ادب ِ اطفال میں حب الوطنی :- ڈاکٹر صفیہ بانو۔ اے۔ شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

ادب ِ اطفال میں حب الوطنی

ڈاکٹر صفیہ بانو۔ اے۔ شیخ

حب الوطنی پر دنیا کی ہر زبان میں لٹریچر ملتا ہے۔ہندوستان کی سبھی زبانوں پر اردو کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ حب الوطنی سے متعلق عالمی معیار کے ادب کی حامل ہے۔ ہندوستان کی سبھی اقوام میں حب الوطنی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔قدیم زمانے میں وطن پرستی کی داستانوں میں یونان کا نام سر فہرست تھا۔

یونان کے دو بڑے شہر (Athens) ایتھنز اور (Sparta) سپارٹا عالمی شہرت رکھتے تھے۔ اُس زمانے میں اگر کوئی بچہ (Athens) ایتھنز میں پیدا ہوتا، تو اُسے سات سال کی عمر میں اسکول میں داخل کر دیا جاتا تھا۔شہر (Sparta) سپارٹا میں اگر کوئی بچہ پیدا ہوتا، تو اُسے سب سے پہلے فوجی بننے کی تعلیم دی جاتی تھی اور ہر نوجوان کو اٹھارہ سال کی عمر ہونے پر (Athens) ایتھنز کی دیوی کے سامنے ملک سے وفاداری کا حلف اٹھانا پڑتا تھا۔
پرانے زمانے سے لے کر آج تک اردو میں مشاعرے کی روایت جاری و ساری ہے مشاعروں میں سنجیدہ اور مزاحیہ ،تنقیدی اور تفریحی، معیاری اور غیر معیاری، ادبی،نیم ادنی اور غیر ادبی منظومات پیش کی جاتی رہی ہیں۔بڑے بڑے مدارس اور جامعات کی جانب سے نیز مختلف ادبی اور غیر ادبی اداروں کی جانب سے وقتاً فوقتاً مختلف موضوعات پر سیمینار، مذاکرے، مناظرے، خطبات، مباحثے وغیرہ منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ان سب میں ادب اطفال کہیں پر بھی نظر نہیں آتا۔ہمارے بچوں کے لیے ادبی رسائل بھی بہت کم ہیں۔ International Children’s Library امریکہ جیسے ملکوں میں ایک حقیقت ہے،جس کاہم نے اب تک خواب بھی نہیں دیکھا ہے۔مختصر یہ کہ ہمارے پاس ادب اطفال تو ہے لیکن اس کی صورت حال نہایت ہی خستہ ہے۔یہ بڑی شرم ناک اور افسوس ناک کیفیت ہے۔ ادب اطفال کا بنیادی مقصد بچے کی ہمہ گیر ترقی میں زبان و ادب کی اہمیت اور افادیت کو واضح کرنا ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے کھلونا، غنچہ، نونہال،شیریں، نور،ہلال،بچوں کا ڈائجسٹ اور پیام تعلیم جیسے رسائل نکلتے تھے۔ آج بھی بچوں کی دنیا، امنگ، پیام تعلیم، گُل بوٹے، گلشن اطفال، اچھا ساتھی، صدائے اطفال، فنکار نو، بچوں کا تحفہ جیسے رسائل نکلتے ہیں۔ رسائل کے علاوہ اردو اخبارات میں بچوں کے کالم شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ہمارا ملک بھارت ایک جمہوری ملک ہے۔15 /اگست 1947 سے پہلے ہم انگریزوں کے غلام تھے۔ انگریزوں کے ظلم و ستم اس قدر بڑھتے گئے کہ ہندوستانیوں کی رگِ حمیت پھڑک اٹھی۔گنگا جمنی تہذیب نے ملک کے تمام لوگوں کو گاندھی جی،خان عبدالغفار خان، سبھاش چندر بوس، مولانا محمد علی جوہر،مولانا حسرت موہانی، پنڈت جواہر لال نہرو، مولاناابواکلام آزاد،ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر، رفیع احمد قدوائی، سردار ولبھ بھائی پٹیل جیسے رہنماؤں کی قیادت میں بالاآخر آزادی حاصل کر لی۔حب الوطنی کاجذبہ وہ کام کر گیا،جس کے نتائج میں آج ہم آزادی اور جمہوریت دونوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ہمارے ماہرین تعلیم نے تعلیمی نصاب میں حب الوطنی سے متعلق نظموں اور اسباق کو درسی کتابوں میں شامل کرنے کو واجب قرار دیا۔ ہر ملک کا اپنا ایک قومی ترانہ ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کا موجودہ قومی ترانہ ’جن گن من……………!“ ضرور ہے لیکن علامہ اقبال کے ترانۂ ہندی کو آج بھی وہ اعلیٰ مقام حاصل ہے کہ تمام ہندوستانی شہری، ہندوستانی افواج، (برّی، بحری فضائی) اِسے دِلی رغبت و میلان کے ساتھ جوش و خروش سے فخریہ انداز میں گاتے ہیں۔کیوں نہ ہم بھی گائیں:
؎ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ھمارا ، وہ پاسباں ہمارا
گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں
گلشن ہے جن کے دم سے رشکِ جناں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا “
( نظم: ترانۂ ہندی، بانگ ِدرا (مجموعہ کلام اردو مرتّبہ مصنف) از اقبال ، اشاعت : 1993ء، مکتبہ جمانعہ لمیٹیڈ، جامعہ نگر، نئی دہلی۔ صفحہ نمبر : 81 )

