جوشؔ ملیح آبادی ۔ ایک تعارف :- عظمت علی

Share
عظمت علی

جوشؔ ملیح آبادی ۔ ایک تعارف

عظمت علی

برصغیر کے ادبا بلکہ ترقی پسند تحریک کے نمائندے اور نقیب صدائے انقلاب کا اگر تذکرہ کیا جائے تو جوش ملیح آبادی کاشمار صف اول میں ہو گا۔انہوں نے آزادی ہند کی خاطر زبان و قلم سے وہ انقلاب برپا کر دیا تھا کہ غاصب انگریز کی نیندیں حرام ہو گئیںاور ان کے پرجوش وانقلابی کلام نے وطن کے متوالوں میں اس طرح روح احرار جگادی کہ موالیان ہندنے غاضب حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی۔

جوشؔ کا اصل نام شبیر حسن خاں تھا اور ابتدائی تخلص شبیر جو بعد میں جوشؔ ہوگیا، ان کے والد بشیر احمد خان نے ان کا نام شبیر احمد خان رکھا تھا لیکن انہوں نے 1907 میں اپنا نام تبدیل کرکے شبیر حسن خان رکھ لیا۔(ضیائے اردو، ضیاء المصطفی مصباحی، باب جوشؔ ملیح آبادی)
جوشؔ کی پیدائش 5 دسمبر 1896 میں ملیح آباد کے محلہ مرزا گنج کے ایک متمول و ادبی گھرانہ میں صبح چار بجے ہوئی۔ ان کے دادا محمد احمد خاں احمدؔ، صاحب دیوان شاعر تھے، ان کے دیوان کا نام’مخزن آلام‘ہے، ان کے پر دادا فقیر محمد خاں گویاؔ بھی اپنے دور کے عظیم ادبا میں شمار ہوتے تھے اور ‘’دیوان گویا‘ ان کا مجموعہ کلام ہے۔جوشؔؔ ملیح آبادی کو اردوادب، میراث میں ملاتھا، اس لیےان کا شاعری سے شغف پیدا ہوجانا بالکل فطری سی بات تھی، چونکہ گھرانہ شاعرانہ فضا سے معمور تھا اسی سبب انہوں نے نو برس کی عمر سے ہی شاعری کا آغاز کردیا، ان کا پہلا شعر ملاحظہ فرمائیں۔
شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
یہ میر ا فن خاندانی ہے
مذکورہ شعر میں خود شاعر نے واضح کردیا کہ شاعری ان کا میراثی حصہ ہے۔اس لیے شاعرانہ طبیعت کی جانب میلان پیدا ہوجانا واضح سی بات ہے۔بنیادی طور پر جوشؔ غزل کے شاعر تھے مگر 1914 میں سلیم پانی پتی کے کہنے پر انہوں نے نظم گوئی کی بھی ابتدا کردی اور اپنی پہلی نظم ‘’ہلال محرم‘ نام سے تحریر فرمائی۔
ان کی تعلیم دراصل گھر سے شروع ہوئی مگر اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے سیتا پور، آگرہ، لکھنؤ اور علی گڈھ کا سفر کرنا پڑا۔1914 میں آگرہ کا رخ کیا اور وہاں سینٹ پیٹرز کالج آگرہ سے سینئر آگرہ کیمبرج کا امتحان پاس کیا، اس کے بعد کچھ مدت کے لیے عربی و فارسی کی تعلیم میں مشغول ہوگئے اور تقریباً چھ ماہ کی مدت، سنسکرت تمدن سے متعلقہ امور کو سمجھنے کے واسطے ٹیگور یونیورسٹی میں بسر کئےمگر دو برس بعد یعنی 1916 میں والد کی وفات نے ان پر مصائب کے پہاڑ توڑ دیئے اور یوں تعلیمی راہ میں بہت ساری رکاوٹیں حائل ہوگئیں، اس لیے وہ اپنی تعلیمی سرگرمی کو مزید آگے نہ بڑھا سکے، چنانچہ انہوں نے اپنے ماسلف آباء و اجداد کی روش پر چلتے ہوئے شعر و شاعری کی سخنوری کے ساتھ ساتھ انگریزی اور فارسی مضامین کو اردو قالب میں ڈھالنا شروع کیا۔
جوشؔؔ حصول ملازمت کی غرض سے اقبال، عبدالماجد دریا آبادی، اکبر الہ آبادی، سلیمان ندوی کے سفارشی خطوط کے ساتھ 1924 میں حیدر آباد گئے اور آئندہ برس 1925 میں دارالترجمہ حیدرآباد میں ناظر ادب کے عہدے پر فائز ہوگئے۔وہاں انہوں نے میڈیسن کی کتابوں کا انگریزی سے اردو ترجمہ کیا اور دیگر خدمات میں بھی مصروف ہوگئے۔ قریب قریب دس برس وہاں خدمات انجام دیں مگر ورثہ میں ملی انقلابی طبیعت کو ہیجان پیداہوا اور آخر کار نظام حیدرآباد کی طرز حکمرانی کے خلاف ایک نظم کہہ ڈالی، جس کی پاداش میں انہیں ریاست بدر کردیا گیا۔
