کہانی : نکاح کا پیغام :- جمشید احمد میاں

Share
جمشید احمد میاں

کہانی : نکاح کا پیغام

جمشید احمد میاں
سینٹرل یونیو رسٹی آف کشمیر

بلال اور جمشید بچپن سے ہی ایک دوسرے کے مخلص دوست رہے ہیں دوستی کی عظمت ان کے دلوں میں پیوست ہو چکی تھی اور اب کالج کا دور بھی ختم ہوا جا رہا تھااور یو نیو رسٹی میں پڑھنے کا ماحول انہیں مل چکا تھا،اسی دوران دوستوں میں کسی بات پر ناراضگی کا مسلہ ہوگیا۔ بلال بچپن سے ہی شرارتی تھااور جمشید اس کی شرارتوں کا اکثر نشانہ بنتا تھا ۔

شاید یہ شرارت عمر کے ساتھ بڑھ رہی تھی ۔جمشید نے پہلی بار اپنے دوست سے بے ادبی کا لہجہ اختیار کیا اور تیش میں آ کر بلال کے گال پر تھپڑ مار دیالیکن وجہ کسی کو معلوم نہ ہو سکی کیوں؟بس جمشید یہ کہ گیا کہ ایسا مذاق ؟ اور افسوس کرتا چلا گیا۔کچھ دنوں سے ماں گھر میں جمشید کو مایوس دیکھ رہی تھی۔ایک روز صبح جب وہ چائے پی رہے تھے تو جمشید کی ماں کی نظر اس کی آنکھوں پر پڑی جو لال ہو چکی تھی،بیٹا تیری آنکھیں لال کیوں ہیں؟ماں بولی۔
جمشید کچھ دیر گئے جواب دیا،ماں شاید کل رات کو دیر سے سویا تھا۔
ماں :ارے بیٹا دیکھ کیا حالت بنا رکھی ہے۔جا کر الماری میں اشد کی بوتل ہے آنکھوں کو لگا لینا ۔
ٹھیک ہے ماں لگا لوں گا،ماں کو جواب دے کر اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔کچھ وقت گزر جانے کے بعد جمشید کو خیال آیا کہ کل رات کو وہ کروٹیں بدل بدل کر کسی مسلے پر سوچ رہا تھا،غور و فکر کر رہا تھا،ناکا م تدبیریں بنارہا تھالیکن اپنے مسلے کو حل نہیں کرپارہا تھا۔یہی سوچ رہا تھا کہ اتنے میں بیٹا بیٹا کی آوازیں آنے لگی۔
ماں:ارے بیٹا تمہا ری چھوٹی بہن مینا بول رہی تھی کہ بھائی جان آجکل ہنسی مذاق کم اور ڈانٹتے زیادہ ہے،ہنسی ہنسی میں کھیلنا جھگڑنا تو روز کی بات تھی لیکن بھائی جان سچ میں روٹھ جاتے ہیں اور انہیں چھیڑو تو خفا ہوکر بات کرنی چھوڑ دیتے ہیں لیکن آپ بھائی جان کو مت کہناوہ ناراض ہو جائیں گے۔
جمشید:نہیں ماں وہ ایسے ہی بول رہی ہے۔
اتنے میں جمشید کی بڑی بہن مسرت کہنے لگی ،ماں اب تو ہمارے حضرت بھائی جان سلام کہنا بھی چھوڑ گئے اور ڑر یہ کہ اب سلام کا جواب بھی دیں گے کہ نہیں ۔ابھی ایک والی کی شکایت پوری نہ ہوئی تھی کہ دوسری سیدھا منہ پر کہہ گئی۔
