس سے کوئی بات ہوئی ، ویسے بھی ناہیدہ کو نہ توسائمہ بغیر اچھا لگتا تھا اور نہ ہی سائمہ کو ناہیدہ کے بغیر ۔ لیکن جب سے ناہیدہ کی موت ہوئی وہ ایک بار بھی ملنے نہ ہی گھر آئی اور نہ ہی کبھی فون کیا ۔
جمیلہ خالہ یہ بتائے کہ ناہیدہ کو کوئی لڑکا پریشان کرتا تھا؟ ،تم تو جانتی ہوں ناہیدہ کا ماحول ان عام لڑکیوں سے بالکل الگ تھلگ تھا ۔اور ویسے بھی وہ ویمنس کالج میں پڑھتی تھی،ہاں لیکن کہیں راستے میں کوئی منچلہ یاپھر کوئی حیران کرنے والا جو اُسے دھمکا رہا ہوں ، آخر کیا وجہ تھی ۔ اِس کے ابّو خود ہی چھوڑنے جاتے تھے اور لینے بھی آتے تھے کیونکہ ناہیدہ کو پڑھنے کا بہت شوق تھا اور وہ اس کے ابُو کی جان تھی ۔اس کے ابّو کو اس کے پڑھائی کے شوق سے بہت دلچسپی تھی وہ کہتے تھے کہ یہ آنے والی نسل کی رہبر بنے گی ۔ آج کے زمانے میں اپنی بیٹی کو لے کر ایسے خیالات کون رکھتا ہے؟ ،میں نے کہاں جمیلہ خالہ میں خود بھی اس کی جیتی جاگتی گواہ ہوں آج زمانہ بدل گیا ہے آج کل تو لڑکیوں کو زیادہ پڑھایا جارہا ہے ورنہ وہ بھی ایک زمانہ تھا کہ لڑکیوں کے پیدا ہوتے ہی دفن کردیا جاتا تھا ، جمیلہ خالہ نے چُپّی توڑتے ہوئے کہا کہ آج بھی لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے معاملات پوری طرح بند نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کے ساتھ بد سلوکی کا رویّہ کم ہوا ہے ۔یہ کسی عذاب سے توکم نہیں ہے۔ میں جمیلہ خالہ کی بات سے پوری طرح متفق تھی کیونکہ آج بھی ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی حفاظت کے لیے لوگ پیچھے ہٹ جاتے ہے بعض اوقات تو تماشہ بنے پھرتے ہے تو بعض دفعہ گناہگاروں کے ساتھ ملوث ہو کر اپنی دشمنی کو بھی نکال لیتے تھے ۔ اس بات سے ایک اور بات سامنے آئی کہ ناہیدہ کا کسی سے جھگڑا یا اُس کے ابّو سے کسی کی عداوت ۔مجھے اس بات کا کوئی علمی نہیں صبا بیٹی ۔
آخر ناہیدہ کی موت کی گُتھّی کیسے سلجھے گی ۔ ناہیدہ ایک شریف خاندانی لڑکی تھی اوراس بات کو میں اچھی طرح جانتی تھی لیکن اب بھی ناہیدہ کی موت عذاب بھرا سوال بن کر میرے سامنے کھڑی تھی ۔ میں نے جمیلہ خالہ سے اجازت لیتے ہوئے گھر کے باہر نکل ہی رہی تھی کہ میری نظر اُس لڑکی پر پڑی ،جس کا چہرہ بالکل نیا تھا میں نے فوراً جمیلہ خالہ سے سوال پوچھا کہ یہ لڑکی کون ہے ؟ تب انہوں نے مجھے بتایا کہ ناہیدہ کے گزرجانے کے بعد ہم نے اسے ہی اپنی ناہیدہ سمجھ کر یہی رکھ لیا ہے اب یہ میری بیٹی نعیمہ ہے اور تھوڑے ہی دنوں کے بعد یہ بھی ناہیدہ کی طرح پڑھائی کرکے ڈاکٹر بننے والی ہے جمیلہ خالہ نے نعیمہ سے میرا تعارف کروایا ’یہ صبا بیٹی ہے، بلکہ اب یوں کہہ لو کہ تمہاری بڑی بہن ۔ نعیمہ کے جانے کے بعد میں نے پوچھ لیا کہ یہ نعیمہ کس کی بیٹی ہے؟ تب جمیلہ خالہ نے بتایا کہ تمہیں معلوم ہے ہمارے گھر میں نسیم آپا جو میرے ساتھ میری شادی کے وقت جہیز میں آئی تھی دکنی علاقوں میں پہلے یہ رواج تھا کہ لڑکیوں کی شادی کے وقت ان کے یہاں کام کرنے والی خادمہ کو بھی ساتھ میں ہمیشہ کے لیے بھیجا جاتا تھااور تمہاری نسیم آپا میری شادی کے ساتھ ہی ہمیشہ کے لیے چلی آئی تھی۔ حالانکہ میں نے ورنگل آنے کے بعد اس کی شادی بھی اچھے گھرانے میں کرائی تھی۔ جب اس کی شادی ہوئی اور اُس کو لڑکی پیدا ہوئی تو اُس کے شوہر نے اُسے طلاق دے کر گھر سے باہر نکال دیا تھا ، لیکن تمہاری نسیم آپادوبارہ میرے پاس واپس آگئی اور بس یہی کہ ہو کر رہ گئی ۔ اب نسیم آپا کہا ہے ؟ جمیلہ خالہ نے بتایا کہ وہ کسی بات کو لے کر ہمیشہ پریشان رہتی ہے اور ہر وقت عبادت اور نیک کام کرنے میں مصروف رہتی ہے ،ویسے میری ناہیدہ اور نعیمہ بس دو ایک برس کی چھوٹی بڑی تھی اسلئے دونوں کے رہن سہن میں کبھی فرق نہیں کیا تھا ۔ ناہیدہ اور نعیمہ دونوں ہی میرے لیے آنکھوں کا نور تھی ۔جمیلہ خالہ یہ بتائے کہ ناہیدہ کے حادثے کے وقت یہ دونوں ماں بیٹی کہاں تھی ؟نعیمہ ہمارے ساتھ باغیچے میں تھی اور تمہاری نسیم آپا کسی کام سے باہر گئی تھی ،مجھے ٹھیک سے یاد نہیں آرہا ہے ،خیر ناہیدہ کو چائے کی طلب ہوئی تو وہ باورچی خانے میں گئی ،اُس کے بعد کیا ہوا معلوم نہیں ۔اتنے میں نسیم آپا سلام عرض کرتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی ، جمیلہ خالہ نے مجھے کہا صبا بیٹی تھوڑی دیر اوررُک جاؤ۔ اب تو تمہاری نسیم آپا بھی آگئی ،تم لوگ باتیں کرو میں ابھی آتی ہوں کہہ کہ جمیلہ خالہ وہاں سے چلی گئی ۔ میں نے نسیم آپا سے سیدھے ہی سوال داغ دیا کہ ناہیدہ کی موت کے بارے میں آپ کچھ جانتی ہے ،نسیم آپا کے چہرے کا رنگ بدل سا گیا بلکہ چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی اور پسینے کی بوند ٹپ ٹپ کرتے پر گرنے لگی ۔ میں ابھی آتی ہوں کہہ کر وہاں سے جانے کی کوشش کرنے لگی، لیکن میں نے نسیم آپا کا ہاتھ کش کے پکڑ لیا تاکہ سارا سچ معلوم کر سکوں ۔ نسیم آپا نے مجھے کہا مجھے معاف کردو ، ناہیدہ کا قتل میری سازش تھی ۔ جمیلہ کو ناہیدہ کے باپ کا پیار و ایثار مل رہا تھا لیکن نعیمہ اس سے محروم تھی ۔ اس بات کو میں کیسے بھول سکتی ہوں ۔ تمہاری جمیلہ خالہ کی شادی سے قبل ہی سے میں ان کے گھر اپنی امّی کے ساتھ کام کیا کرتی تھی لیکن شادی کے بعد مجھے میری مرضی جانے بغیر مجھے جہیز کے ساتھ بھیج دیاگیا تھا۔یہ میری لیے کسی عذاب سے کم نہ تھا۔