ریاست بدری کے بعد انہوں نے دہلی کی جانب سفر کیا اور وہاں سے 1936 میں ماہنامہ رسالہ ’کلیم‘ کا اجراء کردیا۔رانا عبدالباقی اپنے مضمون ‘’اردو کے بے مثال نقیب جوش ملیح آبادی‘ میں رقمطراز ہیں کہ ۔۔۔(اس رسالہ میں )اُنہوں نے تواتر سے اُردو زبان کی ترقی اور ہندوستان کی برٹش راج سے آزادی کی حمایت میں مضامین لکھے۔ اِسی ارتقائی دورمیں جوش کی شاعری میں نکھار آتا چلا گیا ۔ ہندوستان میں آزادی کی تحریکیں شروع ہونے پر اُنہوں نے اپنے انقلابی کلام کے ذریعے ہندوستان میں آزادی کی اُمنگ بیدار کرنے کےلئے کئی مضامین اور نظمیں لکھیں ۔ سیاسی اُتار چڑھاؤ کے اِسی دور میں جوش کی طبیعت مرثیہ نگاری پر مائل ہوئی ،چنانچہ اُنہیں شہرہ آفاق نظمیں بالخصوص ، حسین اور انقلاب، لکھنے پر شاعر انقلاب کا درجہ دیا گیا لیکن بہرصورت اُردو زبان کی ترقی سے جوش کا دامن ہمیشہ ہی جڑا رہا ۔
اس سے سبکدوش ہوتے ہی سرکاری رسالہ ماہنامہ ‘آجکل‘ کے مدیر مقرر ہوگئے۔1948 تا 1955 علمی و ادبی خدمات انجام دیں اور یکم جنوری 1957 کو ترک سکونت کرکے پاکستان ہجرت کر گئے ۔پاکستان میں ابتدائی طور پر انجمن ترقی اردو کے بانی مولوی عبدالحق کے ہمراہ اردو زبان کی لغت کی تیاری میں خاطر خواہ کام کیا،اس کے علاوہ رسالہ ‘’اردونامہ‘ کی بھی ادارت فرمائی۔
بعض لوگوں کے خیال میں جوش اپنے مشکل الفاظ کے استعمال کے سبب زیادہ مورد قبول قرار نہ پائے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے، بلکہ یہی مشکل الفاظ کا استعمال انہیں دوسروں سے ممتاز بنا گیا۔ان کی شعری صلاحیت کا اندازہ فراق گورکھپوری کی ان باتوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہےکہ انہوں نے جوش ملیح آبادی کو اپنا استاد تسلیم کیا ہے۔انہوں نے اس بات کا اعتراف ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران کیا تھا۔انہیں اپنی غزل مکمل کرنے کے لیے ایک مناسب لفظ کی تلاش تھی، کافی مشقت کے بعد بھی انہیں کامیابی نہ ملی تو جھجھکتے ہوئے جوش کے پاس گئے اور ان کی زبان سے وہ لفظ ایک رتن کی مانند برآمد ہوا۔
جوش ملیح آبادی کی رگوں میں خون آزادی گردش کر رہا تھا ۔ آزادی وطن کی خاطر انہیں بڑی سے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ان کے کلام میں جہاں صدائے انقلاب کی بازگشت سنائی دیتی ہے وہیں ادب کا حسین مرقع بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ اسی باعث انہیں مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے اپنے اخبار ’ہند‘کلکتہ میں 1938 میں پہلی مرتبہ جوش کو ’شاعر انقلاب‘ کے لقب سے نوازا۔
شاعر انقلاب نے دونوں اصناف سخن نظم اور نثر میں طبع آزمائی کی اور بحسن و خوبی اسے نبھایا۔ان کے شعری مجموعے مندرجہ ذیل ہیں :
’روح ادب ،شاعر کی راتیں ،نقش ونگار،شعلہ وشبنم ،فکر و نشاط ،جنون و حکمت ،حرف و حکایت ،آیات و نغمات ،عرش و فرش ،رامش و رنگ ،سنبل و سلاسل ،سیف و سبو،سرود و سروش ،سموم و صبا،طلوع فکر ،الہام و افکار،موحد و مفکر ،نجوم و جواہر، آوازہء حق ،پیغمبر اسلام ،حسین و انقلاب ،قطرہء قلزم ،نوادر جوش ،جوش کے مرثیےء،عروسِ ادب حصہ اول و دوم، محراب و مضراب ،دیوان ِ جوش عرفانیات جوش وغیرہ۔‘
ان نثری کتابیں بھی ملاحظہ ہوں:’مقالات زریں ،اوراقِ سحر ،اشارات ،اردوزبان کے بے مثال نقیب جوش ملیح آبادی، جذبات فطرت، مقالاتِ جوش ،مکالماتِ جوش اور یادوں کی بارات وغیرہ۔‘
جوشؔ ملیح آبادی کو ان کی عظیم علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں 1954میں ‘’پدم بھوش‘ اوارڈ سے نوازا گیاجبکہ 2013 میں پاکستان کے اعلیٰ ریاستی اعزاز ‘’ہلال امتیاز‘ سے بھی نوازا گیا۔

Share
Share
Share