اذان کا پہلا کلمہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ (2) :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

اذان کا پہلا کلمہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ (2)

مفتی کلیم رحمانی
پوسد مہاراشٹر
09850331536

جمہوری نظام کی تاریخ میں آج تک ایک بھی الیکشن کسی حکومت کو لانے اور گرانے کے لئے نہیں ہوا ہے، بلکہ الیکشن صرف کسی پارٹی کو حکومت کے صرف بعض معاملات میں مشورہ کے لیے ہوتے ہیں اور کسی پارٹی کو مشورہ سے بے دخل کرنے کے لیے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کسی بھی جمہوری ملک میں نہ حکومت کے اعلیٰ افسر کے تقرّر کے لیے عوام سے رائے لی جاتی ہے، اور نہ کسی ادنیٰ ملازم کے تقرّر کے لیے-

دیکھا جائے تو جمہوری نظام کے بانیوں نے بڑی چالاکی اورمکاری سے سیاسی پارٹیوں کے انتخاب کے لیے ہر پانچ سال(۵) میں عوامی الیکشن کا ڈرامہ رکھ دیا،تاکہ ہر پانچ سال(۵) میں عوام جمہوری نظام ِحکومت کی خامیوں اور خرابیوں کا غصہ صرف سیاسی پارٹیوں پر نکالتے رہے، اور حکومت کا پورا نظام اور عملہ عوامی غصہ سے محفوظ رہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت کے عملہ کی نااہلی بدعنوانی، رشوت ستانی سے بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں عوامی الیکشن میں ہار جاتی ہیں لیکن اس ہار کا حکومت کے کسی بھی افسر اور ملازم پر کوئی بھی اثر نہیں پڑتا، جبکہ عوام نے حکومت کے عملہ کی بدعنوانی ہی کی وجہ سے ہی اس پارٹی کے خلاف ووٹ دیا تھا، لیکن سیاسی پارٹی تو اقتدار سے معزول ہوگئی، مگر ایک بھی بدعنوان افسر اور ملازم حکومت سے معزول نہیں ہوا، اسلئے اس الیکشن کو ڈرامہ اور دھوکہ نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے، جب کہ انصاف اور اصول کا تقاضہ تو یہ تھا کہ جب عوام نے حکومت کے عملہ کی بد عنوانی کی وجہ سے پارٹی کے خلاف ووٹ دیا تو پارٹی کے اقتدار سے معزولی کے ساتھ ہی حکومت کا تمام عملہ بھی معزول ہو جانا چاہیے تھا، لیکن جمہوری نظام کے بانیوں سے عدل و انصاف کی امید لگانا ہی بیکار ہے، کیونکہ جمہوری نظام بنایا ہی اس لیے گیا کہ میدان سیاست میں زیادہ سے زیادہ ظلم و ستم کیا جائے، اور بد عنوانی کو بڑھاوا دیا جائے، اور جہاں تک انہیں عوامی بغاوت اور غصہ سے اس نظام کے خاتمہ کا اندیشہ تھا تو بڑی چالاکی سے انہوں نے ہر پانچ سال میں صرف سیاسی پارٹیوں کے خلاف غصہ نکالنے کا نظم کر دیا ہے۔اس سلسلہ میں مسلمانوں اور اسلامی تحریکات سے ہی کچھ امید کی جا سکتی تھی کہ وہ جمہوری نظام کے بانیوں کی اس چالاکی اور مکاری کو سمجھیں گی، اور اس سے بچیں گی اور عوام کو بھی بچائیں گی، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیشتر مسلمان اور بیشتر تحریکات اسلامی باطل پرستوں کے دام فریب میں آگئی ہیں، اور انہوں نے بھی سیاسی ترقی کے لیے اسی الیکشنی ڈرامہ کے راستہ کو اختیار کرلیا ہیں، جس کی وجہ سے عالمی، ملکی اور مقامی سطح پر مسلمان اور تحریکات اسلامی اس وقت سیاسی لحاظ سے سب سے کمزور اور بے بس ہوگئی ہیں، اور یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ دور نبویﷺ سے لے کرآج تک امت مسلمہ عالمی، ملکی اور مقامی سطح تک کبھی بھی سیاسی لحاظ سے اتنی کمزور اور بے بس اور مغلوب و مظلوم نہیں ہوئی ہے، یہاں تک کہ تاریخ میں تاتاری قوم کا مسلمانوں پر حملہ اور مسلمانوں کا قتل عام مشہور و معروف ہے، لیکن اس وقت بھی