حیاتی تنوع (بائیو ڈائی ورسٹی) :- ڈاکٹر عزیز احمد عرسی

Share
ڈاکٹرعزیز احمد عرسی

حیاتی تنوع
(بائیو ڈائی ورسٹی)

ڈاکٹر عزیز احمد عرسی

زمین کی پیدائش کا معمہ آج تک راز ہائے سر بستہ ہے اس راز میں ارتقائی کہانیاں بھی پوشیدہ ہیں اور کسی قوت کا بطور خاص پیدا کرنا بھی شامل ہے۔اگر اس دنیا کو ہم بطور خاص تخلیق کی جانے والی حکمت سمجھیں تو یہ دنیا قدرت کا ایک انعام ہے ۔قدرت نے انسانوں کی خاطر بڑے اہتمام سے ا س دنیا کو بنایا اور رنگا رنگی پودوں اور قسم قسم کے جانوروں سے اسکو سجایاتاکہ انسان اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔یہی رنگا رنگی پودے اور قسم قسم کے جانور حیاتی تنوع کہلاتے ہیں جو آج ہمارا موضوع ہے۔

اس سے قبل کہ میں حیاتی تنوع کی سائنسی وضاحت کروں یہ چاہوں گی کہ کچھ حقائق آپ کے گوش گذار کروں۔ جس سے اندازہ ہو کہ ہم نے گذشتہ دنوں کس قدر حیاتی تنوع کو کھویا ہے اور ہمیں حیاتی تنوع کو بچانے کی کیوں ضرورت ہے۔

حیاتی تنوع۔ کچھ حقائق:
۱)۔اگر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دور حاضر کا حیاتی تنوع کروڑوں برسوں کی ارتقائی کہانی کا پھل ہے تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم اس پھل کو گھنٹوں منٹوں میں تباہ کرتے چلے جارہے ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ قدرت نے جس رفتار سے زمین پر پودوں کو بسایا اور جانوروں کو آباد کیا ہم نے اس سے 1000گنا زیادہ رفتار سے ان پودوں اور جانوروں کو برباد کیا ہے۔
۲) ۔ زمین کی پیدائش کے بعد سے کرہ ارض پر جس قدر جنگل تھا ان میں صرف ایک سو برسوں میں 45فیصد جنگل تباہ و برباد کردیا گیا اور ہر برس 12ملین ہیکٹیرجنگل کا صفایا ہوتا جارہا ہے۔
۳)۔ IUCN یعنی انٹر نیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے مطابق ماحولیاتی آلودگی اس بات کا اشارہ دے رہی ہے کہ آنے والے 20تا 25 برسوں میں مزید 35000 پودے اور 5500 جانور اس دنیا سے معدوم ہوجائیں گے۔انہیں خطرہ زدہ انواع یعنی ان ڈینجر اسپیسیز کہا جاتا ہے ایک اندازے کے مطابق دنیا میں 30 ملین جاندار پائے جاتے ہیں جن میں صرف دو ملین جانداروں کو ہمارے سائنسدانوں نے بیان کیا ہے۔ہندوستان میں پودوں کی 45000 اور جانوروں کی 90,000 انواع کو بیان کیا گیا ہے۔ لیکن نہ صرف ساری دنیا بلکہ ہندوستان میں بھی جانداروں کے معدومیت کی رفتار از حد تیز ہے جس کی وجہہ سے حیاتی تنوع کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ پیدا ہوچلا ہے۔جس میں کئی امور کے ساتھ ساتھ بڑی ذمہ داری زراعت اور اس کی انجام دہی کے طریقہ کار پر ہے۔آئی یو سی این کی سرخ فہرست ( 2004 ) کے مطابق 784 انواع معدوم ہوچکی ہیں اورایک اندازے کے مطابق 16,928 انواع معدومیت کے قریب ہیں۔جو فکر مندی کی بات ہے۔
۴)۔بے جا طریقے پر مچھلیاں پکڑنے اور دوسرے مختلف وجوہات کی بنا پر میٹھے پانی کا حیاتی تنوع سمندری پانی کے مقابلے میں دگنا برباد ہوگیا ہے جو مچھلیوں سے پروٹین حاصل کرنے والوں کے لئے لمحہ فکر ہے۔ یہاں اس بات کا اظہار بے جا نہ ہوگا کہ روئے زمین کی جملہ زندگی کا 80فیصد حیاتی تنوع سمندروں میں رہتا ہے۔’’یونیسکو‘‘ کے ایک اندازے کے مطابق 2100تک سمندروں سے زائد از 50فیصد زندگی ختم ہوجائے گی۔
۵)۔ اگر ہماری ہمہ جہتی ترقی کی یہی رفتار رہی تو ہم ایک بار پھر 65 ملین برس پہلے کے دور میں داخل ہوجائیں گے ، جہاں ساری دنیا کے پودے اور جانور مختلف وجوہات کی بنا ختم ہوگئے تھے اور روئے زمین پر کوئی جاندار باقی نہیں بچا تھا اور یہی وہ زمانہ تھا جب زمین سے سارے ڈائنو سار معدوم ہوگئے تھے۔کیا وہ زمانہ پھر لوٹ آنے والا ہے۔
۶)۔ اس زمین پراگر ہماری طرز زندگی کا جائزہ لیں تو پتہ چلے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کے لئے 2050تک ہمیں زمین کے برابرمزید 1.4 سیاروں کی ضرورت ہوگی جو حیاتی تنوع کے تمام تر اقسام سے مزین ہو۔

