اذان کا دوسرا کلمہ – اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ (3) :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

اذان کا دوسرا کلمہ،
اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ (3)

مفتی کلیم رحمانی
پوسد(مہاراشٹر)
09850331536

اذان کا دوسرا کلمہ ۔ ۔ ۔ کی دوسری قسط کے لیے کلک کریں

کچھ نادانوں کو دور مکی میں آنحضورﷺ اور صحابہ کرامؓ کی سیاسی مغلوبیت کو دیکھ کر یہ شبہ ہوگیا ہیں، یاجان بوجھکر انہوں نے یہ شبہ قائم کرلیا ہیں کہ دور مکی میں اللہ کے رسولﷺ اور اہل ایمان کے نزدیک اسلامی سیاست و حکومت کا کوئی نظریہ اور دعوت نہیں تھی،

ان نادانوں کو سمجھنا چاہیے کہ کسی نظریہ و دعوت کا سیاسی ہونا اور چیز ہے، اور اس نظریہ و دعوت کی بنیاد پر حکومت کا قیام و اقتدار، دوسری چیز ہے، چنانچہ کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ اول روز سے ہی اپنے اندر اللہ کی حکومت کا تصور لیے ہوئے ہے، اور ہر نبی نے اس کلمہ کو اللہ کی حکومت کے تصور کے ساتھ ہی پیش کیا ہے، لیکن بہت کم نبیوں کی زندگی میں اس کلمہ کی بنیاد پر اللہ کی حکومت قائم ہوئی ہے، تاریخ کے زیادہ تر حصہ میں یہ کلمہ سیاسی لحاظ سے مغلوب ہی رہا ہے، مگر مغلوبیت کے باوجود کبھی بھی کلمہ گوافراد نے باطل کی حکمرانی کو صحیح تسلیم نہیں کیا ہیں، بلکہ ہمیشہ اس کی مخالفت کرتے رہے ہیں، اور اس کا انکار کرتے رہے ہیں۔
غرض یہ کہ کسی سیاسی نظریہ و دعوت کو اقتدار و حکومت نہ ملے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ نظریہ و دعوت غیر سیاسی ہے۔ چنانچہ آج بھی دنیا میں بہت سے سیاسی نظریات اور پارٹیاں ایسی ہیں جو اقتدار و حکومت میں نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ سیاسی پارٹیاں شمار ہوتی ہیں، مثلاً ہندوستان ہی میں بہت سی سیاسی پارٹیاں ایسی ہیں جنہیں آج تک سیاسی اقتدار نہیں ملا لیکن اس کے باوجود وہ سیا سی پارٹیاں شمار ہوتی ہیں، ٹھیک اسی طرح بہت سے نبیوں کی پوری زندگی میں،اور نبیﷺ کو ہجرت سے پہلے مکی زندگی میں کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی بنیاد پر سیاسی اقتدار نہیں ملا، لیکن یہ کلمہ اقتدار سے پہلے بھی اپنے اندراقتدار و حکومت کی فکر و دعوت لیے ہوئے تھا، اور ہر نبی نے اس کلمہ کو قوم کے سامنے اسی حیثیت سے پیش کیا ہے، اور نبیﷺ نے بھی دور مکی میں اس کلمہ کو اسی حیثیت سے پیش کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر نبی کے مخالفین اولین طور پر سیاسی حکمراں ہی رہے ہیں، اور خود نبیﷺ کے اولین مخالفین مکہ کے سیاسی حکمران ہی رہے ہیں۔ اور دیکھا جائے تو وہ کلمہ اور دعوت مکمل ہو ہی نہیں سکتی، جس میں انسانی زندگی کی مکمل صحیح اور غلط سیاست و حکومت کی رہنمائی نہ ہو، چونکہ اسلام کا کلمہ ایک مکمل کلمہ ہے اور اسلام کی دعوت بھی ایک مکمل دعوت ہے اسلئے وہ صحیح اور غلط سیاست و حکومت کی مکمل رہنمائی اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔
کچھ دنیا پرستوں نے دین پرستی کے بھیس میں وقت کے غیر اسلامی حکمرانوں کی ناراضی سے بچنے کے لیے یہ تصور قائم کر لیا ہیں،کہ جب تک اسلام کے کلمہ کی بنیاد پر حکومت قائم نہ ہو، تب تک کلمہ کفر کی حکومت کی حمایت کرتے رہو۔ان دنیا پر ستوں،نقلی دینداروں سے ایک ہی بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر وہ یہ بات نقلی دینداری کا لبادہ اوڑھے بغیر کہتے تو کوئی اعتراض اور شکایت کی بات نہیں تھی، کیونکہ ہر دور میں ہزاروں لاکھوں دنیا پرست رہے ہیں،جنہوں نے دین کی غلط تشریح کی ہیں، اور دین پر بے جا اعتراضات کیے ہیں۔ لیکن تمہاری یہ نقلی دینداری کے لبادہ کی وجہ سے بہت سے سیدھے سادے اور کم علم مسلمان بھی تمہارے دام فریب میں آگئے ہیں، اور وہ بھی تمہاری طرح یہ بولی بول رہے ہیں کہ جب تک اسلامی حکومت قائم نہ ہو جائے، تب تک غیر اسلامی حکومت کے ہر کام کی حمایت کرتے رہو اور اس کے وفادار شہری بنے رہو، جس کی وجہ سے باطل حکومتوں کے لیے منکرات اور ظلم و ستم کی اشاعت کے لیے میدان صاف ہو گیا ہے، اور اہل حق کا دنیا میں جینا دو بھر ہوگیا ہے۔ اگر یہ نقلی دیندار ذرا بھی ابنیاء او ر ان کے پیروں کاروں کی زندگیوں پر غور کرتے تو انہیں یہ غلط بات کہنے کی جرات نہیں ہوتی، کیا نوح علیہ السلام نے کبھی اپنے دور کے باطل حکمرانوں کی تائید و حمایت کی تھی جب کہ ان کی پوری زندگی میں اسلامی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی، کیا ہودؑ، صالح ؑ، شعیب ؑ، لوط ؑ نے اپنی قوم کے سرداروں کی حمایت و تائید کی تھی؟ جب کہ مذکورہ کسی بھی نبی کی زندگی میں اسلامی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی، اگر ان نبیوں نے قوم کے سرداروں کی حمایت و وفاداری کی ہوتی تو کیا قوم کے سرداروں کی عقل ماری گئی تھی کہ وہ ان نبیوں کی جان کے خواہ مخواہ دشمن ہوگئے تھے؟کیا حضرت ابراہیمؑ نے اپنے باپ آزر اور نمرود بادشاہ کی حمایت و وفاداری کی تھی؟ جب کہ ابراہیمؑ کی زندگی میں بھی اسلامی حکومت نہیں ہوئی تھی، اور اگر ابراہیمؑ نے اپنے باپ آزر اور نمرودکی حمایت و وفادی کی تھی،تو کیا آزر اورنمرود،کو کسی پاگل کتے نے کاٹ لیا تھا کہ آزر اور نمروداور پوری قوم حضرت ابراہیمؑ کی جانی دشمن ہوگئی تھی، یہاں تک کہ انہوں نے حضرت ابراہیم ؑ کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا تھا،یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو جلنے سے بچا لیا، کیا حضرت موسیٰؑ اور ہارون ؑ نے فرعون کی حمایت و وفاداری کی تھی؟ جب کہ حضرت موسیٰ اور ہارونؑ کو مصر میں اقتدا ر حاصل نہیں تھا، اور اگر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونؑ فرعون اور اس کی حکومت کی تائید و حمایت کرتے تو کیا فرعون پاگل ہو گیا تھا کہ وہ ان دونوں نبیوں کا دشمن ہو گیا تھا، اسی طرح آنحضورﷺ دور مکی میں سرداران مکہ کی حمایت و وفاداری کرتے تو خوامخواہ سرداران مکہ آپؐ کے دشمن کیوں ہو جاتے؟ جب کہ یہی سردار آپؐ کو نبوت سے پہلے چالیس(40) سال تک صادق و امین کہتے رہے، اور دور مکی وہ دور ہے جس میں آنحضورﷺ اور اہل ایمان کو اقتدار حاصل نہیں تھا۔تمام نبیوں، رسولوں اور تمام اہل ایمان کی زندگیوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی نبی رسول اور اہل ایمان نے سیاسی قوت حاصل ہونے سے پہلے باطل نظام اور باطل حکمرانوں کے خلاف ہاتھ اور ہتھیار نہیں اٹھایا، لیکن ایک دن کے لیے بھی کسی نبی،رسول اور ان پر ایمان لانے والوں نے باطل نظام کی تائید و حمایت نہیں کی۔ بلکہ مسلسل انہوں نے باطل نظام کی مخالفت کی اور یہی چیز باطل حکمرانوں کے لیے دشمنی کا سبب بنی ہوئی تھی،
