افسانہ : عیدی :- ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ

Share

افسانہ : عیدی

ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ

ارشد نے اپنے ابّو سے عیدی مانگی، تب ارشد کے ابّو کہنے لگے ابھی تو رمضان کا آخری عشرہ چل رہا ہے۔ہم تمہیں عید الفطر کے روز عیدی دیں گے۔ ارشد ضد کرنے لگا مجھے تو آج ہی عیدی چاہیے۔
ارشدبیٹے میری بات سنو۔۔۔۔!

ارشد روتے ہوئے باورچی خانے میں جاکر اپنی امّی سے کہتا ہے کہ ابّو نے مجھے عیدی نہیں دی۔تب اس کی امّی ارشد سے کہتی ہے عید کا دن آنے میں ابھی پانچ دن باقی ہے اور عیدی بھی تو ہر سال کی طرح عید کی نماز کے بعد ہی دی جاتی ہے اور اس سال بھی عید کی نماز کے بعد ہی عیدی دی جائے گی۔ارشد بیٹے یہ تو بتاؤ تم کو عیدی اتنی جلدی کیوں چاہیے؟بتاؤ عید کے دن سے پہلے عیدی کیوں چاہیے؟ تم مجھ سے کیا چھپا رہے ہو؟ اتنے میں ارشد کے ابّو نے اس کی امّی کو بلایا۔ارشد کی امّی آواز سُن کر دیوان خانے میں چلی جاتی ہے اور وہاں ٹی وی پر خبر دکھائی جا رہی تھی کہ شہر میں کورونا وائرس نامی وبا دن بہ دن پھیلتی جارہی ہے یہ سلسلہ فروری سے شروع ہوا اور اب مئی کا مہینہ چل رہا ہے۔ اس وبا کے چلتے بڑے شہروں میں لوک ڈاؤن چل رہا ہے مہاراشٹر اور گجرات کا حال سب سے برا ہے۔ہمارے بنگلور میں بھی اس وبا کا اثر دیکھا جارہا ہے میرا دو ماہ سے کاروبار بالکل ٹھپ ہوچکا ہے ارشد کی امّی اپنے شوہر نعیم سے کہتی ہے یہ کیا کہہ رہے ہو؟ نعیم کہتا ہے اوپر سے تمہارے لارڈ صاحب ارشدنے عیدی کی فرمائش کی ہے اب تم ہی بتاؤ میں اس کو یہ کیسے سمجھاؤ اور کیسے کہو؟
ارشد اپنے دوست واجد، ماجد،سامی، قمر،انور، جمال، کمال ساجداور ارمان، سے کانفرنس کال کرکے عیدی ملی یا نہیں ملی کی گفتگو کر تا ہے۔ ارشد کہتا ہے ماجد اپنے والد سے کہو کہ وہ ہمارے خوبصورت فوٹو کو کمپیوٹر میں سیٹ کرکے ہماری عید کی امیجیس تیار کرے تاکہ انٹر نیٹ پر رکھی جاسکے اور لوگ جتنی بار اس تیار شدہ امیجیس کو ایک دوسرے کو سینڈ کریں گے اتنے ہی بار پیسے ہمارے اکاؤنٹ میں جمع ہوتے جائے گے۔اور جو رقم اس فوٹو امیجیس سے حاصل ہوگی وہ ہم مریضوں کی مدد میں استعمال کریں گے۔ واجد نے کہا میرے والد کے پاس اتنے روپیے نہیں کہ وہ انٹر نیٹ کی مدد سے اس امیجیس کو تیار کرسکے اگر آپ سب کو عیدی مل جاتی تو شاید کچھ بات بن جاتی۔ سبھی نے باری باری سے ایک بار پھر حامی بھری۔ دوسرے روز ارشد اپنے ابّو سے پوچھنے لگا کہ نیکی کیا ہوتی ہے؟ اس کے ابّو نے کہا کوئی بھی اچھا کام جس سے بھلائی ہو وہ نیکی کہلاتی ہے۔ ارشد نے کہا ابّو ہمیں پھر آپ عیدی کیوں نہیں دے دیتے؟ اس کے ابّو نے کہا یہ بھوت تم پر پھر سے سوار ہوگیا۔آخر تم اس عیدی کا کروگے کیا؟ لوک ڈاؤن کے چلتے تم باہر اپنے دوستوں کے ساتھ جا نہیں سکتے۔آخر تمہارا ارادہ کیا ہے؟ ارشد کہتا ہے ابّو بات یہ ہے کہ اس لوک ڈاؤن کے چلتے کئی مریضوں کے گھر والوں کو سخت مدد کی ضرورت ہے اور ہم سب یعنی ہمارے دوستوں نے مل کر ایک پلان بنایا ہیں جس کے تحت لوگوں کی مدد کرنے میں آسانی ہوں گی۔ ارشد کہتا ہے میں آپ سے اسی لیے عیدی مانگ رہا تھا۔