ولنٹائن ڈے : کہیں دیر نہ ہوجائے…! :- عظمت علی

Share
عظمت علی

ولنٹائن ڈے ۔ کہیں دیر نہ ہوجائے…!

عظمت علی

سلطان صلاح الدین نے کہا تھا کہ جس قوم کو تباہ کرنا ہو اس کے نوجوانوں میں فحاشی پھیلادو. حقیقت یہ ہے کہ آج اگر کسی قوم کو مفلوک الحالی کے کھنڈر میں تبدیل کرناہے تو اس کا سب سے سادہ اور کارآمدطریقہ نوجوانوں کی فکری مہار پر قبضہ کرنا ہے۔ حالیہ دور میں روزانہ نت نئے طرح سے نوجوانوں کا بیڑا غرق کرنے کی بدستور کوشش جاری ہے۔

14 فروری کا پس منظر شدید الجھا ہوا ہے۔ مختلف قسم کی باتیں چلی آئی ہیں ۔ گوکہ جتنا منھ اتنی بات!بہر کیف، تاریخ میں ملتاہے کہ تیسری صدی عیسوی میں رومانی بادشاہ کلاڈیس ثانی (Claudius ll)اپنے زمانہ کا ایک سفاک بادشاہ تھا۔ اس کے دور میں جب سلطنت روم میں جنگ کا دور چلا تو اس نے لشکر تیار کرنے کو کہا۔ لیکن فوجی جنگ کے لیے آمادہ نہیں ہوا سوا ئے چند کے۔اس نے وجہ دریافت کی تو معلوم پڑاکہ شادی شدہ مرد اپنے اہل و عیال سے دور ہو کر شریک معرکہ نہیں ہوناچاہتے اورنوجوان بھی اپنی معشوقہ اور محبوبہ سے دوری کو برداشت کرنے سے رہے۔لہٰذا، اس نے حکم نافذ کیا کہ اب کوئی شادی بیاہ نہیں کرے گا۔ لیکن ولنٹائن نے اس شاہی حکم نامہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شادی رچالی۔ جب بادشاہ کو اس بات کا علم ہواتو اس نے اسے پھانسی پر لٹکادیا۔ اسی بنا پر اس کی یاد میں اسے عید کا دن قرار دیا گیا۔

دوسری تایخ میں یوں ملتا ہے کہ ولنٹائن نامی ایک پادری تھا۔ وہ ایک راہبہ کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوگیاتھا۔ چونکہ عیسائی مذہب میں پادری اور راہبہ کے لئے نکاح ممنوع ہے۔اس لئے ایک روز وہ اپنی معشوقہ کے تسلی و تسکین کی خاطر اس سے ایک خواب ذکرکیا۔ 14 فروری کا دن ایسا ہے کہ اگر اس میں کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو کوئی حرج نہیں ہے اور اسے گناہ کے زمرے میں شامل نہیں کیاجائے گا۔راہبہ بھی اس کی میٹھی باتوں میں آگئی اور دونوں عشق کے نشہ میں آکر کلیسا کی ساری روایات کو بالائے طاق رکھ کر وہ سب کچھ کر گزرے جو نام نہاد عشق و محبت میں ہوا کرتاہے۔کلیسا کی روایت کی یوں دھجیاں اڑا دینے پر اس کا بھی وہی حشر ہوا جوہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے یعنی اسے قتل کردیاگیا۔بعد میں کچھ منچلے اور مغرب زدہ حواس باختہ ٹولہ نے ولنٹائن کو شہید محبت کا لقب دے کر اس کی یاد منا شروع کردی۔

