بیجاپور میں اردو نثر کے ابتدائی نقوش – پہلی قسط -:- ڈاکٹر حبیب نثار

Share
ڈاکٹر حبیب نثار

بیجاپور میں اردو نثر کے ابتدائی نقوش
پہلی قسط

ڈاکٹر حبیب نثار
صدر شعبہ اردو‘ سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد
حیدرآباد ۔ دکن

بیجاپور میں نثر‘ شاعری کے بہت بعد تخلیقی اظہار کے لئے بروے کار لائے گئی۔ صوفیا کے جن ملفوظات کی بابت تاریخی کتب میں حوالے ملتے ہیں وہ یاتاحال دریافت ہی نہیں ہوئے ہیں اور قیاسات پرمبنی اظہارات ہیں یا مورخین ومصنفین کی اپنی اختراعات ہیں۔

جیسے سید اشرف جہانگیرسمنانی‘ یا شیخ عین الدین گنج العلم کے رسائل وغیرہ۔
بیجاپور میں اردو نثر کا ابتدائی اور مستند ادبی نمونہ حضرت برہان الدین جانم کی تخلیق ”کلمتہ الحقایق“ ہے جو ادبی لحاظ سے قابل قدر بھی ہے اور جس نے بعد کے لکھنے والوں کے لئے رہبری و رہنمائی بھی کی ہے۔ کلمتہ الحقایق کے علاوہ حضرت برہان الدین جانم کے نثر میں مزید چھوٹے چھوٹے رسائل دستیاب ہوئے ہیں لیکن ادبی قدر وقیمت کی مناسبت سے کلمتہ الحقایق اولیت کادرجہ رکھتی ہے۔
برہان الدین جانم کے خلیفہ حضرت شیخ محمود خوش دہاں نے فارسی نثر کے علاوہ اردو نثر میں چند رسائل یادگار چھوڑے ہیں۔ جن میں سے ایک رسالے کو ڈاکٹر خواجہ حمید الدین شاید نے پاکستان سے شائع کیاہے۔ نثر کاایک اور رسالہ جوشائع شدہ رسالے سے ضخیم ہے کتب خانہ آصفیہ کے مخطوطوت میں موجود ہے جس میں حضرت محمود خوش دہاں نے اپنے پیرمیراں جی شمس العشاق اور حضرت برہان الدین جانم کے مسائل تصوف کو پیش کیاہے۔ خوش دہاں کا نثر میں ایک اور بھی قلمی رسالہ ملتا ہے جو انجمن ترقی اردو (ہند) میں محفوظ ہے۔
بیجاپور میں اردو نثر کے ابتدایء نقوش میں حضرت امین الدین علی اعلیٰ کارسالہ کلمتہ الاسرار بھی اپنے مضامین اور اسلوب کی بناپر اہمیت کاحامل ہے۔ قابل مصنف نے کلمتہ الاسرار میں اپنے خاندانی فلسفہ ہائے تصوف سے یکسر علحٰدہ موضوع یعنی کلمہ طیبہ کے اسرار کو آسان اور سہل انداز واسلوب میں بیان کیاہے۔ اس مضمون میں ان ہی تصانیف کا تعارف پیش کیاجارہاہے۔

کلمتہ الحقایق :
اردو نثر کی تاریخ میں ”کلمتہ الحقایق“ نثر کی ایک ایسی تصنیف ہے جس کے مصنف کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ یہ رسالہ حضرت برہان الدین جانم کی تصنیف ہے۔ برہان الدین جانم نے ۹۹۰ ہجری میں اپنے خانوادہ کی تعلیمات کی اشاعت کی غرض سے ایک مثنوی ”ارشاد نامہ“ لکھی ہے۔ کلمتہ الحقایق میں موضوع کی تشریح وتعبیر کرتے ہوئے قابل مصنف نے ”ارشاد نامہ“ کے کئی حصوں کو درج کیاہے۔ نیز کلمتہ الحقایق میں وہی فلسفہ تصوف بیان ہواہے جو خانوادہ حضرت خواجہ بندہ نواز میں رایج ہے اور اس سلسلے کے صوفیا کی شعری تخلیقات میں ملتا ہے۔ اس خانوادے کے صوفیائے کرام نے تصوف کے جن مسائل کی اپنی رسائل میں تشریح کی ہے ان مسائل کی سب سے زیادہ بہتر وضاحت اور تفصیل کلمتہ الحقایق میں ملتی ہے۔ یہ حسن اتفاق ہی ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق‘ شمس اللہ قادری‘ نصیر الدین ہاشمی‘ ڈاکٹر زور‘ پروفیسر عبدالقادر سروری‘ پروفیسر اکبر الدین صدیقی‘ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ‘ڈاکٹر جمیل جالبی‘ جیسے محققین ومورخین ادب اردو اور نقادوں نے کلمتہ الحقایق کو بہ اتفاق رائے حضرت جانم کی تصنیف جانا اور مانا ہے۔برہان الدین جانم کے والد میرانجی شمس العشاق کی شعری تصانیف‘ دبستان بیجاپور میں خاص اہمیت کی حامل ہیں علاوہ ازیں نثری تصانیف بھی آپ کے نام سے وابستہ ہیں۔
میرانجی شمس العشاق سے گل باس‘ جل ترنگ‘ شرح مرغوب القلوب‘تاج الحقایق اور سبعہ صفات منسوب کئے جاتے ہیں۔ گل باس اور جل ترنگ کا ذکر حکیم شمس اللہ قادری نے کیاہے۔ یہ رسائل ناپید ہیں۔ شرح موغوب القلوب کو مولوی عبدالحق نے شمس العشاق سے منسوب کیاتھا لیکن یہ میرانجی خدانما کی تصنیف ہے۔ تاج الحقایق وجہی سے بھی منسوب ہے اور یہی انتساب زیادہ صحیح معلوم ہوتاہے۔
حضرت برہان الدین جانم نے کلمتہ الحقایق سوال جواب کے انداز میں لکھی ہے۔ تمہید کے بعد مرید سوال کرتا ہے اور مرشد اس کا جواب دیتا جاتاہے۔ کلمتہ الحقایق کی ابتداء اس طرح ہوتی ہے۔
”اللہ کرے سو ہوے کہ قادر تواناتوی کہ اوقدیم القدیم اس قدیم کابھی کرنہار، سہج سہج سو تیرا ٹھار۔ وسہج ہوا بھی توج تھے بار۔ جدھاں کچھ نہ تھا، بھی تھا تہیں، دوجاشریک کوئی نہیں۔ ایسا حال سمجھنا خدا تھے خدا کوں جس پر کرم خدا کاہوئے،“
برہان الدین جانم نے اپنی اس نثری تصنیف ”کلمتہ الحقایق“ میں شریعت وطریقت کے مسائل بیان کیے ہیں۔ بیجاپور کے صوفیا اور خانوادہ بندہ نواز کے تصوف کے علاوہ انھوں نے منطق وفلسفہ کے ان قدیم موضوعات پر بھی روشنی ڈالی ہے جہاں خدا کی ذات وصفات، قدیم وحادث، ابتداوانتہا اور خدا تھاتو کیوں تھا؟وغیرہ وغیرہ سوالات سامنے آئے ہیں۔ کلمتہ الحقایق میں برہان الدین جانم کے پیش کئے گئے موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں۔
”خداتھا تو کہاں تھا؟ بے چون وچگون تھا؟ اسی طرح قدرت کیاہے؟ قدرت وخدا میں کیافرق ہے؟ جب کچھ نہیں تھا اور خداتھا تو نور محمد کیوں ظہور میں آیا؟ خدائے تعالیٰ کا دیدار کرنا جائز ہے کہ نہیں؟ خداسب سے اچھا کیوں ہے؟ وہ اپنی قدرت میں محیط کیوں ہے اور ہماری روح میں کیوں محیط ہے؟ تقدیر وتدبیر سے کیا مراد ہے عبادت کسے کہتے ہیں؟ فکر سے کیا مراد ہے۔“ (۲)
برہان الدین جانم نے اسی طرح شریعت وطریقت کے مسائل، خیروشر، راہ سلوک، راہ شریعت، نفس کی قسمیں، مرشد کی اہمیت جیسے مسائل کو کلمتہ الحقایق میں بیان کیاہے۔ جانم نے واجب الوجود، ممکن الوجود، ممتنع الوجود اور عارف الوجود کے مسائل ہر بحث کرتے ہوئے اپنے نقطہ نظر کابیان کیاہے۔
