کالم : بزمِ درویش – سفید پوش :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم: بزمِ درویش
سفید پوش

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

پچھلے دو گھنٹے سے میں اور میرا دوست شہر کے مصروف جدید ترین شاپنگ مال میں گھو م رہے تھے ہم دونوں شاپنگ کے مشکل ترین عمل سے گزر رہے تھے آخر کار یہ مشکل پیچیدہ مرحلہ حل ہوا تو ہم دونوں آخر فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں آکر بیٹھ گئے۔

شاپنگ کر تے کر تے پتہ ہی نہیں چلتا آپ کتنا پیدل چلے ہو کتنی بار اوپر نیچے کے فلور پر گئے ہو سینٹرلی ائیر کنڈیشنڈ کی وجہ سے بندہ پیدل چلتا جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا آپ کتنے کلو میٹریا کتنے گھنٹے پیدل چلے ہو گھنٹوں پیدل چلنے کے بعد جسم پاؤں ٹانگیں تھکاوٹ کا شکار ہو نے لگتے ہیں تو انسان جوس یا کھانے کے لیے کو ئی گو شہ تلاش کرتا ہے جہاں بیٹھ کر تھکاوٹ اور بھوک کا علاج کیا جا سکے ہم دونوں بھی اب پیاس بھوک تھکاوٹ اتارنے کے لیے آرام دہ ٹھنڈے ریسٹورنٹ میں آبیٹھے تھے ہم جس ٹیبل پر بیٹھے تھے وہاں سے باہر کا منظر اچھی طرح نظر آرہا تھا آرڈر دینے کے بعد اب ہم دونوں انتظار کر رہے تھے میں شیشے کے آرپار بیٹھے اور گزرتے لوگوں کو دیکھ رہا تھا اچانک شیشے کے پار مجھے ایک شنا سا چہرہ نظر آیا‘ ایک سکول ٹیچر جو اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ کبھی کبھار میرے پاس آتا تھا شریف آدمی تھا روٹین کی باتیں کر کے واپس چلا جاتا میرا تعلق کیونکہ خود بھی ٹیچنگ سے رہا ہے اِس لیے جب بھی کو ئی ٹیچر یا پروفیسر میر ے پاس آتا ہے تو میں خاص توجہ دیتا ہوں ویسے بھی اساتذہ بہت قابل احترام ہو تے ہیں اِس لیے وہ جب بھی میرے پاس آتا میں عزت سے پیش آتا میں نے اُسے دیکھا تو فوری باہر نکل کر اُن کے پاس چلا گیا وہ مجھے دیکھ کر بہت خو ش ہوا خوشی سے ملا اور بو لا عید کا وقت قریب ہے اِس لیے بچوں کو لے کرادھر آگیا ہوں میں نے ساتھ آئے دو بچوں کو پیار کیا اور کہا آئیں آپ کو برگر کھلاتے ہیں توٹیچر صاحب نے خو شدلی سے انکار کر دیا کہ بہت شکریہ ہم کھانا کھا کر آئے ہیں اور ہمیں بھوک نہیں ہے تو میں نے مذاقاً بچے سے پوچھا آپ کو بھوک ہے کہ نہیں تو بچہ معصومیت سے بولا انکل مجھے بھوک ہے اور مجھے بر گر بہت اچھا اور مزیدار لگتا ہے اور میں نے برگر کھانا ہے بچے کی بر جستگی دیکھ کر ہم سب حیران رہ گئے اب میں نے بچوں کو پکڑا اور اندر لے جانے لگا تو بچے فوری طور پر میرے ساتھ چل پڑے لیکن میاں بیوی نے انکار کر تے ہو ئے کہا نہیں جناب بچے جھوٹ بو ل رہے ہیں آپ کھانا کھائیں ہمیں ضرورت نہیں ہے اب والدین بچوں کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے جبکہ بچے بھو ک کی شدت سے تنگ اندر جانے پر بضد تھے اب میں نے بچوں کو چھوڑا اور استاد صاحب کو ایک طرف لے گیا اور التجا آمیز لہجے میں بولا جنا ب میری خوشی کی انتہاہو گی اگر آپ بچوں سمیت اندر چل کر میرے ساتھ کھانا کھائیں میرے اصرار پر والد مان گیا اب میں ان کے ساتھ واپس آکر ٹیبل پربیٹھ گیااب دوبارہ ویٹر کو بلا کر بچوں کے لیے ان کے پسندیدہ برگر جوس کا آرڈر دیا تھوڑی دیر بعد ہی برگر آگئے‘ بچے تو برگرز پر ٹوٹ پڑے انہوں نے شائد زندگی میں پہلی بار برگر دیکھے تھے وہ دنیا و مافیا سے بے فکر موج مستی سرور میں برگر کھا رہے تھے ساتھ میں کولڈ ڈرنک کو بھی انجوائے کر رہے تھے ان کے چہروں پر پھیلی خوشی کی روشنی اور رنگ بتا رہے تھے جیسے انہیں زمین پر ہی جنت مل گئی ہے دنیا جہاں کے خزانے مل گئے ہیں وہ برگر کے ہر نوالے کو لطف لے کر کھا رہے تھے میں نے زندگی میں بے شمار دفعہ کھانے کھائے لوگوں کو بھی کھلائے لیکن آج ان معصوم فرشتوں کو برگر کھلا کر مجھے جو حقیقی باطنی خوشی مل رہی تھی اِیسی خوشی میں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی بچوں کے چہروں پر قوس قزح کے رنگ بکھرے ہو ئے تھے جبکہ والدین شرمندہ شرمندہ سے بیٹھے تھے میں نے اُن کے اعتماد کی بحالی کے لیے گفتگو شروع کر دی‘ بچے اپنی ہی مستی میں گم