شیخ التفسیر والحدیث ابو محمد فہیم انواراللہ خان :- ابو عبدالقدوس محمد یحییٰ

Share
ابو محمد فہیم انواراللہ خان

شیخ التفسیر والحدیث
ابو محمد فہیم انواراللہ خان (قسط اول)

ابو عبدالقدوس محمد یحییٰ

یوں تو تمام علوم کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ وہ انسان کوقوانین ربی کا علم دے کر اس کائنات کو مسخر کرنے کے قابل بناتے ہیں لیکن سب سے بہترین مطالعہ خود کامیاب انسان کی شخصیت کا ہے کہ اس دنیا میں جنہوں نے نہ صرف خود کامیابیاں حاصل کیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں افراد کو کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کردیا۔

کسی ایک کامیاب انسان کی سیرت کا مطالعہ کرلینا بہت سی کتابیں پڑھ لینے سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ کتابیں محض علم میں اضافہ کرتی ہیں قطع نظر اس علم کے اطلاقی وعملی پہلو ہے یا نہیں جب کہ سیرت انسانی تجربات و مشاہدات کے عملی واطلاقی پہلوؤں کے ساتھ ان تجربات کے نقصانات وفوائد سے بھی ہمیں آشکار کرتی ہے تاکہ ان کی روشنی میں انہیں اختیار یاترک کرنے کا فیصلہ کیاجائے۔ علم بغیر عملیت کے مانندِ سراب ہے جن کا کوئی وجود نہیں اور ان کی تلاش سعی لاحاصل اورجہالت کے سوا کچھ نہیں ۔
یہ بسیط کائنات اللہ رب العزت نے حضرت انسان کے لئے بنائی اوربسائی ہے۔ اس عظیم الشان کائنات میں تمام جاندار و بے جان اجسام حیوانات ونباتات وجمادات یعنی چرند،پرند،شجر وحجر حتی کہ چاند ،سورج اور ستارے بھی انسان ہی کی خدمت وحفاظت پرمامور ہیں اور انہیں اس ہی کی سہولت، راحت،آرام، تسکین اوردلکشی کے لئے پیداکیا گیاہے۔ اس کائنات کی تخلیق وپیدائش کا سبب ، غرض وغایت یہی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس کائنات کا محورو مرکز،جان و دل، قلب و صدراورروح رواں حضرت انسان ہی ہے۔اگر اس کائنات سے انسان کاوجود نکال دیا جائے تو یہ تمام کائنات بے رنگ ،بے جان ،بے رونق اورروکھی پھیکی نظرآئے۔
یوں تو تمام اصناف علوم(معاشیات، طبیعات،عمرانیات وغیرہ) کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ وہ انسان کوقوانین ربی کا علم دے کر اس کائنات کو مسخر کرنے کے لئے علم فراہم کرتے ہیں لیکن سب سے بہتر اورمفید، مطالعہ خود حضرت انسان کی شخصیت کا ہے کہ ان کامیاب افراد کی شخصیات کا مطالعہ کیاجائے جنہوں نے اس دنیا میں نہ صرف خود کامیابیاں حاصل کیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں افراد کو کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کردیا۔ کسی ایک انسان کی سیرت کو بے نقاب دیکھ لینا بہت سی کتابیں پڑھ لینے سے زیادہ مفید ہے کیونکہ کتابیں محض علم میں اضافہ کرتی ہیں قطع نظراس سے کہ اس میں عملیت (Practicality) موجود ہے یانہیں اور اس کے برعکس سیرت انسانی تجربات و مشاہدات کے عملی واطلاقی پہلوؤں کی بھی غماز ہے اور ان تجربات کے مضرات (نقصانات) وثمرات (فوائد) سے بھی ہمیں آشکار کرتی ہے کہ یہ تجربات قابل عمل ہیں یانہیں یہ راستے منزل تک جاتے ہیں یا نہیں تاکہ ان کی روشنی میں انہیں اختیار یاترک کرنے کا فیصلہ کیاجائے۔ علم بغیر عملیت (Practicality) کے مانندِ سراب ہے جس کی مثال پارس پتھر(سنگ پارس) یا ہما (عنقاء)پرندے کی ہے جن کا کوئی وجود نہیں اور ان کی تلاش سعی لاحاصل اورجہالت کے سوا کچھ نہیں ۔
اسی بناء پر انسان کی دلچسپی دوسری کامیاب شخصیات کو بے نقاب دیکھ لینے میں ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی جہالت و ظلمت کو ان شخصیات کے علم کے نور سے تبدیل کرکے خود کومانند”انوار” بنالیں نیز یہ عمل انسان کے ذوق مطالعہ کی تسکین کا بھی بہترین ذریعہ ہے ۔
ایسی ہی ایک اسم بامسمّیٰ شخصیت الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ کے موجودہ ڈائریکٹر جناب ابومحمدفہیم انواراللہ خان صاحب (سابق پرنسپل) کی ہے ۔ آپ کا علیمیہ کے لئے پچاس سال سے زائد عرصہ خدمات سرانجام دینا ہر لحاظ سے قابل فخر اور لائق تحسین صد آفرین امرہے۔
قصہ نصف صدی کا
آپ نے جامعہ علیمیہ کے لئے پچاس سال سے زائد عرصہ خدمات سرانجام دی ہیں ۔آپ کا اتناطویل عرصہ خدمات سرانجام دینا ہر لحاظ سے قابل فخر اور لائق تحسین صد آفرین امرہے جس کی مثال جامعہ علیمیہ میں تودرکنار دوسرے سرکاری وغیرسرکاری اداروں میں بھی نہیں ملتی کہ کوئی شخص پچاس پچپن سال تک ایک ہی ادارے میں خدمات سرانجام دے۔
نصف صدی کا قصہ ہے
دوچار برس کی بات نہیں
ان پچاس سالوں میں انوار صاحب نے علیمیہ کو اپنی آنکھوں کی روشنی(نور) ، اپنے دماغ کی قوت فکرویادداشت وتخیل و یکسوئی ،اپنی زبان کی قوت گویائی،اپنے حواس خمسہ کی قوت ادراک، اپنا زور بازو اور جسم کی طاقت، اپنے قلب کی بصیرت عطاکی، اور ان سینکڑوں طلباء کا عظیم خزانہ دیا جو انھوں نے برسوں کی بڑی محنت شاقہ سے تیار کئے ہیں ۔اس وجہ سے آپ بجاطور پر محسن ومنیر علیمیہ کے لقب سے نوازے جانے کے لائق ہیں ۔ الغرض ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ نے جو مشعل آپ کوتھمائی تھی آپ نے اس کوبجھنے نہیں دیااورجب روز محشر آپ کا سامنا ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ سے ہوگاتوآپ فخریہ ان سے کہہ سکیں گے۔
تونے جو مشعل شب تاب ہمیں بخشی تھی
اپنا خوں دے کے بھی وہ ہم نے جلائے رکھی
آندھیاں آئیں ، بپھرتے ہوئے طوفاں آئے
ہم نے لَو اس کی بہرحال بچائے رکھی

