ہولی تہوار۔ تاریخ کے آئینہ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد رضی الدین معضم

Share


ہولی تہوار ۔ تاریخ کے آئینہ میں

محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘، شاہ گنج ،حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340

(ست جگ یاکرت جگ سترہ لاکھ اٹھائیس ہزار سال کا ترتیا جگ بارہ لاکھ چھیانوے ہزار سال کا دوا پرجگ آٹھ لاکھ چونسٹھ ہزار سال کا اور کلجک چار لاکھ ۳۲ ہزار سال کا۔ اس طرح جارجگ ہوتے ہیں)
ست جگ کی بات ہے کہ ہر نیہ کیشونامی ایک بڑا بہادر اور زبردست راجہ تھا۔
شری برھماجی نے اس کی تپسیا سے خوش ہوکر وردان مانگنے کو کہا ۔ راجہ نے پرارتھنا کی ہے کہ ناتھ! ایسا وردیجئے کہ میں بارہویں مہینوں میں سے کسی میں نہ مروں‘ نہ دن میں مروں نہ رات میں مروں‘ نہ زمین پر مروں نہ آسمان پر مروں‘ نہ اندر مروں نہ باہر مروں اور نہ کسی ہتھیار سے مروں ۔ شری برہما نے کہا ’’اچھا ایسا ہی ہوگا۔‘‘

ہرنیہ کیشور کے پاس سونے کا بہت بڑا ذخیرہ تھا ۔ دولت کی کمی نہیں تھی‘ اقبال عروج پر تھا۔ طاقت بے مثال تھی ۔ تدبر یکتائے روزگار تھا۔ رعایا خوش حال تھی غرض کہ اسے کسی قسم کا جھنجھٹ نہ جنجال۔ جب یہ خداداد نعمتیں انتہائی کمال کو پہنچ گئیں تو یہ راجہ ایشور سے منحرف ہوگیا اور خود کو سروشکتیمان یعنی قادر مطلق بالفاظ دیگر ایشور کہنے لگا۔
اس نے سب کو مجبور کردیا کہ اسے رام کہیں۔ اس کی طاقت اور رعب داب سے رعایا اسے رام کہنے لگی۔ اسے رام ماننے سے جس نے روگردانی کی‘ اس نے نہ صرف اسے بلکہ اس کے سارے خاندان کو نیست و نابود کرادیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے تو لوگ جان کے خوف سے اور خوشامد میں اسے رام کہنے لگے اور پھر اس عمل کے عادی ہوکر رام (مالک حقیقی) کو بالکل ہی بھول گئے۔
لیکن رام سے انحراف کب تک؟ اس انحراف کی سزا لوگوں کو تو اس لئے نہیں ملی کہ وہ اسے رام کہنے پر مجبور کردیئے جاکر عادی بنادیئے گئے تھے۔ مگر انہیں عادی بنانے والا رام کے انصاف سے آخر کب تک بچا رہتا؟
ہرینہ کشو کے گھر میں انتہائی خوبصورت بیٹا پیدا ہوا۔ ’’پرھلاد ‘‘ نام رکھا گیا۔ یہ بچہ ہونہار نظر آتا تھا۔ بڑے لاڈ و پیار سے پالا پوسا گیا۔ گھر میں کسی چیز کی کمی نہ تھی‘ ہر طرح کا سکھ تھا۔
جب یہ ذرا بڑا ہوا تو ایک دن کھیلتے کھیلتے محل کے پیچھے نکل گیا۔ وہاں دیکھا کہ ایک کمہارن بیٹھی آہستہ آہستہ رورہی ہے۔ پرھلاد نے رونے کی وجہ پوچھی۔ وہ یکایک اس بچے کو دیکھ کر سہم گئی اور رونا بند کردیا ۔ پرھلاد نے بضد ہوکر پوچھا کہ تم اپنے رونے کی وجہ مجھے بتادو۔ کمہارن نے بڑی عاجزی سے کہا کہ ’’ہے راجن! میں نے مٹی کے کچے برتن دھوپ میں سکھانے رکھے تھے۔ اتفاق سے ایک برتن کے اندر بلی نے بچے جنے۔ میں اس برتن میں سے ان بچوں کو نکال کر علیحدہ رکھنا چاہتی تھی مگر بھولے سے میں نے وہ تمام برتن آوے میں پکانے کو رکھ دیئے اور آگ جلادی۔ اب وہ بچے کیسے بچ سکتے ہیں ۔ رام ! انہیں کو ہی بچا۔‘‘