برگرز کو انجوائے کر رہے تھے جب بچوں نے خوب اچھی طرح برگرز اور کولڈ ڈرنک کو انجوائے کر لیا تو ٹیچر صاحب نے شکریہ اور اجازت طلب نظروں سے میری طرف دیکھا میاں بیوی اور بچے ممنون نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے میں انہیں چھوڑنے باہر تک آیاپھر وہ چلے گئے ہم بھی واپس گھروں کو آگئے میں خاص قسم کی سرشاری اور خوشی محسوس کر رہا تھا کہ وہ معصوم فرشتوں کو آج کھانا کھلا یا ہے رات کو سونے سے پہلے میری مو بائل پر ٹیچر صاحب کے شکر یہ کے بہت سارے پیغامات آئے ہوئے تھے، لمبے لمبے پیغامات میں بیچارے نے اپنی داستان غم سنائی ہو ئی تھی جو اسطرح تھی جناب آپ کا شکریہ ادا کر نے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہے آپ نیک انسان ہیں آپ کے سامنے اپنا درد دکھ کھل کر بیان کر تا ہوں میں سکول ٹیچر سفید پوش انسان ہوں میری تنخواہ اور ٹیوشن کے پیسوں سے اپنی سفید پو شی کا بھرم رکھا ہوا ہے‘ کرائے کا مکان بجلی گیس پانی کا بل بچوں کی پڑھائی کتابوں یونیفارم سکول کی فیس کے پاس پیسے نہیں بچتے بلکہ ہر ماہ کسی سے کچھ رقم ادھار لینا پڑتی ہے آجکل شدید گرمی ہے تو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے بچوں کو لے کر کسی شاپنگ مال میں گھس جاتے ہیں جہاں اے سی چل رہے ہو تے ہیں گھر میں تو ہم اے سی افورڈ نہیں کر سکتے اِس لیے روزانہ کسی نئے مختلف شاپنگ مال میں گھس جاتے ہیں میری کمائی صرف اتنی ہے کہ دو وقت کی روٹی بچوں کو کھلا سکوں اِس لیے اِیسی حرکتیں کرتا ہوں- ہم گھر سے پانی کی بوتلیں لے کر آتے ہیں سستے بسکٹ بھی ساتھ لاتے ہیں جہاں بیٹھنے کا موقع ملتا ہے وہاں بیٹھ کر اپنی سستی عیاشی کر لیتے ہیں اچھی خوراک کی شدید کمی ہے صرف گزارے کی دال سبزی کھا تے ہیں موجودہ مہنگائی نے اب یہ بھی مشکل کر دی ہے کسی فنکشن شادی تقریب کا انتظار کر تا ہوں فیملی کا دعوت نامہ ہو تو بچوں کو لے جاتا ہوں ورنہ اکیلا ہی جاتا ہو ں موقع ملے تو اچھا کھانا جو ممکن ہو سکے گھر بھی لے آتا ہوں دیکھنے کو تو میں پینٹ شرٹ پہنا ہوں جبکہ سچ یہ ہے کہ یہ لنڈے سے خریدتا ہوں اگر لنڈا بازار نہ ہو تا تو میرے جیسے لاکھوں سفید پو ش اچھے کپڑوں سے محروم رہتے ہما ری یہ سفید پو شی کسی نہ کسی طرح قائم تھی لیکن اب مہنگائی جس طرح آسمان کو چھو رہی ہے اُس سے سفید پو شی کا بھر م رکھنا بھی مشکل ہورہا ہے مہنگائی خوفناک اژدھے کی طرح سفید پوشوں کو ہڑپ کر تی جا رہی ہے اب تو موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوانا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے معاشرے میں دولت کی تقسیم اِس قدر غیر منصفانہ ہے کہ غریب امیر کے درمیان خلیج ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جار ہی ہے سفید پوش اب غربت کے اندھے غار میں گرتے جارہے ہیں اگر معاشرے کا سب سے شریف طبقہ سفید پو ش غربت کے ریگستان میں جھلسنے لگا تو بھوک غربت سے تنگ آکر یہ سفید پوش طبقہ اپنی سفید پو شی قائم رکھنے کے لیے لوٹ مار کرنا نہ شروع کر دیں پہلے تو ہم لوگ کسی نہ کسی طرح اپنی سفید پو شی کے بھرم کو قائم رکھے ہو ئے تھے لیکن اب مہنگائی کے منہ زور طوفان نے ہماری سانسوں کے رشتے کو توڑنا شروع کر دیا ہے سر دعا کریں خدائے بزرگ بر تر کو ہم سفید پوش پر رحم آجائے ہمیں شرافت کی حدوں کو کراس نہ کرنا پڑے ورنہ معاشرے کا امن درہم برہم ہوجائے گا معاشر ہ ملک ریا ست اُسی صورت قائم رہ سکتے ہیں جب ضروریات حدوں کے اندر رہیں اگر بنیادی ضروریات زندگی ہمارے بس سے باہر ہوگئیں تو عوام مہذب انسانوں کی بجائے شتر بے مہار جانوروں کا روپ دھار لیں گے یہ پھر جانوروں کا یہ ریوڑ اخلاقیات قانون کے تمام دائروں کو توڑ کر ہر چیز تہس نہس کر دے گا اِس طرح کی بہت ساری باتیں معصوم شریف ٹیچر نے لکھی تھیں اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر سفید پوش عوام کا خیال نہ کیا گیا تو یہی طبقہ ایک دن بے رحم حکمرانوں کو نگل کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر گمنامی کی چادر ڈال دے گا۔

Share
Share
Share