ارشد کے ابّو نے کہا یہ باتیں تم نے کہا ں سے سیکھی۔ بڑی عمر کے لوگ بھی اس طرح کی سوچ بڑی مشکل سے رکھ پاتے ہے اور تم نے اتنی ننھی سی عمر میں یہ سوچنا شروع کر دیا۔ارشد کے ابّو نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر دو سو کی دس نوٹیں ارشد کے ہاتھوں میں رکھتے ہوئے کہنے لگے کہ نیک کام میں دیری نہیں ہونی چاہیے۔ ارشد اپنے ابّو سے کہتا ہے مجھے یہ نوٹ نہیں چاہیے۔کیا آپ موبائل سے ڈیجیٹل پے کرسکتے ہیں؟ ارشد کے ابّو نے کہا کیا تمہارے پاس کوئی اکوؤنٹ کی جانکاری ہے کیا؟ ارشد نے اپنے موبائل کے مسیج پر لکھے اکاؤنٹ میں پیسے ڈلوادیے۔ ارشد کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ امّی سے کہتا ہے۔ارشد کو اتنے میں جمال فون کرکے کہتا ہے کیا تمہیں عیدی مل گئی؟ ارشد کہتا ہے کہ ہاں مجھے عیدی بھی مل گئی اور میں نے موبائل پے بھی کروادیا ہے۔ارشد جمال سے پوچھتا ہے کیا تمہیں عیدی مل گئی تب جمال کہتا ہے کہ مجھے کل تک عیدی مل جائے گی اور انشا اللہ ہماری نیک نیتّی کی طرح ہمارا کام آسان ہوگا۔
ماجد کے ابّو نے اکاؤنٹ میں پیسے آتے ہی کام شروع کردیا۔ ماجد کے ابّو نے ارشد واجد، ماجد،سامی، قمر،انور، جمال، کمال ساجداور ارمان تصویریں منگوالی۔ارشد اپنے دوستوں سے فون پر رابطہ رکھتے ہوئے اپنے اسکولی دوستوں کے علاوہ رشتے داروں اور پڑوسیوں تک یہ بات پہچانے کی بات کرتا ہے۔دھیرے دھیرے اکاؤنٹ میں عیدی کے نام کی کی جانے والی مدد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے پانچ روز بیت گئے اور عیدالفطر کا دن بھی آگیا۔ ارشد اور اس کے ابّو نے عید گاہ جانے کے بجائے گھر پر ہی عید کی نماز پڑھی۔ ارشد اور اس کے ابّو نے بعد شیر خورماں پی رہے تھے خبروں میں ارشد اور اس کے دوستوں کی وڈیوں کو دکھایا جارہا تھا کہ کس طرح آج کے بچوں نے عید منائی اور ساتھ ہی ساتھ یہ خبر بھی دکھائی جا رہی تھی کہ عیدی کے صحیح معنوں کو ان بچوں نے بتایا۔عیدی موج مستی میں اڑانے کا نام نہیں بلکہ اپنوں کی مدد کرنے میں عیدی کا مزا ہے۔ارشد کے ابّو ارشد کو گلے لگا کر کہتے ہیں کہ آج مجھے تم نے وہ عیدی دی جو میرے تصور میں بھی نہ تھی تبھی ارشد کہتا ہے کہ ابّو آپ نے مجھے عیدی دی ہے میں نے آپ کو کہا عیدی ہے۔ ارشد کے ابّو مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ تو نے جو نیک کام کیا یہ والدین کے لیے ان کے بچوں کی طرف سے بہترین عیدی ہیں۔ ہم والدین دن رات یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے بچوں کو نیک راہ چلا۔اور جب دعائیں قبول ہوتی ہیں تب یہ منظر دیکھنے کو ملتا ہے اور ویسے بھی میں آج اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے نیک اولاد دی۔تبھی ارشد اپنے ابّو سے کہتا ہے کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے نے مجھے اتنے اچھے والدین دئیے۔ارشد اپنے دوستوں سے فون کے ذریعے عید مبارک کہتا ہے تب اس کے دوست بھی اُسے عید مبارک کہتے ہیں۔
—–

ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Email:

Share
Share
Share