لیکن یہاں آنے بعدمیں بہت خوش تھی تمہاری جمیلہ خالہ خود بہت نیک اور اچھی خاتون ہے وہ میری ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھی اور اس نے میری شادی بھی اچھے گھرانے میں میری مرضی جاننے کے بعد کرائی تھی لیکن میری زندگی میں سب سے بڑا عذاب تب آیا کہ جب میرے شوہر نے لڑکی کے پیدا ہونے پرمجھے گھر سے طلاق دے کرنکال دیا ۔ میں دوبارہ جمیلہ کے پاس آکر رہنے لگی ،میرے دل میں جمیلہ کے خوشحال گھر کو دیکھنے کے بعد جلن سی ہونے لگی ،ناہیدہ جیسی زندگی میں اپنی بیٹی نعیمہ کے لیے سوچتی تھی لیکن ابھی تک تو سب ٹھیک ہی چل رہا تھا کیونکہ جمیلہ میری بیٹی کو بھی ناہیدہ سے کبھی کم نہیں سمجھتی تھی ۔ وہ جیسا ناہیدہ کے لیے خریدوفروخت اور پسند اور ناپسند کا خیال کرتی تھی ویسا ہی نعیمہ کا خیال رکھتی تھی ۔پھر ایسا کیا ہوا کہ ناہیدہ کا تم نے قتل ہی کردیا ؟میں بتاتی ہوں چند روز قبل ہی جمیلہ کی بہن صادیہ گھر میں رہنے آئی تھی حالانکہ شروعات میں وہ سیدھے رہنے لگی لیکن آخر میں اُس نے اپنے جانے سے قبل وہ زہر گھولا کہ جنت جیسے گھر کو عذاب میں مبتلا کرکے چھوڑا ، اس نے میرے اور جمیلہ کے قریبی کو غریبی کا اور خاندانی پن کا طعنٰ دے دے کر ہم دونوں کے درمیان من مٹاؤ کھڑا کروادیا ، اُس نے حد پارتب کرڈالی کہ ناہیدہ اور نعیمہ میں زمین و آسمان کا فرق ڈال دیا وہ مجھے اور میری بیٹی کو ادنیٰ ذات کہا اور کہنے لگی کہ ٹاٹ کا پے بند کبھی ململ کے کپڑے پر نہیں جچتا ۔ بس اُس کا یہ کہنا میرے حسد کو اور بڑھاوا دے گیا ۔میں نے بھی ٹھان لی تھی کہ ناہیدہ کی جگہ اب میری بیٹی نعیمہ کی ہوگی ۔
میں نے اُس روز باورچی خانے میں گئی اور گیس کی پائپ نکال کر ساری بجلی کی چاپے بند کرکے وہاں سے بازار کا بہانا کرکے چلی گئی مجھے معلوم تھا کہ ناہیدہ کو چائے کی طلب ہورہی تھی جیسے ہی وہ باورچی خانے گھُسی اور بجلی کی چاپ چلائی ،آگ نے اُسے پکڑ لیا اور بس مجھے معاف کردو ،میں برسوں سے اسی عذاب میں جھلس رہی ہوں کہ میں نے جو ناہیدہ کے ساتھ کیا وہ صحیح نہیں تھا ، اتنے میں جمیلہ خالہ نے وہ ساری باتیں سن لی ۔ تب جمیلہ خالہ نے نسیم آپا سے کہا کہ تم نے مجھے یہ عذاب دیا ۔ لیکن نسیم آپا نے ایک بار پھر سے جمیلہ خالہ سے کہا کہ میری بیٹی نعیمہ کا خیال رکھنا ،میرے گناہ کی سزا اُسے مت دینا ۔مجھے تم پر پورا بھروسا ہے۔ ناہیدہ کا کیس سول ہوگیا کہ نسیم آپا کو گرفتار کیا گیا اور عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔ جمیلہ خالہ اور نعیمہ زور زور سے رونے لگی ۔نعیمہ اپنی ماں کے کیے کام کے عذاب کو جھیلتی رہی ۔وہیں جمیلہ خالہ اور ان کے شوہر بھی نعیمہ کو دیکھ کر ایک عجیب سے عذاب میں مبتلا رہنے لگے ۔
—–
Dr. SufiyaBanu .A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 09824320676
Email :

Share
Share
Share