زبان کی تدریس اور عام ملحوظات :- محمد قمر سلیم

Share
محمد قمر سلیم

زبان کی تدریس اور عام ملحوظات

محمد قمر سلیم
موبائل ۔ 9322645061

تدریس ایک پیچیدہ اور کثیر رکنی عمل ہے۔ اس عمل میں ایک استاد جانے انجانے میں نہ جانے کتنے مراحل سے گذر تا ہے۔ عام طور سے استاد جن مراحل سے گذرتا ہے ان میں تمہید، سوالات و جوابات، وضاحت، مثالوں کے ذریعے متن کی وضاحت، تختہئ سیاہ یا اسمارٹ بورڈ کا استعمال، زبانی و جسمانی حرکات و سکنات، لب و لہجہ، آواز کا اتار چڑھاؤ وغیرہ شامل ہیں۔

تدریسی عمل کے ان اہم مراحل کوجاننے کے با وجودیہ بات یقینی طور پر نہیں کہی جا سکتی ہے کہ وہ ایک کامیاب استاد ہے۔ یہ مسئلہ زبان کے استاد کے لیے اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے کیوں کہ دوسرے مضامین کے مقابلے میں زبان کی تدریس مشکل ہے۔ زبان کے استاد کو نہ صرف زبان کی تمام اصناف کا پختہ علم ہونا ضروری ہے بلکہ اسے اپنی زبان، لب و لہجہ، تلفظ، الفاظ اور جملوں کی ادائیگی اور زبان کے اتار چڑھاؤ پر بھی عبور حاصل ہونا چاہیے۔
تدریس کو موثر بنانے کے لیے استاد کو طریقہئ تدریس میں نیا پن لانا چاہیے۔ طریقہئ تدریس استاد کے تدریسی پروگرام کا نام ہے جس میں وہ متن کو اپنے انداز میں پیش کرتا ہے۔ اس میں جماعت کی تمام کارکردگیاں، لمحہ بہ لمحہ تدریسی عمل، استاد اور طالب علم کا رول شامل ہے۔ طریقہئ تدریس کے ذریعے ہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کیا اور کیسے پڑھایا جائے یعنی متن کا انتخاب کرنا، پھر اس کے معنی اور مفہوم کو کس طرح پیش کیا جائے اور اعادہ کس طرح کیا جائے۔اس کے طریقہئ تدریس میں متن کا انتخاب، ترتیب، پیشکش اور اعادہ شامل ہیں۔ جہاں تک متن کا تعلق ہے استاد کو انتخاب میں زیادہ آزادی حاصل نہیں ہے کیوں کہ کسی بھی د رجے یا سطح کے لیے متن کا انتخاب درسیات تیا ر کرنے والی کمیٹیوں کے اختیارات میں آتا ہے۔ استادتیار کیے گئے متن کا انتخاب اپنی مرضی کے مطابق کر سکتا ہے حالانکہ یہاں بھی اس کو زیادہ آزادی حاصل نہیں ہے۔پھر بھی استاد کو کوشش کرنا چاہیے کہ طالب علم کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرے۔اس کے لیے اسے مختلف تدریسیاتی طریقوں کا استعمال کرنا چاہیے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں اطلاعاتی اور ترسیلی تکنیک اور ڈیجیٹل تکنیک کی وجہ سے علم جہاں تیزی سے بڑھ رہا ہے وہیں اس میں تیزی سے تبدیلی بھی ہو رہی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ تعلیمی نظام نہ صرف لچیلا ہو بلکہ محرک بھی ہوجس میں استاد اور طالب علم کو آزادی فراہم کی جائے۔یہاں آزادی سے مراد یہ ہے کہ استاد وقت، موقع اورحالات کو دیکھتے ہوئے متن کا انتخاب کرے اور طریقہئ تدریس کا استعمال کرے۔طالب علم کی آزادی سے مراد ہے کہ درس و تدریس کے عمل میں اسے اہمیت دی جائے اور اس کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔
تدریس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ استاد کو تما م اصناف، مصنفین اورشعرا کے بارے میں تفصیلی معلومات رکھنا چاہیے اور متن پر عبور حاصل ہونا چاہیے۔استاد تدریس سے پہلے متن کی اچھی طرح تیاری کرے اور طے کرے کہ اسے تدریس کے کون کون سے طریقے استعمال کرنا ہیں۔
ذیل میں مختلف اصناف سے متعلق سبق کے کچھ عام و خاص مقاصد اور اہم اقدامات،کو کس طرح لکھا جائے گا، کا ذکر کیا گیا ہے۔
عام و خاص مقاصد:
دنیا کی دوسری زبانوں کی طرح بنیادی طور پر اردو کے بھی چار مقاصدسننا، بولنا، پڑھنا، لکھنا ہیں۔ہر زبان کی طرح اردو زبان کی تدریس کے مقاصد بھی مختلف اصناف کے مطابق ہی طے کیے جاتے ہیں۔جب زبان کی تدریس ہوتی ہے تو صنف کے مطابق مقاصدبھی بدل جاتے ہیں۔ نثر کی تدریس کے دو اہم مقاصد افہامِ مطالب (Comprehension) اور اظہار مافی الضمیر (Expression) ہیں۔ نظم کی تدریس میں ان دو مقاصد کے علاوہ استحسان(Appreciation) بھی شامل ہے۔ انشا کے مقاصد میں افہام مطالب اور اظہار مافی الضمیرکے علاوہ اطلاق (Application)بھی اہم ہے۔ قواعد کی تدریس میں علم (Knowledge)، فہم (Understanding)اور اطلاق اہم ہیں۔مقاصد کی یہ درجہ بندی وسیع طور پر ہے اب سوال یہ ہے کہ ان مقاصد کو کس طرح لکھا جائے۔ استاد کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جتنے واضح مقاصد ہوں گے اور جتنا واضح طور پر ان کو لکھا جائے گا، تدریس کی کامیابی کے آثار اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔
افہامِ مطالب:
افہام مطالب سے مراد یہ ہے کہ نثر، نظم اور انشا کے متن کا مفہوم واضح کرنا یا اس کی تفیہم کرنا۔ مفہوم سے مراد یہ ہرگز نہیں ہے کہ صرف عبارت یا متن کی ظاہری خوبیوں، نئے یا مشکل الفاظ کے معنی اور مطلب بیان کرنا بلکہ اس عبارت یا متن میں پوشیدہ مفہوم کو واضح کرنابھی شامل ہے۔یہاں چند بنیادی جملے دیے جا رہے ہیں جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ مفہوم میں کن کن باتوں کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
جیسے طالب علم: تعریف بتاتا ہے۔ بیان کرتا ہے۔پہچانتا ہے۔ فہرست بناتا ہے۔ خاکہ کھینچتا ہے۔امتیاز کرتا ہے۔ واضح کرتا ہے۔ وضاحت کرتا ہے۔ مثالیں دیتا ہے۔ تعلق بتاتا ہے۔ خلاصہ کرتا ہے۔ عبارت کا مفہوم بتاتا ہے۔ موازنہ کرتا ہے۔ فرق بتاتا ہے۔ تجزیہ کرتا ہے۔ نتائج اخذ کرتا ہے۔ تشریح کرتا ہے۔ کلیہ کرتاہے۔ درجہ بندی کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اظہار مافی ا لضمیر:
مفہوم واضح ہونے کے بعد طالب علم اپنی فہم کے مطابق اپنے الفاظ میں متن کا مفہوم واضح کرتاہے۔مفہوم کو وہ زبانی یا تحریری طور پر واضح کر سکتا ہے۔ مندرجہ ذیل جملوں کی مدد سے اس کے اظہار میں کیا کیا باتیں شامل ہو سکتی ہیں اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جیسیطالب علم: اپنے لفظوں میں سوال کرتا ہے ا ور جواب دیتا ہے۔ نئے الفاظ اور نئے جز و جملہ کے ساتھ جملے بناتا ہے۔ صحیح تلفظ اور لب و لہجہ کے ساتھ پڑھتا ہے۔ صحیح قواعد کا استعمال کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ رموزِاوقاف، ہجّے اور نئی فرہنگ کے ساتھ جملے یا عبارت لکھتا ہے۔یہ ہمیں ذہن نشیں کر نا چاہیے کہ استاد کو اِن ہی باتوں پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ استاد اپنے منصوبے کے مطابق اور بھی باتوں کو شامل کر سکتا ہے۔
استحسان:
تحسین یا استحسان نظم کی خصوصیت ہے۔ نظم میں افہامِ مطالب اور مافی الضمیرکے مقاصد کے علاوہ استحسان بھی ایک اہم مقصد ہے یعنی استاد کو نظم کی تدریس کرتے وقت اس کے استحسانی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ تدریس کرتے وقت طلبا میں نظم سے محظوظ ہونے کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا چاہیے۔مندرجہ ذیل جملے نظم کے استحسان میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔جیسے طالب علم: مقفیٰ الفاظ چنتا ہے۔ نظم کی بحر سے محظوظ ہوتا ہے۔ نظم کے حسن کو محسوس کرتا ہے۔ نظم کی بحر و وزن کا تجزیہ کرتا ہے۔ شاعرانہ تخیّلات کا تجزیہ کرتا ہے۔ صنائع و بدائع کا تجزیہ کرتا ہے۔
علم:
یہاں علم سے مراد جانکاری سے ہے۔قواعد پڑھاتے وقت استاد کو علم کے مقصد کو مد نظر رکھنا چاہیے۔اس مقصد کے تحت استاد زبان کے قواعدکی جانکاری دیتا ہے۔جہاں نثر میں مفہوم کو سمجھا جاتا ہے وہیں قواعد میں کسی بھی قاعدے کی جانکاری حاصل کی جاتی ہے۔ اس جانکاری کی بنیاد پر ہی طالب علم قواعد کو مختلف طرح سے واضح کرتا ہے۔اس میں طالب علم قواعد: کی تعریف بتاتا ہے۔پہچانتا ہے۔ اصول بتاتا ہے۔مثالیں دیتا ہے۔
فہم:
قواعد سے متعلق جانکاری حاصل کرنے کے بعد طالب علم اپنی فہم کے مطابق قواعد کو واضح کرتا ہے یا بیان کرتا ہے۔ قواعد کے بارے میں معلومات دیتا ہے۔اس میں طالب علم قواعد: بیان کرتا ہے۔ موازنہ کرتا ہے۔ فرق بتاتا ہے۔ تجزیہ کرتا ہے۔ کلیہ کرتا ہے۔ تعلق بتاتا ہے۔ نتیجہ اخذ کرتا ہے۔
اطلاق:
حاصل کی گئی جانکاری کی بنا پر طالب علم قواعد کو سمجھتا ہے۔ پھر وہ سمجھ کر اس جانکاری کا اطلاق مختلف جگہوں اور مواقعوں پر کرتا ہے۔اطلا ق کرنے میں طالب علم: مشق حل کرتا ہے۔ مشابہ اور غیر مشابہ حالات میں فرق واضح کرتا ہے۔ قواعد اور انشا کے اصولوں کو مشابہ اور غیر مشابہ صورتوں میں استعمال کرتاہے۔
مقاصد:
یہاں نثر، نظم، انشا اور قواعد کے کچھ مقاصد دیے جا رہے ہیں جو استاد کو مزید مقاصد طے کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔
نثر:نثر کا سبق تیار کرتے وقت استاد کو مندرجہ ذیل مقاصدکو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
افہام ِ مطالب
۱۔طالب علم متضاد اور مترادف الفاظ سمجھتا ہے۔
۲۔طالب علم مصنف کے خیالات کو واضح کرتا ہے۔