راجکمار (پرھلاد) نے جواب دیا تم فکر کیوں کرتی ہو؟ رام تو میرے ہی پتا جی ہیں ۔ میں ان سے کہہ کر ان بچوں کو بچا دوں گا۔ کمہارن معصوم راجکمار کی اس بھولی بات کو سن کر کچھ مسکرائی اور لرزتے کانپتے بولی۔ ’’ہے راجکمار! تم اپنے پتاسے نہیں کہنا ورنہ وہ صرف مجھے ہی جان سے مروادیں گے‘بلکہ میرے پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اتروادیں گے۔
راجکمار نے پتاجی سے نہ کہنے کا وچن دے کر اسے تسلی دی اور حقیقت پوچھی۔ کمہارن نے کہا کہ تمہار ے پتاجی کسی حالت میں رام نہیں ہوسکتے۔
’’رام وہ ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ سے رہے گا۔ اس کی ابتداء ہے نہ انتہا۔ اس کا جنم ہے نہ مرن۔ اس نے سب کو پیدا کیا مگر اسے کسی نے پیدا نہیں کیا ۔ وہ سب کو مارے گا مگر اسے کوئی نہیں مارے گا۔ اسی نے ساری دنیا کو بنایا۔ ہوا ‘ پانی‘ غذا‘ چاند‘ سورج ‘ ستارے ‘ زمین‘ آسمان‘ پھل ‘پھول وغیرہ سب اسی کے بنائے ہوئے ہیں۔ وہی سب کو ہوا‘ پانی‘ غذا‘ کپڑے‘ عزت‘ شہرت ‘ ذلت‘ دھن‘ دولت ‘ علم ‘ تندرستی‘ آس اولاد‘ رنگ وروپ‘ دکھ ‘ بیماری‘ جنم‘ موت اور نج و خوشی وغیرہ دیتا ہے۔ مگر اسے کوئی کچھ دینے والا نہیں ہے۔ کوئی اس سے بڑا ہے نہ اس کی برابری کا وہ کب سے ہے پتہ نہیں۔ وہ کب تک رہے گا پتہ نہیں۔ اس کے ماں باپ ہیں نہ بیوی بچے ‘ نہ بھائی بھتیجے ہیں ‘ نہ رشتہ دار و صلحکار و مشورہ دھندہ کچھ نہیں تھا تو وہ تھا اور جب کچھ نہیں رہے گا وہ تب بھی رہے گا۔ وہ خواہشات‘ بھوک‘ پیاس‘ رنج‘ وخوشی ‘ جنم مرن‘ عزیز واقارب وغیرہ سب سے بے نیاز ہے۔ وہ جیسا چاہے اور جب چاہے کرسکتا ہے۔ اسے کوئی روکنے‘ ٹوکنے والا نہیں۔ وہی سیاہ و سفید کا اور سارے سنسار کا مالک ہے۔ ‘‘
راجکمار نے پوچھا کہ تم آوے سے برتن کب نکالوگی؟
کمہارن نے کہا کہ آج سے تیسرے دن۔ شام کے وقت راجکمار نے کہا کہ میں اس دن آکر دیکھو ں گا ‘ اگر یہ بچے زندہ نکلے تو میں یہ سمجھ لوں گا کہ میرا باپ رام نہیں ہے۔ رام تو کوئی دوسرا ہی ہے۔
راجکمار جب جانے لگا تو کمہارن نے اس کے پیر پکڑ کر درخواست کی کہ یہ بات اپنے پتاجی کو کسی طرح نہ معلوم ہونے دینا ورنہ میرا اور میرے پورے خاندان کا نام و نشان مٹا دیں گے‘‘
راجکمار نے جواب دیا ’’ماتا! تم بالکل بے فکر رہو۔‘‘