کلمتہ الحقایق میں برہان الدین جانم نے مخلوط اسلوب اپنایا ہے۔ یہاں اردو /دکنی لکھتے لکھتے وہ فارسی یا عربی لکھنے لگتے ہیں۔ نثر لکھتے لکھتے کوئی شعر یا مصرع فارسی یا اردو کا لکھ دیتے ہیں۔ اس نثر کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف کو ٹھہر ٹھہر کر، رک رک کر سوچ کر آگے بڑھنے پر مجبور ہونا پڑھ رہاہے۔ یہاں روانی نہیں شگفتگی نہیں بس مضامین یا موضوع کو اپنے قاری یا سامع تک بخوبی پہونچانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔دو مثالیں ملاحظہ ہو۔
(الف)”و لیکن چوک نظر پر ولیکن فرصت آفتاب کا اس سبب ہمہ کار آفتاب بداں ولیکن یہ آنکھ شریک نہوے کہ انکھیاں بھوت و آفتاب یک وسب انکھیاں پر تو آفتاب است وعکس را تبدیل است و آن آفتاب ہمیشہ یک است۔ ہمون نمونہ ذات وصفات کہ او دیگر انواع جوں نظر تھے ہاتھ مکھ(پر) پڑیا نظر تھے بینی پر جیب ہر دو شاہد۔ ہمون نمونہ ومثال بر ذات بندہ وخدا نماید۔“(۳)
(ب)” ایک جملہ اردو میں لکھتے ہیں اور ایک فارسی میں: اے عارف تو اس ہواے صفا میں مل، صفا ہوتا کی اس میں دوسرا رنگ نہیں دستا۔ جز ہواے صفا تمام ہوا نظر میں آوے، وخود ہم ہوا نواید۔ سبب اس یک متشابہ ویک کہ روشن ہو آوے ہمچون تخم جنکی در خاک باشد ودر ہنگام تخم از زمین خارج نماید، ہر حسن اپنے روپ سوں کرم جناتا و در ہنگام دھوپ کالا خاک در خاک نماید۔“ (۴)
محمد اکبر الدین صدیقی نے کلمتہ الحقایق لکھے جانے کا سبب بیان کرتے ہوئے اس کتاب کے موضوع کا بھی احاطہ کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں۔
”حضرت جانم کتاب کی تصنیف کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ اکثر مرید آپ سے خدا کے بارے میں مختلف سوالات کرتے ہیں کہ وہ قدیم القدیم کیوں ذات وصفات‘ ابتدا وانتہا‘ باقی وفانی‘ قدیم وجدید اور بے ہمہ وباہمہ سے کیا مُراد ہے۔ ان سوالات کے اس میں وضاحت سے جواب دئیے گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ خدا اول سے ہے آخرتک رہے گاوہ صورت شکل وغیرہ ہر چیز سے منزہ ہے جب اس نے اس کائنات کو وجود میں لانے کا ارادہ کیاتو اپنی قدرت سے اس کو لفظ کن سے وجود میں لالیا۔ خدا کی ذات میں قدرت بھی ہے اور ارادہ بھی وہ جیسا چاہتا ہے کرتاہے۔ اس نے چاہا کہ اپنے نور کا آپ مشاہدہ کرے اس لیے اس نے محمدؐ کے نور کو پیدا کیا اور اسی نور سے ساری کائنات کی تخلیق کی۔۔۔۔۔۔ بالفاظ دیگریہ کہا جاسکتا ہے کہ خدا اس کی قدرت اور اس کے ارادہ ان تین سے اس عالم کاظہور ہوا۔ اب یہ انسان کافریضہ ہے کہ وہ خدا کو اپنے آپ میں پہچاننے کی کوشش کرے۔“(۵)
سیدہ انجم ضمیر نے کلمتہ الحقایق کی زبان و اسلوب کا لسانی جائزہ لیاہے اُن کا خیال ہے کہ کلمتہ الحقایق لسانی اعتبار سے بھی ایک بڑی اہمیت کی حامل کتاب ہے اور لسانی اعتبار سے جائزہ لیں تو یہ ایک اہم دستاویز ثابت ہوگی۔ اقتباس دیکھئے
