ینڈلوری ُسدھاکر ۔ تیلگو زبان کا معروف دلت شاعر :- نہاں نورین نورؔ

Share
پروفیسر اے ۔ سدھاکر

ینڈلوری ُسدھاکر
تیلگو زبان کا معروف دلت شاعر

نہاں نورین نورؔ
ایم فل ریسرچ اسکالر
حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی

پروفیسر ینڈلوری ُسدھاکر تلگو ادب کے ایک ممتاز شاعر ہیں. ان کا تعلق ریاست تلنگانہ کے ضلع نطام آباد سے ہے. وہ خوش مزاج خوش پوشاک اور خوش گفتار شخصیت کے حامل ہیں وہ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے تلگو شعبہ کے پروفیسر ہیں. تلگو کے ساتھ ساتھ وہ اُردو سیکھنے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں.

سدھاکر صاحب سماج میں بچھڑے ہوئے طبقات کی پریشانیوں کا حال اپنی شاعری میں ظاہر کرتے ہیں. خصوصاً دلت طبقے کے لوگ جو ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں. اور ان لوگوں کو جن مسائل سے دو ہونا پڑتا ہے. اور کس طرح ان میں احساس کمتری فروغ پاتی ہے. ان تمام چیزوں کی تصویر کشی انھوں نے اپنی شاعری میں کی ہے. اور اسی کو اپنی شاعری کا مشغلہ بنایا ہے. انھوں نے کئی ایک تصانیف لکھے. بابری مسجد کی شہادت پر بھی انہوں نے نطم لکھی.. مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملے ہوئے تو ان پر بھی نظمیں لکھیں. حیدرآباد یونیورسٹی میں روہت ویمولا کی خودکشی پر بھی متاثر کن نظم لکھی. اور اردو میں ایک نظم نظرانہ کے نام سے بھی لکھی ہے ان کے تصانیف میں "نلا دراکشا پندیری، گوسنگی، ورتامانم،، جو شوا ساہیتم شامل ہیں. ان کی بہترین نظم گوسنگی ہے. جو ایک دلت طبقے سے تعلق رکھنے والے معمولی سی گایک کی ہے. گوسنگی کے معنی ایسا شخص یا سفید جو مسافروں کا دل بہلانے کے لیے اور ان تک اپنے غموں کی کیفیات سنانے کے لیے ڈھول بجا کر، گانے گا کر مسافروں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا تھا. گوسنگی کرشنا دیوراے کی سلطنت کے وقت کا ایک دلت سفیر تھا. جو پندرھویں صدی سے تعلق رکھتا تھا. ایک ایسی صدی جس میں دلتوں پر صرف ظلم ہوے ہیں
مشہور ماہر نفسیات "فرائیڈ” نے کہا تھا. :میں جہاں بھی جاتا ہوں. اپنے سے پہلے ایک شاعر کو وہاں پاتا ہوں” اس قول سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک شاعر کتنا حساس، نبظ شناس اور ماہر نفسیات ہوتا ہے. جس کی مسند مثال ینڈلوری ُسدھاکر صاحب ہیں. سدھاکر صاحب نے اپنی شاعری کا موضوع نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بنایا ہے.. ان کی شاعری میں درد ہے. جس کو پڑھنے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے دلت طبقے کے لوگوں کے درد کو کافی قریب سے دیکھا ہے. کس طرح یہ سماج دلت لوگوں کو اچھوتوں کا نام دیتا ہے. ان کے ساتھ سماج میں کس حد تک نا انصافی ہوتی ہے. یہاں تک کے ان کو سامنے بیٹھنے تک نہیں دیا جاتا. ان کو کسی بھی طرح کے رسم و رواج میں شرکت کرنے سے محروم رکھا جاتا ہے. اس نفسیاتی و مذہبی تعصب کی کشمکش میں ان لوگوں کا کیا حال ہورہا ہے. ان کے جذبات کو پیروں تلے روند دیا جاتا ہے. ان کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے. ان تمام کی عکاسی سدھاکر صاحب نے کی ہے. پندرھویں صدی ہی نہیں بلکہ آج کے دور میں بھی دلتوں کے ساتھ وہی برتاو ہے جو پہلے رہا ہے. یہ وہی دلت ہیں جو ہمارا کچرہ صاف کرتے ہیں.. بدلے میں ہم انہیں کچرے کی مانند سمجھتے ہیں. لیکن کیوں؟؟ اللہ نے ان لوگوں کو بھی اس طرح بنایا ہے جیسے ہمیں بنایا ہے..
