تعلیم و تربیت اور سازگار ماحول :- ابو عبدالقدوس محمد یحییٰ

Share
ابوعبدالقدوس محمدیحییٰ

تعلیم و تربیت اور سازگار ماحول

ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

ماحول عربی زبان کا لفظ "مَا اورحَولَ” کا مرکب ہے۔ جس کے معنی "جو اس کے آس پاس” ہیں۔قرآن مجید میں یہ لفظ اس ہی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَثَلُهُمْ کَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْ قَدَنَارًا فَلَمَّآ اَضَآءَتْ مَا حَوْلَه، ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَتَرَکَهُمْ فِيْ ظُلُمٰتٍ لَّا يُبْصِرُوْنَ(البقرۃ:17)
ترجمہ:ان کی کہاوت اس کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی تو جب اس سے آس پاس سب جگمگااٹھا اللہ ان کا نور لے گیا اورانہیں اندھیریوں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں سوجھتا۔

بچوں کی تعلیم وتربیت میں اچھے ماحول کی فراہمی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔اس حقیقت سے ہم آج غافل ہیں حالانکہ عرب آج سے پندرہ صدیاں قبل ہی نہ صرف اس سے بخوبی آگاہ تھے کہ بلکہ اس پر عمل پیرا بھی تھے کہ بہترین جسمانی صحت اور زبان دانی (فصاحتِ لسان) کے لئے سازگار ماحول مطلوب ہوتا ہے ۔اس غرض سے وہ اپنے بچوں کو قبائلی اوردیہی علاقوں میں بھیجاکرتے تھے۔
سازگار ماحول کسی بھی زبان کی تعلیم کے لئے بنیادی عنصرہے۔آج تعلیمی نفسیات کی رو سے زبان کی تدریس کے لئے Direct Method زیادہ موثر اورکارگر ہوتاہے۔ بالفاظ دیگر کسی بھی زبان کی بہترتعلیم،ترسیل وتفہیم کے لئے بچوں کو دوسری زبان کی دنیا(مصنوعی ماحول) میں لے جایاجائےتاکہ طلباء بغیر کسی مشقت کے زبان دانی میں مہارت تامہ حاصل کرلیں۔
مزیدبرآںسازگار ماحول کی یہ اہمیت صرف جسمانی صحت یا زبان دانی کی حد تک نہیں ہے بلکہ بچوں کی تمام ترتربیت کا دارومدار اسی سازگار ماحول پرہے۔
اگر کسی بچے کو اس کی صلاحیت، لیاقت،مہارت،دلچسپی اور توانائی کے مطابق ماحول فراہم کردیا جائے تو اس کی تعلیم و تربیت کا آدھا مرحلہ وہیں طے ہوجاتاہے ۔ بچے موم کی مانند ہیں انہیں جس سانچے میں ڈھالا جائے گا بآسانی ڈھل جائیں گے۔ ہمیں جدوجہداپنامطلوبہ سانچہ بنانے میں کرنی پڑے گی۔جب بہترین سانچہ یعنی اچھاماحول تیارہوجائے گا تو تعلیم وتربیت کا باقی ماندہ عمل بہت ہی سہل، مؤثر اوردلکش ہوجائے گا۔
جب بچہ اچھا دیکھے گا تو وہ اچھا سوچے گا اورجب ہر طرف سے Input اچھا ہی ہوگا تو انشاء اللہ العزیز Process کے بعد Output بھی اچھا ہوگا۔غورکیاجائے توباقاعدہ اسکول وغیرہ قائم کرنے کی بنیادی وجہ بھی بچوں کو اخلاقی ، روحانی،جذباتی ، ذہنی، نشوونما کے لئے سازگار ماحول فراہم کرنا ہی ہے۔ اگر24گھنٹے نہ سہی کم از کم 5 گھنٹے کے لئے ایک سازگار ماحول فراہم کیاجائے جہاں بچے معاشرے کے بگاڑ ،روزمرہ زندگی کے مسائل ومصائب سے مکمل الگ تھلگ ہوکر علم حاصل کریں(قطع نظر اس کےکہ آج اسکول اس خاصیت کے حامل ہیں یا نہیں!)۔
بہرحال بچے جس ماحول میں رہتے ہیں ، وہی کچھ سیکھتے ہیں ۔ یہاں حضرت ثعبان ثوری سے منسوب یہ قول برمحل ہوگا کہ "مبارک ہیں وہ لوگ جن کے پاس نصیحت کرنے کے لئے الفاظ نہیں اعمال ہوتے ہیں”۔
