کالم : بزمِ درویش – بدمعاش :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
بدمعاش

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:

ستمبر کا آخری ہفتہ مو سمِ گر ما کی شدت میں کمی آگئی تھی ‘ جان لیوا حبس کے اثرات اب کم ہو تے جارہے تھے بدلتے مو سم کے رنگ دیکھ کر میں بھی قریبی پا رک میں واک کی نیت سے آیا ہوا تھا ۔ بدلتے مو سم کی اداسی شام کا وقت چاروں طرف پراسرار یت کی چادر سی تنی ہوئی تھی –

ایسی پراسراریت میں ایک پر اسرار سا شخص دوران واک کبھی میرے آگے کبھی پیچھے چل کر مجھے اپنی طرف متو جہ کر نے کی پو ری کو شش کر رہا تھا پہلی بار جب ہم دونوں کی شرٹیں ٹکرائیں تو بآواز اسلام علیکم کہا میں نے خو شگوار حیرت کے ساتھ جواب دیا کیونکہ آج کل دوسروں کو سلام بلانے کی عادت آہستہ آہستہ کم ہو تی جا رہی ہے ‘ محبت رواداری مذہبی عقائد پر دنیا داری کے رنگ یعنی خو د پسندی ما دیت پرستی غالب آتی جارہی ہے ‘ اب یہ رسم دیہات میں بھی سکڑتی جا رہی ہے اگر اکا دُکا کوئی شخص سلام بلا ئے تو مخاطب چونک جاتا ہے یہی حالت میری بھی ہوئی تھی میں اِسے اتفاق سمجھ کر نظر انداز کرکے آگے بڑھ گیا لیکن جب دوسری تیسری بار اُس شخص سے ٹکرا ہوا تو مجھے لگا وہ مُجھ سے بات کرنا چاہتا ہے واکنگ ٹریک پر تیسرے چکر کے بعد سبزہ زار پر رکھے گئے لکڑی کے بینچ پر بیٹھ کر میں آرام کرنے لگا ‘ ساتھ ہی ساتھ لمبی لمبی سانسیں لے کر زیادہ سے زیادہ آکسیجن اپنے پھیپھڑوں میں بھرنے لگا اِسطرح میں پسینے میں شرابور اپنے جسم کو آرام دہ حالت میں لاناچاہ رہاتھا اِسی دوران میں آنکھیں بند کئے خود کو ڈھیلا چھو ڑ کر جب سانس لے رہا تھا تو وہی شخص مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا ہو گیا ‘ میں نے اپنے جسم کو زیادہ سے زیادہ آکسیجن دے کر جب اطراف میں نظر دوڑائی تو وہی شخص سامنے کھڑا تھا اب میں حیرت کا شکار ہو گیا تھا مجھے لگا وہ شاید مجھ سے بات کر نا چاہ رہا ہے میں واک کے بعد اب آرام دہ حالت میںآچکا تھا میں اُٹھا اُس کی طر ف بڑھا اور بو لا جناب آپ مُجھ سے بات کر نا چاہتے ہیں تو اُس نے اثبات میں سر ہلا دیا ‘ میں آگے بڑھا اُس سے مصافحہ کیا اُسے ساتھ لے کر واپس ہم دونوں بینچ پر بیٹھ گئے اب میں نے غور سے اُس کی طرف دیکھا چھ فُٹ دو انچ لمبا دیو قامت قد آور شخص جو جوانی میں یقیناًپہلوان یا کبڈی کا کھلاڑی رہا ہوگا اب اُس کی عمر پچاس سال سے زیا دہ لگ رہی تھی ‘ بڑے سائز کی دھاری دار مونچیں گلے میں سونے کا لاکٹ ہا تھ میں را ڈو گھڑی جسم پر بو سکی کا سوٹ پا ؤں میں کھُسہ نما جو تا اُس کی شخصیت میں عجیب سا رعب دبدبہ تھا جو دیکھنے والے کو مؤدب کو دینا لیکن اُس