اس تہوار کے متعلق یہ بھی کہا یہ جاتاہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کیلیا(Luper Calia) ”بھیڑیا کا تہوار”کی صورت میں ہوا۔ یہ 13 سے 15 فروری تک منایا جانے والا تہوارہے۔اس روز قدیم رومی باشندے اپنے دیوتاؤں سے بدی کی طاقت سے نجات اور معاشرے کو اچھا ئی کی طرف راغب کرنے اور خوشحالی و زمین کی زرخیزی کی دعائیں مانگتے تھے۔رومی حضرات اس تہوار کو لوپا (Lupa) نامی دیوی کی نسبت سے منایا کرتے تھے۔کہاجاتا ہے کہ یہ ایک مادہ بھیڑیا تھی جس نے دو شیر خوار یتیم بچوں ؛رومولس (Romulus)اور ریمس (Remus)کو اپنا دودھ پلایاتھا۔ رومیوں کی تاریخ کے مطابق بعد کے زمانہ میں انہیں دونوں نے روم کی بنیاد رکھی.

اس طرح اس تہوار کے پس پردہ نہ جانے کتنی کہانیاں موجود ہیں ۔ یہ بات بھی سننے میں آئی کہ اس روز قدیم روم میں لڑکیاں پرچیوں پر اپنا نام لکھ کر ایک صندوق میں ڈال دیا کرتیں اور لڑکے آتے اور اسے نکالتے۔ اس میں جس لڑکی کا نام آجا تا وہ اس کی دوست ہوجاتی اور پھر عشق ومحبت کا دور شروع ہوچلتا اور وہ سب کرتے جو نہیں کرناچاہیے ہوتا!

لیکن ان سب واقعات میں ایک واقعہ جو سب سے زیادہ مشہور ہے اور اسے تقریبا تقریبا سبھی نے لکھا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ اس کا آغاز ”رومن سینٹ ولنٹائن ”کی مناسبت سے ہوا جسے محبت کا دیوتا بھی کہتے ہیں ۔ اسے مذہب تبدیل نہ کرنے کی جرم میں قید وبند کی صعوبتوں میں رکھا گیا۔ قید کے دوران اسے جیلر کی لڑکی سے پیار ہوجاتاہے اور…. ۔سولی پر چڑھانے سے پیشتر اس نے جیلر کی بیٹی کو الوداعی محبت نامہ لکھا جس میں دستخط سے پہلے ”تمہارا ولنٹائن ”تحریر تھا۔ یہ واقعہ 14 فروری 279 عیسوی کو پیش آیا اور اسی یادمیں اس دن کو منایا جاتاہے۔
اس کے بعد یورپ کے مختلف مقامات پر اس دن لڑکوں کی طرف سے لڑکیوں کو کارڈ بھیجنے کا رواج چل پڑا۔ اس موقع کی مناسبت سے کارڈ ارسال کئے جانے لگے. خصوصاًگلاب کے پھول پیش کئے جاتے ہیں ۔رقص و سرور کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں اورنہ جانے کیا کیا گل کھلائے جاتے ہیں ۔
ماضی بعید میں اس کا کوئی وجود نہیں ملتا۔ لیکن ابھی یہی کوئی چند برسوں سے مغربی میڈیااس اباحیت اور اخلاق باختگی کی نشر و اشاعت میں لگ گیا ہے اور اس میں پانی کی طرح دولت بہارہا ہے۔ جس کا اصل مقصداچھے بھلے معاشرہ کو آلائش سے تر کرناہے۔اس موقع پر لوگ سرخ رنگ کے گلاب، سرخ رنگ کی مٹھائیاں اور دیگر سرخ رنگ کے تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں ۔
غرض کہ اس روز غیر جائز طریقوں سے لڑکیوں کا ایک دوسرے نامحرم سے میل ملاپ ہوتاہے۔ جس میں مسلمان لڑکے اور لڑکیاں بھی ملوث نظر آتے ہیں ۔
اگر اس صنفی ملاقات کو فحاشی اور زناکاری کا مقدمہ کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔ چونکہ ایسا مشاہدہ میں آیا ہے اور آپ کے علم میں بھی ہوگا۔آپ اس کی عالمانہ تائید کریں گے۔ لہٰذا، خود بھی ان جیسے سماجی خرافات سے دور رہیں اور دوسروں کو بھی تلقین کرتے رہیں ۔مبادا دیر نہ ہوجائے۔۔۔!

Share
Share
Share