اقبال ؔ کے اس ترانے سے متاثر ہو کر کئی شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں حب الوطنی کے گیت لکھے ہوں گے،لیکن آپ کے سامنے اس ترانے کو ذکر کرتے ہوئے آزادی کے تعلق سے ایک فی البدیہہ شعر میں آپ سب لوگوں کی نذر کرتی ہوں:
؎ جب ہوئے آزاد ہم، تب ہوا محسوس یہ
ہر کوئی آزاد ہے، آزاد ہے، آزاد ہے
ہمارے ملک کو آزاد ہوئے ستّر (70)سے زیادہ سال ہوچکے ہیں۔اس دوران فرقہ پرست طاقتیں نام نہاد قوم پرستی کے نام پر گنگا جمنی تہذیب کا شیرازہ بکھیرنے پر آمادہ رہی ہیں۔تعصب اور قومی منافرت جو قومی یکجہتی کے لیے قاتل زہر ہیں، بڑھانے کی پُر زور کوششیں کرتی رہی ہیں۔جس حب الوطنی اور یگانگت کے بل بوتے پر ہمارا ملک آزاد ہوا تھا اُسے در کنار کرکے ملک کا نظم و نسق بگاڑنے کی ناکام کوششیں جاری و ساری ہیں۔لہٰذا ادب اطفال میں حب الوطنی کی اہمیت مدد نظر رکھ کر ملک کی تمام زبانوں میں اجتماعی اور انفرادی سیمینار اور اجلاس منعقد ہونے چاہییں۔ درسی نصاب میں حب الوطنی کو برائے نام شامل کرنے کے بجائے طلبا میں حب الوطنی حقیقی معنیٰ میں پیدا ہو،ایسے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ آج پوری دنیا ٹکنالوجی کی گرفت میں آچکی ہے بچوں کا ادب بھی جدید ٹکنالوجی سے مزیّن ہوتا جارہا ہے۔ لوگوں میں وطن پرستی کا جذبہ ابھارنے کے بجائے حب الوطنی کے نام پر قوم پرستی کے جذبے کو اُبھاراجا رہا ہے۔ جو نہ صرف غلط ہے بلکہ بڑا ہی خطر ناک کام ہے۔
جس طرح آزادی حاصل کرنے کے لیے انقلابی نعروں اور تحریکوں کو بروئے کار لایا گیا۔ آ ج بھی انھیں جتن کرنے کی ضرورت ہے۔مہنگائی، بے روز گاری،افلاس اور غریبی جیسے عناصر نے ملک کی غریب عوام کے بچوں کو لازمی تعلیم حاصل کرنے سے باز رکھنا شروع کر دیا ہے۔2011ء؁کے ایک سروے کے مطابق ملک میں خواندگی کی شرح ستّرفیصد (%70) تھی۔مطلب یہ کہ آزادی کے چوسٹھ 64 سال گزرنے کے باوجود تیس فیصد(%30) عوام اَن پڑھ ہے۔وطن پرستی کو برقرار رکھنے کے لیے شاعروں نے ایسی نظمیں لکھیں جو دنیا کا رُخ بدلنے دینے کی طاقت رکھتی ہیں۔ لوگوں میں حب الوطنی کا جذبہ قائم رہے اس غرض سے ہمارے شاعروں اس موضوع پرکئی خوبصورت نظمیں لکھی ہیں۔ جاں نثار اختر ؔ کی نظم ’ہم ایک ہیں‘ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
؎ یہ وقت کھونے کا نہیں ۔ یہ وقت سونے کا نہیں
جاگو وطن خطرے میں ہے ۔ سارا چمن خطرے میں ہیں
پھولوں کے چہرے زرد ہیں ۔ زلفیں فضا کی گرد ہیں
امڈا ہوا طوفان ہے ۔ نرغے میں ہندوستان ہے
دشمن سے نفرت فرض ہے ۔ گھر کی حفاظت فرض ہے
بے دار ہو بے دار ہو ۔ آمادۂ پیکار ہو
آواز دو ہم ایک ہیں “
( ہندوستان ہمارا (اردو زبان کی قومی نظموں کا انتخاب) جلد دوم، از (مرتب) جاں نثار اختر ؔ ، اشاعت: 1974ء، جمال پرنٹنگ پریس دہلی، صفحہ نمبر: 352)