جمشید:ایسی کوئی بات نہیں ۔لیکن ماں بیٹے کا اداس اور الجھا سا چہرہ پڑھ چکی تھی کہ کوئی بات ضرور وہ چپھا رہا ہے لیکن ماں ٹال گئی اور اسے بازار سے کچھ سامان خریدنے کو بھیج دیا۔جمشید وہی اداس چہرہ لئے ہوئے بازار کی طرف چل دیا،اتنے میں سائمہ جو جمشید کے کالج کے دنوں کی عظیم دوست اپنے بھائی جان کی شادی کا دعوت کارڈ لے کر آ ئی تھی اور جمشید کی ماں سے کہ رہی تھی ،آنٹی جمشید کہیں نظر نہیں آرہے؟کچھ دنوں سے اس کا فون بھی ملا رہی ہوں لیکن اٹھاتے ہی نہیں سب خیرت سے تو ہے؟
ماں تھوڑی خاموشی کے بعد،آہستہ آواز میں ،ہاں بیٹا سب ٹھیک ہے۔آپ بیٹھو بس ابھی آتا ہی ہوگا بازار سے۔ ماں کی خاموشی دیکھ کر سائمہ سمجھ رہی تھی کہ ماں کچھ چھپا رہی ہے۔
جمشید بازار سے واپس ہو کر گھر کی طرف لوٹ رہا تھاکہ راستے میں ایک کھڑکی سے جمشید کو دیکھ کر کوئی عورت آنکھیں پھیلا کر برابر تک رہی تھی۔جمشید اس عورت کو دیکھ کر حیران ہو ا اور نظریں جھکا کر اس خیال سے کہ جیسے پہلی بار اسے دیکھا ہو۔خیر جمشید وہاں سے گھر کی طرف چل رہا تھاکہ وہ عورت دوسری عورت سے یوں کہ رہی تھی ’’یہی وہ لڑکا ہے‘‘۔اس جملے نے جمشید کے اندر ہلچل پیدا کر دی،ابھی تک تو اداس ہی تھا اب ایسا لگ رہاکہ کوئی ٹوٹا ہوا مسافرگھر کی طرف لوٹ رہا ہو،بار بار اُس عورت کا یہ جملہ ذہن میں آکر اپنے دوست بلال کی نئی شرارت یاد آگئی اور ذہن میں نہ جانے کیا کیا خیال آنے لگ گئے آپ ہی آپ شرمندہ ہوا جا رہا تھا اور اس کے غموں سے آنکھیں تر ہوئی جا رہی تھی، اپنی عظیم دوست سائمہ کو بھی دیکھ کر نہ رکھ سکی اور روتا ہوا اپنے کمرے میں اس سے بغیر بات کئے چلا گیا یہ دیکھ کر سب حیران ہو گئے۔ماں کا جگر چھلنی ہو گیا،مینا کی شکایتوں کا جواب اس بھائی جان کے رونے میں تھاجو اسے اب سمجھ آ رہا تھاکہ بھائی جان کسی مصیبت سے گزر رہے ہیں۔لیکن جمشید کی ماں باوجود اپنے بیٹے سے واقف قیاس کر گئی شاید ناکام عشق کی داستان ۔۔۔بیٹے پر جو یقین تھا اس کی دھجیاں اڑ ا دیں ایسے مسائل تو آجکل کی نسل میں عام ہو چکے ہیں ،لیکن اپنے آپ سے ہی صلاح لی کہ پہلے اسکے مخلص دوست بلال سے واقف کر آووں۔تیز قدموں سے اپنی اور جمشید کی ماں کو دیکھتاہوا بلال’’آنٹی آپ‘‘۔
ماں:جمشید کچھ دنوں سے پریشان نظر آرہا ہے اور آج تو حد ہی کر دی عورت کی طرح رو رہا ہے مجھے بتاؤ کیا وجہ ہے؟بلال سمجھ گیا کہ وہ میری وجہ سے مایوس ہے،ڑرپوک دوست لیکن روتا کیوں ہیں؟بلال اپنے ہی آ پ سے۔
