افسانہ : مجھے یقین نہیں ہوتا ہے ! :- ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

افسانہ :
مجھے یقین نہیں ہوتا ہے !

ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

موبائل پر ٹن ٹن ہو کر گھنٹی بجی اور بند ہوگئی ،میں نے فوراً اُسے اٹھا کر دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک زور دار دھماکے کی آواز سنائی دی ۔دھماکے کی آواز اتنی شدید تھی کہ ایسا محسوس ہواجیسے یہ دھماکا ہمارے گھر کے قریب ہواہو ۔اتنے میں میرا دوست دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور ہافتے ہافتے کہنے لگا چلو اس جگہ کو چھوڑ کر بھاگ نکلو ۔

میں نے پوچھا نعیم ایسی کیا بات ہوگئی ؟کچھ تو بتا لیکن وہ مجھ سے بار بار یہی اسرار کیے جارہا تھا۔ہم سب کو یہ جگہ فوراًخالی کرنی ہوگی، ورنہ سب کے سب مارے جائیں گے ۔آخر اُس نے ایسا کیوں کہا کچھ پوچھنے کے بجائے میں بھی نکل پڑا اور کئی لوگوں کو بھی ساتھ چلنے کے لیے اکساتا رہا ۔میں اُس وقت کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی حالت میں نہیں تھا ۔پہلی بات تو یہ مجھے یقین نہیں ہورہا تھا،لیکن میں نے پھر بھی یقین کرلیا ۔دوست پر یقین کرنا اچھی بات ہے لیکن دوست کی پوری بات سُنے ،جانے بغیر فیصلہ لینا ،کسی مصیبت کو دعوت دینے سے کم نہیں ۔میرے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ،نعیم نے موبائل پر آئے کسی واہٹ ایپس کے پیغام کو یقین مان کر دوسروں کو بھی یقین دلانے لگا ۔
وہ ہم سب کو کسی آر ۔جے۔ میدان میں لے گیا ۔جہاں پہلے ہی سے بھیڑ کا مجمع جمع تھا تقریباً ۲ دو ہزار جتنے نوجوان موجود ہونگے ۔مجھے یقین نہیں ہوتا ہے کہ فقط کسی ایک پیغام کے حوالے سے اتنی تعداد میں لوگ جمع ہوسکتے ہے وہیں مسجد کا یہ عالم تھا کہ پانچ وقت اذان ہوتی اور نمازیں بھی لیکن وہاں ہزاروں پیغام پہچانے پر بھی نوجوان نہیں آتے اور یہاں ایک ہی پیغام پر نوجوانوں کا مجمع ۔تعداد بڑھتی ہی جارہی تھی لیکن کسی سے کوئی پوچھے تو بس ایک ہی جواب دیتا کہ ابھی معلوم ہوجائے گا اور پھر کہتا کیا تمہیں واہٹ ایپس میسیج ملا نہیں تمہارا نمبر بتاؤ میں ابھی فارواڑ کردیتا ہوں ۔میں اُس بڑھتی ہوئی بھیڑ کو تذبذب بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اور اپنے ہی آپ سے سوال کر بیٹھا کہ آخر ایسا کیا ہونے والا ہے اتنا شور تو تب بھی نہیں ہوا تھا جب اِسی میدان میں بچوں کی تعلیم پر لوگ جمع ہوئے تھے ۔، لیکن آج سب کچھ عجیب ہی ہورہا ہے ۔ نعیم بھی نہ جانے ابھی آتا ہوں کہہ کر کہا چلا گیا،مجھے تو یقین ہی نہیں ہوا جب اُس بھیڑ میں نوجوان نعرہ لگانے لگے کہ ہم سب ساتھ ہیں ہم ایک ہی آواز ہیں۔آخر یہ نعرہ کس ضرورت کے لیے لگایا جارہا تھا ۔
