اقبال کی نظم ’ نیا شوالہ ‘ کا معروضی مطالعہ :- پروفیسر حبیب نثار

Share
پروفیسر حبیب نثار

اقبال کی نظم
’ نیا شوالہ ‘ کا معروضی مطالعہ

پروفیسر حبیب نثار
صدر شعبہ اردو
یونی ورسٹی آف حیدرآباد، حیدرآباد۔46

اقبال اردو کا ایک سیدھا سادہ شاعر ہے ، جس نے حق گوئی و بے باکی کو اپنا شعار بنایا لیکن اقبال کے کلام کا یہی سیدھا پن اُسے پیچیدہ شاعر بنادیتا ہے۔ ۱۹۰۵ء تک لکھی گئی اقبال کی بیشتر نظمیں ان کے فن اور اظہار بیان کی سادگی کی دلیل ہیں غالباً یہی سادگی ان کی شہرت کی ضامن بھی ہے۔

اقبال کی نظم’نیا شوالہ‘ایک ایسی نظم ہے جس کے مضامین و مطالب حقیقتاً ’پیت کی ریت ‘سے لبریز ہیں لیکن ارباب نقدونظر نے اس نظم کے معنوں کو اپنے اپنے انداز میں کچھ ایسے مفاہیم عطا کیے کہ اس کی تفہیم میں پیچ و خم ہی پیچ وخم نظر آتے ہیں۔
اقبال کی نظم ’نیا شوالہ‘ پہلی مرتبہ رسالہ ’مخزن‘(لاہور)بابت مارچ ۱۹۰۵ء میں شائع ہوئی۔ پروفیسر گیان چند جین اپنی تصنیف ’ابتدائی کلامِ اقبال بہ ترتیبِ ماہ و سال‘میں اطلاع دیتے ہیں کہ اقبال کی اس نظم کو محمد عبداللہ عطا ساکن چرکھاری سنٹرل انڈیا نے رسالہ ’شاہدِ سخن‘حیدرآباد،جلد۱، نمبر ۱۲، بابت دسمبر ۱۹۱۳ء میں رسالے کے صفحات۲۳ تا ۲۵ پر اپنے نام سے شائع کیا۔ (ص:۲۷۵)
پروفیسر گیان چند جین راقم الحروف کے استاد ہیں انھوں نے کتاب میں اس سرقے کا ذکرعبدالصمد خاں صاحب کے کتب خانے ’اردو ریسرچ سنٹر‘کے حوالے سے کیا۔
محمد عبد اللہ عطا کے اس سرقے کا ذکرڈاکٹر محمد انورالدین نے اپنے پی ایچ۔ڈی کے (غیر مطبوعہ)مقالے ’حیدرآباد دکن میں اردو کے علمی و ادبی رسائل کا تنقیدی جائزہ‘کے صفحات ۴۰۴ و ۴۰۵ پر کیا ہے۔ انھوں نے رسالہ ’شاہد سخن‘کے صفحہ ۲۵ کا عکس بھی اپنے مقالے میں شامل کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد انورالدین نے اپنا مقالہ شعبۂ اردو حیدرآبادیونی ورسٹی میں ۱۹۸۴ میں داخل کیا اور اسی برس انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی گئی۔ ڈاکٹر محمد انورالدین کے نگران پروفیسر گیان چند جین تھے جن کی متذکرہ بالا تصنیف ۱۹۸۸ء میں شائع ہوئی ہے۔ اس تناظر و پس منظر میں ’نیا شوالہ‘کے سرقے کی دریافت کا سہرا ڈاکٹر محمد انورالدین کے سرجاتاہے۔
’بانگ درا‘ میں موجود نظم ’نیا شوالہ‘میں جملہ ۹ شعر ہیں۔ رسالہ مخزن میں شائع شدہ نظم میں جملہ اٹھارہ شعر ہیں لیکن ’بانگ درا‘ میں موجود نظم کا آخری شعر اس میں نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اقبال نے ’بانگ درا‘ میں شامل کرتے وقت ’نیا شوالہ‘کے جملہ دس اشعار منسوخ کیے۔ اس مقالے میں راقم نے ’نیا شوالہ‘کے صرف پہلے بند یعنی اس نظم کے ابتدائی آٹھ مصرعوں پر اظہار خیال کیا ہے کہ نظم کے یہی مصرعے اختلافی رہے ہیں۔
کسی بھی فن پارے کا مطالعہ کرتے ہویے اس کے خالق کے نقطۂ نظر اور مزاج سے واقف ہونا ضروری ہوتاہے شاعر کے مزاج اور اسلوب سے شناسائی کے لیے لازم ہے کہ ہم شاعر کی جملہ تخلیقات کا مطالعہ کریں، ان کے مفاہیم، تراکیب،اصطلاحات، استعارات و تشبیہات کے ساتھ ساتھ شاعر کی مخصوص فکر کے تناظر میں کسی بھی فن پارے کا مطالعہ کریں۔
