افسانہ : قلم رو پڑا—! :- ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

افسانہ : قلم رو پڑا—!

ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ

میں بھی ایک تخلیق کار ہوں۔ میرا نام چندر ہے۔ کہیں آپ بھی کرشن چندر نہ سمجھ بیٹھیے گا۔میں جب بھی کسی ادبی محفل یا سیمینار میں شرکت کرنے جاتا اور وہاں کرشن چندر کی باتیں اور افسانوں کا رنگ بیان کرتاتو یہ سُن کر اکثر و بیشتر لوگ کرشن چند رکہہ دیتے تھے۔

میں بھی کانپور سے ممبئی اپنے سپنے کو پورا کرنے جا رہاتھا میں بھی چاہتا تھا کہ میری کہانی کی بھی فلم بنے۔سپنے انہیں کے سچ ہوتے ہیں جن کے حوصلوں میں اڑان ہوتی ہیں ورنہ ممبئی جیسے بڑے شہر میں جانا مشکل، وہاں رہنا مشکل اور اوپر سے پروڈیوسر وں کے چکر لگانا مشکل۔ میں نے سوچا اگر اتنا ہی سب کچھ مشکل ہوگا تو میں نہیں جاؤں گا مگر کہتے قسمت کا چمکنا نصیب میں لکھا ہو تو ہو کر ہی رہتا ہے۔میں کانپور سے ممبئی ریل گاڑی نکل پڑا۔ ریل گاڑی کے سفر کے دوران میں نے حقیقت میں خوابوں کا محل تیار کرنا شروع کیا۔ میں نے سوچا پہلے راجکپور اسٹوڈیو جاؤ،اور اگر وہاں گیا بھی تو میں کونسی کہانی لے کر کے جاؤ،پھرسوچا آج کل کی فلموں میں رشتوں کی اہمیت کو بتایا نہیں جا رہا ہے وہیں روبوٹ،مشین گن اور کبھی کبھی تاریخی تو کبھی اصلی حادثے کا شکار ہونے والی عورت، مرد،یہاں تک کہ بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہونے والے کرب کو بتایا جاتا ہے۔جیسے چھپّاک۔ میں نے سوچا چلو میں بھی اس سفر کے دوران کوئی کہانی لکھ ڈالتا ہوں، پہلی کہانی میں نے سوچی کانپورسے ممئی تک،میرے دماغ نے کہا میاں اپنے اوپر ہی کہانی لکھنے کا اردہ ہے کیا؟ ارے نہیں پھر میں نے سوچا ”دو دن“ میرا دل کہانی بنوا رہا تھا وہی میرا دماغ تنقید کر رہا تھا ”دو دن‘ ظاہر سی بات ہے تم اپنے دو دن کے سفر کے حالات بیان کروگے۔پھر سوچا ”سفر“ پھر میرے دماغ نے کہا اب مجھے لگتا ہے تم اپنے ذاتی تجربات ہی کو کہانی کا نام دو گے، میرا دل کہنے لگا ایسا نہیں ہے ہر تخلیق کار اپنی کہانیوں میں یا کسی بھی تخلیق میں اپنے تجربات کو شامل کرتا ہیں اور اگر میں نے کیا تو کیا غلط کیا؟ ایک طرف تم چاہتے ہو کہ تمہاری کہانی کی فلم بنے لیکن تم اپنے ہی دائرے میں گھوم رہے ہو تم باہر کا کچھ سوچ نہیں رہے ہو۔میں نے اپنے بیگ میں سے ایک ڈائری اور قلم نکال کر لکھنے لگا”دوستی بھی عجیب ہوتی ہے۔ لوگ کہتے ہے دوستی میں دشمن چھپا رہتا ہے۔میرا کوئی دوست نہیں تھا مگر اس ریل گاڑی کے سفر کے دوران کہی سارے دوست بن گئے۔بس اتنا ہی لکھا تھا کہ دماغ نے سوال کردیا تم دوستی میں بھی اپنے سفر کے بارے میں لکھوں گے؟ میں نے لکھنا بند کردیا۔ میں نے سوچا کہ اب میں اپنا سفر پورا کرنے کے بعد آرام سے سوچ کر پھرایک نئی کہانی لکھوں گا۔ میں نے اپنے ریل گاڑی کے سفر کے دوران بھانو نامی نوجوان سے باتیں کرنے لگا۔ وہ بھی زیادہ کمائی کے لیے دہلی سے ممبئی جا رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کے ماں باپ کھیتی کرتے ہیں مگر میں کھیتی کرنا نہیں چاہتا تھا میرا دوست مہیندر ممئبی میں ہر مہینے بیس سے تیس ہزار کما لیتا ہے کچھ پیسہ اپنے پاس رکھتا ہے اور کچھ اپنے گھر والوں کو بھیج دیتا ہے۔ اسی سے بات ہوئی اور اب میں وہاں کام کرنے جا رہا ہوں۔بھانو مجھ سے پوچھتا ہے آپ کیا کرتے ہو۔ میں نے کہا میں ایک لیکھک ہوں۔بھانو پوچھتا ہے اِی کونسا کام ہے؟ مزدوری سے بھی زیادہ پیسہ ملتا ہے کا؟میں نے کہا بھانو تم نہیں سمجھو گے۔میں نے اس سے پوچھا اچھا یہ بتاؤ کہ تم فلم دیکھتے ہو۔بھانو کہتا ہے کا تم فلم بنانے والے ہو کا۔میں نے کہا نہیں ہاں جو فلم میں کہانی ہوتی ہے ویسی کہانیاں لکھتا ہوں۔ بھانو کہتا ہے اچھا تو تم فلم کی کہانیاں لکھتے ہو۔ میں نے کہا ابھی تو میں نے بھی یہ سپنا دیکھا ہے کہ میری لکھی کہانی پر فلم بنے۔ممبئی میں میرا کوئی ٹھور ٹھکانہ نہیں ہے کہاں جاؤں گا یہ بھی پتہ نہیں۔ اتنے میں بھانو کہتا ہے آپ کو فکر کی کونا ضرورت نا ہی ہے تم ہمرے ساتھ رہ لینا،ہم مل جل کر رہ لیں گے۔میں اور بھانو ممبئی سینٹرل اسٹیشن پہنچ گئے وہاں اس کا دوست مہیندر اسے لینے آتا ہے بھانو اپنے دوست مہیندر سے کہتا ہے کہ یہ ہمرا دوست چندر ہے اور یہ فلم کی کہانیاں لکھتا ہیں۔ مہیندر بھانو سے کہتا ہے میں نے صرف تمہارے رہنے کا بندوبست کیا ہے اور مجھے پتہ ہے کہ ممبئی کام کرنے والوں کی نگر ی ہے وہاں کوئی بیکار نہیں بیٹھا ملتا ہے اور اِسے تو مزدوری بھی کرنی نہیں آتی۔یہ ہم پر بوجھ بن جائے گا۔ بھانو اپنے دوست مہیندر سے کہتا ہے جیسے تم ہمرے دوست ہو ایسے ہی یہ بھلا انسان بھی ہمرا دوست ہے ارے جو خرچہ ہوگا تم ہم سے لے لیو۔جب تک اس کی کہانی کی فلم نہیں بن جاتی تب تک یہ ہمرے ساتھ رہے گا۔ مہیندر راضی ہوجاتا ہے اور تینوں دھاراوی پہنچ جاتے ہیں مہیندر بھانو کو لے کرکے کام کرنے کی جگہ لے جاتا ہے۔دھاراوی غریب مزدوروں اورکام کرنے والوں کی وہ بستی ہے جہاں لوگ دن بھر کام کرتے اور رات ہونے پر شراب کا نشا کرکے اپنی دن بھر کی تھکن کو کم کرنے کی کوشش کرتے۔ مہیندر اور بھانو کے جانے کے بعد کھولی میں اکیلا ہی تھا۔ میں نے بھی سفر کی تھکان کو کم کرنے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے سو گیا۔ میں جب نیند سے جاگا تو مہیندر اور بھانو دونوں واپس آچکے تھے اور باہر سے تیار کھانا لے کر کے آئے تھے۔مہیندر کہتا ہے میں تو کھانا بنا لیتا مگر آج ہی راشن ختم ہوگیا اور کل مجھے دھنی سیٹھ پیسے دے گا۔بھانو کہتا ارے مہیندر تم نے کھانا بنانا کیسے سیکھ لیا؟ میں یہاں آیا دو دن تک وڑاپاؤ کھایا مگر کام کانے کے بعد بھوک اتنی لگتی تھی کہ اس وڑاپاؤ سے پیٹ نہیں بھرتا تھا میں جس کی کھولی میں پہلے رہ رہا تھا اس نے مجھے کھانا بنانا سیکھایا اور اس نے اپنے گاؤں جاتے وقت وہ کھولی مجھے دے کر کے گیا۔ تم کو پتہ ہے یہاں کھانا پینا سب سستا ہے مگر یہاں رہنا بڑا مہنگا ہے۔