حیاتی تنوع کی ضرورت کیوں:
حیاتی تنوع علم حیاتیات میں ایک اہم عنوان ہے جو انسانوں کی بقا اور ان کی خوشحالی سے راست تعلق رکھتا ہے۔ہم اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ مختلف جاندار ہماری زندگیوں کو کس طرح فائدہ پہنچاتے ہیں۔جیسے تازہ ہوا اور صاف پانی کی فراہمی ان ہی پودوں اور جانوروں کی وجہہ سے مہیا ہے،ماحول سے زہریلی اشیاء کا تلف کرنا ان ہی پودوں کا اہم کام ہے،آلودگی پھیلانے والی بے کارچیزوں کو ضائع کرنا ان ہی جانوروں سے ممکن ہے ،زیرگی کا عمل حشرات کے ذریعہ انجام پاتا ہے جس کے بغیر زندگی کی بقا کا تصور محال ہے۔دنیا کی جملہ غذائی اجناس کا 30فیصد حصہ اسی زیرگی کے عمل کی وجہہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ماحول سے دشمن عناصر کا خاتمہ ان ہی پودوں یا حشرات یا پرندوں کی وجہہ سے انجام پاتا ہے ۔ایک نوع کاپرندہ ’’وڈ پیکر‘‘ (لکڑہارا) بارہ ہزار زہریلے کیڑے مکوڑوں کو کھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہماری کاشت کی زمینوں کو زرخیز بنانا بھی ان ہی جانداروں کی وجہہ سے ممکن ہے اور بہتر کاشت کے لئے استعمال کی جانے والی زرعی دواؤں کے مضر اثرات بھی ان ہی جانداروں کی مدد سے دور کئے جاتے ہیں۔انسانوں کے لئے استعمال کی جانے والی 75 فیصد ادویات پودوں یا مچھلیوں یا فنجی وغیرہ سے حاصل کی جاتی ہیں۔ہمیں خام مال جیسے گیس، پٹرول ان ہی پودوں اور جانوروں سے حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح کسی بھی ماحولیاتی نظام میں حیاتی تنوع کا پایا جانا اس ماحول کی صحت کی علامت ہے یعنی حیاتی تنوع کی کمی بیمار ماحول اور حیاتی تنوع کی زیادتی صحت مند ماحول کو ظاہر کرتے ہیں اور حیاتی تنوع کا راست اثر انسانی زندگی پر پڑتا ہے