”۱۔ حضرت جانم نے ماضی مطلق بنانے کے لئے عام دکنی قاعدے کی طرح اٹھنا کے بجائے اٹھیا، دسنا کے بجائے دسیا۔
۲۔ جمع بنانے کے لئے دیگر کئی صنعتوں کی طرح ہراسم اور فعل کے آگے ”اں“ کا اضافہ کرتے ہیں۔ بات کی جمع باتاں، لوگ کی جمع لوگاں۔
۳۔ لاحقہ ”ہارا“ کسی بھی اسم اور فعل کے آگے جوڑ کر اسم فاعل بناتے ہیں جیسے جانتا سے جاتنہارا (جاتن +ہارا) یعنی جاننے والا۔ پالنہارا (پالن+ہارا) پالنے والا وغیرہ۔
۴۔ حضرت جانم جوکو”جے“ یہ کو ”یو“ وہ کو ”وا“ لکھا ہے۔
۵۔ کسی بھی لفظ کے ساتھ ”چ“ جوڑ کر صرف تخصیص، زورپیدا کرتے ہیں۔ ان سے اُنیچ یعنی انھی سے یعنی سب اچ، مراد سبھی۔
۶۔ دوسرے دکنی مصنفوں کی طرح ان کے پاس بھی تذکیرو تانیث کا لحاظ نہیں ملتا۔ کہیں کسی لفظ کو مذکر لکھتے ہیں تو کہیں مونث۔
۷۔ دو چشمی ھ کی ادائیگی میں بھی خیال نہیں رکھتے، آنکھ کو آنک۔ مجھ کو منج لکھتے ہیں۔
یہ چند لسانی خصوصیات ہیں جن کے مطالعہ سے دکنی زبان کے ارتقاء کو سمجھا جاسکتا ہے۔ حضرت برہان الدین جانم کی یہ تصنیف اگر چہ ادبی حیثیت کی حامل نہیں لیکن اپنی قدرت، اپنی اولیت کے سبب اردو ادب میں ایک تاریخی حیثیت اور لسانی اعتبار سے افادیت کی حامل ہے۔(۶)
سیدہ جعفر‘ کلمتہ الحقایق کی زبان واسلوب ہر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔
”برہان الدین جانم کی نثر میں ترسیل کی بعض کوتاہیوں کے باوجود انشا کے محاسن کی جھلک کہیں کہیں ضرور نظر آتی ہے۔“(۷)
ڈاکٹرجمیل جالبی جانم کی دو خدمات کو قابل توجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ایک تویہ کہ انہوں نے تصوف کے فلسفہ وجود کو مرتب کرکے اُسے ایک باقاعدہ شکل دی اور آب وآتش‘ خاک وباد کے تعلق سے وجود کامطالعہ کرکے اس کے چار مدارج واجب الوجود‘ ممکن الوجود‘ ممتنع الوجوداور عارف الوجود مقرر کیے۔ دوسری یہ کہ تصوف و اخلاق اور شریعت وطریقت کو اپنی تصانیف نظم ونثر کے ذریعہ پیش کیا۔

کلمتہ الحقایق: اردو کی ادبی نثر کی پہلی تخلیق:
کلمتہ الحقایق، برہان الدین جانم کی نثری تصنیف ہے۔ اس کی تاریخ تصنیف سے ہم واقف نہیں اس لئے کہ اس تصنیف کے جو نسخے‘مخطوطات ملے ہیں وہ تمام برہان الدین جانم کی وفات کے بعد لکھے گئے ہیں۔ اس نثری تصنیف کا سب سے قدیم نسخہ ۱۰۶۸ھ کا ملتاہے۔ جسے اکبر الدین صدیقی نے مرتب وشائع کیاہے۔
کلمتہ الحقایق میں برہان الدین جانم نے ان ہی مضامین تصوف کو بیان کیاہے جن کا ذکر وتذکرہ انہوں نے اپنی مثنوی ”ارشاد نامہ“ میں کیاہے۔ کلمتہ الحقایق میں ارشاد نامہ کے اشعار بھی ملتے ہیں اس طرح ہم یہ نتیجہ اخذکر سکتے ہیں کہ برہان الدین جانم نے کلمتہ الحقایق ۰۹۹ھ کے بعد اور اپنی وفات ۱۰۰۷ھ کے درمیان لکھا ہے۔
