میری اردو شاعری کی بیاض ۔ میرتقی میرؔ: قسط 4 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

Share

mohsin osmani میرتقیشعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 4
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
میرتقی میرؔ

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
ای میل :

میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 3 ۔ کے لیے کلک کریں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میر تقی میرؔ (۱۷۲۲۔ ۱۸۱۰ء)

اردو زبان میں غزل گوئی کی تاریخ بہت قدیم ہے، یہ صنف سخن فارسی سے ہوتی ہوئی اردو تک پہونچی اور غزل گوئی نے اس زبان میں ترقی اور دلکشی کی تمام منزلیں طے کیں، ولی دکنی کے وقت سے لیکر آج تک غزل کی مقبولیت مسلسل چھائی رہی ہے، اور اسی کے ساتھ میرتقی میر کے غزل گوئی کا فسوں چھایا رہا ہے، میر کو لوگوں نے دنیائے غزل کا امام بھی تسلیم کیا ہے، انہیں خداے سخن بھی کہا جاتا ہےاور اس کے بعد جتنے شعراء ہوئے ، جیسے :غالب، ناسخ، حسرت، فراق اور فیض احمد فیض اور داغ ، سب میر تقی میر کا کلمہ پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں، اور غالب کو بھی یہ اعتراف ہے کہ :

آپ بے بہرا ہیں جو معتقد میر نہیں
داغ جیسے شاعر نے بھی بر ملا اعتراف کیا ہے کہ:
نہ ہوا پر نہ ہو ا میرؔ کا انداز نصیب
داغؔ یاروں بہت زور غزل میں مارا
میر تقی میر ؔ کے کلام میں سادگی بھی ہے بے خودی بھی ہے ہوشیاری بھی ہے، کلا م ایسا ہے کہ ہر شخص محسوس کرتا ہے کہ اس کے دل کی آواز ہے۔میر تقی میر کے دادا سترہویں صدی کے اواخر میں مغل سلطنت کی آگرہ چھاؤنی میں شاہی فوج میں ملازم تھے اور ان کے والد میر علی متقی ایک صوفی منش انسان تھے، آگرہ میں ۱۷۲۲ء میں میر تقی میر کی پیدائش ہوئی، ۱۷۳۹ء میں جب نادرشاہ کا حملہ ہوا اور دہلی خون سے لالہ زار ہوگئی اس کے بعد میر کا وہ وظیفہ بھی بند ہوگیا جو صمصام الدولہ نے مقرر کیا تھا، میر تقی میر اس کے بعد آگرا سے دہلی آگئے، دہلی کی دنیا بدل رہی تھی، سڑکیں اور گلیاں ویران ہوچکی تھیں، شعر وشاعری کا ماحول بھی ختم ہورہاتھا، دہلی میں مرزا محمد رفیع سودا اور خواجہ میر درد ان کے ہم عصر شعراء تھے، میر تقی میر کے لئے دلی میں وقت گذارنا مشکل ہورہاتھا، طرح طرح کے غموں نے انھیں گھیر رکھا تھا، غم جاناں غم دوراں ہر طرح کے غم تھے،چنانچہ انھوں نے کہا ’’کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے‘‘، اسی لئے ا ن کے اشعار میں واردات قلبی اور محسوسات کا اظہار بہت زیادہ ہے۔ میر تقی میر نے عوام کی زبان میں اور آسان الفاظ میں اور لہجے میں غزلیں کہیں ہیں، اسی طرح ایک چھوٹی بحر کی غزل میں غم کی عکاسی اس طرح کی گئی ہے :
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے پھر اس کو
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
یوں اٹھے آہ! اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عشق ایک میر بھاری پتھر ہے
بوجھ کب ناتواں سے اٹھتا ہے
میر تقی میر ؔ نے تمام اصناف سخن پر طبع آزامائی کی ہے، فارسی میں ایک مختصر سا مجموعہ بھی ہے، اردو میں ان کے چھ دیوان ہیں ، انھوں نے مناقب بھی لکھے ہیں، مثنویاں بھی لکھی ہیں، شعلہ عشق ، دریائے عشق، معاملات عشق وغیرہ ان کے منظومات ہیں، میر کے بہت سارے اشعار لوگوں کے زبان زد ہیں، ان کے بہتر نشتر بھی مشہور ہیں۔ کچھ مشہور اشعار اس طرح ہیں:
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
ان کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
دل ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کا غذ نم رہا
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
سیاسی پر آشوب دور کے درد مند اور ستم رسیدہ دل رکھنے والے شاعر نے شمع کی طرح سو زوگداز میں زندگی کے اٹھاسی برس پورے کئے آخر میں وہ دہلی چھوڑ کر لکھنؤ آ گئے تھے، ان کی قبر لکھنؤ ریلوے سٹی اسٹیشن کے قریب دریافت کرلی گئی ہے۔

کلامِ میرتقی میرؔ

Share
Share
Share