راجکمار ’’رام‘‘ کے سلسلے میں اک طرح کی الجھن میں پڑ گئے ۔ مقررہ دن اور وقت پر وہ کمہارن کے گھر پہنچے۔ اس نے راج کمار کے سامنے ہی آوا کھولا۔ آگ دہک رہی تھی۔ برتن آگ میں پک کر گرم لوہے کی طرح تپ رہے تھے۔ ایک گھڑے کو آوے میں سے جونکا لاگیا تو اس میں سے بلی کے بچوں کی ’’میاؤں میاؤں‘‘ آواز آئی۔ راجکمار نے دیکھا کہ گھڑا انتہائی گرم ہے‘ مگر بچے اس کے اندر کلیلیں کررہے ہیں۔راجکمار کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی ‘ اس نے فوراً کمہارن کے چرن چھوے اور کہا ماتا! تم نے آج میرے دل کی آنکھیں کھول دیں۔
راجکمار کے ذہن میں یہ بات اچھی طرح جم گئی کہ میرا پتا ’’رام ‘‘ نہیں ہے۔ رام کوئی اور ہیشکتی ہے۔ اب راجکمار گھر آئے تو رام رام کہنے لگے۔ باپ کو تنفر کی نگاہ سے دیکھتے۔ جو کوئی ان کے سامنے آتا اس سے رام رام کہتے۔ باپ نے بہت ہی اچھی طرح سمجھا یا کہ میرے سوائے اور کوئی رام نہیں یہ۔ میں ہی سروشکتیمان اور قادر مطلق ہوں۔ تو میرا نام رٹا کر۔
راجکمار نے راجہ کی ایک نہ سنی اور رام رام کہنے کا عمل برابر جاری رکھا۔ جب محبت و پیار‘ سمجھانے بجھانے اور ڈرانے دھمکانے وغیرہ کے سب عمل بیکار ثابت ہوئے تو انہیں اپنے شاہی مدرسے میں بھرتی کرادیا اور گروجی کو اچھی طرح تاکید و ہدایت کردی اور حکم دے دیا کہ راجکمار کا رام رام کہنا چھڑا دیا جائے۔
راجکمار پاٹھ شالہ میں بھرتی ہوکر ابھی جماعت میں آکر بیٹھے ہی تھے کہ گروجی پانچ منٹ کے لئے کسی کام سے باہر گئے۔ ان کی عدم موجودگی میں راجکمار نے کھڑے ہوکر سب کو رام رام کا پاٹھ پڑھا دیا۔ گروجی نے واپس آکر جو دیکھا کہ سب بچے رام رام رٹ رہے ہیں‘ تو ان کی جھنجھلاہٹ کی حد نہ رہی۔
انہوں نے سمجھا یا‘ ڈرایا‘ دھمکایا مگر تمام عمل بیکار ثابت ہوئے۔ آخر تنگ آکر انہوں نے راجہ سے پرارتھنا کی کہ یہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ راجکمار کا رام رام کہنا چھوڑنا تو رہا ‘ ایک طرف انہوں نے تمام بچوں کو یہ سبق پڑھا دیا ہے۔
جب راجہ تمام کوششیں کرکے تھک گیا اور راجکمار پر قابو نہ پاسکا تو اس نے حکم دیا کہ اسے خونی ہاتھی کے سامنے چھوڑ دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ بجائے اس کے کہ خونی ہاتھی راجکمار کی جان لیتا وہ ان کے سامنے سرنگوں ہوگیا اور ان کو سونڈ سے اٹھاکر اپنی پیٹھ پر سوار کرلیا اور خوشی سے ناچنے لگا۔ یہ دیکھ کر راجہ کا غصہ اور بھی بڑھ گیا۔
راجکمار کو ایک بہت اونچے پہاڑ پر چڑھا کر وہاں سے نیچے گرانے کا حکم دیا گیا۔ راجکمار پہاڑ سے گرائے گئے۔ بھگوان کی مرضی سے پہاڑ کے نیچے یکا یک پھولوں کا ایک بڑا ڈھیرلگ گیا۔ یہ اسی پر گرے اور رام رام کہتے اٹھ کھڑے ہوئے۔