آپ بچوں کی جس انداز سے تربیت کرنا چاہتے ہیں انہیں وہ ماحول مہیا کردیں ۔ اس لئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ بچہ وہ نہیں سیکھتا جو اس کا والد اسے کہتا ہے بلکہ وہ سیکھتا ہے جو وہ اپنے والد کو کرتے ہوئے دیکھتاہے۔ آسان الفاظ میں اگریہ کہا جائے بچہ کے کردار میں تبدیلی پندونصائح سے نہیں آتی بلکہ تبدیلی اس کے سامنے عمل کرنے سے آتی ہے(کارٹون، ڈرامے اورفلمیں اس کی بہترین عملی مثالیں ہیں)۔نیزاگر بچہ میں کوئی خامی یا برائی پیدا ہوئی ہے تو وہ بھی لامحالہ اس کے ماحول ہی کی پیدوار ہے۔اس اہم نکتہ کو تعلیم وتربیت کرنے والے افراد فراموش کردیتے ہیں پھر بچوں کی غلط تربیت کی تمام ترذمہ داری بچوں پرڈال کرانہیں مطعون کرتے ہیں۔عموماً ہمارا معاشرتی رویہ والد ماجد جناب ابوعلی محمد رمضان صاحب کے اس مصرعہ "چلیں ہیں کعبہ پکڑے ہوئے ہیں چین کاروٹ” کے مصداق ہے۔
ہمیشہ کسی منزل پر پہنچنے کے لئے صحیح روٹ(راستہ ) کا انتخاب ضروری ہے۔ تعلیم وتربیت کی شاہراہ پر گامزن ہونے کے لئے صحیح راستہ اچھا ماحول ہے جس کا انتخاب ضروری ہے۔بچہ جو کچھ بنتا ہے اس میں وراثت سے زیادہ اس کے ماحول اور ماں باپ کی تعلیم و تربیت کاعمل دخل ہوتاہے۔اس امرکی صراحت حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے ۔
مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ(صحيح البخاري :ص94)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتاہے ۔پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یانصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔
اگر غور کیا جائے اس حدیث مبارکہ کی رو سے اس بچہ کو والدین کی جانب سے جو ماحول فراہم کیا جاتا ہے وہ اس کے عادی بنتے بنتے اس ماحول کا حصہ بن جاتے ہیں۔
نیز ایک اورحدیث مبارکہ کی رو سے برے ماحول سے بچنا بھی باعث نجات بن سکتا ہے۔
فَقَالَ: إِنَّهُ قَتَلَ مِائَةَ نَفْسٍ، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَمَنْ يَحُولُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ التَّوْبَةِ؟ انْطَلِقْ إِلَى أَرْضِ كَذَا وَكَذَا، فَإِنَّ بِهَا أُنَاسًا يَعْبُدُونَ اللهَ فَاعْبُدِ اللهَ مَعَهُمْ، وَلَا تَرْجِعْ إِلَى أَرْضِكَ، فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوْءٍ۔(الصحيح المسلم: 2766)
"اس نے عالم سے کہا : وہ سوآدمیوں کو قتل کرچکا ہے کیا توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ اس عالم نے جواب دیا ہاں توبہ کی قبولیت سے کون سی چیز رکاوٹ بن سکتی ہے فلاں علاقہ میں جاؤ وہاں کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں تو بھی ان کی رفاقت میں اللہ کی عبادت میں مشغولیت اختیار کرو اوراپنے ملک کی طرف واپس نہ آنا وہ بری زمین ہے۔”
نیزاس حدیث مبارکہ سے یہ بھی مستفاد ہے کہ انسان جب اپنے اردگر برائی ہوتے دیکھتا ہے تو وہاں اس شخص کا اس برائی میں مبتلا ہوجانا بعید از فہم نہیں۔حقیقت حال یہ ہے کہ گندگی،غلاظت، ناپسندیدہ افعال، برے کام،مکروہ اشیاء مسلسل دیکھتے رہنے سے ان برائیوں سے ناگواری کم ہوتے ہوتے بسا اوقات سرے سے ہی مفقود ہوجاتی ہے۔
اس کی مثال غلاظت اٹھانے والوں کی دی جاسکتی ہے کہ وہ وہیں غلاظت کے ڈھیر کے پاس بیٹھ کر خورد نوش میں مصروف ہوں گے لیکن انہیں ذرا بھی کراہت محسوس نہ ہوگی۔یوں مسلسل بوند بوند پانی گرتے رہنے سے بڑی بڑی چٹانوں میں شگاف پڑجاتے ہیں، اسی طرح براماحول انسان میں سرایت کرتے کرتے آخر غیرمحسوس انداز سے انسان کو کرپٹ کردیتا ہے اوراسے خبر بھی نہیں ہوتی۔
سنگ ریزہ ہوا، بوند بوند آب سے
جملہ معترضہ:
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے جیلوں کا ماحول اتنا خراب ہے کہ اگر کوئی بد نصیب اچھا شریف انسان بھی وہاں چھ ماہ کا تربیتی کورس کرکے آجائے تو پیشہ ور قزاق اور قاتل بن کر نکلتاہے۔ جب کہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ اگر واقعی مجرمانہ ذہنیت کا حامل کوئی فرد بھی جیل سزا کاٹ کر نکل رہا ہو تو وہ شریف انسان بن کر نکلے۔ایسا صرف اسی وقت ممکن ہے جب جیل کے ان قیدیوں کواچھا ماحول اورصحیح ذہنی ،روحانی اورنفسیاتی تربیت مہیا کی جائے ۔جیسا کہ اس حدیث مبارکہ میں 100 قتل کرنے والے سے کہا گیا کہ 100 قتل کرنے کے باوجود وہ اس برے ماحول کوچھوڑکر نیک لوگوں کی بستی میں جابسے تو اس شخص کے کردار کی اصلاح ہوجائے گی اور یوں کرنا اس کے لئے باعث نجات ہوگا۔اگر ایک پیشہ ور قاتل کی اصلاح نیک لوگوں کی بستی میں ہوسکتی ہے تو آج کے دور میں ہلکے پھلکے جرائم میں گرفتار افراد کی اصلاح کیوں نہیں ہوسکتی۔اس جانب حکومت اور دیگر دانشورطبقہ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تعلیم وتربیت میں اسی ماحول کی اہمیت کے حوالے سے ایک مشہور انگریزی نظم جو Dorothy Law Nolte نے تحریر کی ہے۔جس میں انتہائی بہترین طریقے سے بچوں کی تربیت کے بارے میں رہنمائی کی گئی ہے اوربہترین طریقہ تعلیم و تربیت کو حسین لفظوں کے خوبصورت پیرائے وسانچے میں ڈھالاگیا ہے کہ جس گھر میں بچوں پر بے جا تنقید ہوتی ہے وہ بچے جب پروان چڑھیں گے تو ہر کام کو ناقدانہ پہلو ہی سے دیکھیں وہ کسی کی اچھائی کو بھی تحسین کی نگاہ سے نہ دیکھیں گے اورکلمات سپاس(تشکر) کا تو ان کے پاس سے بھی گزرنہ ہوگا۔
مزید ایک اور عیب جو ان میں نشوونما پائے گا وہ الزام تراشی اورعیب جوئی کی عادت بد ہے(جو اس وقت ہمارے معاشرے میں عروج پر ہے)۔ وہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ بھی دوسروں پر ڈالیں گے۔ اپنی اصلاح کے بجائے الزام تراشی سے کام لے کر قیل وقال یعنی بحث ومباحثہ میں خود کوبچانے کی کوشش کریں گے جس کا بہت بڑا نقصان یہ ہوگا کہ وہ کبھی اپنی اصلاح نہ کرسکیں گے۔ کیونکہ اصلاح کے لئے اپنی غلطی تسلیم کرنا ضروری ہے الزام تراشی کرنے والا فرد کبھی بھی غلطی تسلیم نہیں کرتا۔اور”پرنالہ وہیں رہے گا” کا مصداق بن جاتاہے۔
بچوں کی اصلاح کے لئے ان کی عادات پر نظرضروررکھیئے۔ لیکن ان کی تضحیک،تذلیل اورتخویف نہ کی جائے کیونکہ تضحیک کرنے سے وہ احساس کمتری کا شکار ہوجائیں گے، تذلیل کرنے سے احساس جرم میں گرفتار ہوجائیں گے۔
بے جاترہیب و تخویف ان سے بچپن کی شوخیاں چھین لے گی۔بچے ہمہ وقت اداس اور غمگین رہیں گے۔ اداس وغمگین رہنے کی وجہ سے ان کی جسمانی، ذہنی ،معاشرتی وجذباتی نشوونما بری طرح متاثرہوگی اوران میں بہت سی خامیاں وخرابیاں پیدا ہوجائیں گی۔یہ جسمانی وذہنی بیماریوں کا شکار ہوجائیں گے۔یہ تو زندگی کا بہت ہی نازک دور ہے ،مسلسل ان منفی امورمیں مبتلاء رہنے کی بنا پردنیا سے بیزار ہوجائیں گے۔ ان کے لئے اس دنیا میں کوئی دلکشی نہ رہے گی۔ جس سے ان کی پوشیدہ صلاحیتیں پروان نہ چڑھیں گے اورمعاشرہ کاایک ناکارہ فرد ہونے کے ناطے معاشرے کے بوجھ میں اوراضافہ ہوجائے گا۔
بچپن(عہدطفولیت) میں منفی طرزعمل کے بجائے بچوں پرمحبت وشفقت کی نظر رکھیئے اوران کی جائز تعریف وتحسین اوران کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ جس سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہوگی اور وہ بھی اچھے کاموں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھنے کے عادی بن جائیں گے۔خود بھی خوش وشاداں ہوں گے اوران کی چہچہاہٹ سے پوراچمن خوشی سے سرشارہوگا ۔ ان کی صلاحیتیں خوب نکھر کرسامنے آئیں گی۔معاشرے پر بوجھ بننے کے بجائے معاشرے کے بوجھ میں ہاتھ بٹانے والے بن جائیں گے۔ اپنی زندگی کے مقصد یعنی مقصد حیات کی تحصیل میں ہمہ وقت سرگرم رہیں گے۔اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنے بچوں کی تربیت کس انداز سے کرناچاہتے ہیں۔
اس انگریزی نظم کا منظوم مفہوم راقم السطور کے والد ماجد جناب ابوعلی محمد رمضان صاحب نے نظم بندکیاہے۔

