ڈاکٹر نوشہ اسرار (امریکہ)کی اردو شاعری :- ڈاکٹر سید احمد قادری

Share
ڈاکٹر نوشہ اسرار

ڈاکٹر نوشہ اسرار (امریکہ)کی اردو شاعری

ڈاکٹر سید احمد قادری
7 /نیو کریم گنج، گیا(بہار)

ڈاکٹر نوشہ اسرار نے اپنی شاعری کے حوالے سے پوری اردو دنیا میں اپنا ایک خاص اور منفرد مقام بنایا ہے۔ ان کی کئی غزلیں اور نظمیں اس قدر مشہور و مقبول ہوئی ہیں کہ وہ جس مشاعرے میں بھی شرکت کرتے ہیں، وہاں ان سے بار بار ان غزلوں اور نظموں کو سنانے کی فرمائش کی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ جس مشاعرے میں جاتے ہیں وہاں وہ چھا جاتے ہیں۔ جو لوگ یو ٹیوب پر visit کرتے ہیں، وہ میری اس بات کی تائید ضرور کرینگے۔
نوشہ اسرار کو اپنی یاد داشت پر بھی بڑا بھروسہ ہے، اس لئے انھیں کبھی بھی کسی مشاعرے یا دیگر نشستوں میں ڈائری ہاتھ میں لے کر غزل یا نظم خوانی کرتے نہیں دیکھا گیا۔ وہ پوری روانی سے اپنی غزلیں اور طویل نظمیں بھی سناتے نظر آتے ہیں، اور سنانے کا انداز بھی اتنا پیارا، دلکش اور سحر انگیز ہوتا ہے کہ کلام کے حسن و معیار اور سنانے کی سحر انگیزی دو آ تشہ کا کام کرتی ہے۔جس سے سامع مسحور ہوئے بغیر نہیں رہتا۔
نوشہ اسرار کو میں بہت زمانے سے جانتا ہوں، لیکن انھوں نے ہمیشہ مجھ سے شاعر ہونے کی بات پوشیدہ رکھی، لیکن کہا جاتا ہے کہ عشق، مشک اور شاعری چھپائے نہیں چھپتی۔ چند سال قبل جب میں امریکہ گیا اور ان ہی کے شہر ہیوسٹن میں میرا قیام رہا، وہاں جس اردو بولنے والے شخص سے میری ملاقات ہوئی، اس نے نوشہ اسرار کی شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری کی بھی تعریف کی۔ مجھے بہت تعجب ہوا اور ایک دن جب فون پر تفصیل سے باتیں ہو رہی تھی، (واضح رہے کہ امریکہ کے لوگ تفصیلی بات بھی ویک اینڈ میں ہی کرتے ہیں)تب میں نے ان کے شاعر ہونے کی بابت پوچھا۔ میرے اس سوال پر پہلے تو وہ بہت چونکے، پھر انھوں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور اور پوچھا کہ آپ کو یہ بات کیسے معلوم ہوئی۔ دراصل وہ مجھ پر اپنی شاعری کی دھونس جمانا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن جب دیکھا کہ یہ عقدہ کھل ہی گیا ہے، تب انھوں نے مجھے یوٹیوب پر شاعر اور شاعری کو دیکھنے اور سننے کا مشورہ دیا۔ یو ٹیوب پرمجھے ان کی ایک نظم ”خالی بوتل“ سننے کو مل گئی۔ پوری نظم سنی تو دنگ رہ گیا اور اس وقت مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا کہ، میں اتنے دنوں تک نوشہ اسرار کی شاعری سے کیوں انجان رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ نوشہ اسرار کے اندر اپنے ابتدائی زمانے سے ہی اپنی شاعری کو اسرار میں رکھنے کی ایک سائکی سما ئی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے والد، جو کہ بذات خود اردو اور فارسی شاعری کی عظمت کے قائل تھے، لیکن شاعروں کی مفلوک الحالی دیکھ کر،نوشہ اسرار کو ان کی سخت ہدایت تھی کہ سائنس کی تعلیم کے دوران شاعر واعر مت بن جانا۔بہرحال ان کی نظم ”خالی بوتل“ سنی، تو دنگ رہ گیا۔ شاعری کا یہ رنگ و آہنگ، نیا انداز، نیا لب و لہجہ اور ایک انفرادی شان سے لبریز سے یہ نظم دل کی گہرائیوں میں اترتی چلی گئی۔ آخری بند نے تو دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اسلامی شعار اور تاریخ اسلام کے حوالے سے اس نظم کا جو تیور ہے اور مطالعہ و مشاہدہ کا جس حسن و معیار کے ساتھ اظہارہے، اس نے پوری نظم کو آفاقیت بخشا ہے۔ عصر حاضر میں مسلم سماج اور قوم کے اندر جس طرح بد اعمالیاں اور برائیاں جگہ بنا رہی ہیں اور صالح نظام حیات کی ترغیب دینے والے صحیفہ سے لوگ دور ہو رہے ہیں،وہ پریشانی میں مبتلا ہیں اور بے وقعت ہوتے جا رہے ہیں۔ ان تمام باتوں کا اظہار بڑے اعتماد اور بھرپور معنویت کے ساتھ اس نظم میں پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح نوشہ اسرار کی ایک اور خوبصورت اور فکر و احساس سے لب ریز نظم ”گھر“ ہے۔ جس میں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب و اقدار کی رنگا رنگی کے ساتھ ساتھ جو لوگ اس ملک سے ہجرت کر گئے ہیں، ان کے دردو کرب کی ترجمانی ایک خاص کیفیت کے ساتھ کی گئی ہے۔ نظم ”عید“ اکتوبر ۵۰۰۲ء میں بھارت کے بھج علاقہ میں آئے بھیانک زلزلہ کی یاد میں لکھی گئی بہت متاثر کرنے والی نظم ہے۔ جس میں انسانی زندگی کا شیرازہ بکھر گیا تھا اس موقع پر جو عید آئی، اسے ان متاثر ہ افراد نے کیسے منائی۔ ان احساسات و جذبات کا اظہار بڑی دردمندی کے ساتھ اس نظم میں ہے۔
بھارت کی ریاست بہار کے ضلع گیا (موجودہ اورنگ آباد)کی مشہور بستی ہسپورہ میں نوشہ اسرار کی پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم ہسپورہ میں حاصل کرنے کے بعد، گیا اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔ ملک اورکئی بیرون ممالک میں ملازمت کرنے کے بعد اب مستقل طور پر امریکہ کے شہر ہیوسٹن کو اپنا بسیرا بنا چکے ہیں۔ یہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی آب و ہواکا ہی اثر ہے کہ وہاں جو بھی تعلیم حاصل کرنے جاتا ہے، علم و آداب کے ساتھ ساتھ ادب بھی اس کے حصہ میں آتا ہے۔ نوشہ اسرار علی گڑھ میں سائنس کے طالب علم تھے اور والد کی سخت ہدایت کا ہمیشہ خیال رہا کہ اپنی سائنس کی تعلیم پر توجہ دینا، شاعر وائر مت بن جانا۔ اس لئے کہ ان کے والد جہان دیدہ شخص تھے اور شاعر لوگ کا حال دیکھ رہے تھے۔ اس لئے نوشہ اسرار نے علی گڑھ میں رہ کر اپنے والد کی ہدایت پر سختی سے عمل کیا اور سائنس(کیمسٹری) میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے اور ملازمت میں آ جانے کے بعد، چھپ چھپ کر اور چپکے چپکے کی جانے والی اپنی شاعری کی ڈائری نکالی تو انھوں نے محسوس کیا کہ ان کی شاعری میں کافی دم ہے، کچھ لوگوں نے ان کی شاعرانہ کوششوں کو سراہا بھی۔ ایسے میں ان کا حوصلہ بڑھا اور وہ کل وقتی کی بجائے جز وقتی شاعر کے طور پر متعارف ہوئے اور جہاں بھی کسی مشاعرے میں گئے، چھا گئے، منفرد لب و لہجہ، نئے عنوانات، متنوع موضو عات، عصری تقاضوں کا احساس و بیان، مختلف سائنسی علوم و فنون کو شاعری میں خوبصورت آمیزش سے پرونا اور گہرے مطالعہ و مشاہدہ کے اظہار وخیال نے ان کی شاعری کو نہ صرف تہہ داری عطاکی، بلکہ معنویت کی ایک ایسی فضاسے متعارف کرایا کہ لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ شاعری کی ایسی آنچ، ایسی شعلگی اور ایسی وارفتگی تھی کہ ان کے نہ چاہتے ہوئے بھی لوگوں نے انھیں ایک بھرپور شاعر مان لیا اور ان کی شاعرانہ عظمت کے تو لوگ اس دن معترف ہو گئے، جب انھوں نے ایک بڑے مشاعرے میں ’خالی بوتل‘ عنوان سے ایک نظم سنائی۔ ہر چند کہ ان کی غزلوں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا،پھر بھی ’خالی بوتل‘ نے سننے والوں پرکئی بھری بوتلوں کا نشہ چڑھا دیا اوراس طرح نوشہ اسرار غزلوں کے ساتھ ساتھ نظموں کے بھی مشہور و معروف شاعر ہو گئے۔
نوشہ اسرار اس لحاظ سے خوش قسمت شخص ہیں کہ انھوں نے ہجرت کے درد و کرب کو نہیں جھیلا، اس لئے ان کی شاعری میں وہ شدّت غم تو نہیں ہے۔ لیکن انسانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم، استبداد، بربریت اور جبر سے وہ متاثر ہوتے ہیں اور ان کا دل ان ہولناکیوں اور کربناکیوں کو دیکھ کراور محسوس کر ان کا دل بے چین اور بے قرار ہو جاتا ہے اور ایسی بے چینی، بے قراری کو اپنے احساسات و جذبات کی آمیزش کے ساتھ منفرد انداز میں بیان کرتے ہیں، جن میں انفرادیت کے ساتھ ساتھ ندرت کی جھلک بھی نمایاں ہوتی ہے۔ اس ضمن میں یہ چند اشعاردیکھئے.
خون کے چھینٹے، آگ کے شعلے، ظلم کی آندھی، خوف و ہراس
یہ انسانوں کی بستی ہے ، بن میں پھول کھلتے ہیں