جاں نثار اختر ؔ کی یہ نظم دور حاضر کے تناظر میں دیکھنے پرہمیں پتہ چلتا ہے کہ ٹکنالوجی کے سبب دنیا ہر لمحہ بدل رہی ہے۔اس تبدیلی کے باعث ہمارے رشتے، ہماری تہذیبی قدریں، ہماری سوچیں، ہمارے طور طریقے،ہمارا رہن سہن، سب کچھ بدلتا جارہا ہے۔ آن لائن کے جہاں کچھ فائدے ہیں وہی اس سے جڑے کئی مسائل بھی ہیں۔بچے بہت معصوم ہوتے ہیں۔وہ اپنے اطراف ہو رہی تبدیلوں کو محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں ہر سال یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے جشن دن منائے جاتے ہیں۔ کئی قسم کے مختلف پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ملک کی آزادی کی یادیں گیتوں،نغموں،ڈراموں،اورکہانیوں کے ذریعے تازہ کی جاتی ہیں۔ اردو ادب اطفال کے خزانے میں کئی قومی گیت،قومی ترانے، اور قومی نظمیں ایسی ہیں جنہیں طلبا موسیقی کے ساتھ ڈرامائی انداز میں گا کر لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں حا مد اللہ افسرؔ میرٹھی کی لکھی یہ نظم ’وطن کا راگ‘ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
؎ بھارت پیارا دیش ہمارا سب دیشوں سے نیارا ہے
ہر رت ہر موسم اس کا کیسا پیار ا پیارا ہے
کیسا سہانا ، کیسا سندر پیارا دیش ہمارا ہے
دُکھ میں سُکھ میں ہر حالت میں بھارت دل کا سہارا ہے “
( آزادی کے ترانے (برطانوی حکومت کے ضبط شدہ ادبیات سے) از (مرتب) ڈاکٹر راجیش کمار پرتی، اشاعت: 1986ء، ناشر: نیشنل آرکائیوز آف انڈیا جن پتھ۔نئی دہلی۔ صفحہ نمبر :77)
پنڈت برج نرائن چکبستؔ اردو کے واحد ایسے شاعر نے ہے جنہوں نے سب سے زیادہ قومی نظمیں لکھیں۔ اُن کی نظمیں ادب اطفال کے ذریعے حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرنے میں بڑی موئثر ثابت ہوئی ہیں۔ ان کی مشہور نظم ’ہمارا وطن دل سے پیارا وطن‘ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
؎ یہ ہندوستان ہے ہمارا وطن ۔ محبت کی آنکھوں کا تارا وطن
ہمارا وطن دل سے پیارا وطن
اسی سے اس زندگی کی بہار ۔ وطن کی محبّت ہو یا ماں کا پیار
ہمارا وطن دل سے پیارا وطن
( انتخاب منظومات۔ برج نرائن چکبست از (مرتب) کشور آرا ، اشاعت: 1989ء،اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ، صفحہ نمبر : 58)