ڈاکٹر حسینی شاہد نے کلمتہ الحقایق کو اردو کی ادبی نثر کااولین نقش قرار دیاہے۔ اس لئے کہ برہان الدین جانم سے قبل لکھے جانے والے جن نثری رسالوں کے نام تاریخ ادب کی کتابوں میں ملتے ہیں وہ تمام مشکوک ہیں جیسے سید اشرف جہانگیر سمنانی کارسالہ، اس کا ذکر ملتاہے لیکن ان رسالوں کو آج تک کسی نے نہیں دیکھا یہی صورت حال شیخ عین الدین گنج العلم کے رسائل کی ہے کہ یہ تمام ناپید ہیں۔ معراج العاشقین کو ایک زمانے تک حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز کی تصنیف سمجھا گیا لیکن ڈاکٹر حفیظ قتیل نے ۷۶۹۱ء میں ثابت کیا کہ نثری تصنیف حضرت خواجہ بندہ نواز سے تین سوبرس بعد اور حضرت برہان الدین جانم سے دیڑھ سو برس بعد مخدوم شاہ حسینی بلکانوری نے لکھی ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے سندھ کے مذہبی رہنما پیر روشاں بایزید انصاری کی تصنیف ”خیرالبیان“ کی بازیافت کی ہے۔ اس کو پیر روشاں نے ۰۸۹ھ سے قبل لکھا ہے۔ اس کتاب کو ڈاکٹر گیان چند ”اردو کی پہلی مستند نثری کتاب“ قرار دیتے ہیں لکھتے ہیں۔
”پیر روشاں نے اس کتاب میں ایک مضمون کو چار زبانوں میں لکھا ہے پہلے عربی میں، پھر فارسی میں، پھر پشتومیں اور آخر میں اردو میں“(۸)
خیرالبیان، ایک طرح سے مترجمہ کتاب کی حیثیت رکھتی ہے اسی لئے ہم اس کو اردو کی پہلی مستند نثری کتاب نہیں کہہ سکتے اور کلمتہ الحقایق ہی اردو نثرکا اولین ادبی نقش قرار پاتی ہے۔کلمتہ الحقایق کو اردو نثر کی پہلی ادبی تخلیق قرار دینے کے سلسلے میں ڈاکٹر حسینی شاہد حضرت برہان الدین جانم سے قبل کے صوفیاء ومصنفین کے نثری رسالوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد لکھتے ہیں۔
”مندرجہ بالا داخلی شہادتوں کے پیش نظر جہاں یہ ثابت ہوتاہے کہ ارشاد نامہ کو کلمتہ الحقایق پر تقدم زمانی حاصل ہے اور یہ نثری رسالہ نظم کے سہارے لکھاگیا ہے وہیں یہ بھی واضح ہوجاتاہے کہ کلمتہ الحقایق اردو نثر نگاری کی اولین کوشش ہے یا کم ازکم اردو کے اولین نمونوں میں سے ہے۔“(۹)
۔۔۔۔جانم کے پیشرؤں سے منسوب رسائل کے اس تجزیہ کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ”کلمتہ الحقایق“ ہی اردو کا پہلا مستند نقش ہے۔“(۱۰)
برہان الدین جانم کی اس نثری تخلیق نے بہت جلد بیجاپور کے صوفیا کو نثر کی جانب متوجہ کیا۔ چنانچہ کلمتہ الحقایق لکھے جانے کے کچھ ہی برسوں میں شیخ محمود خوش دہاں نے نثر میں تین رسالے بیجاپوری صوفیا کے فلسفہ کو موضوع بناکر لکھے۔
شیخ محمود خوش دہاں‘ میراں جی شمس العشاق کے مرید اور برہان الدین جانم کے خلیفہ ہیں۔ آپ کی نثر میں تین یادگاریں محفوظ ہیں (فارسی نثر میں معرفت السلوک آپ کی معروف ومشہور تصنیف ہے اردو نثر میں تاحال تین رسالے دستیاب ہوے ہیں جن میں سے صرف ایک کی اشاعت عمل میں آئی ہے۔ نجانے اور کتنے رسائل آپ کی یادگار ہیں) تنبیہ الخلایق (مخطوطہ مخزونہ کتب خانہ انجمن ترقی اردو ہند دہلی) رسالہ واجب الوجود (مخطوطہ مخزونہ کتب خانہ آصفیہ تارناکہ) اور رسالہ محمود خوش دہاں بیجاپوری۔۔ آخر الذکر کو خواجہ حمید الدین شاہد نے کراچی پاکستان سے شائع کیاہے۔
