شعبہ اردو ساتاوانہ یونیورسٹی کریم نگر کے زیرِ اہتمام دو روزہ قومی سیمینار کا انعقاد

Share


شعبہ اردو ساتاوانہ یونیورسٹی کریم نگر کے
زیرِ اہتمام دو روزہ قومی سیمینار کا انعقاد

سچائی کی تلاش اور تکمیل زندگی اور انسانی ترقی دو بنیادوں پر سر سید کے افکار کی عمارت کھڑی ہے ۔
مختلف دانشور ان کاخطاب

سر سید صرف ادب ہی تک محدود نہیں ہیں ،بلکہ ان کی خدمات کا دائرہ سماج،تعلیم،سیاست،تاریخ ،مذہب اور دیگر شعبہ حیات پر محیط ہے ۔ان خیالات کا اظہار شعبہ اردو ساتا واہانا یونیورسٹی کریم نگر کے زیراہتمام قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان کے تعاون سے اور تلنگانہ اسٹیٹ اُردو اکیڈمی کے اشتراک سے منعقدہ دو روزہ قومی سیمینار بعنوان’’ سر سید :احوال ،افکار اور عصر جدید‘‘ کے افتتا حی اجلاس میں پروفیسر نسیم الدین فریس صدر شعبہ اُردومولانا آزادنیشنل اُردو یونیورسٹی نے کلیدی خطبہ پیش کیا اِس اجلاس کے ابتدا میں طالبہ سیدہ سدرہ نے تمام مہمانان کا خیر مقدم کیا ۔اس کے بعد قومی ترانہ شعبہ اردو کی طالبات نے پیش کیا ۔اجلاس کی صدارت پروفیسر اُمیش کمار رجسٹرار ساتاواہانا یونیورسٹی نے کی ۔صدارتی کلمات میں انھوں نے شعبہ اردو کو ایک عظیم شخصیت پر سیمینارکے انعقاد مبارکباد پیش کی ۔سیمینار ڈائرکٹر ناظم الدین منور صدر شعبہ اُردو نے سیمینار کے اغراض ومقاصدکو پیش کرتے ہوئے کہا کہ طلبا کے اندر قوم وملت اور زبان کی خدمت کرنے کا جذبہ بیدار ہو ۔ڈاکٹرمحمد جعفر جری اُستاد شعبہ اُردو وچیف وارڈن ساتاواہانا یونیورسٹی نے شعبہ اُردو کا تفصیلی تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ شعبہ اردو کے قیام سے ہی شعبہ میں طالبات کی کثیر تعداد رہی ۔یہاں سے فارغ کئی طلباء بر سروز گار ہیں اور کئی طلبہ اعلیٰ تعلیم ایم۔فل وپی۔ایچ ۔ڈی کی تکمیل میں مصروف ہیں ۔اس کے علاوہ کئی طلباء نے سیٹ ونیٹ امتحانات کامیاب کئے ہیں ۔اس طرح شعبہ اُردو ایک دہے سے کامیابی کے سفر پر گامزن ہے۔
پروفیسر سیدفضل اللہ مکرم شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سر سید کے افکار کا ترجمان تہذیب الاخلاق ہے ۔سفر لندن سے واپسی پر انھوں نے یہ رسالہ جاری کیا اور کہا کہ ہمارا مطلب ہندوستانیوں سے ہے اور اسی مقصد کے لئے یہ پرچہ جاری کرتے ہیں تاکہ اس پرچہ سے جہاں تک ہوسکے ان کے دین ودنیا کی بھلائی میں کوشش کرے، اس رسالہ نے قوم و ملت کو ترقی کی راہ دکھلائی ۔حق تلفی کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کو دور کرنے کی کوشش کی ۔سر سید کا بنیادی مقصد ایک مہذب سوسائٹی کی تشکیل رہا ہے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ مہاذب سوسائٹی کا کم پڑھا لکھا شخص بھی تہذیب یافتہ ہوتا ہے ۔پرنسپل آرٹس کالج ڈاکٹر ورا پرساد نے کہا کہ اردو مقامی زبان ہے اور سب مل کر اس کی ترقی کی کوشش کرنا چاہئے انھوں نے شعبہ اردو کی سرگرمیوں کو سراہا اور تعاون کی پیش کش کی ۔