بچہ کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہے۔ ماں کی تعلیم و تربیت بچوں کی زندگی میں اپنی انمٹ چھاپ چھوڑ جاتی ہے۔ وطن کو لوگ جنم بھومی بھی کہتے ہے لہٰذا جس طرح ماں سے محبت کا جذبہ سچا ہوتا ہے اپنے وطن سے محبت کا جذبہ بھی اُسی نوعیت کا ہونا چاہیے۔ چکبست ؔ کی نظم کے مذکورہ بالا اشعار میں وطن سے محبت کو،ماں کے پیار کی مانند بتایاگیا ہے۔بچے فرشتوں کی طرح معصوم ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی ماں سے فطری گہرا لگاؤ ہوتا ہے۔وطن سے بھی وہ اسی طرح محبت کرنے لگیں۔
بچوں کے لیے لکھنے والے شاعر یا ادیب اپنی تحریروں سے بچوں کے من جیت لیں،تو یہ ان کے لیے بہت بڑی کامیابی تصور کی جاتی ہے۔ حب الوطنی پر اردو کے بے شمار شاعروں نے نظمیں اور گیت لکھے ہیں۔ گجرات کے شاعر ’اختر حسین اخترؔ کے لکھے ’جھنڈا گیت‘ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
” سب سے دلکش سب سے پیارا
جھنڈا اونچا رہے ہمارا
ہندو، مسلم، سِکھ ، عیسائی
آپس میں ہیں بھائی بھائی
کیسا جھگڑا ؟ کیسی لڑائی؟
سب کا ہے جب ایک سہارا
جھنڈا اونچا رہے ہمارا “

( سخن کا سفر از اختر حسین اختر ؔ ، اشاعت: 26 جنوری 2003ء، مطبع: آئی۔ایس۔بی ڈجیٹل مع نیشنل آفسٹ، دُودیشور۔ صفحہ نمبر: 26)

