کالم : بزمِ درویش – ماڈرن میراثی :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
ماڈرن میراثی

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

جدید دور کا ماڈرن میراثی اپنی تازہ شاہکار تخلیق کے ساتھ میرے سامنے بیٹھا تھا ‘ مہنگے کلر اورکا غذ سے ایک میگزین تیار کرایا جس کے سر ورق پر اسلامی ملک کے حکمران کی تصویر اِس طرح لگائی کہ دنیا کی سپر پاور کو جانور کی شکل میں زمین پر لٹا یا ہوا ہے اور حکمران صاحب نے اُس پر اپنا قدم رکھا ہوا ہے

یعنی حکمران صاحب نے دنیا کے طاقت ور ترین ملک کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ہے ‘ خواب کی یا خیال کی حد تک تو یہ سوچ کسی حد تک قابل قبول ہے لیکن حقیقت میں ایسا سوچنا بھی پاگل پن کا آخری درجہ ہو گا لیکن اِس مہذب پڑھے لکھے دور میں بھی ایسے ماڈرن میراثی کس طرح لوگوں کو نہیں بلکہ حکمرانوں کو بے وقوف بناتے ہیں یہ نہ سمجھ آنے والی بات ہے یہ شخص پندرہ سال پہلے بھی ایسا ہی ایک میگزین لے کر میرے پاس آیا تھا اُن دنوں میں کوہ مری میں تھا میری روحانی زندگی کے ابتدائی ایام تھے خدائے بزرگ و برتر کو مُجھ گناہ گار پر پتہ نہیں کس وجہ سے پیار آیا کہ مجھے مرجع خلائق بنا دیا ‘ ہزاروں کا مجمع میرے ساتھ حرکت کرتا ہزاروں لوگ روزانہ مُجھ فقیر تک آتے میں اپنی سمجھ کے مطابق اُن لوگوں کی داد رسی کی کو شش کر تا اِسی طرح کا ایک دن تھا جب ہزاروں لوگ جمع تھے کہ کسی سفیر کی سرکاری گاڑی آکر رکی اُس میں سے اسلامی ملک کے ڈپٹی سفیر اور یہ موصوف اُتر ے اور لوگوں میں پھل جوسز پانی کی بہت ساری بوتلیں بانٹنا شروع کر دیں لوگوں میں چیزیں بانٹنے کے بعد پھر یہ لوگ میری طرف آئے ‘ سفیر صاحب تو اردو نہیں جانتے تھے یہ موصوف میرے پاس آئے اور بولے جناب اِ س وقت تو بہت رش ہے ہم رات کو جب آپ فارغ ہو نگے تو پھر قدم بوسی کے لیے حاضر ہو نگے پھر یہ لوگ چلے گئے رات گئے یہ ٹولا پھر مُجھ فقیر تک اپنی بے شمار تحائف اور فروٹ کی پیٹیوں کے ساتھ آئے وہ مسلسل اپنی فیاضی اور دولت کا اظہار کر نے پر تُلے ہو ئے تھے ۔ اِسی طرح موصوف نے بہت سارے میگزین موجودہ اور پچھلے مہینوں کے نکالے اور میز پر ڈھیر کر دئیے ‘ سفیر صاحب زبان نہ سمجھنے کی وجہ سے مسلسل مسکراہٹ اچھا ل رہے تھے میں حیران نظروں سے اُن میگزینوں کے سر ورق پر چھپی تصاویر کو دیکھ رہا تھا اُن تصویروں میں کسی ملک کے حکمران کو سلطان صلاح الدین ایوبی یا سلطان محمود غزنوی ثابت کرنے کی کو شش کی گئی تھی ‘ تصویروں میں موجود حکمران انقلاب کا دعوے دار تھااُ ن نے انقلابی کتاب بھی چھاپی ہو ئی تھی اُس کی بہت ساری کاپیاں لاکر ڈھیر کر دی گئیں ‘ میں حیران نظروں سے یہ ساری