مسلمان سیاسی لحاظ سے اتنے کمزور نہیں ہوئے تھے، بلکہ دنیا کے کئی علاقوں میں مسلمان سیاسی لحاظ سے بہت مضبوط تھے، اور کئی شہروں میں مسلمانوں نے تاتاریوں کو شکست فاش دی تھی، ان ہی میں سے ایک مصر تھا، چنانچہ جب تاتاریوں نے مصر میں گھسنے کی کوشش کی تو مسلمانوں نے تاتاریوں کے حملہ کا ایسا منہ توڑ جواب دیا تھا کہ تاتاریوں کو پسپا ہونا پڑا، در اصل بات یہ تھی کہ مسلمانوں میں بہت سی عقائدی اور اخلاقی کمزوریا تھیں، لیکن میدان سیاست میں مسلمانوں نے اسلامی نظام کی سیاسی بالادستی سے انکار نہیں کیا تھا، اور نہ ہی سیاست کے میدان میں کسی غیر اسلامی نظریہ سیاست کی بالادستی کو قبول کیا تھا، جبکہ اِس وقت مسلمانوں نے مجموعی لحاظ سے میدان سیاست میں اسلامی نظام کی بالادستی کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہیں، اور جمہوری نظام کی سیاسی بالادستی کو قبول کر لیا ہیں، جس کی بنیاد لوگوں کی حاکمیت پر مبنی ہے، جو پورے طور اور کھلے طورپر ایک غیر اسلامی نظریہ سیاست ہے، اِس لحاظ سے قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مسلمان جب تک جمہوری نظام کی سیاست سے توبہ نہیں کرتے، اور اس سے باز نہیں آتے اور اسلامی سیاست کا راستہ اختیار نہیں کرتے، تب تک یہ سیاسی کمزوری اور بے بسی دور نہیں ہوسکتی۔اور اذان کے کلمہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ یعنی اللہ سب سے بڑا ہے، میں اسلام کے سیاسی نظام کی بڑائی اور بالادستی کو قبول کرنے کی بھی دعوت ہے، ا س لحاظ سے اگر کوئی میدان سیاست میں اللہ کے حکم اور قانون کو سب سے بڑا حکم اور قانون تسلیم نہ کرے تو در اصل اس نے ابھی اذان کو تسلیم نہیں کیا، اور اگر کوئی میدان سیاست میں اللہ کے حکم کی بڑائی سے انکار کر رہا ہے تو وہ ایک طرح سے اذان کے پہلے کلمہ کا انکار کر رہا ہے، اور نہ صرف اذان کے پہلے کلمہ انکار کر رہا ہے، بلکہ نماز کے بھی پہلے کلمہ کا انکار کر رہا ہے، کیونکہ نماز کی ابتداء بھی اَللّٰہُ اَکْبَرْ سے ہوتی ہے جس کو شرعی اصطلاح میں تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔اور اس کو اذان اور نماز کے گہرے تعلق کا اظہار ہی کہنا چاہیے کہ جس طرح ہر اذان میں اَللّٰہُ اَکْبَرْ کا کلمہ چھ (۶)مرتبہ ہے اسی طرح ہر نماز کی پہلی رکعت میں بھی اَللّٰہُ اَکْبَرْ کا کلمہ چھ(۶) مرتبہ رکھا گیا ہے، ایک مرتبہ تکبیر تحریمہ کے طور پر اور دوسری مرتبہ رکوع میں جاتے ہوئے، تیسری مرتبہ پہلے سجدہ میں جاتے ہوئے، چوتھی مرتبہ پہلے سجدہ سے اٹھتے ہوئے،پانچویں مرتبہ دوسرے سجدہ میں جاتے ہوئے، چھٹی مرتبہ دوسرے سجدہ سے اٹھتے ہوئے، ویسے نماز کی پہلی رکعت کے علاوہ بھی ہر نماز کی ہر رکعت میں اَللّٰہُ اَکْبَرْ کا کلمہ پانچ (۵)مرتبہ رکھا گیا
ہے اس لحاظ سے دو رکعت والی نماز میں اَللّٰہُ اَکْبَرْ کا کلمہ گیارہ (۱۱)مرتبہ ہے۔ تین رکعت والی نماز میں سولہ(۶۱) مرتبہ اور چار رکعت والی نماز میں اکیس(۱۲) مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ کا کلمہ رکھا گیا ہے۔