یہ بات کہ جب تک اسلامی حکومت قائم نہ ہو جائے تب تک باطل نظام کی حمایت و وفاداری کرتے رہنا کسی بھی صورت میں اسلام کی تعلیم سے نہیں جوڑی جا سکتی، بلکہ یہ عین منافقت کی بات ہوگی، اور صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا میں کوئی بھی باطل نظریہ اور پارٹی ایسی نہیں ہو سکتی، جس کے طریقہ کار میں یہ بات شامل ہو کہ جب تک اپنی حکومت قائم نہ ہو جائے تب تک اپنے مخالف نظریہ اور پارٹی کی حکومت کی حمایت و وفاداری کی جائے، بلکہ ہر پارٹی کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ سیاسی مغلوبیت کے دور میں بھی اپنی پارٹی ہی کی فکر سے وابستہ رہا جائے اور دوسروں کو بھی اپنی پارٹی کی طرف بلایا جائے، اور اپنے مخالف پارٹی کی مسلسل مخالفت کی جائے چاہے وہ اقتدار میں کیوں نہ ہو۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو طریقہ سیاست باطل حکمراں بھی اپنے لیے پسند نہیں کرتے، وہی طریقہ سیاست بہت سے دین کے دعویداروں نے اسلام سے جوڑ دیا ہے، جب کہ باطل حکمرانوں کے پاس حقیقی کامیابی و ناکامی کا کوئی تصور نہیں ہے، اور نہ ہی اللہ کے سامنے جو ابدہی کا کوئی تصور ہے،در اصل کچھ نام نہاد دینداروں نے دین کے متعلق یہ باطل تصور اس لیے قائم کر لیا ہیں تا کہ اسلام کی سیاسی مغلوبیت کی صورت میں باطل حکمرانوں کی ناراضی اور دشمنی سے بچا جا سکے اور باطل نظام زندگی کی سہولتیں اور ملازمتیں آسانی سے ملتی رہیں، اور اہل حق کی طرف سے یہ الزام بھی نہ لگے کہ انہوں نے دین اسلام کے بنیادی نظریہ کو چھوڑ کر باطل نظریہ کی تائید و حما یت کرکے بڑے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے، یا منافقت کا راستہ اختیار کر لیا ہیں۔ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اہل حق کو معلوم ہونے سے پہلے ان کے دلوں کے حال کا علم اللہ کو ہو چکا ہے اور ان کے عمل کی پَل پَل کی رپورٹ کراماً کا تبین کے ذریعہ تحریری شکل میں اللہ کے سامنے پیش ہو رہی ہے۔در اصل بات یہ ہے کہ انبیائی راستہ دنیاوی زندگی کی مشکلات اور خطرات سے بھرا ہوا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ایک صحابی کے سوال کے جواب میں آنحضورﷺ نے فرمایا۔ عَنْ مُصْعبِ بْنِ وَقَّاصِ عَنْ اَبِیہِ قَالَ قُلْتُ یَارَسُولَ اللہِ اَیُّ النَّاسِ اْشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ الْانْبِیآءُ، ثُمَّ الْاَ مَثَلُ فَالْامْثَلُ یَبْتُلیِ الرَّجُلُ عَلٰی حَسْبِ دِینِہِ (الحدیث) رواہ۔ ترمذی،نسائی ابن ماجہ، دارمی)ترجمہ: (حضرت مصعب بن سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے کہا ائے اللہ کے رسولﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ کون آزمایا جاتا ہے تو آنحضورﷺ نے فرمایا، انبیاء پھر جو ان کے مثل ہیں، پھر جو ان کے مثل ہیں،آدمی اپنے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے) مطلب یہ کہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائشیں انبیاء پر آتی ہیں، پھر لوگوں میں جو انبیاء کے طریقہ کے جتنے زیادہ قریب ہوں گے، ان پر آزمائشیں زیادہ آئیں گی، پھر ان کے طریقہ کے جو زیادہ قریب ہوں گے، ان پر آزمائش زیادہ آئیں گی، جو آدمی اپنے دین میں جتنا زیادہ پختہ ہوگا اس پر اتنی ہی بڑی آزمائشیں آئیں گی، اور جو اپنے دین میں کمزور ہوگا، اس پر آزمائش بھی چھوٹی آئے گی، حدیث کے اس اصول سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ جو بھی دینی جماعت جتنی زیادہ انبیاء کے طریقہ کے مطابق ہوگی، اس پر آزمائشیں بھی اتنی ہی زیادہ آئیں گی، اور جو جماعت انبیاء کے طریقہ سے جتنی زیادہ دور ہوگی، وہ آزمائش سے اتنی ہی دور ہوگی، مطلب یہ کہ آزمائشیں انبیاء کے راستہ سے چمٹی ہوئی ہیں، جو انبیاء کے راستہ پر چلے گا، آزمائشیں بھی اس کو چمٹ جائیں گی، اور اسی سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انبیاء پر جس قسم