تعارف:
آپ کی ولادت ١٩٣٧ میں ہوئی ۔ آپ کے والد محترم کا اسم گرامی جناب ولی محمدعلیہ الرحمۃ ہے۔ آپ کا آبائی علاقہ سورت (انڈیا) ہے۔پاکستان بننے کے بعد آپ ہجرت کرکے پاکستان کے شہر کراچی میں مقیم ہوگئے۔آپ حافظ قرآن، فاضل درس نظامی، فاضل عربی (لاہور) فاضل مدینہ یونیورسٹی، ایم اے عربک (کراچی یونیورسٹی) ہیں ۔
آپ کی تعلیم و اسناد کا تعارف کراناتوتذکرۃً وتبرکاً تھا وگرنہ آپ کی ذات میں علوم وفنون کی معرفت کا وہ سمندر موجزن ہے جس کی گہرائی وگیرائی کسی تعارف کی محتاج نہیں کیونکہ علم حاصل کرتے کرتے ایک وقت ایسابھی آتا ہے جب علم حاصل کرنے والااسناد ،ڈگریوں ،شہادتوں کا محتاج نہیں رہتا۔ اس لئے کہ علم نور ہے اور نور جمع کرتے کرتے انسان صاحب نور بلکہ مجمع انوار بن جاتاہے ۔ جہاں حال یہ ہو کہ علم کا نور تقسیم کرتے کرتے پچاس سال سے زیادہ عرصہ بیت جائے تو ایسے شخص کے علوم ومعرفت کی گہرائی و گیرائی اسناد کی محتاج نہیں رہتی بلکہ وہ شخص خود سند بن جاتا ہے نہ صرف سند بلکہ اسناد اور ڈگریاں بانٹنے اور تقسیم کرنے والا بن جاتا ہے۔یعنی کہ اب اس شخص کا لکھ کر دیا ہوا خود دوسروں کے لئے شہادۃ اور سند کا درجہ رکھتا ہے۔مثلاً جس طرح زبان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ زبان کی تراکیب، ہیئت، معانی و مفاہیم میں سند یاد لیل اس زبان کے ادباء وشعراء حضرات کا کلام ہوتا ہے۔ان ادباء و شعراء کے کلام کے بعد کسی سنداوردلیل کی چنداں کوئی احتیاج وضرورت نہیں رہتی ، نہ ہی طلب کی جانی چاہئے ، نہ ہی کوئی صاحب علم وبصیرت زبان دانی (Linguistic) سے واقفیت رکھنے والاشخص اس دلیل یا سند پر کوئی اعتراض یا جرح کرسکتا ہے اورنہ ہی کرنے میں حق بجانب ہوگا۔ اسی طرح علامہ ابوفہیم صاحب بھی نہ صرف انوار جمع کرتے کرتے بلکہ پھر اسے تقسیم کرتے کرتے اور دوسروں کو منور کرتے کرتے خود اللہ کے انوار(انواراللہ) بن گئے ۔ آپ اپنے طلباء اور بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے سند (شہادۃ) کے درجہ پر فائز ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ اس سند کو تادیر سلامت رکھے۔