اب ایک لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی اذان میں چھ(۶) مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ کے ذریعہ اپنی سیاسی حکمرانی اور بالادستی کی دعوت دی ہے، جو صرف ایک دن کی اذان میں تیس(۰۳) مرتبہ ہو جاتی ہے، اب اگر کوئی مسلمان میدان سیاست میں اللہ کی حکمرانی سے انکار کر رہا ہے تو وہ دن میں سے تیس(۰۳) مرتبہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کر رہا ہے، اور اس میں دن بھر کی صرف فرض نمازکی تکبیرات ہی شامل کر دی جائے تو یہ تعداد ایک سو بیس (۰۲۱)مرتبہ ہو جاتی ہے، ظاہر ہے کوئی بھی مسلمان ایک دن میں ایک سو بیس(۰۲۱) مرتبہ اللہ کے حکموں کی خلاف ورزی کرکے کبھی بھی سیاسی ترقی حاصل نہیں کر سکتا، کیونکہ اذان اور نماز میں اَللّٰہُ اَکْبَر کے کلمہ کی جو تکرار رکھی گئی ہے وہ تبرّک کے طور پر نہیں رکھی گئی ہے، بلکہ توجہ کے طور پر رکھی گئی ہے، مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اذان اور نماز کے ذریعہ بار بار اپنی بڑائی کی طرف توجہ دلائی ہے اور اس لئے دلائی کہ چونکہ شیطان بھی بار بار اپنی بڑائی کی طرف توجہ دلاتا ہے،اللہ کی بڑائی کا مطلب اللہ کے حکم کو سب سے بڑا سمجھنا ہے، اور شیطان کی بڑائی کا مطلب شیطان کے حکم کو بڑا سمجھنا ہے، لیکن چونکہ شیطان انسان کا دشمن اور بڑا دھوکہ باز ہے، اس لیے وہ شکل و صورت بدل، بدل کر آتا ہے، چنانچہ حضرت آدم و حوا کے پاس وہ خیر خواہ بن کر آیا تھا۔جس کا تذکرہ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ ہے، وَقَاسَمَھُمَآاِنّیِ لَکُمَا لَمِنَ الْنَّصِحِیْنَ۔ (اعراف آیت ۱۲)(اور اس نے ان دونوں سے قسم کھایا کہ بیشک میں تم دونوں کے لیے خیر خواہ ہوں) کبھی شیطان خواہش نفس کی صورت میں آتا ہے، کبھی مال و اولاد کی صورت میں آتا ہے، کبھی باپ اور خاندان کی صورت میں آتا ہے، کبھی اقتدار اور حکومت کی صورت میں آتا ہے، کبھی ڈر و خوف کی صورت میں آتا ہے،کبھی وطن کی محبت کی صورت میں آتا ہے، کبھی امیدو انتظار کی صورت میں آتا ہے، کبھی انعام و لالچ کی صورت میں آتا ہے، غرض یہ کہ شیطان کی بے شمار شکلیں اور صورتیں ہیں اور بے شمار حربے اور حیلے ہیں، لیکن سب سے بڑی شکل و صورت اور سب سے بڑا حربہ تکبر ہے یعنی اپنے حکم کو سب سے بڑا سمجھنا چنانچہ ابلیس کی نافرمانی کی شروعات ہی تکبر سے ہوئی ہے جیسا کہ قرآن میں صراحت کے ساتھ ہے، اَبیٰ واسْتکْبَرُ وَ کَانَ مِنَ الْکٰفِریْنَ (بقرہ ۴۳) یعنی شیطان نے انکار کیا اور تکبر کیا، اور کافروں میں سے ہوگیا۔مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جب ابلیس کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کرے تو اس نے حکم ماننے سے انکار کیا اور اپنے آپ کو حکم کے لحاظ سے اللہ سے بڑا سمجھا تو اللہ تعالیٰ نے اسے کافر قرار دیدیا۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ ابلیس کے کفر کا سبب اس کا تکبر بنا اور اسی سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ ابلیس انسانوں کو اللہ کا نافرمان بنانے کے لیے اسی تکبر کا سہارا لیتا ہے، یعنی ابلیس انسانوں کے اندر اللہ کے خلاف تکبر پیدا کردیتا ہے، مطلب یہ کہ انسان اپنے حکم کو اللہ کے حکم سے بڑا سمجھتا ہے، جب کہ تکبر صرف اللہ کے لئے زیبا ہے، جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اَلْکِبرِیآءُ رِدَآئیِ وَ الْعَظْمَۃُ اِزاری فَمَنْ نَازَعَنِیْ وَاحِداً مِنّھُمَا اَدْخَلتُہُ النَّارَ وَ فیِ رِوَایَۃِ قَذَ فْتُہُ النَّارِ(رواہ مسلم و مشکٰوۃ) ترجمہ: (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، بڑائی میری چارد ہے اور عظمت میری ازار ہے جو شخص ان دونوں میں سے کسی ایک کو مجھ سے چھنیگا میں اس کو آگ میں داخل کردونگا اور ایک روایت میں ہے کہ میں اس کو آگ میں پھینک دوں گا۔) (مسلم شریف)