اقبال کی نظم ’نیا شوالہ‘کے مفاہیم تک رسائی کے لیے ضروری ہوگا کہ اہم اقبال کے ان تمام ذخیرۂ کلام کا مطالعہ کریں جن کو انھوں نے ۱۹۰۵ ء تک تخلیق کیا ہے ورنہ اس نظم کی صحیح تفہیم میں ہم سے چوک بھی ہوسکتی ہے۔ ’نیا شوالہ‘کا مطالعہ کرتے وقت کم از کم مندرجہ ذیل نظموں کے ان اشعار /مصرعوں کو ہمارے شعور میں موجود ہونا چاہیے: نظم ’صدائے درد‘
جل رہاہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبودے اے محیط آب گنگا تو مجھے
سرزمین اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا یاں تو اک قرب فراق انگیز ہے
ع:
ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب
جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آتی نہیں
اس چمن میں کوئی لطفِ نغمہ پیرائی نہیں
لذتِ قربِ حقیقی پر مٹاجاتاہوں میں
اختلاط موجہ و ساحل سے گھبراتاہوں میں
نظم ’آفتاب‘(ترجمہ گائتری) اور نظم پر علامہ اقبال کا لکھا ہوا نوٹ۔ نظم ’دردِ عشق‘ کا یہ شعر:
ہر دل مئے خیال کی مستی سے چور ہے
کچھ اور آج کل کے کلیموں کا طور ہے
نظم ’سید کی لوح تربت پر‘کا یہ شعر:
عرض مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے
نیک ہے نیت اگر تیری تو کیا پروا تجھے
نظم’تصویر درد‘کے مشہور و معروف اشعار کے علاوہ ذیل کے مصرعے اور اشعار:
ع:
مرا رونا نہیں رونا ہے یہ سارے گلستاں کا
مگر غنچوں کی صورت ہوں دل درد آشنا پیدا
چمن میں مشت خاک اپنی پریشاں کرکے چھوڑوں گا
پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے، تو اس مشکل کو آساں کرکے چھوڑوں گا
ذیل کے شعر میں لفظ ’بت‘ اور ’خدا‘خصوصی توجہ کے طالب ہیں:
زباں سے گرکیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل
بنایا ہے بتِ پندار کو اپنا خدا تو نے
اسی نظم کا یہ شعر:
تھمے کیا دیدۂ گریاں وطن کی نوحہ خوانی میں
عبادت چشم شاعر کی ہے ہردم باوضورہنا
’نیا شوالہ‘میں اقبال نے ’دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے‘کہا ہے۔ نظم ’تصویر درد‘ کے مندرجہ ذیل اشعار ’محبت‘ کی تفہیم کے سلسلے میں ذہن نشیں ہونے چاہیے:
جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں
غلامی ہے اسیرامتیازِ ما و تو رہنا
شراب روح پرور ہے محبت نوع انساں کی
سکھایا اس نے مجھ کو مست بے جام وسبو رہنا
محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
بیابان محبت دشتِ غربت بھی وطن بھی ہے
یہ ویرانہ قفس بھی اشیانہ بھی چمن بھی ہے
اجاڑا ہے تمیز ملت و آییںٓنے قوموں کو
مرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکر وطن بھی ہے
نظم ’ترانۂ ہندی‘ میں اقبال نے خود کو ’ہندی‘ کہاہے:
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
اس نظم کے ایک اور مصرعے میں کہتے ہیں:
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
واضح رہے کہ یونان و مصر و روماوہ مملکتیں ہیں جنھوں نے دنیا کو اعلا تہذیبی اقدار عطا کیے ہیں اور ایک عرصۂ دراز تک یہ مسلمانوں کے زیر اقتدار رہے ہیں۔ ان تمام ممالک پر اقبال ہندوستان کو ترجیح دے رہے ہیں جو ان کے جذبۂ حب الوطنی کی سند ہے۔ نظم ’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘ کا یہ مصرعہ بھی ان کے جذبۂ وطنیت کو پیش کرتاہے۔ مصرع ہے:
وحدت کی لَے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
