افغانستان میں طالبان کی کا میابی :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share

افغانستان میں طالبان کی کا میابی
پھونکوں سے یہ چراخ بجھایا نہ جائے گا

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآ باد)
91+9885210770
بیس سال کی جاں گسل جدوجہد اور بے مثال قر بانیوں کے بعد افغانستان میں طالبان کا دوبارہ بر سرِ اقتدار آنا عصری تاریخ کا ایک نا قابلِ فراموش اور غیر معمولی واقعہ ہے جس کے دور رس اثرات پوری عالمی سیاست پر پڑ نے والے ہیں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ صرف دس دن میں طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل پر امریکی یا افغان فوجیوں کی مزاحمت کے بغیر قبضہ کر لیں گے۔ سقوطِ کابل نے چودہ سال پہلے ہوئے فتح مکہ کی یاد تازہ کردی جہاں فاتحِ مکہ محسنِ انسانیت ﷺ نے بغیر کسی خون خرابے کے مکّہ کو فتح کیا تھا اور پھر عام معافی کا اعلان کر تے ہوئے اپنے اور اسلام کے سخت دشمنوں کو بھی معاف کر دیا تھا۔

طالبان کی قیادت نے بھی اپنے ہادی اور رہنماء کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اعلان کر دیا کہ وہ کسی دشمن سے انتقام لینے والے نہیں ہیں اور اس عظیم کا میابی پر وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے سب کو معاف کر تے ہیں۔ کہا جا رہا تھا کہ اکیسویں صدی میں طالبان جیسی ذہنیت کبھی کامیاب نہیں ہو گی اور افغا نستان میں طالبان کا اقتدار پر آ نا ممکن نہیں ہے۔ لیکن امریکہ سمیت تمام ملکوں کے اندازے غلط ثابت ہو گئے اور طالبان نے تین لاکھ سے زائد افغان فو جیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ محض جنگی سازو سامان فتح و شکست کا فیصلہ نہیں کرتے بلکہ بلند عزائم اور انتھک جدوجہد کامیابی کی ضامن ہو تی ہے۔ طالبان نے اپنے آ ہنی عزم کا ثبوت دیتے ہوئے دنیا کی سوپر پاور طاقت کو اپنی شکست تسلیم کر نے پر مجبور کر دیا۔ افغانیوں نے پھر ایک بار اپنی تاریخ دہرادی۔ تاریخ کے کسی دور میں افغانی کسی بیرونی ملک کے غلام نہیں رہے۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں نے افغانستان پر قبضہ کر نے کی پوری کوشش کی لیکن کسی کو بھی کا میابی نہیں ملی۔ ایک دور میں جب کہ سلطنت بر طانیہ کا سورج غروب نہ ہو نے کا محارہ عام تھا ایسے وقت بھی افغانستان پربر طانیہ کا پرچم نہیں لہرا سکا۔ افغانی ایک غیوّر اور حریت پسند قوم رہی ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ 20 سال کے دوران امریکہ کی قیادت میں ناٹو کی فوج نے افغا نستان کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ ایک ملین سے زائد افغانیوں کی جانیں گئیں۔ انہیں جیلوں میں ڈال کر ناقابلِ بیان اذیتیں دی گئیں اور انن کے خلاف بین الاقوامی سازشیں رچائی جا تی رہیں لیکن اس کے با وجود افغانی نہ ڈرے نہ جھکے بلکہ استعماری طاقتوں سے لوہا لیتے رہے۔ اسی مسلسل جدوجہد نے افغانیوں کو کا میابی عطا کی اور اب دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح طالبان اپنی فتح کے جھنڈے گاڑ تے ہوئے آ گے بڑھ گئے ہیں اور افغانستان میں ان کی حکومت قائم ہو گئی ہے۔ امریکہ نے اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعہ افغان عوام کو جس انداز میں تباہ و بر باد کیا ہے اس پر سے بھی پردہ اٹھتا جا رہا ہے۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسے حکمرانوں نے دشمن کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی عوام کو نہ صرف دھوکہ دیا بلکہ اپنی قوم کو کھنگال کر دیا۔ اشرف غنی اپنے ساتھیوں سمیت ملک سے فرار ہو چکے ہیں اور جا تے جاتے وہ اپنے ساتھ ڈھیر سارا روپیہ پیسہ بھی لے گئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ چار کاروں میں پیسہ لے کر وہ ایر پورٹ آ ئے تھے جو ان کے ہیلی کاپٹر میں بھی سما نہ سکا۔ اتنی دولت انہوں نے آ خر کہاں سے کمائی۔ ظاہر ہے کہ جو پیسہ افغانستان کی ترقی کے لئے بیرونی ممالک سے آ رہا تھا وہ سب افغان حکمرانوں اور ان کے حواریوں کی جیب میں گیا۔ افغانی عوام کی خستہ حالی کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ بیس سال سے ان کی راحت کا کوئی کام نہیں کیا گیا بلکہ ان کو ظلم کی بھٹّی میں تِپانے کا کام کیا جاتا رہا۔