مذکورہ حدیث قدسی سے یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کو انسان کی بڑائی کسی بھی شعبہ میں منظور نہیں ہے،نہ عقائد میں نہ شعبہ عبادات میں اور نہ شعبہ سیاسیات میں، لیکن یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ آج انسانوں کو شعبہ سیاست میں اللہ کی بڑائی منظور نہیں ہے، جس کی وجہ سے آج شعبہ سیاست ظلم وستم قتل و غارتگری سے بھرا ہوا ہے، اور خاص طور سے اس شعبہ میں مسلمان سب سے زیادہ مظلوم و محکوم ہیں، اس لیے کہ وہی سب سے زیادہ مجرم بھی ہیں، کیونکہ مسلمانوں کی یہ دینی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاست کے شعبہ میں خود بھی اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے، لیکن خود مسلمانوں نے سیاست کے شعبہ میں دوسرے حکمرانوں کی حاکمیت کو قبول کر لیا ہیں جبکہ اس پوری کائنات کا صرف ایک ہی حکمراں ہیں، اور وہ اللہ ہے جس کی اہم صفت اکبر ہے یعنی سب سے بڑا، اور اذان و نماز کے ذریعہ خصوصیت کے ساتھ اسی صفت کی طرف باربار توجہ دلائی گئی ہے، علامہ اقبالؒ نے اللہ تعالیٰ کی اس صفت حکمرانی کو اپنے ایک شعر میں بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔
جس نے پوری دنیا کو ظلم وستم سے بھر دیا ہے، جمہوری نظام کے ظلم وستم کو صرف اسلامی نظام ہی ختم کر سکتا ہے اسلئے میدان سیاست میں شدومد کے ساتھ اسلامی نظام کو پیش کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ امت مسلمہ کے فرض منصبی میں شامل ہے۔ تکبر کے متعلق نبی کریمﷺ کا یہ ارشاد بھی پیش نظر رہنا چاہیے، جس میں آپﷺ نے فرمایا، وَ لاَ یَدْخُلُ الْجنَّۃَ اَحَدُ فِی قَلْبہِ مِثْقَالُ حَبَّۃِ مِنْ خَرْدَلِ مِنْ کِبْرِ(مسلم شریف) ترجمہ:(اور جنت میں داخل نہیں ہوگا وہ شخص جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تکبر ہوگا)مطلب یہ کہ جو ذرہ برابر اپنے حکم کو بڑا سمجھے گا، یا اللہ کے علاوہ ذرہ برابر کسی اور کے حکم کو بڑا سمجھے گا،وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ انسان کے لئے اونچے مقام اور مرتبہ کی چیز زندگی کے تمام معاملات میں اللہ کے حکم کو سب سے بڑا سمجھنا ہے۔ ایک حدیث میں نبیﷺ نے تکبر کی وضاحت اور قباحت بیان فرمائی ہے۔ عِنْ اِبْنِ مَسْعُودِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہﷺ لَا یَدْخُلُ الْجنّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃِ مِنْ کِبْرِ فَقَالَ رَجُلُ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَکُوْنَ ثَوبُہُ حَسَناً وَ نَعْلُہُ حَسَناً قَالَ اِنَّ اللہَ جَمِیلُ یُحِبُّ الْجَمَالَ اُلْکبِرُ بَطَرُ الْحَقَّ وَ غَمْطُ النَّاسِ(رواہ مسلم) ترجمہ: (حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تکبر یعنی بڑائی ہوگی، ایک آدمی نے کہا ائے اللہ کے رسول ﷺ ایک شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں، اس کا جوتا اچھاہو، رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسندکرتا ہے، تکبر حق کو غلط سمجھنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے)
مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ لباس و رہن سہن میں عمدگی اور سلیقہ مندی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے وہیں اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ تکبر صرف اپنے آپ کو لوگوں سے بڑا سمجھنے اور لوگوں کو کمتر سمجھنے ہی کا نام نہیں ہے، بلکہ دین حق کو غلط سمجھنا اور کسی انسان کے حکم کو اللہ کے حکم سے بڑا سمجھنا بھی تکبر ہے، بلکہ بڑا تکبر یہی ہے، اسلئے حدیث میں بھی اس کو پہلے نمبر پر بیان کیا گیا ہے، لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے لوگ حق کی مخالفت کو تکبر سمجھتے ہی نہیں ہیں،اس لحاظ سے دیکھا جائے تو آج دنیا کی اکثریت متکبر ین سے بھری ہوئی ہے، اور کچھ لوگ جو ذاتی طور سے حق کی مخالفت نہیں کرتے وہ بھی حق کی مخالفت کرنے والوں کو اپنا رہبر سمجھتے ہیں، یوں تو انسانی زندگی کے تمام ہی شعبوں میں حق کو غلط سمجھا جا رہا ہے، لیکن شعبہ سیاست میں اسلام کی بالادستی کو بہت زیادہ برا سمجھا جارہا ہے، اور اس میں بہت سے مسلم حکمراں بھی شامل ہیں، گویا کہ اس وقت دنیا کی ساست میں متکبرین چھائے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ مسلمانوں کی اکثریت بھی انہیں متکبرین کو اپنا سیاسی رہنماں بنائے ہوئے ہیں، اور اپنے ووٹوں کے ذریعہ انہیں منتخب کرتے ہیں، اسی جرم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے پوری امت مسلمہ کو عالمی، ملکی، اور مقامی سطح پر سیاسی لحاظ سے سب سے زیادہ مغلوب اور مظلوم قوم بنا دیا ہے، لیکن افسوس ہے کہ بہت سے مسلمانوں کو اس کا احساس تک نہیں ہے۔ چونکہ دنیا میں ہر دور میں ابلیس اور انسان کی بڑائی کا مسئلہ ہی سب سے زیادہ خطر ناک رہا ہے، اسلئے اللہ تعالیٰ نے ابلیس اور انسان کی بڑائی کے تصور کو ختم کرنے اور اپنی بڑائی کا نقش بٹھانے کے لئے اسلام کی دعوتی، تعلیمی اور عباداتی نظام میں بڑی اولیت،اہمیت اور تکرار کے ساتھ اپنی کبریائی کے تذکرہ اور حکم رکھ دیا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی دوسری وحی میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کبرائی کا اعلان کرنے کا حکم دیا، چنانچہ سورۂ مدثر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ یَایُّھَا الْمُدَّثّر قُمْ فَاَنْذِرْہ وَ رَبَّکَ فَکّبِّرْہ۔(ائے چادر اوڑھنے والے اٹھئے اور ڈرائیے اور رب کی بڑائی بیان کیجئے۔)
نزول کے لحاظ سے یقینا دوسری وحی ہے لیکن دعوتی لحاظ سے یہ پہلی وحی ہے۔ اس سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام میں اللہ کی کبریائی کی کتنی اہمیت ہے،اسی طرح ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت اور مقصدیت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، وَ لِتُکَبَّرُوا اللہِ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُروْنَ (بقرہ۔۵۸۱) (تاکہ تم اللہ کی کبریائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے۔ اور تاکہ تم شکر گزار بنو)
اسی طرح سورۂ حج میں قربانی کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبَّرُوا اللہَ عَلٰی مَاھَرٰکُمْ وَ بَشّرِالمُحْسِنِیْنْ (حج ۷۳) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے قربانی کے جانور مسخر کردیئے ہیں تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور بھلائی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔ یہی وجہ ہے کہ جانوروں کو ذبح کرتے وقت جو کلمات کہہ جاتے ہیں ان میں اللہ کی بڑائی کا کلمہ بھی شامل ہے۔ چنانچہ کسی بھی جانور کو بِسمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْکہہ کر ذبح کیا جاتا ہے، اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اسلام نظام زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو سب بڑا رکھنا چاہتا ہے۔
