کالم : بزمِ درویش – چھوٹا آدمی :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
چھوٹا آدمی

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

جنوبی پنجاب کے دوردراز گاؤں سے میرا ایک روحانی دوست پچھلے کئی دنوں سے مجھے بار بار ایک ہی فون کررہا تھا کہ ہمارے علاقے کی معروف روحانی گدی کا سجادہ نشین جو بہت بڑا انسان ہے وہ لاہور آرہا ہے میں نے انہیں آپ کے بارے میں بہت اچھا بتا یا ہوا ہے وہ آپ سے ملیں گے وہ بہت بڑے آدمی ہیں اُن سے آپ نے اُن کے پروٹوکول کے مطابق ملنا ہے

وہ خود بہت بڑی روحانی گدی کے سجادہ نشین ہیں اُن کے پاکستان اور بیرون ممالک میں لاکھوں مرید ہیں جو ہر وقت پیر صاحب کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر تیار رہتے ہیں کہ اُن کی دولت جان و سائل پیر صاحب کے لیے ہر وقت حاضر ہیں وہ کوئی عام انسان نہیں ہیں بہت بڑے آدمی ہیں لاکھوں لوگ اُن کے دیدار کے کے لیے ترستے ہیں ہاتھ ملا کر مہینوں اِس سرور نشے میں غرق رہتے ہیں کہ انہوں نے پیر صاحب سے ہاتھ ملایا ہے اگر پیر صاحب کسی کا تحفہ قبول کر لیں تو مرید اپنی قسمت پر رشک کر تا ہے پیر صاحب اتنے بڑے انسان ہیں کہ جہاں بھی جس علا قے میں جاتے ہیں لوگ اُن کے قدموں تلے پھولوں کی پتیاں قالین اور اپنی آنکھیں بچھاتے ہیں لوگ اپنے گھروں گلی محلوں کو عرق گلاب سے دھوتے ہیں کہ پیر صاحب نے آنا ہے جن لوگوں کو پیر صاحب ملاقات کا شرف بخشتے ہیں وہ اپنی قسمت پر ناز کر تے ہیں آپ اپنی خوش قسمتی ملاحظہ کریں کہ پیر صاحب نے آپ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے پروفیسر صاحب میں جو کئی سالوں سے آپ کو اپنے گھر علاقے میں آنے کی دعوت دیتا ہوں اُس میں بھی پیر صاحب کی ملاقات تھی کہ جب میں نے پیر صاحب کو آپ کے بارے میں بتایا تو انہوں نے اصرار کیا کہ پروفیسر صاحب کو یہاں بلاؤ‘ میں نے کئی بار آپ سے درخواست بھی کی دعوت بھی دی لیکن آپ مصروفیت کا بہانا بنا کر ہمارے علاقے میں نہیں آئے اب پیر صاحب باہرملک دورے پر جارہے ہیں تو انہوں نے اِس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ لاہور میں آپ سے بھی مل لیں اب تو کنواں خود چل کر آپ کے پاس آرہا ہے آپ خوب اپنی روحانی پیاس بجھا لیں میرا روحانی دوست پیر صاحب کے روحانی مقام کے متعلق مسلسل مبالغہ آمیزی کئے جا رہا تھا اب چونکہ میں خود بھی راہ تصوف کا ادنیٰ سا طالب علم ہوں اِس لیے میری حس تجسس بھی بیدار ہو نا شروع ہو گئی کہ روحانیت کا کو ہ ہمالیہ جیسا باوقار صاحب تصوف میرے کو رونق بخشنے آرہا ہے آہستہ آہستہ گدی نشین صاحب کے لاہور آنے کے دن قریب آرہے تھے میرا دوست روزانہ فون کر کے ان کے مقام و رتبے پر روشنی ڈالتااُن کے مزاج اور پسندیدہ چیزوں کے بارے میں بتاتا‘ پیر صاحب نے جس دن آنا تھا اُس سے ایک دن پہلے لاہو ر میں پیر صاحب کے خلیفہ صاحب مریدوں کے لشکر کے ساتھ میرے غریب خانے پر آئے مُجھ سے ملے اور بتایا کہ کل سات بجے شام پیر صاحب آئیں گے اُن کے ساتھ مریدوں کا لشکر بھی ہو گا خلیفہ صاحب کے آنے کا مقصد یہ تھا کہ انہیں اچھی طرح راستے کاپتہ ہو تا کہ کل جب پیر صاحب آئیں تو انہیں کسی بھی قسم کی زحمت تکلیف نہ ہو وہ آسانی سے میرے پاس آسکیں‘ مریدوں کے چہروں پر عقیدت کے پھول کھلے تھے جسم روحانی سرشاری میں مبتلا کہ کل پیر صاحب اُن کے شہر کو رونق بخش رہے ہیں خلیفہ صاحب اور ساتھ آئے مرید بھی مجھے میری خوش بختی کا بار بار احساس دلا رہے تھے کہ ہم تو ترستے ہیں پیر صاحب ہمارے گھر آئیں یہ تو آپ کی قسمت ہے کہ اِس صدی کرہ ارض کے بہت بڑے انسان آپ کے گھر آرہے ہیں‘ اگلے دن پیر صاحب کے آنے سے پہلے اُن کے لاہور اور اطراف کے مریدوں کا لشکر اکٹھا ہو گیا جیسے ہی پیر صاحب کی کروڑوں کی جہازی سائز کی جیپ میرے غریب خانے پر رکی تو دیوانے مریدوں نے