حیدرآباد دکن میں مرزا غالب اکیڈیمی کا افتتاحی اجلاس و مشاعرہ

Share


حیدرآباد دکن میں مرزا غالب اکیڈیمی کا افتتاحی اجلاس و مشاعرہ

محسن خان
موبائیل: 9397994441
ای میل:

نواب مرزا اسد اللہ خان غالب اردوادب کا ایسا بلندنام ہے جن کا ذکر کیئے بغیر اردو کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ دہلی میں اردواکیڈیمی کے قیام کے پچاس سال بعد تلنگانہ کے دارلحکومت حیدرآباد دکن میں مرزا کیڈیمی کا قیام عمل میں لایاگیا۔ مرزا غالب اکیڈیمی (حیدرآباد)کے صدر تلنگانہ کے ممتازشاعر‘ادیب‘ماہرمترجم اورادب نواز شخصیت پروفیسر قطب سرشار ہیں ۔

اکیڈیمی کے سرپرست اعلیٰ پروفیسر اشرف رفیع ہیں جنہوں نے اس اکیڈیمی کے قیام کے لیے تجویز دی ہے۔ اکیڈیمی کے سرپرستان پروفیسر ایس اے شکور اور پروفیسر وہاب قیصر ہیں۔ نائب صدر کے طورپر ڈاکٹرغضنفراقبال اور ڈاکٹرایم اے نعیم کومنتخب کیاگیا۔ محبوب خان اصغر معتمد عمومی اورمحسن خان معتمد ہیں۔ خازن شیخ اسماعیل ہیں۔ پروفیسرس‘ ٹیچرس ‘اردوادب سے وابستہ شخصیات اور اردوکوفروغ دینے کے لیے کوششیں کرنے والی متحرک شخصیات پرمشتمل اس اکیڈیمی کا افتتاحی اجلاس 23مارچ2019 بروز ہفتہ کو میڈیا پلس آڈیٹوریم میں رکھاگیا۔اکیڈیمی کے ذمہ داروں نے طئے کیاتھا اکیڈیمی اپنا ہرپروگرام وقت پرشروع کرے گی اوراپنے شیڈول کوکسی حال تبدیل نہیں کرے گی لیکن لوگ عادتاً تاخیر سے محفل میں آمد پر مجبوراً پروگرام اپنے مقررہ وقت سے تھوڑی دیربعد تاخیرسے شروع ہوا۔عموماً یہ دیکھاجارہاہے کہ اردوکے ادبی پروگراموں میں سامعین کی تعداد گھٹتی ہی چلی جارہی ہے اور کسی بھی پروگرام کے انعقاد سے قبل ادبی انجمنوں اور سوسائٹیوں کوکئی طرح کے خدشے کھٹک رہے ہیں ۔بیشترادبی پروگراموں میں سوسائٹیوں اورانجمنوں کے ذمہ داراورشعراء کے علاوہ سامعین دوردور تک نظرنہیں آرہے ہیں اور خالی کرسیوں اور روز دیکھے جانے والے چہروں کے علاوہ کوئی نیا سامع ان پروگراموں میں نظرنہیں آرہا ہے۔ حیدرآباد دکن میں جہاں ہندوستان کی دوسنٹرل یونی ورسٹی‘دنیا کی پہلی اردویونی ورسٹی‘ ہندوستان کی واحد قومی یونی ورسٹی اور کئی کالجس کا جال تلنگانہ کے مختلف ضلعوں میں جہاں لاکھوں روپئے کی تنخواہیں اردوکے پروفیسرس اورٹیچرس حاصل کررہے ہیں اس کے علاوہ سرکاری اسکیمات اور مراعات کا شان سے فائدہ اٹھارہے ہیں مگر اس کے باوجود وہ لوگ اردو کے فروغ اور نوجوانوں کوادب سے جوڑنے کے لیے کچھ کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں ۔ سامعین کی کمی اور نوجوانوں کی ادب سے دوری کے باعث کئی انجمنیں اپنے گھروں کے ہالوں میں پروگرامس ترتیب دے رہی ہے تاکہ جتنے بھی لوگ موجود ہوں وہ قریب قریب ہوجائیں اور دوریاں نہ رہیں۔ ایسے حالت میں بھی مرزا غالب اکیڈیمی کے افتتاحی اجلاس میں میڈیا پلس کا بڑا آڈیٹوریم اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کررہاتھا۔ تلنگانہ کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والی ادبی شخصیات نے پرجوش اندازمیں اس تقریب میں شرکت کی ۔محبوب خان اصغر معتمد نے ابتداء میں کئی نکات پرمشتمل اکیڈیمی کے قیام اغراض مقاصد بیان کیے جس میں اردوسے وابستہ شخصیات ‘ادیبوں‘صحافیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کئی پروگرامس منعقد کرنے اور اردوزبان وادب کے فروغ کے لیے کئی اقدامات کرنے کی باتیں سامعین کے سامنے رکھی گئیں۔ پروفیسر قطب سرشار صدراکیڈیمی نے اپنا مقالہ’’غالب کی شاعری: حسی تجربوں کا تخلیقی ارتکاز‘‘ سنایا ۔پروفیسر وہاب قیصر جنہیں بھی اس افتتاحی اجلاس میں مقالہ سناناتھا چند ناگزیر وجوہات کی بناء پرشرکت کرنے سے قاصر رہے۔