ماں :بلال مجھے بتاؤ کہیں عشق کا مسلہ تو نہیں ،بلال نہیں آنٹی ایسی کوئی بات نہیں،لیکن اب اسے بھی اپنے دوست کی فکر ہونے لگی۔
ماں:پھر کیا بات ہے؟
اپنے دوست کو اس حال میں نہیں چھوڑ سکتا تھا بلال،اب کہاں جھگڑا یاد رکھتا۔ بلال خود آپ ہی آپ شرمندہ ہوا جا رہا تھا۔آنٹی ابھی جا کر پوچھتا ہوں۔بلال فورا دوست کے گھر جا کر سیدھا جمشید کے کمرے میں چلا گیااور بے ساختہ دوست کو گلے لگا کر کہنے لگا،دوست مجھے معاف کر دو۔وہاں جمشید کے گھر والوں اور اس کی دوست سائمہ کا صبر ٹوٹ رہا تھاکہ آخر معاملہ کیا ہے؟ایسے میں دروازے سے کان کگا کر سب سن رہے تھے۔ماں سوچ رہی تھی کہ آخر بلال کی وجہ سے کیا ہوا ہے؟
جمشید غصے سے ،کس بات کی معافی دوں۔ارے دوست تم نے تو مجھے کسی لایق نہیں چھوڑا ۔ایک تو مجھے بغیر معلوم میرے نام سے خط اور دوسا مجھ سے دس ہزار روپیے لے کر ان کا کیا کیا؟اور بولتے بھی نہیں ہو۔تم دوست ہو ایسا تو دشمن بھی نہ کرے گا! یہ سن کر بلال شرمندہ ہوا جا رہا تھالیکن جو ہونا تھا وہ اس کے ہاتھوں ہو چکا تھا۔
بلال،اب آنٹی کو مت بولنا۔
جمشید’’تم پاگل ہو گئے ہو کیا‘‘۔
ایک لمحے کے لئے دونوں دوست اندر خاموش تھے اور باہر کان دینے والوں کا دل تیز دھڑک رہا تھاکہ اندر کیا باتیں ہو رہی ہیں۔ماں کا صبر ٹوٹ گیا اور دروازہ کھول کر کمرے میں گھس گئیں دونوں گھبرا گئے،ان سے برا حال تو مینا اور سائمہ کا ہو چکا تھا ان بیچاروں کے چہروں کا تو رنگ ہی اڑچکا تھا۔
ماں:صاف صاف بولو کیا بات ہے۔
جمشید:ماں میری کوئی غلطی نہیں،مجھے تو کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔سارا قصور بلال کا ہے۔ ماں کی بے قراری بڑھ رہی تھی ۔۔۔ اچھا،بلال تم ہی بتاؤ کیا بات ہے؟
بلال:آنٹی وہ وہ وہ۔۔۔۔۔۔
ماں غصے سے ، ہاں بولو۔
بلال:آنٹی ان دس ہزار کو میں نے ایک سونے کی انگوٹھی تھی۔
’’ساری پریشانیوں کی وجہ کچھ اور ہیں،اب جھوٹا وہ چھپانے کی کوشش کر کے ماں کو سونے کی انگوٹھی کی کہانی سنا رہا ہے۔جمشید من ہی من میں سوچ رہا تھا۔
ماں : تو پھر
بلال کا حلق سوکھ رہا تھا اور دوسری طرف محفل والوں کے کان سوکھے ہونٹوں کی طرحرکت نما تھے۔
بلال:وہ انگوٹھی میں نے کسی کو دی۔
ماں : تم پاگل ہو گئے ہو ،کیا بک رہے ہو!تمہارا کچھ سمجھ نہیں آتا،ماں کو بڑا غصہ آیا۔
