نانا ابّا کی سادگی :- ڈاکٹر سیّد اسرارالحق سبیلی

Share
ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی

نانا ابّا کی سادگی

ڈاکٹر سیّد اسرارالحق سبیلی
اسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبہ اردو
گورنمنٹ ڈگری کالج سِدّی پیٹ ۳۰۱۲۰۵،تلنگانہ

ہمارے نانا ابّامشہور عالم،واعظ اور پرجوش مقرِّر تھے،شعر و ادب سے بڑی دل چسپی رکھتے تھے،ہر موقع و محل کے اعتبار سے اساتذہ کے منتخب اشعار لحن اورپرسوز انداز میں پڑھتے۔بچوں سے بہت پیار کرتے تھے،انہیں اپنے ہاتھ سے لقمہ بنا کر کھلاتے،بچوں کو گود میں لے کر گاگاکر نظم پڑھتے،انہیں بہلاتے اور پیار کرتے،اس موقع کا ایک شعرمجھے اب تک یاد ہے:

بلبل کہتی ہر سو،اللہ اللہ،اللہ ھو
گل کی رنگت،گل کی بو،اللہ اللہ،اللہ ھو
نانا ابا کی طبیعت میں بلا کی سادگی تھی،بہت جلد غصّہ اور ناراض ہو جاتے،اور بہت جلد خوش بھی ہو جاتے،کوئی انہیں چھیڑتا تو یہ شعر پڑھا کرتے:
مزا آتا ہے ان کو اپنے نشتر کو چھیڑنے میں
کبھی مسرور کرتے ہیں،کبھی مغموم کرتے ہیں
ایک مرتبہ خاندان میں شادی تھی،نانا ابا بھی تشریف فرما تھے،دولہے میں حافظ صاحب تھے،لیکن انہوں نے سوٹ میں تھری پیس کی خواہش کی تھی،بچوں اور بڑوں کو اس پر بہت تعجّب تھا کہ حافظ صاحب ماڈرن ہو گئے ہیں،تھری پیس پہننا چاہتے ہیں،بڑے تو خاموش رہتے ہیں،لیکن بچوں میں تھری پیس کا بڑا چرچا تھا۔
رات میں دولہے میاں کی بارات آئی،نکاح خوانی ہوئی،اور کھانے کا دور چلا،دولہے میاں کے اردگرد بڑے حضرات موجود تھے،اس لئے بچوں کو کچھ گڑبڑ کرنے کی ہمّت نہیں ہوئی،صبح میں دولہے میاں گھر کے آنگن میں تشریف لائے،بچیوں نے گیت گائے،دولہے میاں کے لئے سلامی کی رقم جمع کی جارہی تھی،اس دوران بچوں کو موقع ملا،انہوں نے دولہے میں کو تھری پیس،تھری پیس کہہ کر چڑانا شروع کردیا،اتّفاق سے نانا ابا بھی وہیں موجود تھے،ناناابا غصہ ہونے لگے،بچوں کو سمجھ میں نہیں آیا کہ نانا ابا کیوں ناراض ہو رہے ہیں؟بعد میں مُنّی باجی نے۔جو ان کی سب سے بڑی نواسی تھیں جن سے وہ بے حد پیار کرتے تھے۔ پوچھا:نانا ابا!بچے تو دولہا میاں کو تھری پیس بول کر چڑارہے تھے،آپ کیوں ناراض ہو رہے تھے؟نانا ابا نے کہا:کیا بچے نوشہ کو تھری پیس کہہ رہے تھے؟لاحول ولا قوّۃ،میں نے سمجھا کہ مجھے تھری پیس کہہ رہے ہیں،کیوں کہ میرے پاس تین نئے چاقو تھے،اور کل ہی میں نے سب کو نئے چاقو دکھائے تھے۔
نانا ابا کے کپڑوں میں بڑی بڑی جیبیں ہوتی تھیں،اور وہ اپنی ضرورت کی بہت سی چیزیں اپنی جیب میں ہروقت رکھا کرتے تھے،شاید انہیں تحفہ میں تین خوب صورت چاقو ملے تھے،جن کی انہوں نے لوگوں کے درمیان نمائش کی تھی۔
آج بھی ان دولہے میاں کو ان کے سالے،سالیاں کبھی کبھی تھری پیس اور ان کے بچوں کو تھری پیس کے بچے کہہ کر چڑاتے ہیں،لیکن اس تھری پیس کے پیچھے ناناابا کی ناراضگی اور ان کی سادگی کی دل چسپ یاد کا بھی ایک الگ مزا ہے۔

Share
Share
Share