۳۔طالب علم سبق کا مرکزی خیال کو واضح کرتا ہے۔
۴۔طالب علم کہانی کا اخلاقیات سے تعلق پیدا کرتا ہے۔
۵۔طالب علم صحیح ترتیب سے سبق میں آنے والے خیالات کو پیش کرتا ہے۔
اظہار مافی ا لضمیر
۱۔طالب علم صحیح تلفظ اور لب و لہجہ اور رموزِاوقاف کے ساتھ سبق پڑھتا ہے۔
۲۔طالب علم اپنے جملوں میں نئے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔
۳۔اپنے جملوں میں سوالوں کے جواب دیتاہے۔
۴۔منطقی طور پر سبق میں آنے والے خیالات و تصورات کے تعلق کو بیان کرتا ہے۔
نظم:نظم یا غزل کا منصوبہ تیار کرنے سے پہلے درجِ ذیل مقاصد کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔
افہامِ مطالب
۱۔طالب علم نظم کے مرکزی خیال سے ربط پیدا کرتا ہے۔
۲۔طالب علم نئے الفاظ کے معنی اخذ کرتا ہے۔
۳۔طالب علم اشعار کے مفہوم کو واضح کرتا ہے۔
اظہار مافی ا لضمیر
۱۔طالب علم صحیح لب و لہجہ، تلفظ اور رموزِاوقاف کے ساتھ نظم پڑھتا ہے۔
۲۔طالب علم نظم کے مرکزی خیال سے متعلق سوالوں کے جواب دیتا ہے۔
۳۔طالب علم اشعار کی تشریح کرتا ہے۔
استحسان
۱۔طالب علم نظم میں ہم وزن مصرعوں کی غنائیت سے محظوظ ہوتا ہے۔
۲۔طالب علم صنائع و بدائع کی نشاندہی کرتا ہے۔
۳۔طالب علم نظم سے محظوظ ہوتا ہے۔
انشا: انشا کا منصوبہ بناتے وقت درجِ ذیل مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
افہامِ مطالب
۱۔طالب علم عبارت کے خیالات کو دہراتا ہے۔
۲۔طالب علم اہم نکات کے ذریعے کہانی بناتا ہے۔
۳۔طالب علم تصورات، خیالات اور عنوان سے متعلق معنی کی وضاحت کرتا ہے۔
اظہار مافی ا لضمیر
۱۔طالب علم اپنے لفظوں میں خیالات، واقعات اورحقیقت میں صحیح ترتیب سے ربط پیدا کرتا ہے۔
۲۔طالب علم کہانی کے عنوان کی موزونیت کا تجزیہ کرتاہے۔
۳۔طالب علم اپنے لفظوں میں کہانی لکھتا ہے۔
۴۔طالب علم اپنے لفظوں میں مضمون لکھتا ہے۔
۵۔طالب علم اپنے لفظوں میں خط لکھتا ہے۔
قواعد:قواعد کا منصوبہ تیار کرتے وقت مندرجہ ذیل مقاصد کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔
علم
۱۔طالب علم قواعدٍ کی تعریف دہراتا ہے۔
۲۔طالب علم جملوں میں قواعد کی نشاندہی کرتا ہے۔
۳۔طالب علم قواعد کے مختلف اصولوں کو دہراتا ہے۔
فہم
۱۔طالب علم اپنی فہم کے مطابق اسم، صفت، فعل وغیرہ کی تعریفیں بیان کرتا ہے۔
۲۔طالب علم اسم، صفت، فعل وغیرہ کو سمجھ کر ان کی مثالیں پیش کرتا ہے۔
۳۔طالب علم قواعد کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔
اطلاق
۱۔طالب علم صحیح لفظ کا استعمال کرتے ہوئے خالی جگہوں کو پر کرتا ہے۔
۲۔طالب علم جملوں میں مختلف صرف و نحوکی قسموں کو پہچانتا ہے۔
۳۔طالب علم ماضی اور حال میں جملوں کو تبدیل کرتا ہے۔
اسباق کی قسمیں:
اسباق کی قسموں سے مراد یہ ہے پڑھایا جانے والا سبق کس نوعیت کا ہے یعنی مصنف نے اس سبق کو کس انداز میں لکھا ہے۔وہ سبق بیانیہ ہو سکتا ہے۔ اس میں مکالموں کا استعمال کیا ہو یا کرداروں کے ذریعے بات کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہو۔