جب راجہ کو اس طرح بھی اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی تو اس نے ایک اتھاہ سمندر میں پرھلاد کو ڈبو دینے کا حکم دیا۔ انہیں ایک گہرے سمندر میں ڈبو دیا گیا۔ مگر سمندر نے انہیں اپنی لہروں پر لٹا کر جھلا کر کنارے پر لاکر چھوڑ دیا۔ ڈوبنا تو رہا ایک طرف‘ ان کے کپڑے تک نہیں بھیگے۔ یہ عمل تین بار کرنے پر بھی راجہ کو کامیابی نہیں ہوئی۔
اب راجہ نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور پرھلاد کے مار ڈالنے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ راجہ کی بہن ھولکا (ہولی) نے جب اپنے بھائی کو اس طرح پریشانی میں غلطاں و پیچاں دیکھا اور دیکھا کہ وہ جل بھن کر غم کامجسمہ بن گیا ہے تو اس نے اپنے بھائی سے کہا۔ بھائی! اس لڑکے سے تم فکر کیوں کرتے ہو؟ مجھے نندا دیوی کا وردان ملا ہوا ہے کہ آگ مجھے جلا نہیں سکتی۔ میں اسے گود میں لیکر بیٹھ جاتی ہوں‘ تم لکڑیوں ‘ اپلیوں وغیرہ کا ایک زبردست ڈھیر لگواکر اس میں آگ لگوادو۔ آگ میرا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتی‘ البتہ اسے جلاکر خاک کردے گی۔
راجہ کو اپنی بہن کا مشورہ بہت ہی پسند آیا۔ پھاگن کا مہینہ اور پونم کی رات تھی۔ پرھلاد کو گود میں لیکر ہولی زمین پر بیٹھ گئی ۔ راجہ نے اس کی رائے کے مطابق لکڑیوں اور اپلیوں کا ایک زبردست ڈھیر لگواکر اس میں آگ لگوادی۔ بہت سے لوگوں نے ہولی (اس جلتے ہوئے ڈھیر) کی پوجا کی تاکہ راجہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ میری بہن اور اس کی عظمت کی پوجا کی جارہی ہے۔ حالانکہ مقصد اس پوجا کا یہ تھا کہ رام! پرھلاد کو تو بھی بچا۔ رات بھر لوگ اطراف میں جمع رہے اور یہ دیکھتے رہے کہ باپ کے حکم کی تعمیل نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے۔
صبح ہوئی تو دیکھتے کیا ہیں کہ اس دھکتی ہوئی آگ کے ڈھیر میں سے پرھلاد مسکراتے اور تام رام کہتے باہر آگئے ہیں اور لکڑیوں اور اپلیوں کے ساتھ ہولی جل کر خاک ہوگئی ہے۔
اب تک جو لوگ ڈر کی وجہ سے رام کا نام لینے سے گریز کرتے تھے وہ کھلم کھلا رام رام کہنے لگے اور جو رام کو نہیں مانتے تھے وہ بھی ماننے لگے۔ اس تہوار کا نام ہولی پڑ گیا۔
اور ہولی کے دوسرے دن اس راکھ کو لوگ ادھر ادھر گلی کوچوں میں اڑاتے پھرے۔ اسدن کا نام دھولنڈی قرار پایا۔ اس خوشی میں ایک دوسرے پر رنگ پھینکنے لگے۔ رنگ کی پچکاریاں چھوڑنے لگے ایک دوسرے کے چہروں پر ابیر اور گلال لگانے لگے۔ ڈھولکیں جھا نجھیں بجنے لگیں‘ بھاگ گائے جانے لگے اور آپس میں بغلگیر ہونے لگے۔
راجہ ان کاموں کو برداشت نہیں کرسکا اس کا غصہ انتہائی حد کو پہنچ گیا۔ راجہ نے محل کے ایک لوہے کے کھمبے کو اتنا گرم کرایا وہ آگ کی مانند دھکنے لگا۔ راجہ نے پرھلاد کو اس کھمبے سے باندھنے کے لئے بلوایا۔ پرھلاد آتے ہی دیکھتے کیا ہیں کہ اس دھکتے ہوئے کھمبے پر چیونٹیاں رینگ رہی ہیں‘ راجہ نے کھڑگ (تلوار) کھینچ کر پرھلاد سے کہا کہ اب میں اس کھبمے سے باندھ کر اس کھڑگ سے تیرا کام تمام کردوں گا۔ اب بول تیرا رام کہاں ہے؟
