اپنے روزے کی حفاظت کیجیے :- سعدیہ سلیم شمسی

Share

اپنے روزے کی حفاظت کیجیے

سعدیہ سلیم شمسی – آگرہ
رسرچ اسکالر(عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد)

ہر طرح کی تعریف اور شکر اس مہربان اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے فضل و کرم سے پھر اس مبارک مہینے رمضان شریف کی سعادت نصیب فرمائی… رمضان کا لفظ "رمضا” سے نکلا ہے اور رمضا اس بارش کو کہتے ہیں جو کہ موسم خریف سے پہلے برس کر زمین کو گردو غبار سے پاک کردیتی ہے مسلمانوں کے لئے یہ مہینہ اللہ تعالٰی ک بی طرف سے رحمت کیارش کا ہے

جس کے برسنے سے مومنوں کے گناہ دھل جاتے ہیں عربی زبان میں روزے کے لیے "صوم” کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی رک جانے کے ہیں یعنی انسانی خواہشات اور کھانے پینے سے صرف اللہ پاک کی رضا کے لیے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک رک جانا اور اپنے جسم کے تمام اعضاء کو برائیوں سے روکے رکھنا… رمضان کا مہینہ باقی مہینوں کا سردار ہے اور یہ مہینہ اپنے اندر لامحدود رحمتیں سموئے ہوئے ہے…
قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا
"اے ایمان والو تم پر روزے فرض کردیئے گیے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے” اس سے امید ہے کہ تم پر تقوی کی صفت پیدا ہوگی…
اللہ تعالٰی نے یہ رحمت والا با برکت مہینہ ہمیں عطا کیا ہم اس ماہ میں روزے رکھتے ہیں اور خوب عبادتیں کرتے ہیں لیکن کیا روزہ پورا دن بھوکا اور پیاسا رہنے کا ہی نام ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے روزے کی حفاظت کیسے کریں آپ نے یہ تو سنا ہی ہوگا کہ رمضان میں اللہ تعالٰی ہر نیکی کا ثواب کئی گناہ بڑھا کر دیتا ہے تو سمجھ لیجے یہہی حال گناہوں کا بھی ہے یوں تو اللہ پاک نے سب قسم کے گناہ سب زمانے میں حرام فرمائے ہیں لیکن رمضان المبارک میں حرمت زیادہ بڑھ جاتی ہے اس لیے یہ تاکید کی گئی ہے کہ اس مہینے میں بندہ خاص طور پر اپنے حال پر نظر رکھے اور کسی طرح بھی اپنے آپ کو گناہوں کی گندگی سے آلودہ نہ ہونے دے بہت سے گناہ تو ایسے ہیں جنہیں عام طور پر بہت بڑا گناہ ہی سمجھا جاتا ہے اور لوگ اس گناہ میں مشکل سے مبتلا ہوتے ہیں لیکن کچھ ایسے گناہ ہیں جو اپنی اصل کے اعتبار سے تو بڑے ہی ہیں لیکن عام طور پر لوگ اسے گناہ ہی نہیں سمجھتے اس لیے ان گناہوں میں پھنس جانے کا بہت زیادہ اندیشہ رہتا ہے بندہ مومن کو ان پر خاص نظر رکھنی چاہیے مثلاً ایک گناہ نظر کا گناہ ہے لوگوں نے اس کو بہت ہلکا سمجھ لیا ہے بلکہ یوں کہیے کہ کوئی اسے گناہ سمجھتا ہی نہیں ہے اور کم ہی لوگ اس کی طرف دھیان دیتے ہیں جسے چاہا گھور لیا، جسے چاہا تاک لیا، جہاں کوئی خوبصورت چہرہ سامنا آیا نظر بھر کر بار بار دیکھنا شروع کردیا اور پھر رنگین اور خوشنما تصاویر اور وہ فوٹو جو آج کل سوشل میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں اردو ادب میں شاعری کی بات لے لیں تو بنا خوبصورت چہرہ کے لگائے مانو شعر میں خوبصورتی ہی پیدا نہیں ہوتی اور دیکھنے والا کلام سے زیادہ اس خوبصورت چہرے میں کھو جاتا ہے نہایت ہی حسین و جمیل چہرے ان کے کلام کی رونق بڑھاتے ہیں اور خودبخود اپنی طرف کھنچتے ہیں اسی طرح اخبارات او رسائل میں خوبصورت چہرہ اس کی رونق کو چار چاند لگا دیتے ہیں ان پر تو اچھے اچھوں کی نظر جم کر ہی رہ جاتی ہے اور یہ خیال تک بھی کبھی نہیں آتا کہ غض بصر یعنی نگاہوں کو ایسی چیزوں سے بچانے کا حکم دیا گیا ہے اس طرح اس حکم کی خلاف ورزی ہورہی ہے رمضان المبارک میں اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ روزے کی مشقت بھی جھیلتے رہیں اور روزے کا اجر غیر محسوس طریقے پر ضائع ہوتا رہے اگر ہم نے پورے شعور کے ساتھ اس مہینے میں گناہوں سے بچنے کی کوشش کی تو امید رکھنا چاہیے کہ آئندہ بھی پھر یہ بات ہمارے دھیان میں رہے گی اور زندگی پہلے کے مقابلے میں ضرور کچھ نہ کچھ سدھرتی جائے گی ان شا اللہ……