کی آزمائشیں آئیں، انبیاء کے راستہ پر چلنے والوں پر بھی اسی قسم کی آزمائشیں آئیں گی، اور قرآنی تاریخ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تمام انبیاء پر سب سے پہلی اور سب سے بڑی آزمائش اپنے دور کے سرداروں اور حکمرانوں کی ناراضگی، مخالفت اور دشمنی کی صورت میں آئی ہے، اور پھر یہی مخالفت و دشمنی ظلم و ستم میں تبدیل ہوگئی، اس لحاظ سے جو بھی جماعت انبیاء کے راستہ پر چلے گی، اس پر بھی سب سے پہلی اور سب سے بڑی آزمائش اپنے دور کے سرداروں اور حکمرانوں کی ناراضگی، مخالفت اور دشمنی کی صورت میں آئے گی، اور پھر یہی مخالفت و دشمنی ظلم و ستم میں تبدیل ہوگی، چنانچہ انبیاء کے بعد ان کے متبعین اور ان کی دعوت کے وارثین کی تاریخ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
تمام نبیوں کے تمام متبعین کی تاریخ تو محفوظ نہیں ہے، لیکن خاتم الانبیاء والمرسلین اور امام الانبیاء حضرت محمدﷺ کے ہزاروں، لاکھوں متّبعین اور وارثین کی تاریخ محفوظ ہے، یہاں صرف نبیﷺ کے چند متّبعین اور وارثین کے ناموں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ آپؐ کے رفیق زندگی اور رفیقِ غار حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آپؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو، مشرکین مکہ نے آپ کو اتنا مارا کہ آپ بیہوش ہوگئے، لیکن جب ہوش آیا تو سب سے پہلا جملہ جو ان کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا کہ محمدﷺ کس حال میں ہے کچھ لوگوں نے طعنہ بھی دیا کہ محمد ﷺ کا ساتھ اختیار کرنے کی وجہ سے ہی یہ مصیبت آئی ہے، آپ نے کہا مجھے اس مصیبت کی کوئی پروا نہیں ہے۔
حضرت خباب بن ارتؓ اور حضرت بلالؓ نے جب حضرت محمدؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو سرداران مکہ نے ان کو اتنا مارا اور ان کو آگ کی اتنی ایذئیں دیں کہ ان کی پیٹھ کی چمڑی جل گئی، حضرت سمیہؓ نے جب نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو ابو جہل نے شرم گاہ میں نیزہ مارکر شہید کر دیا، حضرت حمزہؓ نے جب نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو جنگ اُحد میں شہید کر دیئے گئے اور ان کی نعش کے ناک،کان کاٹ لئے گئے اور سینہ چاک کرکے ان کا کلیجہ نکال کر ہندہ نے چپانے کی کوشش کی، خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ نے جب نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو باطل حکمرانوں کی سازش سے نماز فجر کی امامت کے دوران آپؓکونیزہ مارا گیا اور اسی کاری زخم سے آپؓ شہید ہوگئے، خلیفہ سوم اور ذی النورین حضرت عثمان غنیؓ نے جب نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو ایک سازش سے اپنے مکان میں کئی دن کے محاصرہ کے بعد بھوک و پیاس کی حالت میں قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کر دیئے گئے، خلیفہ چہارم حضرت علیؓ نے جب نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو باطل حکمرانوں کی سازش سے کوفہ کی جامع مسجد کے دروازہ میں تلوار کی مار سے شہید کر دیئے گئے، نواسہ رسول حضرت حسن ؓنے جب نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو باطل سرداروں کی سازش سے زہر دیکر آپؓ کو شہید کر دیا گیا، دوسرے نواسہ رسولؐ حضرت حُسینؓ نے جب آپؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو باطل سرداروں کی ایک سازش سے انہیں شہید کر دیا گیا، حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے جب نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو خود ان کے خاندان کے باطل سرداروں نے انہیں دھوکہ سے زہر دیکر شہید کر دیا، امام اعظم ابو حنیفہؒ نے جب نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا اور بنو عباسیہ کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی تو عباسی خلیفہ منصور نے انہیں جیل میں ڈال دیا، اور چند سال کے بعد جیل ہی میں انہیں زہر دیکر شہید کردیا، اس لحاظ سے ان کی موت جیل ہی میں ہوئی اور جیل سے ہی ان کا جنازہ اٹھا، امام مالکؒ نے جب نبی ؐ کی اتباع کاراستہ اختیار کیا اور عباسی خلیفہ منصور کے خلاف فتویٰ دیا تو انہیں ستر کوڑے مارے گئے جس سے پیٹھ لہو لہان ہو گئی، اور دونوں ہاتھ مونڈھوں سے شل ہوگئے، امام شافعیؒ نے جب نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو آپ کے ایک حاسد نے حق گوئی کی پاداش میں رات کے اندھیرے میں دھوکہ سے آپ کے سر پر لوہے کا گرُز مارا جس سے سر پھٹ گیا اور اسی صدمہ سے آپ کا انتقال ہو گیا۔ امام احمد بن حنبلؒ نے جب خلق قرآن کے فتنہ کے مقابلہ میں قرآن کو اللہ کاکلام ہونے کا
فتویٰ دیا تو عباسی خلیفہ مامون نے آپ کو اتنے کوڑے مارے کہ آپ کا جسم لہولہان ہوگیا، اس کے بعد آپ کو قید خانہ میں ڈال دیا گیا۔ اسی طرح جب مجدد الف ثانیؒ شیخ احمد سرہندی نے جب نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا اور مغل بادشاہ جہانگیر کے بادشاہ کے لیے سجدہ تعظیمی کے فرمان کی مخالفت کی اور اسے شرک قرار دیا تو جہانگیر نے آپ کو جیل میں ڈال دیا، لیکن جیل میں بھی آپ برابر بادشاہ کے فرمان کی مخالفت کرتے رہے، اسی طرح جب سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسمٰعیل شہیدؒ نے نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا اور ان کی دینی کوششوں سے کچھ مدت تک افغانستا ن اور سرحد کے بعض علاقوں میں اسلامی حکومت قائم بھی ہوئی، لیکن ۱۳۸۱؁ء میں وہ بالاکوٹ کے میدان میں اسلام دشمنوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے، اسی طرح جب شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے جب نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا اور خاص طور سے انہوں نے فارسی زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا تو ان پر کچھ مفاد پرست علماء نے کفر کا فتویٰ لگا دیا، اور ان کے قتل کی سازش کی، چنانچہ بعض افغانی پٹھانوں کا ایک گروہ ان کے قتل کے ارادے سے دہلی آیا لیکن ان پٹھانوں پر شاہ ولی اللہ محدثؒ کا ایسا رعب پڑاکہ وہ قتل کے ارادہ سے باز آگئے،اور انہوں نے توبہ کی۔
اسی طرح 1914 ؁ء کے اثنا میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی نے ہندوستان میں اسلامی حکومت کے قیام کی کچھ کوشش کی، تو انگریز حکومت نے انہیں گرفتار کرکے چار سال تک مالٹا کی جیل میں ڈال دیا اور انہیں طرح طرح کی ایذائیں دی۔ اسی طرح جب مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا اور ۵۲۹۱؁ء سے اپنے قلم کے ذریعہ دین اسلام کو ایک مکمل نظام کی حیثیت سے پیش کرتے رہے، اور اسلام کے علاوہ تمام نظاموں کو باطل ثابت کرتے رہے تو کچھ مفاد پرست اور کم علم علماء کی طرف سے ان پربے دین اور گمراہی کے بھی فتوے لگے، اور 1953 ؁ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے متعلق ایک کتابچہ لکھنے کی پاداش میں پاکستانی حکومت نے انہیں پھانسی کی سزا سنائی لیکن بہت سے علماء اور بہت سے اسلام پسند مسلم سربراہوں کی طرف سے پاکستانی حکومت پر مولانا مودودیؒ کو پھانسی نہ دینے کے دباؤ کی بناء پر حکومت پاکستان کو پھانسی کی سزامنسوخ کرنی پڑی۔اس کے بعد بھی دو مرتبہ اور پاکستانی حکومت نے مولانا مودودیؒ کو جیل میں ڈالا، اسی طرح جب سید قطبؒ اور حسن البنّا شہیدؒ نے مصر میں ایک اسلامی تنظیم اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی اور اسلام کی اشاعت و غلبہ کی کوشش کی تو مصر کی حکومت نے انہیں شہید کر دیا۔