حیاتی تنوع کیا ہے:
حیاتی تنوع کی مختلف سائنس دانوں نے مختلف انداز میں تعریف کی ہے ۔جن میں جامع تعریف اس طرح ہے ’’کرہ ارض کی تما م جاندار اشیاء ‘‘۔ یہ تعریف روئے زمین پر تمام انواع اور جینی تغیرات کا احاطہ کرتی ہے۔یعنی اس سے مراد زندگی کی وہ مختلف اشکال ہیں جو کسی ماحولیاتی نظام میں پائی جاتی ہیں ۔ میک میانسؔ نے1980 میں حیاتی تنوع کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں جینی تنوع اور ماحولیاتی تنوع شامل ہیں۔بعض دوسرے سائنسدانوں نے’’ کسی مخصوص علاقے میں پائی جانے والے جینس انواع اور مختلف ماحولیاتی نظام کو حیاتی تنوع سے تعبیر کیا ہے۔‘‘
حیاتی تنوع کا لفظ 1968میں ریمنڈ دسمنڈ ؔ نے استعمال کیا۔یہ سائنسدان جنگلوں کی کٹوائی کا مخالف تھا اور درختوں اورپودوں کی حفاظت کا پر زور حامی تھا لیکن اصطلاح کو شہرت ایک ماہر حشرات الارض ولسن ؔ نے شہرت دی۔اس سائنسدان کے مطابق حیاتی تنوع کا مطلب زندگی کے تمام مدارج میں زندہ اجسام میں وقوع پذیر تغیرات جو جینی اساس رکھتے ہیں ۔ ان زندہ اجسام میں تمام پودے ، جانور ، حشرات اور دوسرے جاندار شامل ہیں۔
1992میں’’ریو دے جینیرو‘‘میں ایک کنونشن برائے حیاتی تنوع منعقد ہوا اس منعقدہ کنونشن میں حیاتی تنوع کی حسب ذیل تعریف کی گئی۔’’تمام زندہ اجسام کے مابین تمام ذرائع سے واقع ہونے والے تغیرات ہیں حیاتی تنوع ہیں جو زمینی ماحول میں واقع ہوں یا سمندری ماحول میں یا کسی دوسرے آبی ماحولیاتی نظام میں پیدا ہوں حیاتی تنوع سے تعبیر کئے جاتے ہیں ،اس میں زندہ اجسام کے ایک ہی نوع کے درمیان تغیرات یا مختلف انواع کے مابین تغیرات یا انواع اور ماحولیاتی نظام کے درمیان تغیرات بھی شامل ہیں۔‘‘ اس کے بعد اس اصطلاح کا چلن عام ہوگیا نہ صرف حیاتی اور ماحولیاتی سائنسدانوں نے بلکہ سیاسی رہنماؤں نے بھی اس کو جابجا استعمال کیا۔کیونکہ ان دنوں زندگی کے ہر شعبہ سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ زمین کو اگر بچانا ہے تو ہمیں حیاتی تنوع کو بچانا ہوگا۔ہم محسوس یا غیر محسوس طریقے پر مختلف انواع کو تباہ کرتے جارہے ہیں اور تباہی کی یہ رفتار اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے جس کی وجہہ سے نہ صرف زمین پر بلکہ سمندروں میں بھی آکسیجن کی سطح روز برزو کم ہوتی جارہی ہے۔زمین اور سمندروں سے جانوروں کی مختلف انواع ختم ہوتی جارہی ہیں ۔ اکثر جاندار اپنے ہیبیٹیٹ یعنی مسکن سے ہٹ کر زندگی نہیں گذارتے ،جب مختلف وجوہات کی بنا ان کے مسکن تباہ کئے جارہے ہیں تو ماحولیاتی نظام سے انواع ختم ہوتی جارہی ہیں جو مابعد مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہورہے ہیں۔
حیاتی تنوع سے متعلق مندرجہ بالا تعریف یا وضاحتوں کو سامنے رکھ کر حیاتی تنوع کو تین اقسام میں شناخت کیا جاسکتا ہے۔