پرھلاد نے جواب دیا کہ میرا رام سب میں ہے‘مجھ میں ہے‘ تجھ میں ہے‘ اس کھڑگ میں ہے اور اس کھمبے میں ہے۔
پرھلاد اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ کھمبا یکایک پھٹ پڑا اور اس میں سے نرسنگھ بھگوان (بھگوان شیر کاروپ دھارن کئے ہوئے) باہر آئے۔
تیرہواں مہینہ (لوکاند کا مہینہ‘ سال کبیہ کا مہینہ) تھا۔ سائن کال (دن ختم ہوکر رات شروع ہونے کے بیچ کا وقت) تھا۔ نرسنگھ بھگوان زمین سے اوپر گھٹے اٹھاکر دھلیز میں معلق بیٹھ گئے۔ راجہ کو پکڑ کر اپنے گھٹنوں پر رکھا اور اپنے تیز ناختنوں سے اس کا پیٹ چیر ڈالا اور اس طرح اس کا کام تمام کردیا۔
نرسنگھ بھگوان نے پرھلاد کو گود میں لے راج تلک دیکر ’’ور‘‘ دیا کہ تم امر رہوگے یہ کہہ کر بھگوان الوپ ہوگئے۔
یہ ہے تہوار ہولی کی وجہ تسمیہ اور اس کا مختصر حال۔
ہولی کے دوسرے دن (دھولنڈی) لوگ مختلف طور سے خوشیاں مناتے ہیں۔ ٹولیاں بنابنا کر بھاگ گاتے ایک دوسرے کے گھروں پر چیختے پکارتے شور و غل کرتے‘ گاتے بجاتے‘ ابیر و گلال اڑاتیمختلف قسم کی گالیاں گاتے ہوئے جاتے ہیں اور دوسروں کے گھروں پر جاکر انکے ہاں پکوان کھاتے ہیں اور جب وہ لوگ ان کے گھروں پر آتے ہیں تو یہ انہیں پکوان کھلاتے ہیں۔ گانے بجانے والوں کی ٹولیاں نکلتی ہیں اور ہر ایک کے گھر تھوڑی تھوڑی دیر بیٹھ کر گاتی بجاتی ہیں‘ اسے ’’چوبئی‘‘ کہتے ہیں۔
لوگ ہولی کے اطراف گھومتے جاتے ہیں خاموشی سے یا گاتے ہوئے اس کا پر کرما کرتے ہیں۔ اس کی راکھ کا تلک لگاتے ہیں۔
بہت سی ہندو سماجوں میں دھولنڈی کے دوسرے دن ایک دوسرے کے گھر جاکر ملاقات کرنے کا رواج ہے۔
جس طرح ’’دسہرہ‘‘ میسور کا ’’دیوالی‘‘ بمبئی کی ’’ناگ پنچمی‘‘ گوالیار کی اور جنم اشٹمی متھرا اور گوکل کی مشہور ہے ۔ اسی طرح ’’ہولی ‘‘ برج کی مشہور ہے۔
ہندوستان بھر میں گلی کوچوں اور ہر چوراستے پر ہولی جلائی جاتی ہے اور گھروں میں برگلیاں (گوبر کے چھوٹے چھوٹے پوے سے بناکر ان میں انگلی سے سوراخ کرکے سکھا لیتے ہیں’’برگلی‘‘ کہتے ہیں۔ پھر انہیں بان میں پروکر مختلف سائز کی چھوٹی بڑی لڑیاں بناتے ہیں۔ بڑی لڑی کے اوپر چھوٹی لڑی اور پھر اس کے اوپر اس سے چھوٹی لڑی اور پھر اسی طرح سے رکھتے ہیں) جلاتے ہیں۔
ہولی ہر سال پھاگن کے مہینے میں پونم کو ہوا کرتی ہے۔ ہولی سے چالیس دن پہلے بسنت پنچمی‘ ہوتی ہے۔ یہاں سے بہار کا موسم شروع ہوتا ہے اور ہر طبیعت میں جوش و ولولے پیدا ہوکر نئی امنگیں موجزن ہونے لگتی ہیں۔ نئی فصلیں تیار ہوتی ہیں لوگ گیہوں کی بالیاں توڑ کر ہولی میں بھون کر کھاتے ہیں۔ ہولی پر پانی سے بھرا ہوا گھڑا رکھ کر گرم کرکے اس سے نہاتے ہیں۔