یہاں وحدت کی لَے ہمارے موضوع کی تفہیم کے لیے اہمیت رکھتی ہے وحدت کی لَے سنانے کے بعد وہ کہتے ہیں:
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
اب نظم ’نیا شوالہ‘ پڑھیے اس میں دو بند ہیں پہلے بند میں چار شعر ہیں اور دوسرے بند میں پانچ شعر ہیں یعنی جملہ اٹھارہ مصرعوں پر یہ نظم مشتمل ہے۔
اس نظم پر اقبال کی زندگی ہی میں بہت کچھ واویلا مچ چکا ہے۔ راقم الحروف یہاں صرف دو معترضین کا ذکر کرنا چاہتاہے۔ ڈاکٹر سچدانند سنہا نے اپنی انگریزی تصنیف ’اقبال‘میں اس نظم پر تبصرہ کرتے ہویے اسے ’بدبختانہ‘قرار دیاہے اردو ترجمے کا اقتباس دیکھیے:
’’اقبال کی نظم ’نیا شوالہ‘بد بختانہ،(Unfortunate)ہے۔ ہندوؤں سے یہ اپیل کرنا کہ وہ اپنی مذہبی نشانیوں کو چھوڑدیں تاکہ غیر ہندوؤں سے مل سکیں، کیا ایسی ہی اپیل غیر ہندوؤں سے بھی کی جاسکتی ہے کہ اتحاد کی خاطر وہ اپنی رسوم،مذہبی رسوم، عبادت کے طریقے اور مذہبی عقائد کو چھوڑدیں گے‘‘
یہاں قابل مصنف کے اس اعتراض پر صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گاکہ انھوں نے ’نیا شوالہ کی لفظیات میں پنہاں مفہوم کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں فرمائی، حرف وصوت کی بیرونی دنیا ہی کو انھوں نے اصل معنی و مفہوم اور موضوع سمجھ لیا ہے۔
اقبال کی نظم ’نیا شوالہ‘پر دوسرا سخت ترین اعتراض پروفیسر گیان چند جین نے کیا ہے۔ لکھتے ہیں:’’مورتی کے لیے ’بت‘کے لفظ میں جو عدم احترام اور تحقیر ہے وہ ہندوؤں کے لیے دل آزار ہے یہ منطق کہ بت پُرانے ہوگئے اس لیے انھیں چھوڑدینا چاہیے، ایسی ہی ہے جیسے مسلمانوں سے کہا جائے کہ کعبہ پُرانا ہوگیا اس لیے اسے چھوڑدو۔ پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے جیسا اعتراض کرکے اقبال نے علامت کو حقیقت سمجھنے کی غلطی کی ہے‘‘
استادِ محترم پروفیسر گیان چند جین کی سخن فہمی سخن شناسی میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہوسکتا لیکن یہاں اپنی اسی بات کو دہرانا چاہتاہوں کہ کسی بھی فن پارے کو پرکھنے کے لیے اس کے خالق کے مزاج سے واقف ہونا ضروری ہوتاہے۔ استادِ محترم اکثر و بیشتر دوسروں کی آرا پر صاد کرتے ہیں۔ نظم ’نیا شوالہ‘پر حواشی لکھتے ہو ے بھی وہ ڈاکٹر سچد انند کی رائے سے متاثر ہوے ہیں۔
پروفیسر گیان چند جین کے متذکرہ بالا اعتراض کے سلسلے میں دو باتیں عرض کرنی ہیں۔ پروفیسر صاحب نے لکھا ہے کہ ’مورتی‘کے لیے بت کے لفظ میں عدم احترام اور تحقیر ہے۔ فارسی میں مورتی کے لیے لفظ ’بت‘ہی مروّج ہے ملاحظہ ہو کریم اللغات ص:۲۱، کالم :۳۔ اب اس میں اقبال کا کیا قصور۔
دوسری بات یہ عرض کرنی ہے کہ اقبال نے جب ع ’’پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے‘‘لکھا ہے۔ اس مصرعے کے بارے میں راقم الحروف کا خیال ہے کہ یہاں کسی علامت کا بیان نہیں ہواہے جیساکہ پروفیسر گیان چند جین نے لکھا ہے۔ اس لیے کہ اقبال نے جب پتھر کی مورتوں کے ساتھ خُدا کا لفظ باندھا ہے تو یہ واضح ہوجاتاہے کہ وہ علامت سے کام نہیں لے رہے ہیں، استعارہ باندھ رہے ہیں۔ اپنی نطم ’تصویر درد‘میں انھوں نے کہاہے ع:
بنایاہے بُت پندار کو اپنا خدا تونے
اقبال نے ’نیا شوالہ‘کے مصرعے میں بھی پندارکے بت ہی کی جانب اشارہ کیا ہے۔ ’نیا شوالہ‘پر تبصرہ کرتے ہویے پروفیسر گیان چند جین لکھتے ہیں:
’’پہلے بند میں کئی مصرعوں میں ہندوؤں پر طنز ہے ۔توازن برقرار رکھنے کے لیے دوسرے شعر کے مصرع ثانی میں مسلمانوں کو بھی لتاڑا ہے یہاں بھی عدم توازن ہے۔ اگر یہ کہتے کہ مذہب نے واعظ کو جنگ و جدل سکھایا تب تو بات برداشت کی جاسکتی تھی لیکن یہ کہنا کہ خدا نے جنگ و جدل سکھایا، خداکے ساتھ زیادتی ہے‘‘
پروفیسر گیان چند جین کی تحریر آپ نے پڑھ لی اب نظم ’’نیا شوالہ‘‘کا پہلا بند ملاحظہ ہو:
سچ کہدوں اے برہمن گر تو بُرانہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بُت ہوگئے پرانے
اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا
جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے
تنگ آکے میں نے آخر دیروحرم کو چھوڑا
وعظ کا واعظ چھوڑا چھوڑے تیرے فسانے
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجکو ہر ذرّہ دیوتاہے
پروفیسر گیان چند جین نے لکھا ہے کہ پہلے بند کے کئی مصرعوں میں ہندوؤں پر طنز ہے ۔ میرے خیال میں یہ حقیقت سے بعید ہے۔ پہلے شعر کے مصرع اولیٰ میں ’برہمن‘ ہم وطنوں کی علامت کے طور پر باندھا ہے ۔ یہاں لفظ کی ظاہری صورت سے دھوکے کا امکان ہے۔ ’برہمن‘یہاں سناتن دھرم کے مذہبی رسوم اداکرنے والا شخص نہیں ہے بلکہ ہم وطن دانشور شخص مراد ہے۔ دوسرے مصرعے میں ’صنم کدوں‘ کا لفظ اہم ہے اور ا سکی صحیح تفہیم شعر کے مفہوم کی تشریح کرتی ہے۔ ’صنم کدے‘یہاں خود اختیار کردہ خیالات کے حصار کے معنوں میں باندھا گیا ہے ۔یہ اس لیے کہ ’بت‘کا لفظ انھوں نے پندار کے ہمراہ عموماً باندھا ہے۔ یہاں یہ عرض کردوں کہ راقم الحروف کا منشا ان تشریحات سے اقبال کے کلام کی نئی توجیہ بیان کرنا نہیں بلکہ ان کی اس نظم کے اصل مفاہیم تک پہنچنے کی سعی و کوشش ہے۔ آمدم برسر مطلب اگر ہم ’صنم کدوں‘ اور ’بت‘کے کوئی اور معنی مراد لیتے ہیں تو دوسرے شعرکا مصرع اولیٰ دامنِ سوال دراز کرتاہے:
اپنوں سے بیر رکھنا تونے بتوں سے سیکھا
یہاں لفظ ’اپنوں‘اہم ہے بت یعنی مورتی بقول پروفیسر گیان چند جین، لیکن مورتیاں تو کسی سے بیر نہیں ر کھتیں نہ ہی ان کے یہاں ’اپنا‘اور ’غیر‘ کا تصور ہوتاہے پھر اقبال نے یہ مصرع کیوں باندھا۔ کیااقبال ایسا ہی مہمل کہتے تھے۔ ایسی صورت میں دوسرے شعر کا مصرع ثانی جس کے بارے میں پروفیسر گیان چند جین نے لکھا ہے کہ خدا کے ساتھ زیادتی ہے اور بھی مہمل بن جاتاہے۔
واضح رہے کہ بُت بات نہیں کرتے، اگر ہم بتوں کو خواہشات کے بت قرار دیں تو مطلب صاف ہوجاتاہے کہ ایسی صور ت میں پروفیسر گیان چند جین کا سارا اعتراض یکسر ختم ہوجاتاہے۔’نیا شوالہ‘ کے پہلے بند کے چوتھے مصرعے کے جو معنی عموماً مراد لیے گئے ہیں وہ اسلامی تعلیمات کے یکسر خلاف ہیں پھر ایسی صورت حال میں اس مصرعے میں ’خدا‘کالفظ اہم بن جاتاہے اور اسی کے حل سے مصرعے کے معنی کی پیچیدگی دور ہوتی ہے اور مطلب صاف ہوجاتاہے۔ ’خدا‘ فارسی کا لفظ ہے یہ عربی لفظ نہیں اور نہ ہی اسلامی تعلیم میں ’خدا‘کا لفظ ملتاہے۔ لغات میں ’خدا‘ کے ایک معنی خود سے بن جانا ملتے ہیں اور اگر یہ اصطلاحی معنی ہم واعظ کے ساتھ منسلک کردیں تو مفہوم عیاں ہوجاتاہے کہ خود ساختہ واعظ نے جنگ و جدل سکھایا۔ واللہ اعلم!