حیاتی تنوع کو تین اقسام میں شناخت کیا جاسکتا ہے۔:
(۱)۔ نوعی تنوع یعنی مختلفانواع کے مابین پایا جانے والا فرق نوعی تنوع کہلاتا ہے۔
(۲)۔ جینیاتی تنوع یعنی ایک ہی نوع کے ’’جینس‘‘ میں واقع ہونے والا تنوع جوجینیاتی تنوع کہلاتا ہے
(۳)۔ ماحولیاتی یا بیئیاتی تنوع یعنی ایسا تنوع جو ماحول یعنی نہ صرف جاندار بلکہ ان کے مسکن میں بھی پایا جاتا ہے۔ کرہ ارض پر کئی ماحولیاتی نظام ہیں جیسے آبی،گھاس کا نظام، فارسٹ،پہاڑ ،ریگستان وغیر لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر کسی بھی ماحولیاتی نظام کو ضرورت سے زیادہ استعمال کریں گے تو ماحولیاتی تنوع میں مختلف خرابیاں پیدا ہویے ہیں اور ان کا معیار ختم ہوجاتا ہے جس کا اثر حیاتی تنوع پر پڑتا ہے۔
کسی ماحولیاتی یا حیاتیاتی نظام میں حیاتی تنوع کا موجود ہونا اس نظام کے صحت کی نشانی ہے اگر انواع دن بدن مختلف وجوہات کی بنا معدوم ہوتی جائیں تو یہ حیاتی تنوع کی تباہی ہے جس کا سدھار نسبتاً آسان نہیں۔ماحولیاتی نظام میں توانائی میں بہاؤ(انرجی فلو) کے واحد ذمہ دار یہی پھول، پودے اور جانور ہیں۔اسی لئے حیاتی تنوع میں بہتری سے ہمیں غذا کے حصول کی طمانیت حاصل ہوتی ہے، صاف پانی دستیاب ہوتا ہے۔سر چھپانے گھر اور بدن چھپانے کپڑے مہیا ہوتے ہیں ۔ بیماری میں دواؤں کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ ہم قدرتی حادثات سے بچتے ہیں،ہمارے سماجی تعلقات بڑھتے ہیں ہمیں آزادی رائے حاصل ہوتی ہے۔ اگر ہم نے اس سمت توجہہ نہ دی تو اور حیاتی تنوع میں تباہی کا یہی رجحان رہا تو ’’ورلڈ ریسورسس‘‘ 2008 کے مطابق آنے والے ایک دہے میں دنیا کے زائد از 75فیصد غریب کاسہ گدائی ہاتھ میں تھامے آسمان کی جانب پر امیدنگاہوں سے تکا کریں گے اور انہیں ایک وقت کی روٹی بھی مہیا ہونا مشکل ہوگی۔

حیاتی تنوع کو در پیش خطرات :
حیاتی تنوع کو درپیش خطرات کی اہم وجوہات اس طرح ہیں۔ان خطرات میں سے اکثر ایسے ہیں جنہیں ہم حیاتی تنوع پر انسانی اثرات اور اس سے ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں ۔