حلیہ مبارک
آپ چھ فٹ کے لمبے چوڑے مضبوط وتوانا انسان ہیں ۔آنکھیں بڑی بڑی اور ان میں ذہانت کی چمک ہے۔ کشادہ پیشانی اور چوڑی ٹھوڑی ان کے ارادے کے پکے ہونے کا اظہار کرتی ہے۔ چوڑا سینہ، ہاتھ پاؤں بڑے بڑے،کھلتی ہوئی گندمی رنگت۔چہرے پر سفید رنگ کی داڑھی جس نے آپ کے چہرہ کو اور پروقار، باہیبت مگرانتہائی خوبصورت بنادیا۔اس پر مستزاد یہ کہ اللہ رب العزت نے آپ کو جسمانی اوربدنی قوت وطاقت سے بھی نوازا ہے۔اور حدیث مبارکہ میں قوی اورطاقتور مؤمن کو بہتر اور اللہ کامحبوب قراردیاگیا ہے۔اس لئے کہ طاقتور مؤمن نیک افعال وعبادات کرنے پر زیادہ قادر ہوتاہے اور اسی طرح وہ دوسروں کے تکلیف دینے یادیگر آزمائشوں میں زیادہ صبروتحمل اور بردباری کرنے والا ہوتاہے۔
المؤمن القوی خیر واحب الی اللہ من المؤمن الضعیف "طاقتور مؤمن کمزور مؤمن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔”(مسلم)
اللہ رب العزت نے آپ کو قوی البدن وطاقتور بنانے کے ساتھ ساتھ خوش کلام ، خوش گفتار ، سحرانگیز کیفیت طاری کردینے والابھی بنایا ہے جو ملنے والوں کو ان کی شخصیت کی طرف کھینچ لیتا ہے بلکہ وہ خود کشاں کشاں ان کی طرف آجاتاہے۔ الغرض آپ بسطۃ فی العلم والجسم کی بہترین زندہ مثال ہیں ۔بقول شاعر:
بدن سانچے میں ڈھالا ہے جہاں صناع قدرت نے
تری باتیں بھی ڈھالی ہیں ترے فقرے بھی ڈھالے ہیں
طویل العمری
اللہ رب العزت نے آپ پر جہاں دیگر عنایات ورحمتیں نازل کیں ہیں وہیں آپ کو طویل العمری کی نعمت سے بھی نوازاہے اور حدیث مبارکہ میں ایسے طویل العمر شخص کوجو نیکی اور بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتاہوبہتر اوراچھا انسان قراردیاہے۔جیسا کہ حدیث نبوی ﷺہے۔خیر الناس من طال عمرہ وحسن عملہ بہتر انسان وہ ہے جسے لمبی عمرحاصل ہو اور اس کے اعمال بھی اچھے ہوں ۔ (ترمذی)

