افسانہ : میرا کیا قصور تھا! :- ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

افسانہ
میرا کیا قصور تھا!

ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

میں الماس ہوں ۔ میں دہلی کی رہنے والی ہوں ۔ میں نے اس سوفٹ ٹوم کمپنی کو آج ہی جوائن کیا ہے ۔ باری باری سے سب اپنا انٹروڈکشن بتا رہے تھے جب وہ لڑکا کھڑا ہوا تو وہ بالکل ٹوٹی پھوٹی ہندوستانی زبان میں کہہ رہا تھا اور سارے لوگ ہنس رہے تھے مجھے بھی ہنسی آگئی جیسے ہی اس کی نگاہ مجھ سے ملی تو میں خاموش ہوگئی ۔

اس کا نام سازان تھا اور وہ کینیوا کا رہنے والا تھا ۔ اس کمپیوٹر سوفٹ ویر کمپنی میں دنیا بھر سے کام کرنے آئے تھے ۔ سازان ایک ہوشیار لڑکا تھا ۔حالانکہ وہ صرف اور صرف اپنے کینیوا کی علاقائی زبان زیادہ جانتا اور سمجھتا تھا ۔ میں جب بھی اُس سے بات کرنے لگتی تو وہ مجھے گوگل ٹرانسلیٹ چالو کرنے کو کہتا ہے ،اِس طرح وہ میری اور میں اُس کی بات سمجھتی تھی ۔ پہلے تو زبان نہیں آنے پر اشارے زبان بن کر بات پوری کردیتے تھے لیکن جب سے ٹکنالوجی کا اور سمارٹ فون اور میڈیا اور انٹر نیٹ کا چلن عام ہوا ہے تب زبان دانی کی پریشانی ختم ہوگئی ۔جہاں یہ پریشانی ختم ہوگئی وہاں زبان دانی کے اصول و ضوابط کے مسئلے بڑھ رہے ہیں زبان اپنی اصلی ماہیت کھو رہی تھی یہ کسی ایک زبان کا نہیں بلکہ ہر زبان کا مسئلہ بن چکا تھا ۔ لہٰذا ایک نئی ٹکنالوجی زبان سے دن بہ دن رابطہ اور واسطہ پڑھنے لگا تھا ۔
یہ سوفٹ ٹوم کمپنی بنگلور میں واقع تھی ۔مجھے بھی دہلی سے بنگلور جانا پڑا ۔ کمپنی ہمارے ریسرچ ورق کو مدد نظر رکھ کر ہمیں ملک کے بیرونی ممالک میں بھی بھیجا کرتی ہے ۔سازان ،منیش،راشی ،پرکاش اور مجھے امریکہ جانے کا موقع ملا ۔ امریکہ میں ہمیں ٹریننگ دی جانے والی تھی ۔ ہم سبھی لوگ امریکہ پہنچ کر ٹریننگ میں مصروف ہوگئے ۔ ہم سب جب پہنچے تب نومبر کا مہینہ تھا اور دسمبر بہت نزدیک تھا اسلئے زیادہ تر وہاں کی عام و خاص کرشمش کی تیاری میں جڑ چکے تھے ۔ ہمیں بھی دسمبر کے مہینے میں کرشمش کی چھٹّیاں ملی تھیں ۔ ہم سبھی لوگ امریکہ کی سیر کرنے نکل پڑے ۔ ہم نے دیکھا کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں بہت آزادی سے نہ صرف گھومتے ہیں بلکہ فوری رشتوں کا مزہ اٹھا کر واپس اپنی ہی دنیا میں کھو جاتے ہیں ۔ ہندوستان میں ایسا بالکل بھی نہیں ہے وہاں رشتوں کو اہمیت دیتے ہیں ۔لیکن فی الحال اب ہندوستان کی تصویر بدل رہی ہیں وہ اسلئے کہ بنا شادی کے لڑکا لڑکی کے ساتھ رہنے پر قانون نافذ تھا اب انھیں چھوٹ دی جا چکی ہے ایسے بہت سے قانون بنائے بھی جارہے ہے اور بنے ہوئے قانون توڑے بھی جارہے ہے ۔
ہمارا سفر شروع ہی ہوا تھا کہ اُس روز میری ٹکّر سازان سے ہوئی ۔ پہلے پہل تو صرف آنکھوں سے اشارے ہوئے اور دھیرے دھیرے اب بے تکلّف سے باتیں بھی ہونے لگی تھی ۔ آہستہ آہستہ ہم دونوں میں گہری دوستی ہوگئی ،اور یہی دوستی پیار میں بدل گئی ۔ اُس نے مجھے پہلے پسند کیا اور شادی کے لیے پرپوز بھی کیا حالانکہ میں نے اس کے پیار کے اظہار کو قبول کرلیا لیکن شادی تو والدین کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتی تھی اسلئے میں نے اپنے جواب کو ٹالتے ہوئے یہ کہا کہ کینیوا سے اپنے والدین کومیرے گھر ضرور بھیجنا تاکہ وہ تمہارے اور میرے رشتے کو رضامندی دے سکے ۔