کے چہرے اورآنکھوں کا رنگ اور جسمانی حرکات سے واضح پتہ چل رہا تھا کہ وہ شدید پریشانی کا بلکہ خو ف کا شکا ر ہے ایسے لوگ جب بھی کہیں جا تے ہیں تو اِن کے ساتھ چند لوگ ہو تے ہیں ‘ یہا ں پر اُس کا اکیلا ہو نا ہی بتا رہا تھا کہ وہ معاشرے سے چھپتا پھررہا ہے وہ کسی شدید حادثے یا پریشانی کا شکا ر ہے جس کے مداوے یا حل کے لیے وہ میرے پاس آیا ہے کیونکہ جب سے میں خدمت خلق روحانی سروس کے کام پر خدا کے فضل سے لگا ہوں تو عرصہ ہو گیا مُجھ سے ملنے جو بھی آیا اپنی مشکل پر یشانی کے حل کے لیے ‘ اُس کے چہرے کا خو ف ندامت شرمندگی اور با ادب ہونا اِس چیز کی نشاندہی کررہا تھا کہ معاملات اُس کی حدکے با ہر ہو گئے ہیں وہ بے بسی کے عالم میں میرے پاس آیا ہے ورنہ ایسے لوگ اپنے معاملات اپنے زورِ بازو پر ہی حل کرلیتے ہیں وہ سر جھکا ئے میرے ساتھ بیٹھا تھا الفاظ ڈھونڈ رہا تھا لیکن زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی اُس نے دو تین بار میری طرف دیکھا پھر بولا جناب ہمت نہیں ہو رہی اپنی مشکل کس طرح بتا ؤں ‘ کا ش اِس سے پہلے مجھے مو ت آجاتی ‘ کاش میں مر جاتا پھر اُس نے اپنے ہاتھ میرے سامنے جوڑ دئیے اور بولا پروفیسر صاحب خدا کے لیے میری مدد کر یں میں اپنی ہر غلطی سے تو بہ کر تا ہوں میں کبھی کو ئی گنا ہ یا غلطی نہیں کروں گا میں جو درندوں کی طرح انسانوں کو گاجر مو لی کی طرح کاٹ دیتا تھا آئندہ زندگی میں کبھی مکھی مچھر کو بھی نہیں ما روں گا میری تو بہ میری سچی تو بہ ہوگی ‘ شدت غم اورپریشانی سے اُس کی آنکھوں سے آنسوقطروں کی صورت میں گر نے لگے پھر اُس نے دائیں با ئیں دیکھا کوئی اُس کی آواز تو نہیں سن رہا پھر میرے قریب ہوکر بولا جناب میں فلاں شہر کا مشہور بد معاش ہوں آج بھی لوگ میرے نام سے کا نپتے ہیں ‘ میرا نام طاقت دہشت کی علامت تھا ‘ میں ہی قانون تھا ‘ میں ہی کچہری عدالت تھا میری ذات ہی سب کچھ تھی ایم پی اے ایم این اے وزیر پو لیس افسران میرے ڈیرے پر آکر سلام کر تے ۔ میں جوانی دولت طاقت اقتدار بااثر لوگوں سے تعلقات کے نشے میں دھت فرعون بن گیا تھا روپیہ دولت ہی میرا مذہب تھا ۔ میں لوگوں سے بھتہ لیتا تھا ۔ میرے بندے شہر بھر بلکہ اطراف کے علا قوں سے نوٹوں کی بوریاں بھر کر لاتے ‘ مشکل سے مشکل کام جو اعلیٰ سرکاری آفیسر بھی نہ کراسکتے میں چٹکیوں میں وہ مسئلہ حل کرا دیتا ‘ مجھے ہر مسئلے پریشانی کی کنجی کہا جاتا تھا‘ میں مانا ہوا بدمعاش تھا قتل و غارت لوٹ مار اورقبضہ یہ میں نہیں میرے بندے کرتے تھے ‘ وکیل اور پو لیس والے خود میری نوکری کر تے ‘ ہر طرف میرا ہی راج تھا ناممکن کا نقطہ میری ڈکشنری میں نہیں تھا اور تو اور پولیس والے اپنے