غرض یہ کہ اذان کے پہلے کلمہ اللہُ اَکْبَرْمیں اسلام کے سیاسی نظام کے غلبہ کی دعوت ہے، اور تمام غیر اسلامی نظام بشمول جمہوری نظام کے غلبہ کا انکار ہے، یقینا جب معاشرہ میں اذان فہمی کی تحریک چلے گی تو ضرور باطل پرستوں کی طرف سے خصوصاً غیر اسلامی نظام کے حاملین کی طرف سے مخالفت بھی ہوگی، لیکن بہت سے افراد کی طرف سے حمایت بھی ہوگی، کیونکہ اسلامی نظام کے غلبہ کی بات عین عدل پر مبنی ہے، اور بہت سے انسانوں کی ضمیر کی آواز ہے، اور پھر اللہ کی یہ سنت ہے کہ جب کوئی فرد اور قوم اللہ کی بڑائی کی دعوت پہونچنے کے بعد اس کا انکار کرے، اور اہل حق کے پاس طاقت و قوت نہ ہوتو اللہ تعالیٰ جھٹلانے والوں کو خود ہی اس دنیا میں سزا دیتا ہے، اور اہل حق کو غالب کرتا ہے، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان خود بھی اللہُ اَکْبَرْ کے پیغام سے جڑے اور غیر مسلموں کو بھی اس کے پیغام کی دعوت دیں، ابھی تو اذان کے متعلق بہت سے غیر مسلموں کی غفلت اور غلط فہمی کا عالم یہ ہے کہ وہ اللہُ اَکْبَرْ کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان دن میں سے پانچ(۵) مرتبہ اذان میں اللہ کے ساتھ، اکبر بادشاہ کو بھی یاد کرتے ہیں، اور پکارتے ہیں، ان بیچارے غیر مسلموں کو کیا معلوم کہ جن مسلم بادشاہوں نے ہندوستان میں اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے ان میں اول نمبر پر اکبر بادشاہ کا نام ہے، یہاں تک کہ اُس نے دین الٰہی کے نام سے ایک نیا دین ایجاد کیا تھا، لیکن وہ دین بہت جلد ختم بھی ہو گیا۔
اللہُ اَکْبَرْ کے کلمہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جہاں لوگوں کے زیادہ مجمع کا امکان اور موقع ہے وہان یہ کلمہ زیادہ مرتبہ رکھا گیا ہے، کیونکہ جہاں زیادہ لوگ جمع ہوتے ہیں، وہاں اختلاف اور جھگڑے کا امکان زیادہ بڑھ جاتاہے، اور اختلاف اور جھگڑے کی بنیاد زیادہ تر اپنے حکم کو بڑھا سمجھنا ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے مواقع پر اللہُ اَکْبَرْ کی تلقین و تکرار کو زیادہ مرتبہ رکھ دیا ہے، تاکہ ہر ایک کی توجہ زیادہ سے زیادہ اللہ ہی کے حکم کی بڑائی کی طرف لگی رہے۔ چنانچہ دنیا میں مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع حج کے موقع کا اجتماع ہے،اسی لیے حج کے ارکان و افعال کی ادائیگی میں اللہُ اَکْبَرْ کے کلمہ کا ورد زیادہ رکھا گیا ہے، تاکہ کوئی اپنی بڑائی کا مظاہرہ نہ کرے، اور نہ کوئی اللہ کے سوا کسی اور انسان کی بڑائی کو تسلیم کرے، بلکہ ہر حاجی اپنی زبان سے ہر وقت اللہ ہی کی بڑائی کا ورد کرتے رہے، جیسے تکبیر تشریق ہی کو لے لیا جائے جو ذی الحج کی نو تاریخ کی فجر کی نماز سے تیرہ ذی الحج کی عصر تک ہر فرض نماز کے پڑھی جاتی ہے، تکبیر تشریق میں چار (۴)مرتبہاللہُ اَکْبَرْکے کلمہ کا ورد ہے، مثلاً، اللہُ اکْبَر، اللہُ اَکْبَرْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَ اللہُ اَکْبَر، اللہُ اَکْبرْ وَ لِلٰہِ الْحَمْدْ۔(اور یہ تکبیر تشریق دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ کی فجر سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد پڑھنے کی تلقین ہے تاکہ حج کے ایام میں عام مسلمانوں کی توجہ بھی صر ف اللہ ہی کی بڑائی کی طرف لگی رہے۔