نثر: ذیل میں نثر کی کچھ قسمیں بتائی گئی ہیں۔
۱۔ روایتی: (الف)۔ مضمون، (ب)۔خاکہ، (ج)۔آپ بیتی،خود نوشت، سوانح عمری، (د)۔سفر نامہ
۲۔قصّہ گوئی۔کہانی۔افسانہ
۳۔ڈرامہ
۴۔ناول
نظم:ذیل میں نظم کی قسمیں بیان کی گئی ہیں۔
۱۔ حمد و نعت، ۲۔ غزل، ۳۔مثنوی، ۴۔مرثیہ، ۵۔رزمیہ نظم، ۶۔آزاد نظم، ۷۔سانیٹ، ۸۔ربائی، ۹۔قطعہ، ۰۱۔ہائیکو
قواعد
عملی اور روایتی
انشا: اس میں مندرجہ ذیل قسمیں آتی ہیں۔
۱۔مضمون نویسی۔ آزاد اور پابند انشا
۲۔کہانی لکھنا۔خاکہ اور تصویروں کے ذریعے انشا
۳۔خطوط اور درخواست نویسی۔ ضابطہ اور بے ضابطہ
۴۔ادراک
۵۔تلخیص نگاری
۶۔رپوتاژ
طریقہئ کار:
یہاں مختلف اصناف کے اسباق کے طریقہئ کا ر کے اقدامات دیے جا رہے ہیں۔ اساتذہ اپنے اسباق کی منصوبہ بندی کرتے وقت ان اقدام کو مد نظر رکھتے ہوئے اسباق تیار کر سکتے ہیں۔
نثر(اعلیٰ سطح):
اعلیٰ سطح سے مرادجہاں اردو زبان ذریعے تعلیم کے طور پر استعمال ہو تی ہو وہاں اردو زبان کی تدریس میں درجِ ذیل اقدامات کو ذہن نشین رکھنا چاہیے۔
۱۔ روایتی
منزل۔ایک۔ تمہید۔ طالب علم کی سابقہ معلومات پر منحصر ہوگی۔
(سوالات کے ذریعے۔ کہانی سناکر۔مختلف اشیا دکھاکر)
منزل۔ دو۔ اعلانِ سبق۔ (سبق کا نام بتانے کے بعد عنوان تختہئ سیاہ پر لکھا جائے گا۔ مصنف کا مختصر تعارف دینا بھی ضروری ہے۔)
منزل۔ تین۔ نمونے کی بلند خوانی۔ پانچویں جماعت میں معلم دو بار بلند خوانی کرے گا۔
چھٹی سے دسویں جماعت تک معلم صرف ایک بار بلند خوانی کرے گا۔ اس کے بعد تختہئ سیاہ پر کم سے کم دو سوالات ادراک سے متعلق لکھے گا اور طالب علم کو ان کی طرف متوجہ کرے گا۔ ان سوالوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے طالب علم سے خاموش مطالعہ کے لیے کہا جائے گا۔
نمونے کی بلند خوانی میں کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے نہ تو وضاحت کی جائے اور نہ ہی سوالات کیے جائیں اور نہ ہی کسی طرح کی ہدایات دی جائیں۔بلند خوانی کرتے وقت درسی کتاب کو موڑنا بھی نہیں چاہیے۔ بلند خوانی صحیح تلفظ، آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ کی جانی چاہیے۔
منزل۔ چار۔ تفہیم۔ اس ضمن میں طالب علم کی فہم و ادراک جاننے کے لیے معلم منطقی طور پر تیار کیے گئے چھوٹے چھوٹے سوالات کرے گا اور طالب علم کو درسی کتاب میں سے دیکھ کر جواب دینے کی ترغیب دی جائے گی۔ معلم ان جوابات کے ذریعے سبق کی وضاحت کرے گا۔نئے الفاظ بتائے جائیں گے۔ جز و جملہ بنائے جائیں گے اور اس کے علاوہ تمام لسانی خوبیوں پر زور دیا جائے گا۔ نئے الفاظ، محاورے، جز و جملہ کو تختہئ سیاہ پر لکھا جائے گا۔ الفاظ کے معنی تختہئ سیاہ پر نہیں لکھے جائیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ تدریسی اعانتیں بھی استعمال کی جائیں گی۔