کام مُجھ سے کرواتے تھے ‘ الیکشن کے دوران میں جس امیدوار پر ہاتھ رکھ دیتا تھا وہی جیت جاتا تھا میں کنگ میکر تھا اپنے علا قے میں سرکاری افسران میری مرضی سے لگتے تھے بلکہ دن رات میرے ڈیرے پر حاضری دے کر نو کری کا آغاز اختتام کر تے تھے ‘ میں ؂فرعون تھا میں زمینی خدا تھا دنیا کا برے سے برا کام کر جاتا تھا پھر ایک گناہ میں نے ایسا کیا کہ اصل آسمانی خدا کو جلال آگیا پھر میرا زوال شروع ہو ا میرے کسی چیلے نے کسی غریب یتیم لڑکی کو اٹھا لیا اُس کی عزت تار تار کر دی ‘ لڑکی نے خود کشی کرلی لیکن ایک رقعہ میرے نام چھو ڑ گئی کہ تم زمین پر فرعون بنے بیٹھے ہو تمہارے بندوں نے مجھے اغوا کر کے جس عذاب سے گزارا ہے ایک دن تم اِس عذاب سے گزروگے تم در بدر بھٹکو گے تمہیں آرام نہیں ملے گا تم معافی مانگو گے تمہیں معافی نہیں ملے گی پتہ نہیں اُس رقعہ کے الفاظ میں کیا جان تھی میں ڈر گیا میری بھی جوان بیٹی تھی میں نے اُس کی رکھوالی شروع کر دی کو ئی اُس کو اٹھا نہ لے چند دن بعدہی مجھے پتہ چلا کہ وہ کالج کے بہانے کسی لڑکے سے ملتی ہے چند دن پیچھا کیا تو حالات کی سنگینی کا شدت سے احساس ہوا ‘ میں نے فوری طور پر بیٹی کو کالج سے اٹھا لیا اُس کا گھر سے نکلنا بند کردیا لیکن میں بُری طرح خو فزدہ ہوگیا تھا چوبیس گھنٹے بیٹی کا خیال کہ وہ کو ئی غلط حرکت نہ کر دے لیکن میری پو ری کو ششوں کے با وجود میری بیٹی گھر سے بھاگ گئی یہ خبرمیرے لیے قیامت سے کم نہ تھی میں نے زمانے سے چھپ کر اُس کی تلاش شروع کی لیکن وہ نہ ملی چند دن بعد ہی مجھے کال آئی کہ تمہا ری بیٹی میرے پاس ہے ثبوت کے طور پر اُس کی تصویریں اور ویڈیو بھی بھیج دی ‘ تصویروں اور ویڈیو میں جو کچھ ہے وہ دیکھ کر تم برداشت نہیں کر پاؤگے ‘ تم نے بے شمار لڑکیوں کو اغوا کے بعد اُ ن کی زندگیاں جہنم بنادی تھی میں اُنہیں لڑکیوں میں سے ایک کا متاثرہ بھا ئی ہو ں میں کمزور ہوں تمہارا مقا بلہ نہیں کر سکتا لیکن میں نے بدلا اِس طرح لیا ہے تمہاری بیٹی کو پیار میں پھنسا کر اُس سے شادی کرلی ہے پہلے تو میں اِسے قتل کرنا چاہتا تھا لیکن تم میں مُجھ میں فرق کیا ہے اب میں نے اِس کی قابلِ اعتراض تصویریں اور ویڈیوز تمہیں بھیج دی ہیں اگر تم نے ہمارا پیچھا کرنے کی کوشش کی تو ساری تصویریں ویڈیوز نیٹ پر ڈال دی جائیں گی تمہا ری بدمعاشی طاقت تعلقات اِس کو روک نہیں سکیں گے اب تم مرنے تک اِس عذاب کو جھیلو گے اِس آگ میں جلو گے پھر وہ بدمعاش رونے لگا اور بولا جناب کوئی ایسا وظیفہ بتائیں کہ میری تڑپتی روح کو قرار آجا ئے مجھے سکون کی کی نیند آجائے خدا کو مُجھ پر ترس آجائے خدا مجھے معاف کر دے پھر وہ رونے لگا ۔

Share
Share
Share