’آج یہ اپنی شرارت سے خود پھٹنے والا ہے ماں اس نے پتہ نہیں کسی لڑکی کو میرا نام بغیر بتائے اظہار محبت کا خط بھیجا تھا،جمشید ایک دم جوش سے بول پڑا ۔یہ سن کر سب کے کان کھڑے ہو گئے۔اتنے میں مسرت جلدی جلدی آکر کہنے لگی ماں ماں کچھ لوگ آئے ہوئے ہیں لیکن اس محفل کی خا موشی دیکھ کر سمجھ گئی کہ اس کی غیر حاضری میں کوئی بم پھٹ چکا ہے۔مسرت حیران تھی پر صرف یہ جملہ کہہ گئی،’’ماں شاید یہ غلط پتے پر آگئے ہیں۔سب سمجھ گئے کہ شاید اس خط کی وجہ سے اب بڑا ہنگامہ ہونے والا ہے۔یہاں گھر والے پہلے ہی جمشید کے لئے پریشان تھے،اب انگوٹھی کی کہانی کے اوپر اظہار محبت کا خط؟
ماں :ان بیوقوفوں کا کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔۔پر آگئے سب کے ہوش اڑنے والے تھے یہ کسی کو نہیں پتا تھا۔
’’جا کر مہمانوں کے لئے کچھ چائے،کافی کا انتظام کرو‘‘ماں بیٹیوں سے۔
ماں جمشید اور بلال کو لے کر مہمانوں کے کمرے میں چلی گئی۔ان میں ایک عورت وہی تھی جو جمشید کو بازار سے گھر آتے دوران ملی تھی ،اسے دیکھ کر جمشید سہم گیا۔وہ عورت جمشید کی طرف دیکھ کر سمجھ گئی کہ وہ شرما رہا ہے۔اتنے میں مسرت،مینا اور سائمہ چائے لے کر آ گئی۔
عورت: آپ نے بلال صاحب کے ہاتھوں جو سونے کی انگوٹھی کے ساتھ اپنے لڑکے جمشید کے لئے’’ نکاح کا پیغام ‘‘بھیجا تھا ہماری لڑکی علیذا کو پسندآیا۔۔۔یہ سن کر سب بلال کی طرف دیکھنے لگے،بلال کی آنکھیں اقرارجرم کر رہی تھی،ماں ساس بن رہی تھی اور بہنوں کو ان کی بھابی جان اور جمشید سوچ رہا تھا کہ نہ جانے کیسی لڑکی ہوگی۔جمشید اپنی ماں اور بہنوں کی اور دیکھ رہا تھا گویا سب کہہ رہے تھے سمجھ داری سے کام لینا،اتنے میں اس عورت نے ماں کی گود میں مٹھائی کی ٹوکری رکھ کر ماں کو مبارک ہو کہا۔بلال ماں اور بہنوں کو پاس بلا کر آہستہ آواز میں جمشید کو’’یار بہت اچھی لرکی ہے مان لینا‘‘ہاں نیک سیرت لڑکی ہے اس لئے تمہارا نکاح کا پیغام بھیجا۔ماں ، بیوقوف اس وقت بتا رہے ہو،گھر والے جمشید کی طرف تڑپتے ہوئے دیکھ کر گویا بول رہے تھے کہ آج قسمت پر ہی چھوڑ دے ۔۔جمشید سمجھ گیاکہ آج بھی وہ بلال کا نشانہ بن چکا ہے یہ سن کر مسکرا یا ۔گھر والوں کی جان میں جان آگئی،بلال کی آنکھوں سے آنسوں ٹپک رہے تھے من ہی من سوچ رہا تھا کہ دوست نے عزت بچالی۔ماں الحمدللہ کہہ گئی۔مہمان یہ سارے اشارے دیکھ کر سمجھ رہے تھے کہ ان سے کوئی لغزش ہوئی ہے۔اب سب کی مسکراہٹ ہنسی میں بدل گئی اور جمشید شرما کر اپنے کمرے سے باہر جانے سے پہلے آہستہ پر غصے سے بلال کے کان میں ’’تو میرے ساتھ آ ‘‘۔

Share
Share
Share