حج کے اجتماع کے بعد دنیا میں مسلمانوں کے دو بڑے اجتماعات ہیں، ایک عید الفطر، اور دوسرا عید الاضحی، چنانچہ ان دونوں اجتماعات میں بھی خصوصیت کے ساتھ اللہُ اَکْبَرْ کی تلقین زیادہ رکھ دی گئی ہے، چنانچہ ہدایت ہے کہ عید کی نماز کو جاتے ہوئے اور آتے ہوئے، تکبیر تشریق کا ورد زیادہ سے زیادہ کیا جائے، اسی طرح عیدین کی نماز میں چھ(۶) زائد تکبیرات رکھ دی گئی ہیں، تاکہ عیدین کے اجتماع کا پورا کا پورا مجمع زیادہ سے زیادہ صرف اللہ ہی کی بڑائی کی طرف متوجہ رہے، اسی طرح، نماز جنازہ کا اجتماع بھی ایک بڑا اجتماع ہوتا ہے، چنانچہ نماز جنازہ میں بھی اللہُ اَکْبَرْ کا کلمہ زیادہ مرتبہ رکھا گیا ہے، ایک طرح سے نماز جنازہ تکبیرات پر ہی مبنی ہے، دیگر اذکار اور دعائیں اس میں سنت کے درجہ میں ہیں، اسی طرح ہر اہم خبر اور خوشی کے موقع پر اللہُ اَکْبَرْ کا کلمہ کہنے کا حکم ہے تاکہ اللہ ہی کی بڑائی کی طرف توجہ رہے، روایات میں ہے، کہ جب حضرت عمرفاروقؓ نے ایمان کا اعلان کیا تو اللہ کے رسولؐ اور صحابہ کرامؓ نے ایسے زور سے اللہُ اَکْبَرْکے کلمہ کی صدا بلند کی کہ مکہ کے پہاڑ گونج اٹھے۔
نمازکی تکبیر تحریمہ اللہُ اَکْبَرْ کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھانے کی جو سنت ہے، اس سے بھی یہی چیز ظاہر ہوتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو اللہ کی بڑائی کے سامنے پست سے پست رکھے اور اپنی ظاہری ہیئت سے بھی اسے ثابت کرے،چنانچہ تکبیر کے وقت دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے ہوئے ایک نمازی کی وہی شکل بنتی ہے، جو ایک مجرم کی بادشاہ کے سامنے بنتی ہے۔یا کسی استاذ کے سامنے ایک غلطی کرنے والے شاگردگی کی بنتی ہے، لیکن جس طرح ایک بادشاہ اور استاذ اپنے سامنے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائے ایک مجرم اور شاگرد کو کھڑا دیکھ کر خوشی ہو جاتے ہیں، اور اسے معاف کر دیتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ اللہ اس بندہ سے خوش ہوتا ہے جو اس کے سامنے نادم ہو کر پست ہو کر کھڑے ہوتا ہے، بشرطیکہ یہ پستی صرف ظاہری ہیت اور جسم ہی کی نہ ہو، بلکہ دل و دماغ کی بھی ہو، لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے نمازی جو برسوں سے تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاتے چلے آرہے ہیں، وہ میدان سیاست میں اپنے سروں کو باطل نظام کے سامنے جھکائے ہوئے ہیں، اور اسلامی نظام کی مخالفت میں سینہ تان کر کھڑے ہوئے ہیں، اس کی بھی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ابھی مسلمانوں نے اذان اور نماز کے پہلے کلمہاللہُ اَکْبَرْ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، یہی اللہُ اَکْبَرْ کا مطلب فرعون کی بیوی آسیہ نے سمجھ لیا تو اس کے لئے فرعون کی مخالفت آسان ہوگئی اور یہی اللہُ اَکْبَرْ کا مطلب جب فرعون کی دعوت پر آئے ہوئے جادو گروں نے سمجھ لیا تو ان کے لیے بھرے مجمع میں فرعون کے جان سے مارنے کی دھمکی کے باوجود اللہ پر ایمان لانا آسان ہوگیا، اور یہی اللہُ اَکْبَرْ کا مطلب جب حضرت سمیہؓ نے سمجھ لیا تو ایمان کی حفاظت کی خاطر ابوجہل کے نیزہ سے مرنا اس کے لیے آسان ہوگیا، یہی اللہُ اَکْبَرْ کا مطلب جب حضرت خبابؓ اور حضرت بلالؓ نے سمجھ لیا اور قبول کر لیا تھا،تو ان کے لیے سردار ان قریش کا مار کھاتے ہوئے’احد احد‘کہنا آسان ہو گیا تھا،اور آج کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ انہوں نے خاص طور سے میدان سیاست میں اللہُ اَکْبَرْ کے مطلب کو، نہ سمجھنے کی کوشش کی