حیاتی تنوع پر انسانی اثرات:
:(A یہ انسانی خود غرضی کی بہت بڑی مثال ہے جس میں انسان اپنا ٹھکانہ بنانے کی خاطر جانداروں کے مسکن (ہیبیٹیٹ) کو تباہ کر دیتا ہے۔ جس کی وجہہ سے حیاتی تنوع کے اعتدال میں دراڑ پڑ جاتی ہے اور ان کی تعداد میں کمی پیدا ہوتی ہے۔
:(B غیر ملکی انواع کا ملکی زمین میں پروان چڑھاناہے جو ملکی انواع کو ختم کردیتے ہیں۔
:(C حد سے زیادہ پیداوار حاصل کرنا انواع کی تباہی کی ایک اہم وجہہ ہے۔اگر ہم قدرتی وسائل کا بے جا استعمال کریں تواس سے بھی حیاتی تنوع میں بگاڑ واقع ہوسکتا ہے۔علاوہ اس ایسے جاندار جو ماحول میں اعتدال کے لئے لازمی حیثیت رکھتے ان کا شکار یا کسی مخصوص جاندار کا بے تحاشا استعمال حیاتی تنوع کو غیر معتدل بنا سکتا ہے۔
:(D بعض اوقات جاندار میز بان جانداروں کے ساتھ معدوم ہوجاتے ہیں۔ان میں اکثر طفیلی جاندار شامل ہیں جن کا میز بان اگر نا مساعد حالات سے دوچار ہوکر معدوم ہوجائے تو اس پر انحصار کرنے والے تمام جاندار بھی معدوم ہوجاتے ہیں جس کی وجہہ سے حیاتی تنوع میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ خطرات کے دوسرے اہم نکات اس طرح ہیں۔
(۱) جنگلات کی کٹوائی کا عمل بھی حیاتی تنوع کو در پیش خطروں میں اہم خطرہ ہے۔ انسانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو سکونت کے لئے جگہ فراہم کے لئے جنگل کی کٹوائی حیاتی تنوع کی بربادی کا اہم سبب ہے۔ انسانوں کی بڑھتی ضروریات کی خاطرجنگلوں کی کٹوائی اور جنگل کٹوا کرشہریانے کا عمل بھی ایک اہم خطرہ ہے جانداروں کے مساکن کی بربادی بھی حیاتی تنوع کی بقا کے لئے اہم مسلہ ہے۔ علاوہ اس کے دوسری بڑی انڈسٹریز کے قیام کے لئے سڑکوں کو بنایا جاتا ہے،ٹرین کی پٹریوں کو بچھایا جاتا اور کام کرنے والوں کو بسایا جاتا ہے اور ان کارخانوں سے نکلنے والے زہریلے کیمیائی ترشوں سے حیاتی تنوع کو برباد کیا جاتا ہے۔
(۲) : انسان اپنی ضروریات کی خاطر ایک ہی نوع کی کاشت کرواتا ہے جس کی وجہہ سے دوسری انواع کے فروغ میں نقصان ہورہا ہے۔
(۳): زمین کی سطح پر جانوروں کے چرنے کی رفتار اگر زیادہ ہوجائے تو زمین کی زرخیزی متاثر ہوسکتی ہے اور یہ بھی آج کے دور کا ایک مسئلہ ہے۔
(۴) ادویات اور فرٹیلائزرس کا چھڑکاؤ بھی حیاتی تنوع میں تباہی لانے کی ایک اہم وجہہ ہے اس سے نہ صرف زمین بلکہ دریاؤں میں جب مختلف ذرائع سے یہ ادویات پہنچ جاتی ہیں تو دریاؤں کے جانداروں کو نقصان پہنچتا ہے۔
(۵) مختلف کارخانوں کی وجہہ سے اطراف کے پانیوں کے PH میں تبدیلی واقع ہوتی ہے جو حیاتی تنوع کے لئے خطرہ ہوتا ہے۔
(۶) :دنیا کے بعض علاقوں میں موسم میں اچانک تبدیلی یا ماحول میں اچانک تغیریعنی قدرتی مصائب بھی حیاتی تنوع کی بربادی کا سبب بن رہا ہے، جیسے زلزلے، طوفان، قحط سالی،بیماریوں کا پھٹ پڑنا، جنگل کی آگ، مختلف وجوہات سے مچھلیوں کی اموات وغیرہ۔رسالہ ’’نیچر ‘‘ 2004 کے مطابق 2050 تک دنیا کی 30 فیصد انواع موسمی تبدیلی کی باعث ختم ہوجائیں گی۔
۷): زرعی زمینوں کی رہائشی علاقوں میں تبدیلی بھی ایک اہم وجہہ ہے جس کے سبب حیاتی تنوع مختلف مسائل سے دوچار ہے۔ جس کی وجہہ سے جینی تنوع میں کمی واقع ہورہی ہے جو بیشتر جانداروں کی معدومیت کا سبب بن رہا ہے۔
۸)۔ عالمی حرات میں اضافہ: گلوبل وارمنگ اور مختلف آلودگیوں میں اضافے کے علاوہ آج کی دنیا کا حیاتی تنوع ایک نئے خطرے سے بھی دوچار ہونے والا ہے ،یہ خطرہ ’’ اُوزون ‘‘کا خطرہ ہے۔ اُوزون اور ماحول میں تبدیلی کے باعث کرہ ارض کے جاندروں کی ایک چوتھائی تعداد آنے والی ربع صدی میں سنگین تباہی سے دو چار ہوسکتی ہے۔
۹)۔ حیاتی تنوع کا ہاٹ اسپاٹ: سمندری پانیوں میں حرارت کا تغیر اور موسموں کی لمبائی کے گھٹنے بڑھنے سے سمندری زندگی پر مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں جس کے نتیجے میں سے مختلف انواع ختم ہوتی جارہی ہیں ،یہ حیاتی جغرافیائی علاقے ہیں جہاں حیاتی تنوع کا ذخیرہ پایا جاتا ہے ۔جن کو عام الفاظ میں اس طرح سمجھایا جاسکتا ہے کہ سمندر میں ’’مونگے‘‘ (کورلس)جہاں پائے جاتے ہیں وہ ماحولیاتی تعریف کے اعتبار ’’ہاٹ اسپاٹ‘‘کہلاتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق گذشتہ نصف صدی میں تقریباً 20فیصد مونگوں (کورل ریفس)کی انواع میں کمی واقع ہوئی ہے۔
۱۰)۔ خطرہ زدہ انواع: یعنی ’’ان ڈینجر اسیسیز) ایسی انواع جو مختلف وجوہات کی بنا مستقبل قریب میں معدوم ہونے والی ہیں یا جن کے معدومیت کے آثار پیدا ہوچلے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں 30ملین جاندار پائے جاتے ہیں جن میں صرف دو ملین جانداروں کو ہمارے سائنسدانوں نے بیان کیا ہے۔ہندوستان میں پودوں کی 45000اور جانوروں کی 90,000انواع کو بیان کیا گیا ہے۔ لیکن نہ صرف ساری دنیا بلکہ ہندوستان میں بھی جانداروں کے معدومیت کی رفتار از حد تیز ہے جس کی وجہہ سے حیاتی تنوع کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ پیدا ہوچلا ہے۔جس میں کئی امور کے ساتھ ساتھ بڑی ذمہ داری زراعت اور اس کی انجام دہی کے طریقہ کار پر ہے۔