سادگی انوار
آپ ہمیشہ عربی لباس میں ملبوس رہتے ہیں ،سفید رنگ کاجبہ اور سر پر عربی طرز کاسفید رومال پہنتے ہیں ۔ یعنی آپ اس حدیث مبارکہ پر عمل پیرا ہیں "البسوا من ثیابکم البیاض ،فانھا من خیر ثیابکم ”تم سفید لباس پہنا کرو اس لئے کہ یہ بہترین لباس ہے”۔(جامع ترمذی ،سنن ابوداؤد)۔جس سے آپ کے چہرے کی نورانیت میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔
آج کے اس چکاچوند اورخیرہ زدہ( گلیمر) معاشرے میں جہاں عام مرد حضرات توایک طرف سوائے چند معدودہ علماء و مشائخ اکثر علماء،مشائخ ونعت خواں حضرات بھی انتہائی شوخ، بھڑکیلے ،چمک دار ، مہنگے ملبوسات استعمال کرتے ہیں اور نفاست ونزاکت کامجسمہ بنے رہتے ہیں اور ظاہری میک اپ اورتراش خراش میں لگے رہتے ہیں جب کہ ان کے لبوں پر رسول اکرم کا یہ قول مبارک ہوتاہے : ”سادہ زندگی گزارنا ایمان کا حصہ ہے۔” اور جب وہ یہ جملے اداکرتے ہیں تو ان کا ظاہری حلیہ اس قول سے مطابقت نہیں رکھتا۔جس سے نہ صرف یہ کہ اسلامی معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ یہ دین اسلام وشریعت مطہرہ سے مذاق بن جاتاہے۔ لیکن دوسری جانب آپ جو کہ مفسرقرآن ، معلم حدیث ، مبلغ اسلام،مجاہد ملت ، مہاجر پاکستان ، مدیرجامعہ ، محسن طلباء،مشفق ابناء علیمیہ ہیں ،اتنی جامع صفات ہونے کے باوجود بھی انتہائی سادہ طبیعت کے مالک ہیں ۔آپ کے اندر سادگی رچی بسی ہے۔سادگی لباس وخوراک میں، رہن سہن میں ، انداز واطوار میں، گفتارواظہار میں ۔ الغرض آپ سادگی کا پیکر یا مرصع ومجسم سادگی ہیں ۔ آپ کو پہلی دفعہ دیکھنے والا بھی آپ کی سادگی اور سادہ طبیعت کی شہادت و گواہی دے گا۔ اور یہ سادگی آپ کی ترقی ،کامرانی و عروج میں رکاوٹ نہیں بنی بلکہ یہ مزید معاون ومددگار ثابت ہوئی ہے۔کیونکہ بقول شاعر
انہی کے آکے قدم چومتی ہے خود منزل
وہ راہبر جوطبیعت بھی سادہ رکھتے ہیں