وطن کی محبت کا تقاضا ہے کہ وطن کا پرچم وطن پرستوں کی نظر میں سب سے دلکش ہو، سب سے پیارا ہو،اور سب سے اونچا ہو۔ وطن میں ہندو، مسلم، سیکھ،عیسائی جیسے مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے ہوں،تو ان کے درمیان لڑائی جھگڑے نہیں ہونے چاہیے۔ یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسے جان بچانے کا ایک ہی سہارا ہو،تو اتحاد اور اتفاق ہی سے (آپسی لڑائی جھگڑے بھول کر) جان بچائی جاسکتی ہے۔
شعری ادب کی طرح اردو کے نثر ی ادب میں بھی حب الوطنی سے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ اس میں ادب اطفال بھی شامل ہے۔اکثر بیشتر گھروں میں نانی،دادی، دادا، دادی سے ہم قصّے کہانیاں سُنتے ہیں اور بعض مرتبہ بچوں کو کہانیوں میں زندگی بھر کا سبق مل جاتا ہے۔ جس طرح بچہ پیدا ہونے کے بعد ماں کی لوریوں کو سُنتے ہی وہ فوراً سوجاتا ہے، اسی طرح بچہ جب بڑھنے لگتا ہے،تو رشتوں کو پہچاننے اور سمجھنے لگتا ہے۔ کہانیاں ان کی زندگی میں نئی راہیں ہموار کرتی ہیں۔ رتن سنگھ کاافسانہ ’نیا سویرا‘ نانی کے ذریعے سنائی گئی راجا بکرمادت کی کہانی ہے۔ بکرمادت اپنی پرجا کا بہت خیال کرتا ہے، اسی لیے وہ ایک اچھا اور نیک راجاکہلاتا ہے اور اسی بنیاد پر ان بتّیس پتلیوں کو وانی یعنی آواز مل جاتی ہے۔مصنف بچوں کویہ بتانا چاہتا ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری یعنی Democracy ملک ہے۔ یہاں انتخاب (چناؤ: Election) کے ذریعے نمائندے چُنے جاتے ہیں۔ یہ نمائندے گرام پنچایتوں، میونسپلٹیوں،ریاستی اسمبلیوں،پارلیمان میں پہنچ کر اپنے عہدے اور ذمہ داریوں کا حلف اٹھاتے ہیں۔ سچائی اور ایمانداری سے اپنے فرائض نبھانے میں ان میں سے کتنے کامیاب رہتے ہیں اس بات سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں۔راجا بکرمادت کے دربار میں ایک لوک کلاکار آتا ہے بتیس پتلیاں دے کر کہتا ہے:
” اے راجن! یہ پتلیاں آپ کو یاد دلاتی رہیں گی کہ اپنی پرجا کے لیے آپ کی کیا ذمہ داری ہے۔ کیونکہ
دراصل آپ کی پرجا کی آشاؤں، امیدوں اور خواہشوں کی پرتیک ہیں۔ تمہارے شاسن کال میں جیسے
جیسے یہ آشائیں پوری ہوتی جائیں گی، ویسے ویسے اُن پتلیوں کو وانی ملتی جائے گی اور اگر یہ پوری نہ
ہوئیں تو یہ پتلیاں گونگی ہی رہیں گی۔ “
( پناہ گاہ (افسانے) از رتن سنگھ ، اشاعت: 2000ء، تقسیم کار: مورڈن پبلشنگ ہاؤس دہلی، صفحہ نمبر: 212)

ایک دن راجا بکرمادت کے شکار پر نہ جا کر تخت پر بیٹھتے ہی پہلی پتلی کو آواز مل جاتی ہے اور وہ یوں گویا ہوتی ہے:
” اے راجن! جس طرح تم نے اپنے راجیہ میں چھوٹے چھوٹے جیو جنتوؤں کی بات مان کر ان کی
حفاظت کی ہے، اس کی کہانی میں تمہارے دیش کی آنے والی نسلوں کو ہمیشہ سناتی رہوں گی۔ “
( پناہ گاہ (افسانے) از رتن سنگھ ، اشاعت: 2000ء، تقسیم کار: مورڈن پبلشنگ ہاؤس دہلی، صفحہ نمبر: 213)