حیاتی تنوع اور ہندوستان:
ہندوستان حیاتی تنوع کے اعتبار اہم ملک تسلیم کیا جاتا ہے ،یہ ملک ہر موڑ پر لاکھوں افراد کو سمجھاتا جارہا ہے حیاتی تنوع کی اہمیت اجاگر کرتا رہا ہے ، اخلاقی اقدار، سماجی اور ثقافتی اقدار،سماجی اور معاشرتی اقدارمختلف ذرائع سے لوگوں تک لاتا رہا ہے، یہاں کے پودوں کی اقسام یعنی ’’ فلورا ‘‘اور حیوانات کی اقسام یعنی ’’فاؤنا‘‘اہمیت کے قابل ہے ۔اس کے باوجود یہاں کا حیاتی تنوع بھی نا گفتہ بہ ہے۔دنیا کے دوسرے مقامات کی طرح ہندوستان میں بھی قدرتی چیزوں میں بگاڑ آتا جارہا ہے۔قدرتی وسائل میں کمی آتی جارہی ہے ، ان چیزوں پر قابو پانے کے لئے مختلف اقدامات کئے جارہے ہیں۔یہاں کئی دریائیں ہیں اور جنگل ہیں جن کا تحفظ اور وہاں کے حیاتی تنوع کا تحفظ ضروری ہے ۔ ہرے بھرے ہندوستان کے لئے ان دنوں ایک مشن بھی چلایا جارہا ہے جس کے مثبت نتائج برامد ہورہے ہیں ۔ مشرقی اور مغربی گھاٹ میں بھی کئی تحفظی پالیسیوں پر عمل کرکے ہندوستان کے حیاتی تنوع کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