کارروائی دیکھ رہا تھا کہ اِس ساری ڈیل کا مقصد کیا ہے تو یہ بندہ بولا جناب پو ری دنیا پر مسلمانوں کی حکمرانی کا مشن ہے اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کو دنیا کے چپے چپے پر پھیلانا ہے اِس عظیم اسلامی مشن میں آپ ہمارا ساتھ دیں ‘ آپ اللہ کے نیک بندے ہیں آپ یہاں پر کھلے میدان میں لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں ہم آپ کے لیے بہت عظیم الشان عمارت بنوادیتے ہیں ‘ جہاں پر چوبیس گھنٹے لنگر کا انتظام ہوگا آ پ طریقے سے لوگوں کی خدمت کریں اِس کے علاوہ آپ کے لیے ایک کالج بنایا جائے گا جس میں ہزاروں طلبا کی پڑھائی اور رہائش کا شاندار انتظام ہو گا ‘ اُس تعلیمی ادار ے کے آپ سربراہ ہو نگے وہاں پر دنیاوی تعلیم کے ساتھ آپ طلبا کو اِس عظیم انقلابی لیڈر کی کتاب کو بھی چھپ کر پڑھائیں گے اب انہوں نے رشوت کو اور بھی پر کشش بناتے ہو ئے کہا اِس ادارے کے لیے جگہ کا تعین آپ کریں گے ‘ عمارت اور اساتذہ آپ بھرتی کریں گے آپ اُس ادارے کے تنہا وارث ہونگے کوئی آپ کے کام میں مداخلت نہیں کر ے گا ‘ اِس کام کے لیے آپ کو دس کروڑ روپے جاری کئے جائیں گے اِن پیسوں کا کسی قسم کا آڈٹ نہیں ہو گا ‘ ہمیں آپ پر پورا یقین ہے ۔ ایک اور آفر یہ بھی کی کہ پہلی شفٹ میںآپ کے مریدوں کو تین سو کی تعداد میں اسلامی ملک میں اچھی تنخواہ پر بھیجا جائے گا اُ ن کی لسٹ بھی آپ ہی ہمیں دیں گے ‘ اِس کے علاوہ پر کشش تنخواہ ‘ گھر ‘ فارم ہاؤس اور بے شمار لالچ دئیے گئے میں خاموشی سے اُن لوگوں کی باتیں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا وہ دیر تک مجھے للچاتے رہے پھر یہ کہہ کر چلے گئے کہ آپ اچھی طرح سوچ لیں ہم دوبارہ پھر آپ کے پاس آئیں گے پھر آپ کا جو بھی فیصلہ ہو گا ہم مانیں گے اِس کے بعد بھی یہ گروپ تین چار بار میرے پاس آیا اِن ملاقاتوں میں مجھے اُن کی چالاکی کا پتہ چل گیا وہ ماڈرن دور کے میراثی تھے جو اپنے آرٹ سے بہت ساری دولت کمانے کے چکر میں تھے اُن کا طریقہ واردات یہ تھا کہ اِ ن کا سرغنہ چھوٹا موٹا صحافی تھا جولکھنا پڑھناجانتا تھا اُس نے پیسے اور عیاشی کا طریقہ یہ نکالا تھا کہ کسی ملک کے حکمران کا انتخاب کر کے اُس کے انقلابی نظریات کو کیش کرانا اُس کے خوابوں کی تصاویر چند میگزینوں پر چھا پنا وہ شو یہ کرتا کہ ایک تنظیم پہلے جس کی برانچیں ملک کے کونے کونے میں ہیں اُس تنظیم کے ہزاروں ارکان ہیں جو چند مہینوں میں ہی لاکھوں میں بدل جائیں گے اِن تمام ارکان کو اسلامی حکمران کی تعلیمات دی جارہی ہیں اُن ارکان میں ہزاروں میگزین ہر ماہ بانٹے جاتے ہیں پھر وہ یہ میگزین لے کر اُس ملک کے سفارت خانے جاتے وہاں جاکر کہتامیںآپ کے حکمران کے