منزل۔پانچ۔اعادہ۔پڑھائے گئے سبق کے اہم نکات کو دہرانا یا خلاصہ کرنا۔
منزل۔چھ۔ اندازہئ قدر۔ طالب علم سے اعلیٰ سطحی سوالات، جس میں اطلاق کے سوالات بھی شامل ہوں، پوچھے جائیں گے۔
منزل۔ سات۔ خاتمہ۔ معلم سبق کا خلاصہ کرتے ہوئے سبق کے اختتام کا اعلا ن کرے گا۔
منزل۔ آٹھ۔ تفویض۔ معلم طالب علم کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے گھر کے لیے کام دے گا۔
۲۔ قصّہ گوئی (کہانی)
اس میں صرف تیسری منزل کو چھوڑ کر تمام منزلیں روایتی سبق کی طرح ہوں گی۔
منزل۔ ۳۔ معلم پوری کہانی قصّہ کی شکل میں سنائے گا۔
قصّہ گوئی کرتے وقت آواز اور حرکات و سکنات پر خاص دھیان دیا جائے گا۔ساتھ ہی ساتھ تدریسی اعانتیں بھی استعمال کرنا چاہیے۔قصّہ گوئی کرتے ہوئے بھی کسی طرح کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ نہ تو وضاحت کی جائے، نہ سوالات پوچھے جائیں اور نہ ہی ہدایتیں دی جائیں۔ ۳۔ڈرامہ
ڈرامہ میں بھی تیسری منزل کو چھوڑ کر تمام منزلیں روایتی اسباق اور قصّہ گوئی کی طرح ہیں۔
منزل۔ ۳۔ اچھی طرح سے تیاری کرنے کے بعد ڈرامہ کیا جائے۔
ڈرامے میں ماحول پیدا کیا جاتا ہے۔ خاص طور سے کرداروں کے مکالموں پر خاص دھیان دینے کی ضرورت ہے۔کردار کے مطابق ہی مکالموں کی ادائیگی کرائی جائے۔ اس کی تیاری کرتے وقت ڈرامے میں آئے ہوئے مکالموں اور اطراف کے ماحول کی ہر بات کو مدِ نظر رکھنا چاہیے۔
ڈرامہ کرتے وقت نہ تو وضاحت ہوگی،نہ سوالات ہوں گے اور نہ ہی ہدایتیں دی جائیں گی۔
نثر (ادنیٰ سطح):
یہاں ادنیٰ سطح سے مراد جہاں اردو ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے۔وہاں پر اردو کی حیثت ثانوی ہوتی ہے یا اردو ادنیٰ سطحی ہوتی ہے۔ اس صورت میں اس کے پڑھانے کے طریقے میں بھی فرق آ جاتا ہے۔
۱۔روایتی
منزل۔ایک۔ تمہید۔ طالب علم کی سابقہ معلومات پر منحصر ہوگی۔
(سوالات کے ذریعے۔ کہانی سناکر۔مختلف اشیا دکھاکر)
منزل۔ دو۔ اعلانِ سبق۔ (سبق کا نام بتانے کے بعد تختہئ سیاہ پر عنوان لکھا جائے گا۔ مصنف کا مختصر تعارف دینا ضروری ہے۔)
منزل۔ تین۔ نئے الفاظ اور جز وجملہ کا تعارف:معلم جملوں، متضاد اور مترادف الفاظ، حرکات و سکنات اور تصویروں اور تدریسی اعانتوں کے ذریعے سبق میں آنے والے نئے الفاظ، محاورے اور جملوں وغیرہ کا تعارف کراتا ہے۔ ان تمامم الفاط، جملوں وغیرہ کو تختہئ سیاہ پر لکھنا لازم ہے لیکن معنی نہیں لکھے جائیں گے۔ الفاظ کے معنی براہِ راست نہیں بتانا چاہیے اور نہ ہی الفاظ کا علاقائی زبان میں ترجمہ کرنا چاہیے۔
منزل۔ چار۔ نمونے کی بلند خوانی۔ معلم کو سبق دو با پڑھنا لازم ہے۔ نچلی سطح کے درجات میں خاموش مطالعہ نہیں ہوتا ہے۔
منزل۔پانچ۔ تفہیم۔ چھوٹے چھوٹے سوالات کے ذریعے عبارت کی تفہیم کی جائے۔ سوالات اہم تدریسی نکات پر مبنی ہونا چاہیے۔ تدریسی اعانتیں بھی ساتھ ساتھ استعمال کرنا چاہیے۔
منزل۔ چھ۔ اعادہئ کلی۔پڑھائے گئے سبق کے اہم نکات کو دہرانا یا خلاصہ کرنا۔