افغانستان میں طالبان کی کا میابی کے ساتھ ہی پوری دنیا کے میڈیا میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا طالبان افغانستان میں امن قائم کر نے میں کا میاب ہو جائیں گے اور وہاں ایک پائیدار حکومت کا قیام ممکن ہو سکے گا۔ سابقہ واقعات کو من گھڑت انداز میں پیش کر تے ہوئے مغربی میڈیا کے ساتھ ہمارے ملک کا گودی میڈیا بھی اس لن ترانی میں لگا ہوا ہے کہ اب افغانستان میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جائیں گی۔ دستور اور قانون نام کی کوئی چیز با قی نہیں رہے گی۔ بیرونِ ملک کے باشندوں اور اقلیتوں کے لئے افغا نستان میں رہنا دشوار ہوجائے گا۔ عورتوں کو پھر سے گھروں میں قید کر دیا جائے گا۔ اس نوعیت کی اور بھی بہت ساری غلط باتیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ جب کہ طالبان نے کابل کی فتح کے پہلے دن ہی یہ واضح کر دیا کہ وہ اپنے ملک کے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کا احترام کر یں گے اور سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ تین دن پہلے بھی طالبان کی قیادت نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ ان کی حکومت پوری طرح سے شر یعت کے مطابق ہوگی اور اس میں خواتین کو بھی شامل کیا جائے گا اور انسانی حقوق کی ہر حال میں پاسداری کی جائے گی۔ ان تمام تر وعدوں کے باوجود طالبان کے خلاف پروپگنڈا کر نا ان طاقتوں کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کر تا ہے جو کسی بھی حال میں طالبان کو اقتدار پر آ تے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ اب چونکہ ان کی امیدوں پر پانی پِھر گیا اور ان کے مذموم عزائم خاک میں مل گئے ہیں اس لئے اندیشہ ہائے فردا کا شکار ہو کر دیدہ و دانستہ ایک ایسے گروہ کو بدنام کر نے میں لگے ہیں جس نے بغیر کیسی خونریزی کے کا میابی حا صل کی ہے۔ جب طالبان نے اس بات کا اعلان کر دیا کہ کسی کے ساتھ بھی ظلم کا رویہ اختیار نہیں کیا جائے گا اور عام معافی کا اعلان کر کے انہوں نے اپنی عوام کو ہر قسم کی طما نیت دے دی ہے۔ اب یہ بات بھی طالبان مخالف عناصر کو ہضم نہیں ہو رہی ہے کہ آ خر یہ سب کیسے ہو گیا۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی جارحیت کے مقابلے میں افغانی تنکوں کے مانند ہوا میں بکھر جا ئیں گے۔ ناٹو کی فوجیں انہیں صفحہِ ہستی سے مٹا دیں گی۔ واقعی افغانیوں کے بجائے کوئی اور قوم ہو تی تو امریکہ کے اس ظلم کے خلاف ٹِک نہ سکتی اور اس کی غلامی پر رضامند ہو جاتی۔ لیکن افغان قوم نے بیس سال کے دوران امریکہ کو اپنی اوقات بتادی اور اسے اپنے ناپاک ارادوں میں کا میاب نہ ہونے دیا۔ اپنی اس زبردست فتح کے لئے افغانی قوم کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی جس کے بعد ہی افغانستان میں امن اور آزادی کا سورج طلوع ہوا ہے۔ 20 سال پہلے نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکہ نے اکٹوبر 2001میں افغانستان پر بمباری کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔ اپنی اس جا ر حا نہ کاروائیوں میں امریکہ نے ناٹو ممالک کو بھی شامل کرلیا تھا۔اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے نام پر امریکہ نے افغانستان پر فوج کشی کر کے ایک ایسی حماقت کر دی کہ اس کا خمیازہ امریکی عوام کو بھگتنا پڑا۔ اربوں ڈالر افغانی عوام کو زِیر کر نے کے لئے امریکہ نے خرچ کر ڈالے۔ امریکہ کے ہزاروں فوجی مارے گئے لیکن جذبہ حریت سے سرشار افغانی قوم کو امریکہ اپنے زیرِ نگیں نہیں کر سکا۔ کٹھ پتلی حکومتیں ان بیس سالوں کے دوران امریکہ نے افغانستان میں قائم کیں لیکن انہیں عوام کا اعتماد کبھی بھی حا صل نہ ہو سکا۔ افغان عوام پر مسلط کئے گئے حکمران، افغانی عوام کا دِل جیتنے کے بجائے لوٹ کھسوٹ میں ملوثٖ ہو تے چلے گئے ان کی حکمرانی ان کے محلوں تک محدود ہو کررہ گئی۔ وہ عوام کے درمیان جانے اور ان کو اپنا ہمنوا بنانے میں بری طرح ناکام ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ ملک سے فرار ہو رہے ہیں۔انہیں اپنے ملک میں جائے پناہ نہ مل سکی اور اب جلاوطنی ان کا مقدّر بن گئی ہے۔ ملک اور قوم سے غدّاری کا نتیجہ رسوائی اور ذلت کے سواء کچھ اور نہیں نکلتا۔
