افسانہ : میں کہاں ہوں :- غلامِ نبی

Share
غلامِ نبی

افسانہ
میں کہاں ہوں

غلامِ نبی
ریسرچ اسکالر
شعبہ اردو ، دہلی یونیورسٹی ، دہلی
موبائل نمبر:+917042420113
ای میل:

سردی کے موسم میں سورج غروب ہونے کو تھا ‘ مغرب کی نماز ادا کرنے کے لیے گھر سے باولی پر گیا وضو بنانے کے بعد کلائی پر باندھی گھڑی پر نظر ڈالی تو نماز کو دس منٹ باقی تھے۔ سوچا ابھی وقت ہے گھر پہنچ کرنماز ادا کر لوں گا۔

گھر کے قریب چوراہے پر پہنچا ہی تھا تو دیکھا سامنے سے فوجی دستہ آ رہا ہے جونہی میری ان پر نظر پڑی، میرا جسم پسینے سے شرابور ہو گیا، پاؤں تھم گے ایک سپاہی نے آتے ہی بغیر کچھ پوچھے میرے چہرے پر تھپڑ رسید کیا دوسرے نے میری ٹانگوں پر لات مارتے ہوئے کہا ۔
’سالے ٹائم دیکھ؟‘ تیسرے نے میرے جواب کا انتظار کیے بغیر بولا ۔ ’سرچھ بج کر دس منٹ ہو رہے ہیں ۔‘
پہلے سپاہی نے پھر تھپڑ مارتے ہوئے کہا۔ ’ ٹائم کا کچھ پتہ ہے یا نہیں؟ ‘
نام کیا ہے؟ ایک دو اسٹار والے آفیسر نے پوچھا۔
’سیف علی‘ میں نے ڈرتے ہوئے کہا ۔
’کیا کرتے ہو۔؟‘ بات آگے بڑھاتے ہوئے آفیسر نے دوبارہ پوچھا
’پڑھتا ہوں سر۔ ‘ میں نے کہا۔
اب میں سمجھ چکا تھا کہ مجھے کل کمپنی کمانڈر کے رو برو ہونا پڑے گا، کاش میں نے گھر ہی وضو بنا لیا ہوتا۔
کس کلاس میں پڑھ رہے ہو؟ آفیسر نے پھر پوچھا ۔ اس کے پوچھنے کے لہجے سے ایسا معلوم ہو رہا تھا گویا میرا انٹرویو لے رہا ہے
’سر بی۔ اے سیکنڈا ئیر میں؟ ‘ میں نے کہا۔
’آپ کو معلوم ہے گھر سے باہر رہنے کا ٹائم صبح آٹھ سے شام چھ بجے تک ہے آپ دس منٹ لیٹ کیوں باہر گھوم رہے ہیں۔ اس کے عوض میں کل تمہیں ہمارے جوانوں کے ساتھ سڑک سے کیمپ تک سامان لانا پڑے گا۔‘ آفیسر نے کہا۔
’سر کل میرا امتحان ہے پلیز مجھے معاف کیجئے!! ‘ میں نے التماساً کہا۔
پہلا سپاہی آگے بڑھ کر تھپڑ مارتے ہوئے بالا۔’ آفیسر کی بات نہیں مان رہا؟ اڈنٹی کارڈ دکھا۔؟ ‘
میں نے کارڈ نکا ل کر دکھایا
’سپاہی نے کارڈ ہاتھ میں لیتے ہی کہا کل وہیں آ کر لے لینا۔‘ اور وہ چل دیے۔
میں گھر پہنچا ۔ میرا چہرہ لال پیلا ہو رہا تھا
’کیا ہوا؟۔‘ امی نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا۔بھائی ریاسف علی اور باسط علی اور چھوٹی بہن پروین سامنے آ کر سہمے ہوئے مجھے دیکھنے لگے ۔ میں نے پورا حال کہہ سنایا۔ میرا چہرہ دیکھ اور حال سن کر امی کا کیا حال ہو رہا تھا یہ میں بیان کونہیں کر سکتا مگر کچھ کہنے کے بجائے نماز ادا کرنے کو کہا میں نماز ادا کرنے کے بعد حسب معمول رسوئی میں کھانا کھانے آیا ۔ ابا روزانہ کی طرح آج بھی گھر پر نہیں تھے کیونکہ ایک سال قبل رات کو مجاہدین اٹھا کر راستہ دکھانے کے لیے ساتھ لے گے تھے جس کی شکایت ہم مقامی پولیس اسٹیشن میں درج کرا چکے تھے اس لیے اب ان کا گھر رہنا محال ہو گیا تھا۔