غرض یہ کہ تاریخ میں ایسی لاکھوں اسلامی شخصیات گزری ہیں جنہوں نے انبیاء و رسُل کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو ان پر قریب قریب ویسے ہی حالات آئے جیسے انبیاء و رُسُل پر آئے ہیں اور یوں اللہ کے رسولؐ کا
مذکورہ فرمان کہ انسانوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے پھر جو انبیاء کے قریب ہوتے ہیں تاریخ کے ہر دور میں اس کا عملی ثبوت ملتا رہا ہے اور موجودہ حالات میں بھی اس کا دنیا کے ہر کونے میں عملی ثبوت پیش ہو رہا ہے، چنانچہ آج بھی دنیا میں جو اسلامی تحریکات و شخصیات انبیائی طریقہ پر کام کر رہی ہیں وہ باطل پرستوں کی مخالفت اور ظلم و ستم کی زد میں ہے، چاہے وہ عرب کی اسلامی تحریک اخوان المسلمون ہو، یافلسطین کی حماس تحریک ہو، یا افغانستان کی طالبان تحریک ہو، یا جماعت اسلامی بنگلہ دیش ہو، یا شخصیات میں نمایاں طور پر ڈاکٹر ذاکر نائک ہو، جو دین کی تبلیغ میں اپنا ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں، اور جن کی تبلیغی کوششوں سے سیکڑوں غیر مسلم اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ جماعت اسلامی ہند پر بھی حکومت ہند نے دو مرتبہ پابندی لگائی ہے۔ ایک مرتبہ ۵۷۹۱؁ء میں دو سالوں کے لیے چنانچہ اس عرصہ میں جماعت اسلامی کے بڑے بڑے ذمہ دار دو سال تک جیل میں بھی رہے ہیں۔اور دوسری مرتبہ ۳۹۹۱؁ء میں،پھر دو سال بعد سپریم کورٹ کے جماعت اسلامی ہند کے حق میں فیصلے کی وجہ سے یہ پابندی ختم ہوئی۔
ابتلاء و آزمائش کے متعلق اللہ کا یہ اصول بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ جو مصیبت و پریشانی اللہ کے دین پر عمل کرنے کے سبب آرہی ہے وہی ابتلاء و آزمائش ہے اور جو مصیبت و پریشانی اللہ کے دین پر عمل نہیں کرنے کے سبب آرہی ہے وہ ایک طرح سے اللہ کا عذاب ہے، اور یہ حالت قرآن کی اس آیت کے زمرے میں آتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے، وَمَا اَصَاَبَکُمْ مِنْ م مُّصِیبَۃِ فبِمَا کَسَبَتْ اَیدِیْکُمْ وَ یَعْفُواعَنْ کَثِیرِ (شوریٰ آیت ۰۳) ترجمہ(تمہیں جو مصیبت پہنچی ہے پس وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہے، اور وہ بہت سی باتوں سے در گذر کرتا ہے۔) اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے اسی اصول کو اور زیادہ و ضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ ( ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرّ و الَْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُزْیقَھُمْ بَعْضَ الّذِیْ عَمِلوالَعَلَّھُمْ یَرْ جِعُوْنْ(سورۂ روم آیت ۱۴) ترجمہ(برپا ہو گیا فساد خشکی اور سمندر میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کے سبب تاکہ انہیں بعض اعمال کا مزہ چکھائے، تاکہ وہ اللہ کی طرف پلٹیں)۔
آج دنیا میں انسانوں اور مسلمانوں پر جو مصیبت و پریشانی آرہی ہے ان مصیبتوں اور پریشانیوں کا بڑا سبب یہی قرآن کا مذکورہ اصول ہے، کیونکہ زیادہ تر انسان بھی اور زیادہ تر مسلمان بھی اللہ کے دین کو چھوڑے ہوئے ہیں۔(جاری)

Share
Share
Share