نظم ’نیا شوالہ‘پڑھتے ہویے اگر ہم صرف الفاظ کے مروّجہ معنی مراد لیں تو پہلے بند کا تیسرا شعر دوسرے شعر سے زیادہ مہمل بن جاتاہے ۔اس شعر کا پہلا مصرع:
تنگ آکے میں نے آخر دیر و حرم کو چھوڑا
میر نے کہا تھا ’ قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا ۔کب کا ترک اسلام کیا‘ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اقبال تو یہاں دیر و حرم دونوں کو ایک ساتھ چھوڑنے کی بات کررہے ہیں، کہیں ان کی مراد اپنے زمانے کے ممتاز ومعروف، رہنماؤں، سیاسی جماعتوں اور مروّجہ فلسفیانہ موشگافیوں سے تو نہیں ہے؟
اس شعر کا دوسرا مصرع بھی اصطلاحی معنی لیے ہویے ہے ورنہ اقبال پر منافقت کا الزام آئے گا۔ اب آئیے پہلے بند کے ٹیپ کے شعر کی جانب۔ عموماً پتھر کی مورتوں سے دیوی دیوتا مراد لیے جاتے ہیں یہ در اصل اوتار ہوتے ہیں لیکن پتھر کی مورتوں میں خدا کا کیا تصو ر ؟ اگر اقبال پتھر کی مورتوں میں ’بھگوان‘کے ہونے کی بات کرتے تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے لیکن انھوں نے ’خدا‘کیوں باندھا ؟ شاید اس لیے کہ ان کی مراد ’پندار کے اسیر بتوں سے ہے ‘ جو خود ساختہ خدابن بیٹھے ہیں ۔نہ جانے کیوں اس شعر کو پڑھتے ہویے آتش کا یہ شعر باربار یاد آتاہے:
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیاکیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
اقبال نے بند کے ٹیپ کے شعر میں خاکِ وطن کے ہر ذرّے کو اپنے لیے دیوتا کے مماثل قرار دیا ہے۔ یہ حب الوطنی کی ایسی مثال ہے جس کی داد نہ دینا کفرانِ ادبی ہے، دراصل بند کا یہ شعر جذبات کی ایسی شدت کے ساتھ بیان ہواہے کہ الفاظ میں چھپے ہویے معنی کو صرف محسوس کیا جاسکتاہے ،شاعر کے جذبات کے تصدق پر ایمان لایا جاسکتاہے اور ان کی تشریح شاید ممکن نہیں لیکن یہ شعر بھی اپنے اندر تمثیلی پہلو لیے ہویے ہے:
اے اہل نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا؟
—–
ماخذ:
* ڈاکٹر سچد انند سنہا ’اقبال‘(انگریزی تصنیف)
* پروفیسر گیان چند جین ’’ابتدائی کلامِ اقبال بہ ترتیب ماہ وسال ‘‘۱۹۸۸ء
* عبدالرزاق ’’کلیات اقبال‘‘حیدرآباد
* اقبال ’’بانگ درا‘‘
* ڈاکٹر محمد انورالدین ’’حیدرآباد دکن میں اردو کے علمی و ادبی رسائل کا تنقیدی جائزہ‘‘مقالہ غیر مطبوعہ مخزونہ کتب خانہ شعبۂ اردو ، یونی ورسٹی آف حیدرآباد، حیدرآباد
* ڈاکٹر محمد انورالدین ’’حیدرآباد دکن کے علمی و ادبی رسائل(تحقیقی و تنقیدی جائزہ)‘‘ سنہِ اشاعت: ۱۹۹۷ء
* محمد افضل الدین ’’مجلہ عثمانیہ‘‘ اقبال نمبر ، حیدرآباد دکن
* کریم الدین ’’کریم اللغات،،۔
* ڈاکٹر سید مجاور حسین رضوی ’’جہانِ افکار‘‘۱۹۸۷۔
* ڈاکٹر اشرف ’’اقبال شاعر اور فن‘‘ (انگریزی)طبع اول۔
*****

Share
Share
Share