کھانا کھانے کے بعد سب سو گئے میں نے اپنے کمرے میں پڑھنا شروع کیا ۔ ابھی دس ہی بجے ہونگے دورازے پر دستک کی آوازیں میرے کانوں میں گونجنے لگیں میں چونک گیا پہلے سوچا آج شاید پہلے کے واقعات دوبارہ ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ میں نے پھر پڑھنا شروع کیا ۔ابھی پانچ منٹ ہی گزرے ہونگے پھر دستک کی آواز آنا شروع ہو گئی۔ میں خاموش ہو گیا سوچا، لال ٹین بجا دوں لیکن ایسا کرنا خطر مول لینا تھا جس سے دستک دینے والے کو یہ اندازہ ہو سکتا تھا کہ ابھی کوئی جاگ رہا ہے۔میں یہ سب ذہن میں ہی سوچ رہا تھا کہ دروازے پر لاتوں کی بوچھاڑ ہونے لگی اب میں زندہ ہوتے ہوئے بھی مر چکا تھا ہاتھ پاؤں جام ہو گے زبان بند اور سانسیں بھی رکنے کو تھی یک لخت دروازہ کھلا تین آدمی ہاتھ میں بندوق، منہ پر کالے رنگ کا کپڑا بندھے اندر داخل ہوئے اس وقت میں کچھ بولنا چاہتا بھی تو نہ بول پاتا۔
’پاپا کہاں ہیں؟۔‘ ایک آدمی نے مجھے غصے میںآنکھیں لال کرتے ہوئے پوچھا ۔
میرے جواب کا انتظار کرنے کے بجائے اس نے میرے ماتھے پر بندوق کی نوک رکھتے ہوئے بولا ’جواب چاہیے ورنہ.۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ‘
’گھر پرنہیں ہیں‘ میں نے کہا
’کہاں ہیں سچ بتاؤ۔‘ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’پچھلے دو ہفتے سے پنجاب میں کام کی غرض سے گئے ہیں۔‘ میں نے کہا ۔
اس نے بندوق ہٹاتے ہوئے دوسرے آدمی کی طرف دیکھا ۔
’تو ہمارے ساتھ کالا کوٹ تک چل راستہ معلوم نہیں۔‘ دوسرے آدمی نے مجھے کہا ۔
ہماری باتیں سن کر امی، پروین جاگ گیں باہر رونے کی آواز آنے لگی۔
میں اٹھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی چلنے کو تیار ہو گیا ابھی دروازے پر پہنچا تھا کہ امی نے اپنا دوپٹہ میرے آگے چلنے والے آدمی کے پاؤں میں رکھتے ہوئے کہا۔’ بھائی اللہ کے واسطے میرے بچے کو چھوڑ دیجیے اس کے والد بھی گھر پر نہیں ہیں ہمیں اکیلے میں ڈر لگتا ہے۔
’ہم اسے جلدی واپس بھیج دیں گے آپ فکر نہ کریں اس نے امی کا حوصلہ رکھتے ہوئے کہا۔‘ دوسرے آدمی نے مجھے چلنے کو کہا میں نے پروین کی طرف دیکھتے ہوئے پہلا قدم اٹھایا ہی تھا کہ اس کی چیخ میرے کانوں میں گونجنے لگی۔ میں رک کر پروین کو صرف یہ کہنے والا تھا کہ آپ فکر نہ کریں میں جلدی واپس آ جاؤں گا۔لیکن دوسرے آدمی نے مجھے چلنے کا اشارہ کیا۔ اب میں زیادہ دیر رکنے کے بجائے بغیر پیچھے دیکھے آگے بڑھا۔ دور دور تک میرے کانوں میں یہ آوازیں گونجتی رہیں۔ ہم رات کے اندھیرے میں نہ جانے کہاں پہنچ تھے کہ ان میں سے ایک آدمی نے مجھے رکنے کو کہا اور کھانے کے لیے تھوڑے بادام میرے ہاتھ میں تھما دیے ۔
تھوڑی دیر رکنے کے بعد مجھے سردی لگنے لگی میرے پاس موبائل اور نہ گھڑی تھی میں نے ان سے ٹائم پوچھا ۔
’ڈیڑھ بجے ہیں۔‘ ان میں سے ایک آدمی بولا ۔باقی کچھ کھانے میں مصروف تھے میں نے موقع پاکر اس سے التجا کرتے ہوئے کہا ۔
’سر میرا صبح امتحان ہے مجھے اب جانے دیجیے۔‘
’کوئی نہیں ہم وہاں پہنچتے ہی آپ کو واپس بھیج دیں گے۔ ‘وہ آدمی بولا۔
تھوڑی دیر بعدمجھے چلنے کو کہا۔ میں سردی سے کانپ رہا تھا میں نے دوبارہ سب کے سامنے رخصتی چاہی مگر رخصت کہاں نصیب تھی بجائے اس کے دو تین لاتیں ضرور پڑ گئی۔ اب مجھے مجبوراً چلنا پڑا۔ تھوڑی دوری پر فوج کا کمپ واقعہ تھا میں راستہ بدلنا چاہتا تھا مگر انہوں نے سیدھا چلنے کو کہا۔ اب میں مجبور تھا میں نے فوج کے کمپ کے بارے میں کہہ سنایا وہاں زیادہ دیر رکنا خطرہ مول لینا تھا۔