میں ان کی باتیں سن رہا تھا دل میں پھر خیال آیا کہ محنت نام کی کہانی لکھ ڈالو، مزدور کی قیمت،پھر دماغ نے کہا نہیں یہ کوئی فلم کی کہانی نہیں ہے تمہیں پتہ ہے دو سال پہلے ٹائیگر فلم بنی تھی مگر اس فلم میں ایک نوجوان کی بہادری کو ٹائیگر سے تشبیہہ دی ہے اتنے میں بھانو نے مجھے ہلایا ارے کہاں کھو گئے چندر؟ پھر ان کے ساتھ کھانا کھایا مہیندر اپنے دوست بھانو سے کہہ رہا تھا چل میرے دوست آج میں نے تیرے لیے چھٹّی لے رکھی ہے تجھے ممبئی شہر کے درشن کرا دوں۔بھانو نے کہا بھئی دھیرے دھیرے سب کچھ دیکھ لیں گے۔تم نے ہمرے اور ہمرے دوستن کی خاطر اتنی تکلیف اٹھائی اِی ہمرے لیے بہوت ہے۔ مہیندر کہتا اِی اب سے ہمرا بھی دوست ہے۔ صبح ۶ بجے مہیندر باہر جاکر پانی بھر کر لے آیا اور چائے بنانے لگا اور اپنے دوست بھانو سے کہنے لگا دیکھ بھائی یہا ں سمئے کی بہت پابندی ہے اگر اس کا خیال نہیں کیا تو یہ ہمیں نوکری سے نکال دیں گے۔یہاں مزدوروں کی کمی نہیں ہے۔بھانو اٹھ جا۔ بھانو نے اپنی آنکھوں کو مسلا اور پھر مہیندر کے ساتھ چائے پی کر چلا گیا۔ میں نے سوچا کیوں نہ آج آر جے اسٹوڈیو چلا جاؤ کوئی نہ کوئی پروڈیوسر تو مل ہی جائے گا میں جیسے تیسے تلاش کرکے آر جے اسٹوڈیو چلا گیا مگر مجھے وہاں سے بھگا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک مہینہ گزر گیا۔ میں اس درمیان راج کپور اسٹوڈیو گیا وہاں جانے پر مجھے اندر بلایا گیا اور دن بھر اس بٹھایا گیا آپ کو پروڈیوسر بلائے تب ہی اس آفیس کے اندر جانا۔ شام ہوگئی مگر آفیس سے کوئی بلاوا نہیں آیا وہی چپراسی نے مجھے باہر نکالا اور کہا کل آنا۔دن بھر بھوکا پیاسا بیٹھا رہا اس امید سے کہ کوئی کہانی سُناؤں گا۔ میں ناامید ہو کر واپس دھاراوی کی اس کھولی میں آگیا۔میں نے دیکھا اچانک سے دھاراوی کی چھوٹی چھوٹی گلیوں میں لوگ آنا ً فاناً بھاگ رہے ہیں تو کچھ سامان لے کرکے اپنے گاؤں جا رہے ہیں تو کچھ لوگ ضرورت سے زیادہ اشیاء سودا خرید رہے ہیں۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ میں نے کسی سے اخبار لیا مگر وہ تو مراہٹھی اخبار تھا مجھے تو مراہٹھی زبان آتی ہی نہیں۔ میں نے اس کا اخبار اسے واپس کردیا۔ اتنے میں بھانو اور مہیندر بھاگتے ہوئے آئے اور کہنے لگے اب یہاں سے جانا ہوگا۔ میں نے پوچھا کہاں جانا ہوگا، بھانو کہتا ہے اپنے گاؤں۔ مہیندر کہتا ہے میرا پیسہ دھنی سیٹھ سے لینا باقی ہے اور چند روز کے بعد آجاؤں گا۔تم اور تمرا یہ دوست جانا چاہتے ہو تو چلے جاؤ۔ میں نے پوچھا ایسا کیا ہوا؟ بھانو کہتا ہے ہم کا کچھو ں مالوم نا ہی۔ہم سنے ہیں کی شہر ما چھوا چھوت کی بیماری پھیل گوا ہے او کرونا وائرس کہت رہا۔ اِی بیماری کا کونو علاج ناہی۔ اتنے میں بھانو نے جو فون خریدا تھا اس پر فون آیا تم گھر واپس آئی جاؤ۔تم ہی ہمرا سہارا ہو۔بھانو اپنی مائی سے کہتا ہے کہ مائی تو فکر نہ کر میں کل کی ٹرین پکڑ کر آجاؤں گا۔ میں نے ہندی اخبار لیا اور ساری تفصیل پڑی یہ کورونا وائرس نامی وبا چین کے وہان شہر میں پہلی بار سامنے آئی اور اب یہ وبا کی بیماری پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔سرکار نے لوک ڈاؤن نافذ کر دیا ہے۔ میں بھی تھوڑا سا خبر پڑھ کر سہم گیا۔ میں نے بھی فیصلہ کر لیا کہ میں ان کے ساتھ ہی واپس جاؤں گا۔لوک ڈاؤن کو ہوئے پندرہ روز گزر چکے تھے ادھر مہیندر اپنی مزدوری کے پیسے لینے دھنی سیٹھ کی تلاش کرنے اِدھر اُدھر گلیوں سے چھُپ کر جاتا اور نا امید لوٹ آتا۔ بھانو اپنی کھولی کے آس پاس رہنے والوں سے پوچھتا ریلوے اسٹیشن جانے مل رہا ہے یا نہیں۔ لوگ چھُپتے چھُپاتے چلے جانے لگے۔ اسی لوک ڈاؤن کے بیچ ہمارے پاس جتنا بھی راشن پیسہ تھا سب ختم ہو گیا تھا کسی بھی طرح جگاڑ کرکے ہم نے دو سائیکل خریدی ایک سائیکل پر ہم تینوں کا سامان تھا اور اس کو بھانو چلا رہا تھا دوسری سائیکل پر میں اور مہیندر چلا رہے تھے ہم نے باقی مزدوروں کی طرح سٹرک سے جانا شروع کیا۔ صبح نکلے تھے جب ٹھنڈی ہوائیں جیسے گیت گا رہی تھی اور ہمارے حوصلوں کو بڑھا رہی تھی جیسے جیسے دن چڑھتا گیا گرمی محسوس ہونے لگی اور بھوک بھی لگنے لگی۔ ہم تینوں نے راستے میں تھوڑی دیر آرام کرنے کا طے کیا۔ ہمارے پاس جو تھوڑا بہت کھانے کا سامان تھا وہی کچھ کھالیاتھا ساتھ پانی کی بوتلیں تھی دھڑا دھڑ پانی پینے لگے۔ ایک گھنٹا آرام کرکے پھر سائیکل کی سواری شروع کردی۔ یہ گرمی تو بڑھتی ہی جا رہی تھی کھولی میں رہے تب اتنی گرمی اور دھوپ کا اتنا احساس نہیں ہوا مگر اس سائیکل سواری کرنے پر ہماری ہمت جواب دے رہی تھی۔ ہم جس راست سے جا رہے تھے اسی راستے پر کچھ لوگ بھی جا رہے تھے وہ ہماری ہمت بڑھا رہے تھے اور ہم ان کی۔ ابھی ہم صرف دس کلو میٹر ہی پار ہوئے تھے ہم تینوں نے سوچارفتار کی تیزی بڑھانی ہوگی مگر تیز دھوپ نے بھانو کو ہلا دیا اس کو چکر آنے لگے۔ مہیندر اور میں نے تھوڑی دیر آرام کرنے کا ارادہ کیا۔ بھانو کو پانی پلایا اور منہ دُھلایا۔ہم لوگ سڑک کے قریب ایک درخت کے پاس ٹھہر گئے بھانو کو مہیندر نے چدّر بچھا کا سلایا مہیندر بھی آرام کرنے لگا۔ میں نے سوچا کیوں نہ میں یہ دونوں کا خیال بھی رکھو اور اپنی ڈائری میں کوئی کہانی لکھو۔ میں نے اپنے رکھے ہوئے تھیلے میں سے ڈائری اور قلم نکالی اور لکھنے لگا۔قلم میں بچی تھوڑی سیاہی سے میں صرف میرا نام چندر ہی لکھ پایا تھا قلم کی سیاہی ختم ہوگئی۔میں اس وقت بہت کچھ لکھنا چاہتا تھا حقیقت فلم میں نے دیکھی تھی مگر آج کی حقیقت پر کسی مزدوری کی کہانی لکھ لیتا۔ کاش یہ باتیں لکھ دیتا۔ کاش میں تپش نامی سے کہانی لکھتا جس میں آج کے انسان کی بھوک پیاس کی تپش کو بیان کرتا تو شاید اس پر کوئی فلم بن جاتی میں یہ کرتا، وہ کرتا،میں اس وقت کچھ نہیں کر پایا۔ میں اس راہ پر بے بس ہو کر اور نا میدی کا پرچھایا لے کر میں رو رہا تھا اور میری آنکھوں سے بہتے آنسو ں اس قلم کو اور کاغذ کو بھِیگو رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad

Share
Share
Share