صرف وہ نچلے درجے سے تعلق رکھتے ہیں.. کیا ہم ان کو حقیر سمجھں گے.. ان کو بے عزت کریں گے. کہاں ہے وہ لوگ جو انسانیت اور سماجی حقوق کا نعرہ دیتے ہوے گھومتے ہیں. جو مساوات اور بھائی چارگی کا پرچار کرتے ہیں. کیا ان لوگوں کو ان دلتوں کی تکلیف نظر نہیں آتی.؟ سدھاکر صاحب نے اپنی نثری نظم "گوسنگی میں دلت گایک کے دلی کرب کو اس کی زبانی یوں بیان کیا ہے.
میں وہ شخص ہوں جو غم کی صدی سے تعلق رکھتا ہوں
جس نے کبھی یہ نا جانا ک احساس مسرت کا تجربہ کیا ہے
جس کی زندگی میں صرف تاریکی ہے
جس کی پیدائش ایسی ذات میں ہوئی. جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے
جس کا کوئی نام نہیں ہے
ہاں میں وہ شخص ہوں جو غم کی صدی سے تعلق رکھتا ہوں
جس کی اہمیت گندے پانی کی مانند ہے. اس سے زیادہ کچھ نہیں
وہ پانی جسے لوگ چھوتے تک نہیں ہے
میں ایک پتھر ہوں. لیکن ایک گندے کپڑے میں چھپا ہوا ہوں.
پر ہوں تو آخر انسان
وہ انسان جو بے حس دنیا میں پیدا ہوا ہے
میں ایک موچی ہوں. ایک تانترک ہوں
یا یوں کہوں تو موتی کی ایک مالا ہوں
جسے کوئی بھی نام دیا جاسکتا ہے
میں وہی غم کی صدی سے تعلق رکھنے والا ہوں
میں گوسنگی ہوں
میں گوسنگی ہوں…( تلگو نظم کا ترجمہ)
ان کی اس نظم کو بی اے کے نصاب میں بھی شامل کیا گیا ہے.. جس کو قارئین نے کافی پسند کیا. سدھاکر صاحب نے اپنی تصنیف "کاویاترایم” میں شاعری شاعری کے تئیں اپنی دلچسپی کو یوں بیان کیا ہے
“کے بچپن ہی سے مجھے شاعری سے کافی رغبت ہے
اتنی زیادہ رغبت ہے کہ شاعری میرے لئے میری جان ہے. شاعری کا شوق مجھے اس وقت سے ہے جب میں ساتویں جماعت میں تھا. اور اسی شاعری نے مجھے انفرادیت بخشی ہے اور شاعری سے مجھے اتنا لگاو ہوتا گیا کہ آخر اس جذبے نے مجھے شاعر بنا ہی دیا "جب بھی میرا دل مجھ سے سوال کرے گا کہ اے سدھاکر! تم نے اس سماج کو کیا دیا ہے؟؟ تو میں تسلی بخش جواب دے سکوں گا کہ میں نے سماج کو” کاویاترایم اور گوسنگی جیسی بہترین نظمیں دی ہیں.. اور ایک شاعر سے یہ سماج شاعری کے علاوہ امید بھی کیا رکھ سکتا ہے.. سدھاکر صاحب کی یہی شاعری ان کو باقی شاعروں سے منفرد رکھتی ہے.. ایک شاعر اپنے سماج میں ہونے والے حالات سے واقف ہونے کے بعد ان پر غور کرنے کے بعد ان کو اپنا شاعری کا موضوع بناتا ہے.. اسی طرح سدھاکر صاحب نے بھی دلت لوگوں کے غم کو کافی گہرائی سے دیکھا ہے. ان کو محسوس کیا ہے. اس کے بعد ان کو اپنی شاعری میں قلمبند کیا ہے ….اس معاشرے میں انسان تو ہیں لیکن انسانیت نہیں ہے.. ہر کوئی ایک دوسرے کو نیچا دکھانےکی کوشش کرتا ہے.. کسی نے کیا خوب کہا ہے… "عجب سی ایکتا دیکھی ہے اس زمانے میں، زندوں کو گرانے میں اور مُردوں کو اٹھانے میں” جب ہم کسی کا بھلا نہیں کرسکتے تو ہمیں یہ حق بھی نہیں ہے کہ ہم ان کو بے عزت کریں.. ہر انسان کی اپنی عزت ہوتی ہے.. پھر چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں.. ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ ہم ان کے ساتھ امتیازی سلوک کریں… سدھاکر صاحب کو اگر ہم دلت شاعر کا نام دیں تو بہترین نام ہوگا..
——
Neha Noorien Noor
University of Hyderabad

Share
Share
Share