ڈاکٹر معید جاوید صدر شعبہ اُردو جامعہ عثمانیہ نے کہا کہ دو سو سال گذرنے کے باوجود بھی سر سید کے افکار کی آج بھی اہمیت برقرا ر ہے ،ڈاکٹر حمیرہ تسنیم اُستاد شعبہ اُردوو ڈائرکٹرویمن سیل ساتا واہانا یونیورسٹی نے کہا سر سید کے افکار سے متاثر ہو کر قیام علی گڑھ کے بعد ڈاکٹر ناظم الدین منورنے سرسید پر سمینار کرانے کا ارادہ کیا جو آج پورا ہورہا ہے۔پروفیسر مجید بیدار نے کہا کہ سر سید کے مخالفین کی بھی کثیر تعداد تھی ۔اس دور میں ان کے خیالات کے خلاف اودھ پنچ میں خوب لکھا گیا ۔خصوصاٌاکبر الہٰ بادی ان کے مخالف تھے ۔پروفیسر نسیم الدین فریس نے کلیدی خطبہ میں کہا کہ سر سید نے علوم قدیمہ کی عظمت کو برقرار رکھتے ہوئے علوم جدیدہ کی طرف توجہ دلائی، کہا کہ ان میں موجود خامیوں کو چھوڑ دیا جائے اور فوائدکو حاصل کرتے ہوئے جدید طریقوں کو اپنایا جائے ۔سر سید کی تحریروں میں جا بجا ظرافت اور شوقی ،تہذیب اور لطافت پائی جاتی ہے ۔ان کا طرزِ تحریر منفرد اور مختلف تھا ، تحریر میں تشفی، وضاحت، سادگی اور اثر انگیزی تھی، سادہ اور پُر اثرنثر سے کام لیتے اور اپنے رُفقا کو ایسی ہی ترغیب دیتے۔اس اجلاس میں سمینار کے سوؤنیر کی معزز مہمانان کے ہاتھوں رسم اجراء عمل میں آئی ۔مہمانان کو یادگار تحائف پیش کیے گئے ۔ڈاکٹر محمد ابرار الباقی اُستاد وچیر مین بورڈ آف اسٹڈیز شعبہ اُردونے مہمانوں کا فرداً فرداً شکر ادا کیا ۔
سمینار کے پہلے دن مختلف اجلاس منعقد ہوئے جس کی صدارت پروفیسر نسیم الدین فریس ،پروفیسرسید فضل اللہ مکرم ،ڈاکٹر معید جاوید نے کی۔ ڈاکٹر منظر ،ڈاکٹر نشاط احمد ،ڈاکٹرمحمد عبدالقوی ،ڈاکٹرمحامد ہلال اعظمی ،کلیم محی الدین ،ڈاکٹرمحمد ابرار الباقی، ڈاکٹرحمیرہ تسنیم ہیں جنہوں نے سر سید کے احوال و افکار کے متعلق مختلف عنوانات پر مقالے پیش کیے ۔ڈاکٹر مختار احمد فردین نے سمینار کے متعلق تاثرات پیش کئے۔نظامت کے فرائض شعبہ اُردو کے استاد ڈاکٹر محمدجعفر جری نے انجام دئیے۔
اس موقعے پر سیمینار ڈائرکٹر وصدرشعبہ اُردوکی کتاب ’شاہد ادب ‘ کی رسم اجراء معزز مہمانان کے ہاتھوں عمل میں آئی ۔اس کتاب پر پروفیسرسید فضل اللہ مکرم اور پروفیسر نسیم الدین فریس نے تبصرہ کیا ۔ڈاکٹر حمیرہ تسنیم نے تمام مہمانان کا شکریہ ادا کیا اور اس طرح سمینارکا پہلا دن مکمل ہوا۔
سیمینار کے دوسرے دن مختلف اجلاس منعقد ہوئے ۔جس کی صدارت پروفیسر مجید بیدار ،ڈاکٹرجعفر جری ،کلیم محی الدین ،ڈاکٹر محمدابرار الباقی نے کی۔ ڈاکٹر مسرور جہاں ،محمد خوشتر ،نیہا نورین ،محمد زبیر ،شاہد اقبال نے سر سید کے نظریات پر مقالے پیش کیے ۔