”تنبیہ الخلایق“ کی ابتداء فارسی میں لکھی گئی تمہید سے ہوتی ہے جس میں مصنف نے اپنا اور اپنے پیر کا تعارف پیش کرنے کے ساتھ رسالے کے زمانہ تحریر کوبھی بیان کیاہے۔ اقتباس دیکھئے۔
”امابعد چنیں گوید مرید وطالب کامل الاول والآخر حضرت برہان الحق‘ فقیر حقیر شیخ محمود کہ ایں رسالہ است ”تنبیہ الخلاق“ برعارفان صاحب بصیرت پو شیدہ نماند کہ ایں زمانہ متا خر بعد از ہجرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ یک ہزار وچند سال بالا گذشتہ اند۔“(۱۱)
”تنبیہ الخلاق“ کامتن اردو میں ہے۔ شیخ محمود خوش دہاں نے اس رسالے کی تصنیف کی تاریخ ”یک ہزار وچند سال بالا“ لکھے ہیں اس سے ہم ۱۰۰۵ ہجری تک اخذ کرسکتے ہیں کہ اس سنہ سے قبل یہ رسالہ لکھا گیا ہوگا حضرت برہان الدین جانم کا ذکر بھی اس طرح کیاگیا ہے کہ وہ ابھی حیات ہیں۔ آپ کا وصال جمادی الثانی ۷۰۰۱ ہجری میں ہواہے۔
اسی لئے ہم اس رسالے کو ۱۰۰۵ ہجری سے قبل کی تصنیف قرار دیتے ہیں۔ چونکہ کلمتہ الحقا یق کی تصنیف کے بعد ہی بیجاپور میں نثر لکھنے کا رواج ہوا ہے ان اسباب کے پس منظر میں ہم حضرت برہان الدین جانم کے کلمتہ الحقایق کو ۵۰۰۱ ہجری سے قبل کی تصنیف قرار دے سکتے ہیں۔
حضرت برہان الدین جانم نے”کلمتہ الحقایق“ کو سوال وجواب کی ٹکنیک میں لکھا ہے۔ شیخ محمود خوش دہاں کے دو رسالے یعنی ”تنبیہ الخلایق“ اور رسالہ محمود خوش دہاں بیجاپوری“ بھی اسی ٹکنیک یا ہئیت میں لکھے گئے ہیں۔ ان دونوں رسالوں کاموضوع بھی وہی ہے جو کلمتہ الحقایق یا مثنوی ”ارشاد نامہ“ کاہے۔ ”تنبیہ الخلایق“ کی ابتداء سے یہاں نثر کانمونہ نقل کیاجاتاہے۔ اقتباس دیکھئے۔
سوال: اگر کوئی تجہ کوں پوچھے کہ نفس سو کیا روح سو کیا نور سو کیا؟
جواب: نفس سو منگتا پنا‘ خطرہ دل سوجانتا پنا اور رحمانی فعلاں وروح سو بینائی یعنی دیکھنا پنا۔ نور سو شاہدی یعنی سمجھنا پنا۔
سوال: نفس کا دل وروح کوسو فعل کیاہے وصفت کیاہے ذات سو کیا؟
جواب:نفس کافعل سو میرے عملاں‘ صفت سو خدا کوں ناسمجھ کراس کاذات سو خدا سوں موں پھرانا ودل کاعمل سو خوب عملاں کرنا وصفت سوں خدا کوں سمجھنا‘ ذات سوں خدا طرف رخ وتوجہ کرنا وروح کافعل سو خدا کوں دیکھنا وصفت سوں ذوق وشوق دھرنا وذات سو خدا کوں دیکھنا۔“ (۱۲)
یہ زبان وہی ہے جو حضرت برہان الدین جانم نے اپنے نثری رسالے کلمتہ الحقایق میں لکھی ہے۔ جمع بنانے کے لئے اسم اور فعل کے آگے ”اں“ کا اضافہ کرنا جیسے عمل سے عملاں وغیرہ۔ زبان میں البتہ روانی نظر آتی ہے اور شیخ محمود خوش دہاں نے مکمل دکنی لکھی ہے یہاں فارسی یا عربی شامل نہیں ہے۔