ہمہ جہت شخصیت
ان کی شخصیت کس قدر منفرد ،پر بہار جاندار دل آویز ہے اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جس کوبھی ان کے پاس بیٹھنے کا موقع ملا ان ہی کا ہوگیا۔ صاحب فکر اور خوش فکرہیں ۔ میں نے اپنی زندگی میں علماء کے حلقہ میں ان سے زیادہ باکردار،عالم باعمل اور محبوب انسان کوئی نہیں دیکھا ۔ آپ حافظ،عالم،مفسر، محدث، فقیہ،مدبر،مفکر،محقق،مورخ،مبلغ اور سیاح ہونے کے ساتھ ساتھ متقی، پرہیز گار، رقیق القلب، نرم دل، صابر، بردبار، عفوو درگزر کرنے والے، متحمل مزاج انسان ہیں ۔ آپ کو شاذ ہی کبھی طیش کے عالم میں دیکھا ہو۔
افقہ ومجتہد و ہادی و عابد و زاہد
کیا ہی عالِم طرف عالَمِ امکاں آیا

بے لوث اورغمگسارشخصیت
آج اس مادہ پرستی کے دور اور تاجرانہ ذہنیت کے عالم میں ایسا بے لوث ، مخلص، شفیق،ہمدرد، غمگسار، طلبہ کی معاونت کرنے والا اور ان کے دکھ درد بانٹنے والا، اپنا تن، من،دھن، طلبہ کی کامیابی وفلاح و بہبود کی خاطر نچھاور کرنے والا شاید کوئی نہ ہو۔
ان کے کردار میں بے پناہ اخلاص و صداقت، اور جذبہ ہمدردی ونفاست ہے۔ وہ خوددار شریف النفس انسان ہیں کوئی بھی ایسا کام کرناگوارانہیں کرتے جس سے ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچے۔ آپ نے ملکی اور غیر ملکی پرکشش تنخواہوں اورمراعات کی پیش کشوں (Offers) کے باوجود جامعہ علیمیہ کو ترجیح دی اور اپنی پوری زندگی اس(جامعہ) میں انوار بکھیرنے اور روشنی پھیلانے میں صرف کردی۔آپ کی مکمل زندگی جامعہ کے لئے اس شعر کی مانند ہے۔
زندگی پھول بھی ہے رنگ بھی ہے
نور تنویر بھی ہے موجۂ انوار بھی ہے

سدابہار شخصیت
حضور اکرم کا فرمان ہے:
عجبا لامر المؤمن ان امرہ کلہ لہ خیرولیس ذالک لاحد الا للمؤمن۔ ان اصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ وان اصابتہ ضراء صبر فکان خیرالہ ۔”مومن کے لئے ہرمعاملہ میں خیروبھلائی ہےاور ایسا مؤمن ہی کے لئے ہےاورکسی کے لئے نہیں ۔ اگر اسے کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اس پر رب کا شکر اداکرتا ہے اور یوں بھلائی اس کے حق میں بہتر ثابت ہوتی ہےاور اگر اس کو کوئی رنج یاغم پہنچے تو اس پر وہ صبر کرتا ہے اور یوں وہ غم بھی اس کے لئے خیر کا باعث ہوتاہے ۔ ” (مسلم)
یوں وہ اس خوشی اور غم سے بھی رب کی رضا حاصل کرلیتا ہے جو مومن کی زندگی کا مقصد حقیقی ونصب العین ہے۔ویسے انسان کی اصل پہچان بھی جذبات کی شدت کے وقت ہوتی ہے ۔خاص کر منفی جذبات یعنی غصہ ،نفرت ،غم وغیرہ۔جہاں تک نفرت ،حسد ،رقابت کا تعلق ہے تو ہمارے استاذ صاحب ان منفی صفات سے بہت بالا شخصیت ہیں۔لیکن غم اورغصہ فطری حالتیں ہیں جو انسان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ لیکن ان میں بھی استاذ محترم ان جذبات کا اثر دوسروں تک نہیں پہنچنے دیتے۔ آپ خوشی اور غم کو رب کی طرف سے سمجھتے ہیں اور اس کی تقسیم پر راضی رہتے ہیں اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ نہ آپ خوشی، مسرت،کے لمحات میں فخر وغرور سے کام لیتے ہیں اور نہ ہی غم وحزن کی کیفیت آپ کےمنور چہرےپر کوئی تکدر و کراہت اورناگواری کے اثرات پھیلاتی ہے۔یہ صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ معمولی طلباء کی گستاخی کے موقع پر بھی آپ کی قدآورشخصیت کو کاظمین الغیظ کی عملی مثال دیکھا گیا نیز آپ کی اہلیہ محترمہ کے وصال کے موقع پر بھی آپ نے جس طرح صبر سے کام لیا وہ اس بات کا عملی ثبوت ہے۔مختصراً آپ ہرحال میں دیکھنے والوں کونہ صرف پرسکون بلکہ شگفتہ اور شادمان ہی نظرآتے ہیں ۔کیا ہی سدابہار شخصیت ہے۔(سبحان اللہ!)
شادمانی میں گزرتے اپنے آپے سے نہیں
غم میں رہتے ہیں شگفتہ شادمانوں کی طرح