ایک اور اجلاس میں پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی، ڈاکٹر معید الرحمن ،ڈاکٹر نیلوفر حفیظ ،حقانی القاسمی ،پروفیسر راجیش مشرا ،ڈاکٹرمحمد نثار احمد ،ڈاکٹرمحمد محبوب الرحمن ،ڈاکٹر امان اللہ ،عباس دھالیوال ،ڈاکٹر سیفی سرونجی ،ڈاکٹر اسلم فاروقی ،ڈاکٹر محمد کلیم، ڈاکٹر سید حامد مہتاب کے مقالات کو شعبہ اردو کی طالبات فرحین بیگم ،معراج فاطمہ ،زینت تبسم ،نیہا فاطمہ ،افشاں نبین ،آمنہ فردوس ، آمنہ یاسمین ،آمنہ پروین، میمونہ فرحین ،سمرین سلطانہ ،شجرہ ثمین، شگفتہ بیگم نے اجلاس میں پڑھا ۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر حمیرہ تسنیم نے انجام دئیے ۔ سیمینار کا اختتامی اجلاس آرٹس کالج پرنسپل ڈاکٹریم ور اپر ساد کی صدارت میں منعقد ہوا ۔مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر ٹی بھرت کنڑولر آف ایگزامنیشن ساتاواہانا یونیورسٹی نے شرکت کی ۔مہمان اعزازی پروفیسر مجید بیدار ،ڈاکٹر جعفر جری،اور ڈاکٹر ابرارالباقی رہے ۔طلبا اور ریسرچ اسکالرس نے سمینار کے متعلق تاثرات پیش کیے ۔سیمینار ڈائرکٹر ناظم الدین منور نے سمینار کے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کی اور کہا کہ کل ہند سطح سے مختلف جامعات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی ،جواہر لعل یونیورسٹی ،الہ آباد یونیورسٹی ،بنارس ہندو یونیورسٹی ،بھوپال یونیورسٹی،پنجاب یونیورسٹی،،مدراس یونیورسٹی،ایس۔وی یونیورسٹی حیدرآباد سے جامعہ عثمانیہ ،یونیورسٹی آف حیدرآباد ،مولانا آزادنیشنل اُردو یونیورسٹی ،تلنگانہ یونیورسٹی ،ڈگری وپی جی کالجس اور مختلف صحافی اور دیگر شعبہ جات کے ماہرین ادب اور ریسرچ اسکالر س نے مقالے پیش کیے ۔
سرونج مدھیہ پردیش سے تعلق رکھنے والی اسکول کی طالبہ استوتی اگروال نے سر سید کے متعلق اردو میں مقالہ لکھا ۔
سیمینار کے تمام مقالات کو آئی ایس بی این کے ساتھ کتابی شکل دی جائے گی ۔27 مارچ سر سید کا یومِ وفات ہے ۔اس طرح سے یہ سمینار سر سید کے لئے بہترین خراجِ عقیدت ہے ۔پروفیسر ٹی۔بھرت نے کہا کہ اردو ایک میٹھی زبان ہے ۔اس کی ترقی و ترویج ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔طلبہ اردو سے خواہش کی کہ اس کے ساتھ ایک اور زبان میں بھی مہارت حاصل کریں ۔
پروفیسر مجید بیدار نے کہا کہ یہ سیمینار طلبا کے اندر ایک نئی تحریک اورقوم ، ملت و زبان کے متعلق کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کریگا ۔ڈاکٹر وراپرساد نے سمینار کے کامیاب انعقاد پر شعبہ اردو کے اساتذہ ، طلباء اور سمینار ڈائرکٹر ڈاکٹر ناظم الدین منور کو مبارکباد پیش کی۔
مقالہ نگاروں کے درمیان سرٹیفکیٹ کی تقسیم عمل میں آئی ۔ڈاکٹر جعفر جری نے منفرد انداز میں تمام مہمانان ،یونیورسٹی کے اربابِ ،مجاز ،تدریسی وغیر تدریسی عملہ ،اخباری نمائندوں اور دیگر معاونین کا شکریہ ادا کیا ۔
اس طرح یہ دو روزہ قومی سیمینار سر سید: احوال ،افکار اور عصرِ جدید اختتام کو پہنچا ۔

Share
Share
Share