ایسا کہا جاتا ہے کہ راجا بکرمادت نے اپنے پچاس سالہ دورِ حکومت میں اپنے ملک کی رِعایا کی اس قدر سیوا کی بتیسوں بتیس پتلیاں زندہ ہوگئیں اور انہیں نطق مل گیا۔کہانی سننے والا ایک بچہ نانی سے پوچھ بیٹھتا ہے:
”نانی! اب بھی تو ہمارے دیش میں آزادی آئے پچاس سال پورے ہو رہے ہیں۔ تو کیا اب
میری گونگی بہن کو بھی وانی مل جائے گی؟ کیا وہ بھی بولنے لگے گی؟
’بولنے کی لگے گی۔ضرور بولنے لگے گی۔“ ( پناہ گاہ (افسانے) از رتن سنگھ ، اشاعت: 2000ء، تقسیم کار: مورڈن پبلشنگ ہاؤس دہلی، صفحہ نمبر: 213)
افسانہ نگار رتن سنگھ نے اپنی اس کہانی کو جو جمہوری اقداروں کی پاسدار ہے’نیا سویرا‘ نام دیا ہے۔ اس کہانی میں آزادی کے بعد کے ایک ایسے ہندوستان کاتصور پیش کیا گیا ہے، جس کی آزادی،جمہوریت اور سا لمیت اُس کی عوام کے ذریعے منتخب نمائندوں کے ذریعے کیے جانے والے عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں میں پوشیدہ ہے۔
دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو آپس میں اتحاد اور اتفاق رکھتی ہو ں۔ہمارا ملک ہندوستان گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ ہے۔ یہاں سبھی مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے اتحاد اور اتفاق سے رہتے ہیں۔’کہانیاں آفتاب حسنین کی ‘ بچوں کے لیے آفتاب حسنین کی 27 طبع زاد کہانیوں کا مجموعہ ہے۔بمبئی کے مالیگاؤں سے 2009 ء میں شائع ہونے والے اس مجموعہ کی ایک کہانی کا نام ہے ’اتحاد ایک طاقت ہے‘۔ یہ ایک گاؤں کی کہانی ہے جہاں کے لوگ آپس میں اتحاد اور اتفاق سے نہیں رہتے۔اس بات کا چوروں کو پتہ لگ جاتا ہے۔ وہ پلان بنا کر ایک رات گاؤں پر دھاوا بولتے ہیں۔وہ سارے گاؤں والوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر،مال و اسباب لوٹ کر فرار ہوجاتے ہیں۔ دوسرے دن صبح پڑوس کے گاؤں والوں کو پتہ چلتا ہے تو وہ آکر ان کے ہاتھ پاؤں کھول دیتے ہیں پڑوس کے گاؤں کا ایک بزرگ افسوس کے ساتھ مخاطب ہو کر کہتا ہے:
” کتنے افسوس کا مقام ہے کہ تھوڑے سے لوگ اتنے بڑے گاؤں میں آکر سب کو مجبور و بے بس
کر کے گاؤں کے تمام گھروں کو لُوٹ لے جائیں! یہ محض اس لیے ہوا کہ تم سب بھائیوں کی
مل جل کر رہنے کی بجائے ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے اور حسد کرتے رہتے ہوں ورنہ
کیا مجال ہے کہ کوئی آنکھ اٹھا کر بھی گاؤں کی طرف دیکھ لے۔ “
(کہانیاں آفتاب حسنین کی ازآفتاب حسنین ، اشاعت: 2009ء، ناشر: رحمانی پبلکیشنز، اسلام پورا مالیگاؤں (ناسک)، صفحہ نمبر : 36 )

اتحاد اور اتفاق (Integration) حب الوطنی کا لاینفک جزوہے۔ جب یہ جذبہ پروان چڑھ کر قومی اتحاد یعنی
National Integration کی شکل اختیار کرلیتا ہے تب حب الوطنی اپنی معراج کو پہنچتی ہے۔لہٰذا ادب اطفال میں ایسی نظمیں اور اسباق شامل کیے جانے چاہیے جن سے طلبا میں اتحاد اور اتفاق کا جذبہ پیدا ہو نیز وہ اس کی اہمیت اور افادیت سے بھی واقف ہوں۔بچے قوم کا قیمتی سرمایاہیں۔ حب الوطنی کے جذبے سے انہیں سرشار کرناہم سب کی ذمہ داری ہیں۔
—-
Dr. SufiyaBanu.A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676,6354980992

Share
Share
Share