دوسرا بڑا گناہ غیبت ہے یہ سب جانتے ہیں کہ یہ بہت شدید گناہ ہے لیکن ہمارے معاشرے کا کچھ ایسا چلن ہے کہ لوگ اس گناہ سے بہت ہی کم بچنے کی کوشش کرتے ہیں اچھے اچھوں کی صحبت میں غیبت کا بازار گرم رہتا ہے اور یہ محسوس تک نہیں ہوتا کہ ہم انجانے میں کتنا بڑا گناہ کرتے جارہے ہیں رمضان کے مہینے میں بالخصوص گھریلو صحبتوں میں اس کا رواج بڑھ جاتا ہے کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے لوگ وقت کاٹنے کے لیے اِدھر اْدھر کی باتیں شروع کرتے ہیں لیکن ان کی باتوں کے دوران کچھ ہی دیر میں کوئی ایک شخصیت ان کی گفتگو کا موضوع بن جاتی ہے اب جو اس کے عیبوں کا تذکرہ چھڑ جاتا ہے تو یہ خیال بھی نہیں رہتا کہ ہم کیا کررہے ہیں؟ اور ہم تو روزے سے ہیں اس بارے میں جب تک پوری قوت کے ساتھ ان کی احتیاط کا خیال نہیں رکھا جائے گا کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوسکتی البتہ یہ ضرور ہے کہ کوشش دونوں طرف سے ہونا چاہیے یعنی کہنے والا بھی خیال رکھے یہ کہ اس کی گفتگو غیبت کی حد میں داخل نہ ہونے پائے اور سننے والے بھی دھیان رکھیں کہ بات غیبت کی تعریف میں نہ آجائے ایسے موقعے پر بے جھجک اوربے تامل روک دینا ہی مناسب ہے بس اس بات کا خیال رہے کہ آپ کسی برے انداز سے نہ ٹوکیں بلکہ مناسب طریقے اور حکمت کے ساتھ توجہ دلائیں ……..
حرام اور ناجائز مال کھانا سبھی لوگ گناہ جانتے ہیں لیکن عملی زندگی میں بہت ہی کم لوگ اپنی روزی کے بارے میں اس کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کی کمائی حلال ہے یا حرام؟ ایسا معلوم ہوتا ہر شخص کے سامنے بس روزی کمانا مقصود ہوتا ہے کس طرح کمائیں؟ اس پر کم ہی لوگ سوچتے ہیں رشوت لینے والے رشوت لیتے رہتے ہیں، لین دین میں بے ایمانی کرنے والے بے ایمانی کرتے رہتے ہیں، جھوٹ بول کر اور جھوٹے اندراجات کرکے پیسہ بچانے والے پیسہ بچاتے رہتے ہیں، سود کا لین دین ہوتا رہتا ہے، خریدو فروخت کے لیے اسلامی شریعت نے جو پابندیاں لگائی ہیں ان کا خیال کیے بغیر کاروبار ہوتے رہتے ہیں غرضیکہ معاملات کی درستی، دیانت اور ایمانداری کے تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف بہت ہی کم دھیان دیا جاتا ہے.. حالانکہ یہ سب جانتے ہیں کہ اس طرح جو دوسروں کی حق تلفی کی جاتی ہے یہ ایک ناقابلِ معافی گناہ ہے رمضان کا مبارک مہینہ آتا ہے لیکن کسی کو یہ خیال تک نہیں آتا کہ اس مہینے میں اگر حلال روزی نہ کمائی اور حرام آمدنی سے پیٹ کی حفاظت نہ کی تو روزے کا اجر ہی کیا ملے گا؟ کیا روزہ اسی کا نام ہے؟ کیا اس طرح ہم اپنے روزے کو ضائع نہیں کررہے؟ کہ اللہ تعالٰی محض آپ کے بھوکا پیاسا رہنے سے اس پر ثواب عطا کرے گا؟ آپ روزے اس لیے تو رکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالٰی آپ سے خوش ہو اس کا اجر و ثواب عطا کرے اور آپ کو اْس ابدی زندگی میں اس کی تیار کی ہوئی جنت میں رہنے کا استحقاق حاصل ہوجائے پھر ایک طرف تو یہ خواہش اور دوسری طرف ہمارا یہ عمل؟ آخر ان دونوں میں آپ ہی بتائیں کیا جوڑ ہے؟ اللہ کے بندو! تم اللہ کے حکم کی تعمیل میں صبح سے شام تک اس رزق کو کھانے سے بچے رہے ہو جو اصلاً حلال تھا لیکن تمہیں یہ خیال نہیں آتا کہ جب تم روزہ کھولتے ہو تو وہ نوالے حلق سے اتارتے ہو جن کا کھانا اس خدا نے حرام کیا ہے جس کے لیے تم نے روزہ رکھا ہے__ کون سا انسان ایسا ہوگا جس کے دل میں ذرا بھی ایمان ہو اور جو خدا کے حضور کھڑے ہونے کا ڈر بھی رکھتا ہو اور پھر بھی وہ حرام اور ناجائز کمائی سے بچنے کی کوشش نہ کرے؟ کچھ لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ صاحب آج کل بغیر بے ایمانی کے تو کوئی کام چلتا ہی نہیں ہے بنا جھوٹ کے تو کاروبار ہی بند ہوجائے اور اس طرح جائز اور ناجائز کے چکر میں اگر پڑیں گیں تو سارے دھندے ہی چھوڑنا پڑ جائیں گے پھر گزر کیسے ہوگی؟ اور کھائیں گے کیا؟ یہ ہمارے نفس اور شیطان کا بڑا دھوکہ ہے اب بھی حلال روزی حاصل کرنے کی بے شمار صورتیں موجود ہیں بشرطیکہ کچھ زیادہ محنت کرنے اور کم پر راضی ہوجانے کے لیے تیار ہوجائیں… ہوتا یہ کہ اگر کوئی شخص ناجائز طریقوں سے تھوڑی سی محنت کرنے کے بعد ہزاروں لاکھوں کما رہا ہے اور آپ اس کے سامنے حلال حرام کی بحث چھیڑ دیں تو فوراً کہے گا کہ صاحب کس بدنصیب کو اس حرام کمائی پر ہی اصرار ہے؟ ہم تو کل کا چھوڑتے آج ہی چھوڑ دیں لیکن کوئی حلال دھندا سامنے بھی تو ہو…… یہ بات کہہ کر گویا اس بات کو شرط کے طور پر رکھنا ہے کہ مجھے نہ تو محنت زیادہ کرنی پڑے اور نہ ہی میری آمدنی میں کوئی کمی آئے… ظاہر ہے ایسے لوگوں کو کبھی حلال روزی نصیب نہ ہوگی وہ ہوس اور لالچ کا شکار ہوکر حرام لقموں سے ہی اپنا پیٹ بھرتے رہیں گے اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے "جو کوئی تقوی کی راہ اختیار کرتا ہے یعنی اللہ تعالٰی کی ناخوشی سے بچنے کے لیے اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے نیکی کی راہ پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کے لیے گناہ سے بچنے کی بہت سی رائیں کھول دیتا ہے اور اسے ایسے ایسے طریقوں سے روزی پہنچاتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں ” لیکن یہ عنایت انہیں پر ہوتی ہے جو اللہ تعالٰی کو رازق سمجھتے ہیں بلا کسی شک کے اس کی فرمانبرداری اور اطاعت کے لیے تیار ہوجاتے ہیں جن لوگوں کی زندگیوں میں اس قسم کی کوتاہیاں ہورہی ہیں انہیں اپنے بارے میں کچھ نئے فیصلے کرنے اور اپنی روزی کو حرام سے پاک کرنے کے لیے اپنے روزے کی حفاظت کرنے کے لیے رمضان المبارک ایک بہترین موقع ہے ہمت اور کوشش شرط ہے رزق اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے پھر اصل مسئلہ تو یہ ہے بھی نہیں کہ بندے کو اس دنیا میں کیا اور کتنا ملتا ہے یہ سب تو فانی ہے اس دنیا کی ہر شے کو ایک دن ختم ہوجانا ہے اصل سوال اور فکر اس ہمیشہ رہنے والی زندگی کا ہے جو ابدی ہے اللہ پاک ہم سب کو اس ابدی زندگی کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے آمین…….
یہ مقدس مہینہ اْمتِ مسلمہ کے لیے ایک ماہ کے تربیتی کیمپ کی مانند ہے روزے کا مقصد صرف بھوکا پیاسا ہی رہنا نہیں بلکہ جھوٹ، فریب، دھوکہ، غیبت اور ان تمام برائیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے جو آج کل کے معاشرے میں عام ہوتی جارہی ہیں جب ایک مسلمان ایک ماہ تک اس برائیوں سے دور رہتا ہے اور راہ راست پر چلتا ہے تو اس کے کردار میں نکھار پیدا ہوجاتا ہے اور اچھی عادتیں اس کے معمول کا حصہ بن جاتی ہیں اور اس طرح وہ ایک اچھا باکراد مسلمان بن جاتا ہے…….
——-
Sadia Saleem Shamsi
Dept. of Urdu
St.John’s Degree College , Agra

Share
Share
Share