منزل۔سات۔ اندازہئ قدر۔ اس ضمن میں اطلاق پر مبنی اعلیٰ سطحی سوالات اور مشقی سوالات پوچھے جانا چاہیے۔
منزل۔ آٹھ۔ خاتمہ۔ معلم سبق کا خلاصہ کرتے ہوئے اختتام سبق کا اعلان کرے گا۔
منزل۔ نو۔ تفویض۔ طالب علم کی دلچسپی کے مطابق گھر کا کام دیا جائے گا۔
۲۔ڈرامہ اور قصّہ گوئی:اس کی تدریس اعلیٰ سطح کی طرح ہوتی ہے۔
طریقہ کار:
یہاں نظم، جس میں غزل، مرثیہ، مثنوی، قطعہ، ربائی اور دوسری اصناف بھی شامل ہیں،اسباق کے طریقہئ کا ر کے اقدامات دیے جا رہے ہیں۔ اساتذہ اپنے اسباق کی منصوبہ بندی کرتے وقت ان اقدام کو مد نظر رکھتے ہوئے اسباق تیار کر سکتے ہیں۔
نظم:(اعلیٰ سطح):
اعلیٰ سطح سے مرادجہاں اردو زبان ذریعے تعلیم کے طور پر استعمال ہو تی ہو وہاں اردو زبان کی تدریس میں درجِ ذیل اقدامات کو ذہن نشین رکھنا چاہیے۔
منزل۔ایک۔ تمہید۔ طالب علم کی سابقہ معلومات پر منحصر ہوگی۔
(سوالات کے ذریعے۔ کہانی سناکر۔مختلف اشیا دکھاکر)
منزل۔ دو۔ اعلانِ سبق۔ (نظم کا نام بتانے کے بعد تختہئ سیاہ پرعنوان لکھا جائے گا۔ شاعر کا تعارف دینا ضروری ہے۔)
منزل۔ تین۔ نمونے کی بلند خوانی۔ معلم کو پوری نظم دو بار پڑھنا چاہیے۔
نظم کا کبھی بھی خاموش مطالعہ نہیں ہوتا ہے چاہے کوئی بھی جماعت ہو۔
نمونے کی بلند خوانی میں کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے نہ تو وضاحت کی جائے اور نہ ہی سوالات کیے جائیں اور نہ ہی ہدایات دی جائیں۔بلند خوانی کرتے وقت درسی کتاب کو موڑنا بھی نہیں چاہیے۔ بلند خوانی صحیح تلفظ، آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ کی جانی چاہیے اور نظم کی غنائیت کو مدِنظر رکھنا چاہیے۔
منزل۔ چار۔ تشریح۔ ہر بند پر اعلیٰ سطحی سوالات جو مرکزی خیالات پر مبنی ہوں، پوچھنا چاہیے۔معلم طالب علم کے جواب کو بنیاد بنا کر تشریح کرے گا اور نظم کے مرکزی خیالات، رنگ و آہنگ اور شاعرانہ خوبیوں کو واضح کرے گا۔ساتھ ہی ساتھ تدریسی اعانتوں کا استعمال بھی کرنا چاہیے۔ نئے الفاظ، جزو جملہ، صنائع و بدائع وغیرہ کو تختہئ سیاہ پر لکھنا چاہیے۔معنی تختہئ سیاہ پر نہیں لکھنا چاہیے۔
منزل۔پانچ۔اعادہ۔پڑھائے گئے سبق کے اہم نکات کو دہرانا یا خلاصہ کرنا۔
منزل۔چھ۔ اندازہئ قدر۔ طالب علم سے اعلیٰ سطحی سوالات، جس میں اطلاق کے سوالات بھی شامل ہوں، پوچھے جائیں گے۔
منزل۔ سات۔ خاتمہ۔ معلم نظم کا خلاصہ کرتے ہوئے سبق کے اختتام کا اعلا ن کرے گا۔
منزل۔ آٹھ۔ تفویض۔ معلم طالب علم کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے گھر کے لیے کام دے گا۔
نظم (ادنیٰ سطح)
صرف منزل تین سے پہلے نئے الفاظ، جز و جملہ وغیرہ کا تعارف کرایا جائے گا۔
انشا (اعلیٰ وادنیٰ سطح)
منزل۔ایک۔ تمہید۔ طالب علم کی سابقہ معلومات پر مبنی انشا کی قسموں سے متعلق سوالات پوچھے جائیں۔
منزل۔ دو۔ اعلانِ سبق۔ (عنوان کا نام بتانے کے بعد تختہئ سیاہ پر لکھا جائے گا۔)