بلبل، باغ، بہارو گلشن بادل، بجلی، جگنو، رات
پیٹ میں روٹی ہو تو بھلے ہی بھوکوں کو یہ ڈستے ہیں

جس شب کہ اس نے پ سے پڑھا پیٹ کا سبق
تختی ہمارے لال کی اس رات جل گئی
نوشہ اسرار کی غزلوں کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے افکار و تصّورات کی دنیا محدود نہیں ہے۔ وسعت اور معنویت سے بھرپور ان کی غزلیں روح کی گہرائیوں میں اتر کرپیدا ہونے والی کیفیت کو دو آ تشہ بنا دیتی ہیں…
وہ جا رہا ہے قافلہ، ہمراہ ہو چلو
دریا بنی وہ بوند، جو دریا سے مل گئی

اب زندگی کی خواہش نہ موت کا ہے خدشہ
میں اس سے دو بدو ہوں، وہ میرے روبرو ہے

میں اس خیال سے اقبال جرم کر بیٹھا
زبان جو کھولی تو اس کا بھی نام آئے گا
فکر و معنیٰ میں ڈوبے یہ تمام اشعار نوشہ اسرار کی شاعرانہ عظمت کے دلیل ہیں۔ نوشہ اسرا ر نے اس امر کا بھی اعتراف کیا ہے کہ غزل کہنا کوئی آسان کام نہیں ہے، بلکہ غزل کہنے کے لئے لہو کو آنکھوں سے ابلنا پڑتا ہے، دل میں ارمانوں کو مچلنا پڑتا ہے اور آگ پر کروٹیں لیتے ہوئے غزل ہوتی ہے۔یہ دو شعر ملا حظہ کریں….
جب لہو آنکھوں سے ابلے، تو غزل ہوتی ہے
دل میں کوئی ارمان مچلے تو غزل ہوتی ہے

جذبہئ عشق میں لپٹا وہ خیالوں کا بدن
کروٹیں آگ پر بدلے تو غزل ہوتی ہے
نوشہ اسرار کی غزل میں جو حسن، تازگی، اور شگفتگی ہے، علامتوں اور استعاروں کی جو جدت طرازی ہے، وہ ان کی شاعری کو آفاقیت بخشتے ہیں۔ان کی شاعری بلا شبہ شعری ادب میں قابل قدر اضافہ ہے۔
——

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

 

Share
Share
Share