ظلم کے خلاف آواز ہر کوئی نہیں اٹھاتا ، لیکن یہاں تو ہر ایک کا موبائل فون نہ صرف بج رہا تھا بلکہ لوگوں کو جمع کررہا تھا ۔آخر وہ وقت آ ہی گیا جب اس میدان میں ایک رعب دار خاتون آئی ان کے آتے ہی شورگل کچھ دیر کے لیے بڑھتا اورپھر خاموش ہوجاتا ۔ سبھی کو یہ جاننے کی بڑی جلدی تھی کہ وہ ایسا کیا کہنے والی تھی ۔اس نے اپنی بات شروع کرنے سے قبل ان تمام نوجوانوں کا شکریہ ادا کیا اور پھر اپنی بات کہنی شروع کی ۔ اس نے سب سے پہلے پیشوں کی بات کہی ،میں تمہیں ضرورت کے مطابق بِنا کسی گواہی کے تحت پیشے دینا چاہتی ہوں مگر میری کچھ شرائط ہیں جن کا آپ کا اور میرا جاننا بہت ضروری ہے ۔ آپ سبھی نوجوانوں کو کوئی ایسا محنت و مشقت کا کام نہیں کرنا جن سے تم تھک کر چور ہوجاؤ اور دوبارہ کام کرنے سے منع کردو ۔ لہٰذا میں اس بات کو یقین سے کہہ سکتی ہوں ایک بار یہ کام کروگے تو اپنے ساتھ اوروں کو بھی جوڑتے جاؤگے ۔ آخر کار عارف نامی نوجوان نے پوچھ لیا کہ آخر ایسا کونسا کام ہے جن کے عوظ میں ہمیں اتنی رقم دی جائے گی اور ایسا کونسا کام ہے ؟ تبھی وہ خاتون نے کہا کہ اس بات کو جاننے کے لیے آپ کو بہت صبر کی ضرورت ہے یہی نہیں اس کام کو کرنے میں بھی آپ کو بہت صبر سے کام لینا ہوگا ۔ اس خاتون نے بتایا کہ آپ سبھی کو برائی مٹانی ہوگی ۔برائی سے مراد جو لوگوں میں برے کام جھوٹ ، فریب ، رشوت خوری ، منفع خوری ، زناکاری وغیرہ وغیرہ ۔ میں جانتی ہوں برائی کو قبول کرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن اسی کے برعکس اچھائی کو قبول کرنا نہ صرف ناگوار گزرتا ہے بلکہ اسے قبول کرنا بھی کسی کے لیے آسان نہیں ہوتا ۔
آج دنیا تباہ و بربادی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن ہمیں اس بڑھتی تیزی کو روکنا ہوگا اسی لیے میں نے تمہیں اسی کام کے لیے بلایا تھا ۔ حالانکہ یہ کام مسجد میں مولانا بھی برسوں سے جنّت اور دوزخ کا فرق بتانے میں سال ہا سال صرف کیے ،لیکن بدلتے زمانے کی ہواؤں نے اچھی باتوں کو کم کردیا،اور نتیجہ یہ آگیا کہ اب ہر جگہ کوئی نہ کوئی خون ریزی جیسی واردات عام ہوتی جارہی ہے ۔ میرے نوجوان میں تمہیں اس اچھے کام کا پیشہ دینا چاہتی ہوں ۔ اُس خاتون کی باتوں سے لگ رہا تھا یہ تو وہیں ملاّنی والی باتیں سنانے کے لے جمع کر رہی ہے ،پھر کسی نے کہا کہ اِس نے ہر قوم کے نوجوانوں کو کیوں بلایا ۔ اُس نے وہ باتیں سُن کر کہا کہ اس دنیا میں سب سے بڑھ کر جو رشتہ ہوتا ہے وہ ہے انسانیت کا رشتہ ۔جو کسی مذہب و ملّت کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ دیکھتا ہے تو صرف اور صرف انسان جو اشرف المخلوقات ہے انسان کو دنیا کی تمام چیزوں میں سب سے بہتر بنایا ہے ۔ مجھے یقین نہیں ہوتا ! کہ آج کے اس اکیسویں صدی میں کوئی اس طریقے سے بھی سوچ سکتا ہے میں اپنے دوست سے کہنے لگا کہ ان کو دنیا کی خبر ہے یا نہیں لیکن شیریا جیسا ملک حیوانی انسانیت کی بربریت کی کہانی سنارہا ہے جس کا شکارکئی معصوم بچوں اور عورتوں ،نوجوان، ضعیفوں نے اپنی جانیں گوائیں۔ مجھے تو ان روہنگیاں مسلمانوں کی بھی یاد تازہ کرگیا کہ انھیں بھی بِنا کسی وجہ سے اپنے ہی ملک سے نکال دیا گیا ۔ میں اسلئے کہہ رہا ہوں کہ میں ایک مسلمان ہوں ۔ وہیں ہمارے قریب ہی کھڑے میہول پٹیل نے کہا کہ میرا موٹا بھائی اجیت امریکہ گیا تھا لیکن وہاں اس کاسرِ عام قتل کردیا گیا ۔ وہیں پاس ہی روشن شنگھ بول پڑا بھئی مجھے تو میرے بھائی اور بھابی یاد آگئے جو کینڈا میں اپنا ہوٹل چلا رہے تھے لیکن ایک نوجوان آیا اور انگریزی میں پیشوں کا مطالبہ کرنے لگا جب میرے بھائی اور بھابی نے انکار کیا تو ان پر وہ تاڑ تاڑ گولی مار کر وہاں سے فرار ہوگیا ۔ابھی باتیں اندر ہی اندر ہورہی تھی کہ اس خاتون نے باآواز بتایا کہ میرے چار بھائی تھے اور ان چاروں بھائیوں کا قتل کر دیا گیا وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ نیک کام کرتے تھے ۔میرا بڑا بھائی پنڈت رام کرشن تھا اُس نے ایک نوجوان کومندر میں اپنا موبائل فون بند کرنے کو کہا بس کیا تھا اُسے بہت غصہ آگیا اور وہ اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ دوبارہ لوٹا اور مارنے لگا،مارپیٹ کے بعد انھیں اتنی شدید چوٹیں آئی تھیں کہ وہ برداشت نہ کرسکے اور ان کی موت ہوگئی ۔وہ صرف لوگوں کو بھکوان سے جوڑنا چاہتے تھے۔وہیں میرے دوسرے بھائی غلام احمد جو ایک کالج میں پروفیسر تھے انھوں نے طلبا کو امتحان میں نقل کرنے سے روکا ،بس کیا تھا اُنھوں نے ایک روز پروفیسر غلام احمد بھائی کو اکیلا پا کراُن کو نشیلی دوا زبردشتی پلا تے رہے اور کسی کے آنے کی آواز پاکر وہاں سے فرار ہوگئے ،اس سے پہلے کہ کچھ کر پاتے ان کی موت ہوگئی۔نقل کرنا یعنی کسی کا حق مارنے کے برابر ہے وہ چاہتے تھے کہ جو دماغی طور پر ہوشیار طلبا ہیں وہ اپنی محنت سے اس مقام پر پہنچے جن سے معاشرہ اور دیس خوب ترقی کرے ۔ میرا تیسرابھائی فادر جوسیف ہے جس کو بھری محفل میں قتل کردیا تھا انھوں نے لوگوں کو صحیح راستے پر چلنے کے لیے چرچ میں آنے جانے والوں کے لیے قانون بنایا تھا کہ وہ شراب کوچھوڑ کر کسی غریب کو تعلیم یافتہ بنائے تو بہتر ہوگا ۔تعلیم سے سوچ بدل جاتی ہے صحیح اور غلط میں تمیز پیدا ہوجاتی ہے ان کا مقصد لوگوں کو سیدھی راہ پر لانا تھا۔آخر میں میرا چوتھا بھائی دلبیر شنگھ جس نے اپنے ڈھابے میں غریبوں کو مفت میں کھانا کھلایا ۔یہ بات اس کے بڑے بھائی جتندر شنگھ کو بری لگی اور اُس نے حادثہ بنا کر موت کے گھاٹ اتاردیا۔ دلبیر شنگھ ان غریبوں کو اسلئے کھانا کھلا رہا تھا تاکہ دنیا کی کچھ بھوک کم ہوسکے مگر کہتے ہے نا کہ اچھائی کا راستہ مشکل اور کانٹوں بھرا ہوتا ہے اُس پر ہر کوئی نہیں چل سکتا ۔مجھے یقین نہیں ہوتا ! یہ ساری باتیں جو خاتون بیان کررہی ہے وہ چار بھائی آخر وہ خود کون ہے ؟ ان نوجوانوں کے سوال پر سوال کیا؟ آخر تم کون ہوں ؟ اس خاتون نے کہامیں ہندوستان ہوں ……………….!مجھے یقین نہیں ہوتا …………………….!مجھے یقین نہیں ہوتا—-!
———-
Dr. SufiyaBanu .A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676

Share
Share
Share