’جو صاف راستہ ہے اسی سے چلو۔ ‘ ان میں سے ایک آدمی نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
میں راستہ بدل کر چلنے لگا۔ جنگل میں رات کا اندھیرا ایسے محسوس ہو رہا تھا گویا کوئی جنگلی جانور آگے سے مجھے کھانے آ رہا ہے لیکن کیا کرتا چلنے میں ہی خیر تھی ۔ ابھی تھوڑی دیر ہی چلے ہونگے کہ آگے سے قدموں کی تھرتھراہٹ آنے لگی ۔ میں چونک گیا سب زمین پر لیٹ گئے۔ دس منٹ تک وہاں سے کتنے لوگ گزرے اس کا صحیح اندازہ تو نہیں ہواکیونکہ اس وقت میرے ذہن میں کئی سوالات گردش کر رہے تھے۔ جونہی قافلہ گزر ا میں بغیر کچھ کہے اور سنے آگے بڑھا۔ بہت دور پہنچ کر مجھے رکنے کو کہا گیا ۔
اب میرا بچنا مشکل ہو گیا تھا جو قافلہ کی زد میں آ گئے تھے تھوڑی دیر رکنے کے بعد ایک آدمی نے مجھے مخبر کہتے ہوئے پوچھا ،کتنی دیر سے یہ کام کرتے آ رہے ہو۔؟‘اور کتنے لوگوں کی جان سے کھیل چکے ہو۔؟ میں نے ہزاروں قسمیں کھائیں لیکن انہیں یقین باقی نہ تھا صبح ہونے کو تھی میں سردی سے کانپ رہا تھا وہ باری باری مجھ سے یہی سوال پوچھ رہے تھے۔ صبح ہوئی سورج کی کرنیں اونچے اونچے پہاڑوں پر دکھائی دینے لگیں۔ ہر سوں چڑیاں چہچہانے لگیں انہوں نے مجھے بڑی منت و سماجت کے بعد جانے کو کہا۔
اب میں چاہتے ہوئے بھی جا نے کو تیار نہیں تھاکیونکہ امتحان کا وقت ہونے والا تھا اور میں گھر سے پانچ گھنٹے پیدل سفر کی دوری پر تھا اور گھر سے کالج تک گاڑی میں دو گھنٹے کا سفر تھا لیکن وہاں سے چلنے میں ہی خیر تھی اس لیے میں اسلام علیکم کہتے ہوئے رخصت ہوا ۔
وہاں سے تھوڑی دوری پر بسولی گاؤں تھا جہاں کے لوگوں کے لیے میں اور میرے لئے وہ اجنبی تھے اب بھوک سے میرے پیٹ میں چوہے ناچ رہے تھے گاؤں میں داخل ہوتے ہی میں نے پہلے گھر کا رخ کیاجہاں ایک بزرگ صحن میں چارپائی پر کمبل اڑھے گاؤ تکیہ لگائے دھوپ لے رہے تھے۔ میں نے بعد اسلام اس انداز میں خیرت دریافت کی گویا میں انہیں پہلے سے جانتا ہوں۔انھوں نے حال احوال کے بعدمجھے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھنے کو کہا میں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں ایک دوشیزہ ٹرے میں چائے اور بسکٹ بغیر کچھ کہہ میرے سامنے والی میز پر رکھ کر چلی گئی میں نے چائے پی ۔ بھوک ابھی بھی تیز لگ رہی تھی لیکن ایک ہم عمر لڑکی کے سے روٹی مانگی اور نہ ہی انھوں نے تاکید کی۔ میں نے بیٹھے بزرگ سے ٹائم پوچھا ۔’ دس بجے ہیں انھوں نے کہا ۔ ‘
’ہدایت پور کون سا راستہ جاتا ہے ۔ ‘ میں نے پوچھا۔
بزرگ نے بازوں کا اشارہ کرتے ہوئے مجھے پورا نقشہ بتا دیا ۔ میں اسی راستے پر چلتا رہا تقریباً ایک بجے گھر پہنچا۔گھر میں خاموشی کا یہ الم تھا گویا کوئی پابندی عائد کی گئی ہے۔ مجھے دیکھتے ہی سب خوشی سے جھوم اٹھے۔ امی نے دوڑ کر مجھے گلے لگایا اور منہ پر بوسہ دینے لگیں۔ پروین اور باسط کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں سے آنسوں جاری تھے ابا اور سرپنچ مقامی تھانے میں بغرض اطلاع گے تھے۔
’ابا جان بھائی واپس آ گئے ہیں۔‘ باسط نے ابا کو فون کرتے ہوئے کہا ۔