امریکہ میں ٹریننگ ختم ہوئی ، اور جب ہم ہندوستان آئے تب سازان کو اچانک کینیوا جانا پڑا ۔ میں نے اُس سے بار بار پوچھا مگر وہ یہی کہتا رہا کہ میں بہت جلد واپس آؤں گا ،اور تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا ۔ اُس کی جدائی کے غم میں میں بہت پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔سبھی مجھے سمجھانے لگے ۔ سازان کے گئے ایک ہفتہ ہوگیا اور اُس کی کوئی خیر خبر تک نہیں ۔مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔ میں نے سوچا کیوں نہ میں بھی کینیوا چلی جاؤ،تاکہ پتہ لگاؤ کہ سازان ٹھیک تو ہے ۔ میں اُس کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ سازان کا فون آگیا ۔میں نے فون کو اٹھاتے ہی سازان سے سوال پر سوال کرنے لگی ۔پھر وہ کہنے لگا کہ میں تمہارے ہر سوال کا جواب دے دونگا پہلے یہ بتاؤ تم کیسی ہوں ۔میں نے کہا میں ٹھیک ہوں مگر تمہارے بغیر مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا ہے میں بہت اکیلا پن محسوس کررہی ہوں ۔تم جلدی سے آجاؤ ۔ سازان نے مجھے ایک خوشخبری کی خبر ہے کہتے ہوئے کہا کہ میرے والدین بہت جلد ہندوستان آرہے ہے اور ہم دونوں کی شادی کرواکے ہمیں اپنے ساتھ کینیوا لے جائیں گے۔ پہلے پہل تو بہت خوش ہوئی مگر دوسرے ہی پل اداس ہوگئی کہ مجھے ہندوستان چھوڑنا پڑے گا ۔ اتنے میں فون کی لائن کٹ گئی ۔میں اپنے من ہی من میں سوچنے لگی کہ ایک بار سازان کو یہاں آنے دو پھر میں اُسے منا ہی لوں گی ۔سازان اپنی زبان کا پکّا ہے اسلئے اُس کے آنے کی خبر بھی بہت یقینی تھی سازان نے مجھ کو اپنے والدین سے ملایا ۔ میں اُن سے مل کر جتنا خوش ہوئی تھی اتنی ہی دُکھی بھی کیوں کہ وہ بار بار سازان سے اپنی زبان میں کہہ رہے تھے کہ اِسے بھی کینیوا لے جائیں گے ۔ حالانکہ سازان کے ساتھ رہ کر تھوڑی بہت کینیوا زبان سیکھ چکی تھی ۔
میرے والدین سے میری بات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ اگر تمہاری یہی پسند ہے تو پھر ہماری بھی یہی پسند ہے تم خوش تو ہم خوش ۔ سازان اپنے والدین کو میرے والدین سے ملانے لایا۔ سازان اور میرے والدین کی رضا مندی سے ہماری شادی ہوگئی ۔ سازان نے بتا کہ اُس نے اب تک جتنا بھی کمپنی سے کمایا ہے وہ اب اُس سے وہ نیا بزنیش کھولنے والا ہے وہ بھی اپنی سرزمیں پر یعنی کینیوا میں ۔ پہلے پہل تو کینیوا جانے کے لیے انکار کیا مگر اُس کی باتیں سُن کر راضی ہوگئی اور کینیوا پہنچ گئی ۔ وہاں جانے کے بعد سازان نے اپنا نیا بزنیش ڈال دیا ۔میں نے اپنے کام کرنے کی بات کہی تو کہنے لگا کہ میرے والدین کا کہنا ہے کہ عورتیں گھر کے باہر کام نہیں کرتی ہیں ۔ میں سازان سے غصہ ہوگئی دنیا بدل رہی ہے لیکن پرانی سوچ کو اب بھی ہمارے وجود کا حصہ بنایا جارہا ہے۔ایسی بات نہیں ہے تم کھانا کھاؤ اور بس آرام کرو۔ میں نے کہا میں ہندوستان جیسے بڑی آبادی والے ملک میں پلی بڑی ہوں حالانکہ وہاں پر آج بھی لڑکی کے پیدا ہونے پر دُکھ کا اظہار کم ہی سہی مگر کیا جاتا ضرور ہے لیکن حالات بدل چکے ہیں اب اسی ہندوستان میں لڑکیاں لڑکوں کے مقابل کھڑے رہ کر نہ صرف کام کرتی ہے بلکہ اپنے حق کا احتجاج بھی کر لیتی ہے ۔
سازان نے کہا میں یہ سب مانتا ہوں لیکن اپنے والدین کی اِس بات کا انکار نہیں کرسکتا ،ہاں میں وعدہ تو نہیں کرتا لیکن میں تمہارے لیے ضرور کچھ نہ کچھ کروں گا کہہ کر اپنے کام میں مشغول ہوگیا ۔ چند مہینوں کے بعد میں نے سازان کو خوش خبری ہے کہہ کر اُسے بتایا ۔سازان زور زور سے چلّانے لگا میں باپ بننے والا ہوں ۔ میری اس خبر نے تو سب کو خوش کردیا تھا ۔ سازان کی ماں نے میرا بہت خیال رکھا ۔ حالانکہ مجھے کسی بات کی کوئی تکلیف نہیں تھی سوائے اس بات کہ میں صرف اپنے تعلیم کو برباد کر رہی ہوں ۔