نظریات کا دیوانہ ہو اُن کے مشن کو پاکستان میں کئی سالوں سے پھیلا رہا ہوں میری زندگی کا مشن ہی یہ ہے کہ عظیم مجاہد کے انقلابی نظریات کو پاکستان کے ہر شہری تک پہنچایا جائے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ نہ تو ایسی کسی تنظیم کا وجود تھا اور نہ ہی میگزین زیادہ تعداد میں چھپتے تھے ‘ چند میگزین وہ تیار کراتا انہیں جا کر متعلقہ سفارت خانے دے آتا دو چار مہینوں تک ہی یہ بات حکمران تک پہنچ گئی اُس نے اِس بندے کو شاہی مہمان کے طور پر بلایا کروڑوں روپے دئیے کہ جاکر میرے مشن کو اور پھیلاؤ جب اِس کی ملاقات حکمران سے ہو گئی تو سفیر صاحب تو اُس کے غلام بن گئے جب اِس بندے نے بہت سارا روپیہ کمالیا تو حکمران نے فرمائش کی کہ میرا بیٹا پاکستان جائے تو تنظیم کے تمام ارکان کو اکٹھا کر کے جلسہ کراؤ وہاں یہ تقریر کرے گا اب یہ تنظیم تو تھی ہی نہیں اب یہ کسی ایسے بندے کی تلاش میں نکلے جو چند ہزار بندے اکٹھے کر سکے اِس تلاش میں یہ میرے پاس آئے ڈپٹی سفیر اِس لیے خوشامد کر تا کہ اِس مشن کی تکمیل میں وہ ڈپٹی سے فل سفیر بن جائے گا ۔ ماڈرن میراثی جب چند چکر لگا کر میرے انکار سے تھک سا گیا تو کھل کر بو لا مجھے اُس حکمران سے کو ئی لگاؤ نہیں میں تو دولت کمانے اور عیاشی کے لیے یہ سارا ڈرامہ کر تا ہوں ‘ اب مجھے بہت سارے بندے بلا کر انہیں شو کرا نا ہے جو میرے پاس نہیں ‘ پروفیسر صاحب آپ کے ہزاروں چاہنے والے ہیں ہم خرچہ کر تے ہیں آپ اپنے چاہنے والوں کو بلائیں اُس جلسے میں ہم بھی جائیں گے تصاویر لے کر بھیج دیں گے ‘ ہم نے انقلابی تنظیم کا کامیاب سالانہ اجتما ع کر لیا ہے یہ بندہ ایسی ہی واردات اِس سے پہلے دو ملکوں کے حکمرانوں کے ساتھ کر چکا تھا ادھر خوب لوٹ مار کر نے کے بعد اب اُس نے اِس ملک کے حکمران کو چنا تھا اِیسی ملاقاتوں میں ایک دن میں نے اُس سے پو چھا کہ تمہارا باپ کیا کر تا تھا تو وہ بولا جناب ہم خاندانی میراثی ہیں شادی بیاہ کے تہواروں میں بھانڈ کے طور پر عوام کا دل بہلاتے ہیں ‘ میرے مسلسل انکار پر یہ بندہ اُس وقت اُس اسلامی ملک چلا گیا وہاں جب اُس حکمران کی حکومت ختم ہو گئی تو یہ پاکستان آگیا اب پھر گھومتا پھرتا میرے پاس نیا میگزین بنا کرآگیا مجھے اُس کے پرانے مطالبے کا پتا تھا میں نے اس بار پھر انکار کیا تو وہ چلا گیا لیکن میں آجکل میڈیا پر مختلف میراثیوں کو اپنے جھو ٹے لیڈروں کی مدح سرائی کر تے دیکھتا ہوں تو یہ خیال بار بار آتا ہے کہ آجکل کردار کی بجائے بو لنے کا آرٹ آنا چاہیے پھر آپ کامیاب ہیں اِن بولنے والوں کو دیکھ کر مجھے وہ ماڈرن میراثی یاد آتا ہے جو اپنے فن کی قیمت وصول کر نے کا آرٹ خوب جانتا ہے –

Share
Share
Share