محرم اسرار حیات ابدی
آپ روحانی امراض ،مثلاً حسد،عناد،حرص، ہوس،غیبت، کینہ،نفرت، انتقام،بغض،دشمنی اور دیگر دنیاوی آلائشوں سے پاک ہیں ۔آپ کا تعلق افراد کے اس گروہ سے ہے جو اس دنیاکے جاہ ومنصب ، مال و دولت، امارت و اقتدار،نمود ونمائش،عزت و شہرت وغیرہ سے مکمل استغناء وبے نیازی برتتے ہیں کیونکہ وہ دنیاوی زندگی( عارضی وفانی) اور اخروی زندگی (ابدی و دائمی) کے راز یعنی فلسفہ حیات دنیا و آخرت کوسمجھ جاتے ہیں اور پھر اپنے دامن کو دنیا کی آلائشوں سے آلودہ اورداغدار نہیں ہونے دیتے ۔
جو محرم اسرار حیات ابدی ہیں
دامن کو وہ آلودہ دنیا نہیں کرتے
فرض شناسی ونظم و ضبط
ذمہ داری ملنے پر رویوں کے لحاظ سے دنیا میں دو طرح کے انسان ہیں۔ ایک جب کوئی ان پر نگران نہ ہوتو وہ آزادمنش ہوجاتے ہیں اور لاپرواہی، تساہل و تغافل کا رویہ اپناتے ہیں۔ آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کام سے حددرجہ غفلت برتے ہیں اور ادارے کے خسارہ اور نقصان کا باعث بنتے ہیں لیکن دوسرے وہ افراد ہیں جب انہیں آزادی دی جائے تو اپنی تمام تر صلاحیتوں ، خوبیوں، کو بروئے کار لاتے ہیں یہاں تک کہ اپناجسم وجان سب قربان کرتے ہوئے ادارے کو مزید نکھار دیتے ہیں،حسین، خوبصورت روشن اورمنور بنادیتے ہیں ۔ یعنی آزادی ملنے پران کے کام بھی مانندِ انوار ہوجاتے ہیں ۔ علامہ انوار صاحب کا تعلق اسی دوسرے طبقے و گروہ سے ہے۔آپ انتہائی فرض شناس ،ذمہ دار اورنظم ضبط کے پابند ہیں ۔آپ تمام تر سختیوں دشواریوں کے باوجود محنت و مشقت سے کبھی گھبراتے واکتاتے نہیں ہیں کیوں کہ آپ جانتے ہیں کہ اگرراستے دشوارگزاروپرخار ہوں توان کانٹوں پر چلنا دشوارضرور ہے لیکن کامیابی(منزل) کے لئے ضروری ہے۔بقول حالی
سعی سے اکتاتے اورمحنت سے کنیاتے نہیں
جھیلتے ہیں سختیوں کو سخت جانوں کی طرح

Share

One thought on “شیخ التفسیر والحدیث ابو محمد فہیم انواراللہ خان :- ابو عبدالقدوس محمد یحییٰ”

Comments are closed.

Share
Share