میں صرف اور صرف چار دیواری میں قیدہو کر رہ گئی ۔سازان کو میں نے کئی بار اپنے کام کرنے کو لے کر بات کہی مگر وہ ٹالتا رہا ،کہنے لگا تم بچہ ہوجانے کے بعد کام کرنا ،ابھی تمہیں تمہارا اور ہمارے بچے کا بہت خیال رکھنا ہے ۔ میں نے بھی سازان کی بات کو مان لیا ۔دن ، مہینے گزرتے گئے ۔دیکھتے ہی دیکھتے میری زچگی کا بھی وقت آگیا ۔ ڈاکٹر نے سازان کو لڑکا ہونے کی خبر کی بدھائی دی ۔سازان بہت خوش تھا اور سازان کے والدین بھی بہت خوش تھے ۔ لیکن مجھے تو صرف صرف کام کرنے سے خوشی حاصل ہونے کی تھی اسلئے میں بھی بہت خوش تھی کیوں کہ سازان نے کہا تھا کہ بچہ ہوجانے کے بعد کام کرلینا ۔ بچہ ہوئے چھ مہینے گزر گئے ۔میں سازان سے دوبارہ وہی بات چھیڑی کہ مجھے کام کرنا ہے ۔ اس بار بھی سازان نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ابھی ماناس چھوٹا ہے اور اُسے اُس کی ماں کی بہت ضرورت ہے میں نے دیکھا کہ اکثر و بیشتر عورتیں اپنے بچے کی طرف کم دھیان دے کر پرورش کرتی ہے جس کے نتیجہ میں بچہ کی بنیاد کمزور رہ جاتی ہے ۔میں یہ کبھی نہیں چاہوں گا کہ ماناس کی بنیاد بھی کمزور ہوں ۔ ماناس کا قد برابر بڑھنے لگا دیکھتے ہی دیکھتے وہ چار سال پورے کرچکا تھا ۔میں نے ماناس میں تبدیلیاں دیکھی ،مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ماناس دماغی طور پر ناتندرست ہے ،میں نے جب یہ بات بتائی تو وہ پہلے پہل میری بات پر یقین نہیں کرنے لگے لیکن جب سازان نے بچوں کے دماغی ڈاکٹر کو بتایا تو پتہ لگا کہ پیدائشی دماغی مریض ہے اس کا کوئی علاج نہیں ہے ۔یہ بات سُن کر سازان کو بہت دُکھ ہوا لیکن جب اُس نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ ماناس دماغی طور پر Abnormal ہے تب سازان کے والدین کا رویّہ یہ تھا کہ یہ سازان کا بچہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک شراپ ہے اور اب ہم اس شراپ کو اپنے گھر کا حصہ بننے نہیں دے سکتے ۔میں بہت گھبرائی اور کہنے لگی جیسا بھی ماناس ہے مجھے منظور ہے کم از کم وہ آپ کی طرح مجھے جھوٹ بول کر میری ارمانوں کو نہیں مارے گا ۔ سازان کے والدین نے سازان کو کیا کہا کہ وہ مجھ سے ماناس کو زہر دے کر مار ڈالنے کو کہنے لگا ۔ میں نے کہا کہ ماناس کا کیا قصور ہے اور یہ بتاؤ کہ میرا کیا قصور ہے کہ تم نے مجھ کو اپنی ادلاد کو مارڈالنے والی بات کوبڑی آسانی سے کہہ ڈالی ۔ میں تمہیں ایسا کچھ بھی کرنے والی نہیں اور نہ ہی میں تمہیں ایسا کرنے دونگی ۔ سازان اپنے والدین کی بات کو گانٹھ باندھ چکا تھا اسلئے وہ موقع کی تلاش میں تھا ۔ایک روز یکایک مجھ کوقے ہونی شروع ہوئی تبھی سازان اور اُس کے والدین مجھے فوراً اسپتال لے جانے لگے حالانکہ سازان نے بہانا بنا کر اسپتال آنے سے انکار کردیا ۔ وہیں سازان کے والدین مجھے اسپتال لے گئے اور یہاں سازان نے ماناس کو زہر والا دودھ پلا دیا ۔ جب میں اسپتال سے گھر واپس آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ ماناس کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا اور بدن ٹھنڈا پڑچکا ہے ۔میں نے ماناس کو پانی چھڑک کر جگایا مگر ماناس نے کوئی حرکت نہیں کی ۔میں نے فوراً ڈاکٹر کو بلوایا ۔ڈاکٹر نے کہا کہ آئی ایم سوری یہ مرچکا ہے ۔ اُس کی لاش مجھے بار بار سوال کر رہی تھی ماں…! میرا کیا قصور تھا …….میرا کیا قصور تھا…………..میرا کیا قصور تھا………………!
——–
Dr. Sufiyabanu . A. Shaikh

C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676

Share
Share
Share