تحفظی اقدامات:
حیاتی تنوع کا تحفظ ماحولیاتی نظام کے تحفظ سے راست جڑا ہوا ہے ۔تحفظ کا مطلب نہ صرف حفاظت ہے بلکہ موجودہ انواع کو بہتر حالت میں باقی رکھنا ان کی سلیقے سے نگہداشت کرنا اور گمشدہ انواع کی بازیابی کرنا شامل ہے۔علاوہ اس کے صاف پانی کی فراہمی کے اقدامات، جنگلوں اور قدرتی وسائل کی حفاظت بھی عمل تحفظ میں شامل ہے۔تحفظی اقدامات دو قسم کے ہیں ۔ (۱)’’ان سیٹو تحفظ‘‘۔ ایسا تحفط جو انواع یا جانداروں کے مسکن اور ماحولیاتی نظام کے لئے قدرتی علاقوں میں کیا جائے تاکہ حیاتی تنوع کو برقرار رکھا جاسکے۔محفوظ جنگلات، وائلڈ لائف سنکچوری وغیرہ
(۲)۔’’ایکس سیٹو تحفظ‘‘:یعنی حیاتی تنوع کے عناصر کا ان کے قدرتی مسکن سے ہٹ کر کیا جانے والا تحفظ ’’ ایکس سیٹو‘‘کہلاتا ہے۔جیسے زو پارکس ، بوٹانیکل گارڈنس اور تخم (سیڈ) بینک ، جین بینک ،زرعی مراکز کا قیام وغیرہ