قطب سرشار کے مقالہ پرتبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹرنسیم الدین فریس ڈین مولانا آزاد نیشنل اردویونی ورسٹی نے غالب کی دکن سے وابستگی کوبتلایا اورکہاکہ غالب کے والد اور بہنوئی کا دکن سے قریبی رشتہ تھا اور غدر کے بعدغالب کے کئی رشتہ داریہاں آکربس گئے تھے۔ نسیم الدین فریس اور پروفیسر اشرف رفیع کو پروفیسر قطب سرشار اوروہاب قیصر کے مقالوں پرتبصرے کے لیے مدعوکیاگیاتھا لیکن نسیم الدین فریس نے مقالہ پرتبصرہ کے بجائے غالب کی دکن سے وابستگی اور غالب کی حالت زندگی پر ہی تقریر کی۔ پروفیسر ایس اے شکور نے کہاکہ غالب صدی حیدرآبا د دکن میں شاندار پیمانے پرمنائی گئی تھی ۔انہوں نے کہاکہ شہر میں موجود تقریباً انجمنیں تہنیتی اجلاس ‘ مشاعرے اورچھوٹے موٹے پروگرامس کرتی ہیں لیکن بڑے پیمانے پر کوئی ادبی پروگرامس نہیں کرتی اومرزا غالب اکیڈیمی کے قیام سے امید جاگی ہے کہ وہ ان کاموں کوانجام دے گی۔ڈاکٹرم ق سلیم نے کہاکہ ایسا لگتا ہیکہ اردودلی سے روٹھ کردکن آگئی ہے۔ انہوں نے افسوس کااظہا رکرتے ہوئے کہاکہ غالب کی مزار بہت ہی خستہ حالت میں تھی جس کی طرف کسی اردو سے وابستہ شخص نے توجہ نہیں دی تھی لیکن ایک برطانوی صحافی ڈاکٹرجے مورٹن نے اپنے مراسلہ کے ذریعہ حکومت کو اس کی طرف توجہ دلائی۔ بالی ووڈ کے نامور ہدایت کار سہراب مودی نے غالب کا مزارشاندار طورپرتعمیر کروایا۔ ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز نے غالب کے اشعار کوسمجھنے پرزوردیا اور کہاکہ غالب کی شاعری پرغوروفکرکرنے سے غالب کی عظمت کااندازہ ہوتا ہے۔ پروفیسر اشرف رفیع نے قطب سرشار کے مقالہ پرتبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ یقیناً قطب سرشار کا مقالہ بہت ہی معلوماتی ہے اور انہوں نے اچھے انداز میں غالب کی شخصیت کا جائزہ لیاہے۔ آج بھی غالب کے بہت سے اشعار کی تشریح ممکن نہیں ہے۔ غالب اپنی فارسی شاعری پرناز کرتے تھے لیکن انہیں شہرت اردوشاعری کی بدولت ملی۔ انہوں نے کہاکہ جلد ہی غالب پران کی کتاب منظرعام پرآنے والی ہے۔مولانا رحیم الدین انصاری صدرنشین تلنگانہ اردواکیڈیمی نے اپنے مخصوص انداز میں تقریر کرتے ہوئے کہاکہ پروفیسر قطب سرشار نے جومقالہ پڑھا اس میں استعمال الفاظ کو سمجھنا تک ہمارے لیے مشکل نظرآرہاتھا۔انہوں نے اس موقع پر غالب کی غزل پرلکھی پیروڈی سنائی ۔جس سے محفل قہقوں سے گونج اٹھی۔انہوں نے کہاکہ تلنگانہ اکیڈیمی جلد ہی قطب سرشار کے زیرنگرانی تلگو اردو لغت کی ازسرنوترتیب اور اشاعت عمل میں لائے گی۔قطب سرشار نے صدارتی خطاب میں کہاکہ غالب اکیڈیمی دہلی کو وہاں کی حکومت کی سرپرستی اور بااثرلوگوں کاتعاون حاصل رہاہے ۔ہم بھی اسی طرز کے بڑے پیمانے پروگرامس منعقد کا ارادہ رکھتے ہیں اس لیے آپ تمام ادب نواز شخصیتوں‘محبان اردواوردیگر سے درخواست ہے کہ وہ اردوادب کی ترویج وفروغ اور اردو سے وابستہ شخصیات کے لیے قائم کی گئی مرزا غالب اکیڈیمی سے وابستہ ہوجائیں ۔ادبی اجلاس کے بعد ڈاکٹرمحسن جلگانوی کی صدارت میں مشاعرہ منعقدہوا۔جس میں تلنگانہ کے مشہور ومعروف شعراء کرام ڈاکٹر رؤف خیر‘ ڈاکٹرفاروق شکیل‘ سردارسلیم اور انورسلیم کومہمانان خصوصی کے طورپرمدعو کیاگیاتھا۔ ڈاکٹر نادر المسدوسی کوبھی مہمان خصوصی کے طورپرمدعو تھے۔ رات دیرگئے تک چلے اس مشاعرہ میں آغاسروش‘ جامی وجودی‘ شکیل حیدر‘طاہر رومانی‘ چچاپالموری‘ صبیحہ تبسم ‘موناایلزبتھ کورین اوردیگرشعراء نے اپنا کلام پیش کیا۔محبوب خان اصغرؔ نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ پروگرام کے کنوینرمحسن خان اور ایم اے نعیم تھے۔
——-
Mohsin Khan
معتمد مرزا غالب اکیڈیمی
حیدرآباد۔تلنگانہ
موبائیل: 9397994441
ای میل:

Share
Share
Share