دھولنڈی کے دن بہت سے لوگ بطور مذاق بجائے رنگ کے دوسروں پر کیچڑ گھلا ہوا گوبر بھی ڈالتے ہیں اور ایک دوسرے کے منھ پر طرح طرح کے رنگ مل دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ بطور مذاق یا بطوردشمنی دوسرے لاپروا حضرات کا غیر محفوظ سامان مل جائے اسے جلتی ہوئی ہولی میں ڈال کر جلا دیتے ہیں۔
دھولنڈی کے دن ٹیسو کے پھول کے رنگ سے رنگ کھیلنا‘ تندرستی کے لئے بڑی بہتر چیز ہے۔
کہیں کہیں ایک عورت کا پتلا بناکر اس کو ہولی کہہ کر کھڑا کرتے ہیں اور اس کی گود میں پرھلاد کا پتلا بناکر دے دیتے ہیں اور پھر اس کے اطراف لکڑیاں وغیرہ جمع کرکے آگ لگادیتے ہیں۔
ایک زمانہ میں ڈونڈا نام کی ایک راکشنی تھی‘ وہ بہت زبردست عیاش تھی ‘ اس کی جنسی خواہشات کسی طرح پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتی تھیں۔ جب سنسار میں بہت زیادہ لوگوں کے ساتھ وبھچار کرنے لگی تو بھگوان نے اسے جلا کر خاک کردیا ۔ اس نے کہا کہ میری ترپتی (سیری) کیسے ہوگی۔ بھگوان نے اتر دیا کہ جادھولنڈی کے دن باپ بیٹے چھوٹے بڑے بلا لحاظ رشتہ و عمر بالکل نرلج ( بے شرم) ہوکر ایک دوسرے کے سامنے گالیاں بکا کریں گے اور کپھا کہیں گے اس سے تیری جنسی خواہشات پایہ تکمیل کو پہنچ کر تجھے شانتی ملاکرے گی۔
ہماری مارواڑی سماج نے اس ہولی کے ساتھ ناتھورام کو بھی منسلک کردیا ہے۔ یعنی یہ کہ ان کا پتلا (جن کا بہت بڑا لنگ بناتے ہیں) بناکر ہولی کے پاس کھڑا کرکے ہولی کی پوجا کرکے ان کی بھی پوجا کرتے ہیں۔ یہ عمل چلا تو ایک عرصے سے آرہا ہے ‘ مگر ایسا کیوں کیا جاتا ہے تحقیق کرنے پر بھی نہیں معلوم ہو سکا۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ ناتھورام راجستھان کا ایک زبردست دولت مند اور پرلے درجے کا عیاش آدمی تھا۔
بعض حضرات سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ ناتھورام شری مہادیوی کا اوتار تھے اور یہی وجہ ہے کہ ہولی کے پاس ان کا بمعہ لنگ کھڑا کیا جاتا ہے اور ہولی کی پوجا میں ’’یونی لنگے پنہہ پنہہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہولی کے موقع پر ’’ہون‘‘ اور ’’یگیہ‘‘ بھی کئے جاتے ہیں۔ ہولی سے پندرہ دن پہلے مہاشیوراتری ہوتی ہے۔ ’’ہولی‘‘ پونم کو ہوتی ہے اور اس پونم سے پانچ دن پہلے جو ایکا دشی ہوتی ہے اسے رنگ بھرتی ایکا دشی کہتے ہیں اور اسی ایکادشی سے رنگ کھیلنا شروع ہوجاتا ہے۔
دھولنڈی میں لوگ جو چیختے پکارتے ہیں اسے ’’یوم مارنا‘‘ کہتے ہیں۔ تین دن کے بعد یوم مارنے کا یہ عمل بالکل ختم ہوجاتا ہے۔ اسی لئے یہ کہا وت مشہور ہوگئی ہے کہ ’’ہولی کی یوم تین دن۔‘‘
——–
Md.Raziuddin Moazzam

Share
Share
Share