اب جب کہ افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں میں اقتدار آ گیا ہے۔ ان کے لئے یہ سب سے بڑا چیلنج ہے کہ وہ دنیا کو یہ یقین دلانے میں کیسے کا میاب ہوں گے کہ اب افغانستان میں جنگ و جدال کا دور ختم ہو گیا ہے اور ملک کے ایک ایک شہری کو سکون و اطمینان کے ساتھ زندگی گزارنے کے بھر پور مواقع حاصل ہو چکے ہیں۔ طالبان قائدین کے بیانات اس ضمن میں واضح طور پر آ رہے ہیں۔ الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے طا لبان کے اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ "خدا کا شکر ہے کہ بیس سالہ جنگ ختم ہوئی۔ کسی کی جان، مال اور عزت و آ برو کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مجاہدین ان کی حفاظت کریں گے "۔ان ساری یقین دہانیوں کے باوجود طالبان دشمن طاقتیں یہ راگ الاپ رہی ہیں کہ افغانستان میں انسانی جانوں کو خطرہ ہے۔ طالبان کی جانب سے تمام مذاہب کے ماننے والوں اور مختلف ملک سے تعلق رکھنے والوں سے بار بار یہ اپیل کی جارہی ہے کہ وہ افغانستان چھوڑ کر نہ جائیں ان کا ہر حال میں تحفظ کیا جائے گا۔ اس یقین دہانی کے بعد بھی کوئی موت کے خوف سے بھاگ رہا ہو تو اس میں طالبان کا کیا قصور ہے؟ تشدد یا بد امنی کے اکّا دکّا واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے افغانستان کے انقلاب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اب جب کہ ملک کی باگ ڈور طالبان کے ہاتھوں میں آ چکی ہے وہ اس بات کو دوسروں سے بہتر انداز میں جا نتے ہیں کہ ملک کو کس انداز میں چلایا جائے اور افغان عوام کی توقعات کو کیسے پورا کیا جائے۔ طالبان قیادت پوری سنجیدگی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کر تے ہوئے آ گے بڑھ رہی ہے۔ عالمی میڈیا کے سامنے وہ اپنے موقف کو بہت واضح انداز میں پیش کر تے ہوئے ثابت کر رہے ہیں وہ کس نوعیت کی حکمرانی کے خواب کو پورا کرنے جا رہے ہیں۔ دنیا کی ظالم حکومتوں نے انہیں دہشت گرد وں کے روپ میں پیش کیا۔ لیکن وہ اب اسلام کے نظام عدل و قسط کو نافذ کر کے بتا دیں گے کہ اسلام کی تعلیمات انسانیت کے لئے کتنی کارگر ہیں اور اسی نظامِ حیات کے ذریعہ انسانوں کے مسائل اور مشکلات کو حل کیا جاسکتا ہے۔ طالبان نے اسلامی تعلیمات کے مطابق اظہارِ رائے کی آزادی کو یقینی بنانے اور کسی کے حقوق کو سلب نہ کرنے کا وعدہ دنیا کے میڈیا کے سامنے کیا ہے۔ لیکن مغربی میڈیا یہ جھوٹ پھیلا رہا ہے کہ طالبان جا برانہ نظام کو قائم کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں جس سے افغانستان میں افرا تفری پھیل جائے گی۔ اور اس سے عالمی دہشت گردی کا دور دورہ پھر سے شروع ہو جائے گا۔یہ سارا جھوٹ ان کی جانب سے پھیلایا جا رہا ہے جن کے ہاتھ خود دہشت گردی کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی کے یہ خود ذ مہ دار رہے ہیں۔ آج اگر افغانستان کی عوام اپنے لئے "امارتِ اسلامیہ "کا انتخاب کر تی ہے تو ان کا یہ اقدام دیگر ممالک اور قوموں کے لئے کیوں پریشانی کا باعث بن گیا ہے۔ اکیسویں صدی کے اس دور میں جہاں ہر ملک کے شہریوں کو اپنی پسند کی حکومت بنانے کی آ زادی حاصل ہے تو پھر افغانیوں کو ان کے حق سے کیوں محروم کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دنیا کو انتظار کر نا چاہئے کہ طالبان افغانستان میں امن کو بحال رکھنے اور انسانی حقوق کے تحفظ میں کہاں تک کا میاب ہوتے ہیں۔ وقت سے پہلے ہی انہیں بدنام کر نا اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں ابلیسی طاقتیں اپنے مشن پر لگی ہوئی ہیں۔ وہ اسلام کے نام پر ہر گز کسی کا میابی کو برداشت کر نے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان ظالم طاقتوں پر یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اسلام کی کرنوں سے جو ضوفشانی پوری دنیا میں پھیلے گی اس سے
باطل طاقتوں کی وہ شکستِ فاش ہوگی کہ وہ پھر کبھی دنیا میں اپنا تسلط قائم نہ کر سکیں گے۔ اسی لئے طالبان کی کا میابی سے یہ طاقتیں حیران و پریشان ہو گئیں ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ :
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔
—-

ڈاکٹر اسلام الدیم مجاہد
Share
Share
Share