نعرے بازی شروع کر دی اللہ ہو اللہ ہو کے نعرے جھوم جھوم کر مارنے شروع کر دئیے‘ پیر صاحب کے ساتھ اور بھی بہت سارے مریدوں کی گاڑیاں تھیں پیر صاحب گاڑیوں کے کارواں میں وارد ہوئے تھے مریدوں نے گاڑی پر پھولوں نوٹوں کی برسات شروع کر دی‘ گل پاشی اور نوٹوں کی برسات کے بعد گاڑی کا فرنٹ دروازہ کھولا گیا تو خوشبو کے جھونکے گاڑی سے اردگرد کی فضاؤں کو معطر کر نے لگے پھر پیر صاحب کی تندور نما توند (پیٹ) باہر آیا پھر گوشت کا پہاڑ گاڑی سے برآمد ہوا‘ دلہوں جیسی واسکٹ ہاتھوں میں سونے چاندی ہیرے جواہرات قیمتی پتھروں کی انگوٹھیاں گلے میں سونے کی چین ہاتھ میں چاندی کی تسبیح سر پر ریشمی تاروں سے سجی ٹوپی مریدوں کی فوج پیر صاحب کی ٹانگوں اور پاؤں سے لپٹ گئی مریدین دیوانہ وار پیر صاحب کی ٹانگوں کپڑوں پاؤں کو چوم رہے تھے دیوانے دیوانہ وار پیر صاحب کے پاؤں میں بچھے جارہے تھے اب خلیفہ صاحب نے مُجھ فقیر کی طرف اشارہ کیا کہ آپ اِن سے ملنے آئے ہیں تو گوشت کا پہاڑ حرکت میں آکر آگے بڑھا اور مُجھ سے لپٹ گیا مریدوں نے خوشی سے رونا اور نعرے مارنا شروع کر دئیے‘ پیر صاحب کے جسم سے دنیا جہاں کے عطروں اور پرفیومز کے جھونکے اُر کر دوسروں کو معطر کر رہے تھے اب پیر صاحب نے نعرہ مارا‘ ہم اکیلے میں پروفیسر صاحب سے ملنا چاہتے ہیں لہذا اب میں پیر صاحب کے ساتھ اپنے چھوٹے سے حجرے کی طرف بڑھا چھوٹے سے دروازے سے بڑی مشکل سے گوشت کا پہاڑ اندر آیا توبستر پر گر گیا کتابوں پر نظر پڑی تو فخریہ بو لے کبھی ہمارے پاس بھی آئیں ایسی ہزاروں کتابیں ہماری خاندانی لائبریری میں ہیں مُجھ فقیرسے جو چائے پانی کی خدمت ہوئی میں نے پیش کردیا تو اب پیر صاحب اپنی اصل بات کی طرف آئے کہ جناب ہمیں آپ سے ذاتی خصوصی کام ہے جو آپ نے ہر حال میں کرنا ہے تو میں بولا جناب آپ تو خود چشم معرفت ہیں میں فقیر آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں تو وہ بولے ہم لوگوں کے کام کر تے ہیں لیکن ذاتی کام دوسروں سے کرانا پڑتا ہے ہمیں اپنے مرید کی بیٹی سے عشق ہو گیا ہے ہم ہر حال میں اُسے پانا چاہتے ہیں اُس کو پانے کے لیے میں اپنی ساری دولت قربان کر سکتا ہوں میں پیر صاحب کی بات سن کر حیران رہ گیا اور بولا جناب میری معلومات کے تحت آپ پہلے سے چار شادیاں کر چکے ہیں اب پانچویں شادی کیسے یہ تو اسلام میں منع ہے تو پیر صاحب بولے ہم اُس کو معشوق محبوبہ کنیز بنا کر رکھیں گے اگر وہ اِن باتوں پر راضی نہیں تو ایک بیوی کو طلاق دے کر اِس سے شادی کر لیں گے‘ پرفیسر صاحب ہمیں عشق ہے اُس کے بغیر نہیں رہ سکتے یاد خدا کے لیے اُس کو ہمارا بنا دوجو مانگو گے دوں گا پیر صاحب کی باتیں مجھے بچھو کی طرح کاٹ رہی تھیں جناب وہ آپ کو ٹھکرانے کی جرات کیوں کر رہی ہے تو وہ بولے وہ کسی اور کو پسند کر تی ہے گھر والے مان گئے ہیں لیکن وہ کہتی ہے اگر اُس کی مرضی کے خلاف شادی کی تو وہ خود کشی کر لے گی پیر صاحب اُس کے لازوال حسن کی تعریفیں کر رہے تھے میں دل میں اُس لڑکی کی جرات کو سلام کر رہا تھا کہ اُس نے کمال بہادری سے انکار کیا اور اُس پر قائم تھی جب پیر صاحب خوب بول چکے تو میں نے پیر صاحب کے تندور نما پیٹ پر ہاتھ رکھا گہری نظروں سے ان کی آنکھوں میں جھانکا اور ٹہرے ہو ئے لہجے میں بولا میں لڑکی کی مرضی کے خلاف آپ کی مدد نہیں کروں گا میرا انکار پیر صاحب کو جیسے سانپ کاٹ گیا ہو بو لے ابھی تومیں باہر جا رہا ہوں اِس پر پھر بات ہوگی جتنی دولت آپ مانگیں گے دوں گا پھر گوشت کا پہاڑ اُٹھ کر چلا گیا تو خلیفہ میرے پاس آکر بولاآپ کی زندگی کا سب سے بڑا انسان تھا تو میں بولا بہت میری زندگی کا سب سے چھوٹا آدمی جو مریدوں کی بیٹیوں پر بری نظر رکھتا ہے پھر میں دروازہ بند کر کے گھر آگیا یہ میری زندگی کا بڑا نہیں سب سے چھوٹا آدمی تھا۔

Share
Share
Share