ہے اور نہ قبول کرنے کی کوشش کی ہے، ہاں کلمہ کفر کی بڑائی کو میدان سیاست میں مسلمان سمجھے ہوئے بھی ہیں، اور قبول بھی کیے ہوئے ہیں، جس کی بناء پر لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کی ہلاکت کے باوجود میدان سیاست میں کلمہ کفر کی سر بلندی کے لئے جان و مال کی قربانی آسان ہو گئی ہے، واضح رہے کہ آج کے دور میں میدان سیاست میں سب سے بڑا کلمۂ کفر، جمہوری نظام ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں آج تک میدان سیاست میں جتنے مشرکانہ،کافرانہ اور ظالمانہ نظام زندگی وجود میں آئے ہیں ان میں سب سے زیادہ ہلاکت خیر اور ظلم و ستم پر مبنی جمہوری نظام ہی ہے، چنانچہ جب سے عالمی سطح پر اس نظام کا غلبہ ہوا ہے، تب سے دنیا میں کہیں بھی اور کبھی بھی میدان سیاست میں امن و امان، اور عدل و انصاف قائم نہیں ہو سکا، چنانچہ دنیا میں ۴۱۹۱؁ء سے ۱۹۱۸ تک پہلی جنگ عظیم ہوری نظام کے غلبہ کی سرپرستی میں ہوئی، جس میں ڈھائی کروڑ نا حق انسان مارے گئے، اسی طرح ۰۴۹۱؁ء سے ۴۴۹۱؁ تک دوسری جنگ عظیم بھی جمہوری نظام کے غلبہ کی سرپرستی میں لڑی گئی جس میں چار کروڑ ناحق انسان مارے گئے، اور اس کے بعد بھی ہر ملک ایک طرح سے میدان جنگ بناہوا ہے، جن میں اب تک کروڑوں تاحق انسان مارے گئے ہیں، اور مارے جا رہے ہیں، واضح رہے کہ ہر وہ نظام زندگی اسلام کی نظر میں کافرانہ نظام زندگی ہے، جس میں اللہ کا حکم کی سب سے بڑا نہ ہو،اور وہی نظام زندگی اسلام کی نظر میں حق ہے، جس میں اللہ کے حکم کی بڑائی ہو، اور اس کے بعد رسول اللہﷺ کے حکم کی بڑائی، اور تیسرے نمبر پر امیر المومنین کے حکم کی بڑائی، لیکن امیر المومنین کی اطاعت مشروط ہے، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کے ساتھ، مطلب یہ کہ اگر کوئی امیر المومنین، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت میں کوئی حکم دے تو اس کا حکم نہیں مانا جائے گا۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ جس دین نے اپنے ماننے والوں کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کی صورت میں امیر المومنین کی اطاعت کی اجازت تک نہیں دی، آج اسی دین کے ماننے والے میدان سیاست میں کافر اور بے دین حکمرانوں کی اطاعت کو ضروری سمجھ رہے ہیں، جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت سے منہ موڑ کر حکمرانی کر رہے ہیں، اور طرفہ تماشہ یہ کہ ان باطل حکمرانوں کی اطاعت کو قرآن سے ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے، ایسے ہی درباری علماء اور عوام کے متعلق علامہ اقبالؒ نے کہا تھا۔
اسلامی امامت و قیادت کیسے پیدا ہوتی ہے، علامہ اقبالؒ نے اس کو بھی اپنے چند اشعار سے سمجھایا ہے۔
تونے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانہ کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینہ میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گر مادے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنہء ملت بیضاء ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطین کا پرستار کرے
باطل حکمرانی کے دور میں اسلامی امامت و قیادت تک پہنچنے کے لئے امت مسلمہ کو کس طرح کہ حالات اور مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے، بڑے جامع انداز میں علامہ اقبالؒ نے اپنے مذکورہ اشعار میں پیش کر دیا ہے، اور یہی پیغام اذان کے پہلے کلمہ اللہُ اَکْبَرْ کا ہے۔

Share
Share
Share