ہم حیاتی تنوع کو کیسے بچا سکتے ہیں۔
۱) ۔ہر برس 22مئی کو ’’یوم حیاتی تنوع‘‘ منایا جاتا ہے ،جس میں عوام کو یہی سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مختلف وجوہات کی بنا جانداروں کی معدومیت میں اضافہ ہورہا ہے لیکن اس رفتار سے نئی انواع کی پیدائش یادریافت نہیں ہورہی ہے اسی لئے دن بدن زمین سے پودوں اور جانوروں کی تعداد میں کمی آتی جارہی ہے۔اس تناظر میں افراد کو اس بات سے واقف کروائیں کہ حیاتی تنوع کی کمی کرہ ارض پر کیا تباہی لا سکتی ہے۔دواؤں کے ماخذات سے عوام کو واقف کروایا جائے زراعت کی اہمیت سمجھائی جائے ۔ ماہی گیری کے فوائد بتائیں جائیں ، انہیں ذاتی مفاد کی خاطر شکار کرنے سے روکا جائے ،اپنی طمع اور حرص کی خاطر جانداروں اور پودوں کو گھریلو آرائش کے لئے استعمال نہ کرنے کی ترغیب دی جائے تاکہ عوام میں ماحول کی حفاظت کا جذبہ پیدا ہو اور یہ دنیا آج کے افراد کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی آنے والی نسلوں تک کم از کم اسی انداز میں پہنچے جیسی آج ہے۔
۲)۔ماحولیاتی نظام کو بچانے کے لئے کی جانے والی تحقیقات اور حیاتی تنوع کوپروان چڑھانے کی تدابیر سے عوام کو واقف کروایا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ خود ان کی زندگی خطرے میں ہے۔
۳)۔حیاتی تنوع کو بچانے کے جانداروں کی مختلف انواع کی حفاظت کی ذمہ داری کسانوں، مچھلی کی کاشت کرنے والے مچھیروں اور جنگلوں میں رہنے بسنے والے افراد کے سپرد کردی جائے۔
۴)۔ حیاتی تنوع کو بچانے اور انواع کو پروان چڑھانے والوں کو روپیے پیسے کے انعامات دئے جائیں اور ممکن ہو تو یہ ذمہ داری خانگی شعبہ کے سپرد کی جائے۔
۵)۔ عوام کے شعور کو بیدار کرنے کے لئے مختلف پروگرامس اور کنونشنس منعقد کروائیں جائیں۔انہیں سمجھایا جائے کہ پھول پودے انسانی نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں جانوروں کا چلنا پھرنا ، صبح دم جانوروں کا چرنے کے لئے اجتمائی شکل میں جنگلوں کی جانب نکلنے کا منظرانسانی دماغ کے فرحت کدوں کے دریچے کھولتا ہے۔ یہ حیاتی تنوع کے جمالیاتی اقدار میں شامل ہے۔
۶)۔ ، قومی پارک ،زو پارک قائم کئے جائیں۔
۷)۔ بلا ضرورت دریاؤں کے رخ کو نہ موڑا جائے اور انہیں آلودہ نہ بنایا جائے۔
۸)۔افراد کو حیاتی تنوع کے سماجی اور اخلاقی اقدارسے بھی واقف کروانا چاہئے تاکہ وہ حیاتی تنوع کو بچانے کی تدابیر ڈھونڈ ھ سکیں۔
۹)۔ دنیا کو حیاتی تنوع میں کمی کے خطرات کو سمجھانے کے لئے اکٹوبر 2012 میں حیاتی تنوع کی اہمیت پر ایک ’’کنوینشن‘‘ منعقد ہوا جو ساری دنیا میں کی جانے والی کوششوں کے سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ یہ کنونشن حیدرآبادمیں منعقد ہوا۔ جس کا اہم تھیم یا مقصد عوام کو ماحول اور حیاتی تنوع کو بچانا تھا۔
ہم آج کی اس فطری دنیا کی ایک اکائی ہیں ہماری قسمتوں کا راست تعلق روئے زمین پرحیاتی تنوع کے پھلنے پھولنے سے ہے، اس دنیا میں ہماری بہتری و بہبودی اس دنیا کے قدرتی وسائل سے ہے جس کے بغیر ہماری زندگیاں اجیرن ہیں۔دور حاضر میں صحت مند ماحولیاتی نظام کے لئے حیاتی تنوع کی بقا دراصل انسان اور انسانیت کی بقا ہے چونکہ حیاتی وسائل انسانی معاشی اور سماجی ترقی کے لئے ضروری ہیں اسی لئے حیاتی تنوع کی بقاکا مسلہ آفاقی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔اس مسلہ کو حل کرنا ضروری ہے تاکہ موجودنسل اور آنے والی نسلیں اس زمین پر اپنی بقا کو ممکن بنا سکیں۔ لیکن ہمیں یہ بھی سونچنا چاہیے کہ اس تباہی و بربادی کے کوئی دوسرے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ہم خود ہیں۔اسی لئے آخر میں ہم یہ کہنے پر مجبور یں کہ حیاتی تنوع کو بچانا خود ہماری ذات کو بچانا ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے۔
’’حیاتی تنوع کا تحفظ۔ زندگی کا تحفظ ہے‘‘
——
Bio diversity
Dr Azeez Ahmed Ursi
Warangal

Share
Share
Share