ابھی میں نے کھانا ہی کھایا تھا کہ ابا، سرپنچ اور پولیس کے دو سپاہی آ پہنچے۔ ایک سپاہی نے میرے بیان تحریر کیے اور دوسرے دن پولیس اسٹیشن حاضر ہونے کو کہتے ہوئے رخصت ہوئے۔ گھر میں بھیڑ جمع ہورہی تھی سب نے مل کر مجھے زندگی کی دعائیں دیں۔ امی نے بھینس گلزار بیگم کو دیتے ہوئے کہا ۔ ’میرے بچوں کی جان کی دعا کرنا۔‘ وہ دعائیں دیتی ہوئی بھینس لے کر چلی گئی۔ ابا، امی اور قریبی رشتے دار اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے مجھ سے آپ بیتی دریافت کرنے لگے ۔تھوڑی دیر میں موذن عصر کی اذان پڑھتا ہے سب خاموش ہو جاتے ہیں۔
اتنی دیر میں فوج گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے ایک آفیسر کے ہمراہ دو سپاہی بندوق تانے گھر میں داخل ہوئے ۔
’سیف علی کون ہے ۔‘ ایک سپاہی نے شناختی کارڈ پر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
‘ میں کھڑا ہو گیا انہوں نے ساتھ چلنے کو کہا ۔
’سر اس کی جگہ میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں اس کے امتحان چل رہے ہیں۔ ‘ ابا نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔
’بیٹھ جاؤ اس کو ہم نے آج بلایا تھا نہیں آیا اس کی شکایت کمپنی کمانڈر کو دی گئی ہے۔‘ سپاہی نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے کہا ۔
مجھے چلنے کو کہا میں جوتا پہن کر چل پڑا ۔
گھر میں دوبارہ وہی ماتم چھا گیا روزانہ کی طرح آج بھی چھ بجنے کو تھے اب گھر سے باہر نکلنا جان کو ہتھیلی پر رکھنا تھا ۔
وہاں پہنچتے ہی مجھے کمپنی کمانڈر کے روبرو کیا گیا۔ کمانڈر نے حاضر نہ ہونے کی وجہ پوچھی۔ میں نے صاف صاف بتا دیا جو میرے ساتھ ہوا
کمانڈر نے گھنٹی بجائی ایک سپاہی ہاتھ میں فائل لیے حاضر ہوا۔
’اس کے بیان درج کرو۔‘ کمانڈر نے سپاہی کو کہا ۔
کمانڈر نے مجھے سپاہی کے حوالے کیا جس نے مجھے ایک خیمے میں بٹھا دیا جس میں ایک چارپائی کے سوا کچھ نہ تھا یہاں میں ایک گھنٹہ اکیلابیٹھا اپنے ماضی پر سوچتا اور افسوس کرتا رہا اتنی دیر میں وہی سپاہی فائل لیے خیمے میں داخل ہوا میرا بیان تحریر کے بعد کھانا کھانے کو کہا میں نے کھانا کھایا پھر مجھے برتن صاف کرنے کو کہا۔
صبح ہوتے ہی مجھے جپسی میں بٹھا کر سول کورٹ راجوری لے جایا گیا ۔مقدمہ دائر کیا گیا ۔ جج نے بیان پوچھنے کے بعد گھنٹی بجائی ایک کلرک فائل لیے داخل ہوا جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ایک ماہ کی سزا اور دس ہزار جرمانہ لکھ دیجیے۔ مجھے پولیس کے حوالے کیا گیا۔ پولیس نے میرے بائیں بازوں میں ہاتھ کڑی ڈالی اور جپسی میں بٹھا کر راتوں رات کوٹ بھلوال ،جموں جیل پہنچا یا۔ ایک ماہ بعد شام پانچ بجے مجھے رہا کیا گیا۔ اس وقت میرے پاس ایک چھوٹا سا بیگ جس میں کپڑوں کے سوا کچھ نہیں تھا دوسرے دن شام کو میں گھر پہنچا۔ گھر میں امی اور پروین کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ ’ ہمارے کنبے پر مخبری کا مقدمہ دائر ہو گیا ہے، اب گھر میں کوئی مرد نہیں رہتا ، ابا، ریاسف علی اور باسط علی بھاگ کر پنجاب چلے گئے ہیں ، آپ بھی کہیں اور پناہ لیجیے۔‘ پروین نے کہا ۔
میں ہکا بکا رہ گیا ۔۔۔
اب ۔ ۔ ۔ نہ جانے ۔ ۔ ۔ میں کہاں ہوں ؟

Share
Share
Share