منزل۔ تین۔ پیش کش۔ معلم طالب علم سے انشا کے مختلف حصوں کی معلومات حاصل کرکے تختہئ سیاہ پر لکھے گا۔معلم طالب علم سے انشا لکھنے کے اصول اخذ کراتا ہے اور ان کو تختہئ سیاہ پر لکھتا ہے۔
منزل۔چار۔ اطلاق۔طالب علم نئی فرہنگ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے الفاظ میں انشا لکھتا ہے۔طالب علم انشا کا موزوں عنوان بتا تا ہے۔
منزل۔ پانچ۔ اعادہ۔ معلم انشا کے تمام اصولوں کو دہراتا ہے۔
منزل۔چھہ۔اندازہئ قدر۔انشا میں معلم زبانی اور تحریری دونوں طرح سے جانچ کر سکتا ہے۔
منزل۔ سات۔ خاتمہ۔ معلم عنوان کا خلاصہ کرتے ہوئے خاتمے کا اعلان کرے گا۔
منزل۔ آٹھ۔ تفویض۔ اس ضمن میں مختلف موضوعات پر انشا لکھنے کو کہا جائے گا۔
(چھوٹی جماعتوں میں تصوراتی نقشے کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔)
قواعد (اعلیٰ وادنیٰ سطح)
منزل۔ایک۔ تمہید۔ اس میں طالب علم مشاہدہ کرے گا۔ اس کے سامنے ایسی مثالیں یا چیزیں پیش کی جائیں جو اس کی سابقہ معلومات پر مبنی ہوں۔
منزل۔ دو۔ اعلانِ سبق۔ (عنوان کا نام بتانے کے بعد تختہئ سیاہ پر لکھا جائے گا۔)
منزل۔ تین۔ درجہ بندی۔ پڑھائے جانے والے نظریے پر مبنی مشق کا پوری طرح تجزیہ کیا جائے۔
منزل۔ چار۔کلیہ۔ تجزیے کی بنا پر طالب علم تعریفوں اور اصولوں کا خلاصہ کرے گا اور معلم اس خلاصے کو صحیح ترتیب میں بتائے گا اور تختہئ سیاہ پر لکھے گا۔
منزل۔پانچ۔ اطلاق۔طالب علم نئے نظریے پر مبنی مشقی سوالات حل کرے گا۔
منزل۔ چھہ۔ اعادہ۔ معلم قواعد کے تمام اصولوں کو دہراتا ہے۔
منزل۔سات۔اندازہئ قدر۔اصولوں اور تعریفوں پر مبنی سوالات پوچھے جائیں گے۔
منزل۔ آٹھ۔ خاتمہ۔ معلم عنوان کا خلاصہ کرتے ہوئے خاتمے کا اعلان کرے گا۔
منزل۔ نو۔ تفویض۔ اس ضمن میں مختلف مشقیں دی جائیں گی۔ مختلف قسم کی تدریسی اعانتیں استعمال کی جا سکتی ہیں۔
ادراک
اس میں منزل تین کو چھوڑ کرتمام منزلیں انشا کی طرح ہیں۔
منزل۔تین۔ معلم سوالات کے ساتھ عبارت طالب علم کے سامنے پیش کرتا ہے۔ طالب علم عبارت پڑھتا ہے اور اپنے الفاط میں سوالات کے جواب دیتا ہے۔ طالب علم ادراک کے طریقہ کار کو ذہن نشین کرتا ہے۔ طالب علم نئی عبارت پر اصولوں کا اطلاق کرتا ہے۔
استاد سماج،جگہ، اسکول کے ماحول سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔ اسے اپنے طلبا کی نفسیات کابھی اچھی طرح علم ہوتا ہے۔وہ اپنے اسکول اور علاقے میں موجود سہولتوں کے بارے میں بھی معلومات رکھتا ہے۔ اس لیے ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے اسباق کی منصوبہ بندی کر نا چاہیے۔ایک مضمون کی حیثیت سے زبان کی تدریس کرتے وقت استاد کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے مضمون میں ایک ماہر کی حیثیت رکھتا ہے۔
——
محمد قمر سلیم
ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن
واشی، نوی ممبئی ۔ 400703

Share
Share
Share