”رسالے محمود خوش دہاں بیجاپوری“ کی بھی یہی کیفیت ہے کہ قابل مصنف نے صرف دکنی ہی سے سروکار رکھا ہے اپنے رسالے کی زبان کو عربی یا فارسی سے مخلوط نہیں کیاہے۔ اس رسالے کی زبان وبیان میں بھی روانی ملتی ہے اور بیان میں رک رک کے آگے برھنے کا گمان نہیں ہوتاہے۔ اس رسالے کا ایک اقتباس دیکھئے۔
”اول ذکر جلی اللہ کاناؤں ظاہر کے اعضاء سوں‘ ذکر قلبی باطنی کی زبان سوں‘ بعد ازاں ذکر روحی‘ مشاہدہ اس طریق سوں اول مرشد کی صورت دل میں مقابلہ پکڑنا اس صورت کو دیکھنا سو روح کا نظر ہے۔ اس دل میں یوں بولنا کہ صورت کو دیکھنا سو کون کیا نظر پاک ہے عجب لطف بعدازاں اس صورت پرتے نظر ثابت کرنا علاحدہ نظر معلق رکھنا‘ چند روز اس کا کثرت کرنا تو نظر کہے میں علاحدہ نظر ہوں۔ ظاہر باطن یک ہوئے بعدازاں بھی اس نظر کوں قرار دیناکہ یو تو اس کا ہے‘ میں نہیں‘ اس وضع سوں چند روز گزرے تو وہم خودی کا دور ہوجائے گا۔“(۱۳)
ان رسائل اور کلمتہ الحقایق کے موضوع اور زبان کی محاثلت‘ یکسانیت کابیان کرتے ہوئے ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں۔
”اس کے موضوعات وہی ہیں جو جانم نے ”کلمتہ الحقایق“ میں پیش کیے ہیں۔ سوالوں میں بھی یکسانیت موجود ہے اور جوابات کی روح بھی ایک ہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ خوش دہاں نے اختصارسے کا م لیاہے اور کئی کئی سوالوں کی یکجا کرکے ان کے جواب ایک ساتھ دیے ہیں۔ اگر جانم کا مخاطب عام طالب تھا تو خوش دہاں کے مخاطب طالب صادق اور عارفان صادق ہیں۔“ (۱۴)
(جاری ہے)
—————
ماخذ و حوالے:
۱) برہان الدین جانم ”کلمتہ الحقایق“ مرتبہ ڈاکٹر محمد اکبر الدین صدیقی ۱۹۱۶ء ص ۲۱
۲) ڈاکٹر جمیل جالبی ”تاریخ ادب اردو“ جلد اول طبع دوم لاہور ۱۹۴۷ء ص ۲۱۱
۳) برہان الدین جانم ”کلمتہ الحقایق“ ص ۷۴
۴) ایضاً ص ۴۵
۵) ڈاکٹر محمد اکبر الدین صدیقی‘ مقدمہ”کلمتہ الحقایق“ ص ۱۶
۶) سیدہ انجم ضمیر ”حضرت برہان الدین جانم اور کلمتہ الحقایق“ مضمون مطبوعہ رسالہ کتاب نما دہلی نومبر ۲۰۰۹ء ص۲۰
۷) ڈاکٹر سیدہ جعفر ”دکنی نثر کا انتخاب“ دوسرا ایڈیشن ۱۹۹۷ء ص ۹
۸) سیدہ جعفر و گیان چند ”تاریخ ادب اردو“ جلد دوم ۱۹۹۸ء ص ۳۲۵
۹) ڈاکٹر حسینی شاہد ”کلمتہ الحقایق اردو نثر کا پہلا مستند نقش“ مضمون مطبوعہ رسالہ نوائے ادب ممبیئ جولائی ۱۹۷۰ء ص ۹
۱۰) ایضاً ص ۲۳
۱۱) شیخ محمود خوش دہاں ”تنبہہ الخلایق“ مخطوطہ عکسی کتب خانہ راقم ص ۱
۱۲) سیدہ جعفر وگیان چند ”تاریخ ادب اردو“ مضمون ”محمود خوش دہاں“ از سیدہ جعفر ص ۳۹۵‘ راقم الحروف کے پاس
تنبہہ الخلایق کے مخطوطہ کا جو عکس موجود ہے وہ مکمل رسالہ فارسی میں ہے‘ معلوم ہوتاہے کہ سیدہ جعفر نے انجمن ترقی
اردو (ہند) کے جس نسخے کا اقتباس دیاہے اس میں اردو ترجمہ بھی شامل ہے۔ واللہ اعلم۔۔۔!!
۱۳) شیخ محمود خوش دہاں ”رسالہ شیخ محمود خوش دہاں بیجاپوری“ مرتب خواجہ حمید الدین شاہد ۱۹۶۹ء ص ۳۱
۱۴) ڈاکٹر جمیل جالبی ”تاریخ ادب اردو“ جلداول ص ۳۰۷

Share
Share
Share