حاصل کریں گے جو انہیں ماحول دیجئے

تنقید مت کریں سونہ الزام سیکھ لیں
زیبانہیں جو کام وہی کام سیکھ لیں
لڑتے رہیں گے سرکش وباغی رہے اگر
رکھیئے ہمیشہ بچوں کی عادات پر نظر
تضحیک مت کریں انہیں شرمندگی نہ ہو
گم جوہرِ حیات کی تابِندگی نہ ہو
نازک سے ہیں گلاب ذرافکر کیجئے
حاصل کریں گے جو انہیں ماحول دیجئے
احساس جرم ہوگا نہ تذلیل کیجئے
قلبِ خوداعتماد نہ تبدیل کیجئے
تعریف میں جوان کی کریں آپ گفتگو
اوروں کی خوبیوں کی انہیں ہوگی جستجو
ان پر نگاہ ِ لطف ہے ان کے لئے بڑی
محسوس کرسکیں اسی دنیا میں دلکشی
ہردم ہو ان کی حوصلہ افزائی کاخیال
پُراعتماد ہوں گے یقینا یہ نونہال
علم اور معرفت کی کریں آپ ان سے بات
حاصل ہو ان کو معرفتِ مقصدِ حیات
گرخوف کی فضا میں رہیں گے وہ ارجمند
ہوجائیں گے اداس رہیں گے وہ فکرمند
ماحول دوستانہ ملے ان کو ہوخبر
دنیامقام خوب ہے راحت کا ہے نگر
کیا نونہال آپ کے ہیں شاد و کامراں
کیاتربیت ہے ان کی اصولوں پہ مہرباں

Children Learn What They Live

If children live with criticism, They learn to condemn.
If children live with hostility, They learn to fight.
If children live with ridicule, They learn to be shy.
If children live with shame, They learn to feel guilty.
If children live with encouragement, They learn confidence.
If children live with tolerance, They learn to be patient.
If children live with praise, They learn to appreciate.
If children live with acceptance, They learn to love.
If children live with approval, They learn to like themselves.
If children live with honesty, They learn truthfulness.
If children live with security, They learn to have faith in themselves and others.
If children live with friendliness, They learn the world is a nice place in which to live.
If children live with fear, They learn to be apprehensive
If children live with recognition, They learn to have a goal
With what your child living?

Share
Share
Share