سید سکندرتوفیق : ایک اچھا انسان’ ادیب’ شاعر اورڈرامہ نگار

Share
سید سکندر توفیق
سید سکندر توفیق

سید سکندرتوفیق

ایک اچھا انسان ‘ ادیب ‘ شاعر اور ڈرامہ نگار

ڈاکٹرشعیب اسلم ندوی – جدہ
ای میل :

اُردو ادب کا درخشاں ستارہ جو دکن کے رفق سے ابھرا وردنیاے اُردو کو اپنی چمک سے روشن کرکے کناڈا کی سرزمین میں ڈوب گیا۔
جناب سکندر توفیق صاحب 1932ء میں دکن کے مردم خیز علاقہ اورنگ آباد میں ایک علمی اور متمول خاندان میں پیدا ہوئے۔ جیسے ہی شعور وادراک کی آنکھ کھلی تو گھر ہی میں ایک علمی ماحول دیکھا والدہ محترمہ اورنگ آباد کے واحد گرلز اسکول کی پہلی خاتون پرنسپل تھیں اور والد صاحب‘جناب سید سردارمرزا صاحب اورنگ آباد کے تحصیلدار تھے۔ایسے علمی خانوادے میں نشوونما پانے کانتیجہ تھا کہ چودہ سال کی عمرسکندر توفیق کے قلم نے اپنی جولانی دکھائی شروع کردی اسی خدادا صلاحیت کا نتیجہ تھا کہ سولہ سال کی عمر میں آل انڈیا ریڈیو سے آپکا ڈرامہ تشر ہوگیا پھر کیا تھا یہ سلسلہ شروع ہواتو آپکے ہندوستان میں قیام تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

جیسے جیسے ہندوستان کے سیاسی حالات تبدیل ہونے لگے حیدرآباد فرخندہ بنیاد ایک علمی پناہ گاہ کی حیثیت سے مشہور ہونے لگا پڑھے لکھے معزز دینداراوراہل علم حضرات حیدرآباد کا رخ کرنے لگے تویہ سید مرزا خاندان بھی حیدرآباد منتقل ہوگیا سکندرتوفیق صاحب نے عثمانیہ یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی اُردو کی طرح انگریزی بھی نہایت صاف ستھری اورشستہ اندازمیں لکھتے تھے انگریزی میں اسی قابلیت کا نتیجہ تھا کہ ایشیاپروگرام کے تحت افغانستان کے رائیل ڈیفنس کالج میں انگریزی پڑھانے کیلئے ہندوستان سے قابل انگریزی اساتذہ کا مطالبہ ہوا تواہم کام کیلئے حکومت ہند نے آپ کا انتخاب کیا‘ جہاں دوسال تک آپ نے یہ ذمہ داری بخوبی انجام دی دوسال کے بعد آپ حیدرآباد آگئے اور جواہرلال نہرو پولی ٹیکنک کالج میں تدریسی فرائض انجام دینے لگے نہ جانے آپکی شخصیت کا کمال تھا یا آپ کے پڑھانے کا انداز کہ آج تک بھی ہزاروں نہیں تو سینکڑوں لوگ بڑے فخر سے اسکا تذکرہ کرتے ہیں کہ ہم سکندرتوفیق صاحب کے شاگر ہیں بڑی بڑی پوسٹوں پر تعینات حضرات اب بھی بڑی محبت اور فخر سے اسکا تذکرہ کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ہر وقت کیلئے آمادگی ظاہر کرتے ہیں یقیناًیہ آپکی شخصیت اور حسن اخلاق کا کرشمہ تھا۔
آپ کی ادبی صلاحیتوں کا رناموں اورخصوصیات کا ذکر کیا جائے تو اسکے لئے کئی صفحات درکار ہونگے‘یہ مختصرسا مضمون ان تفصیلات کا متحمل نہیں ہوسکتا اسکے لئے ایک مستقل مضمون درکار ہے یہاں مختصراًاس بات کا اظہارضروری ہے کہ آپکے بعض کارنامے غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں جن کا ذکر ضر وری ہے ۔آپ نے اُردو میں ترسیلی لسانیات پر اپنی قابل قدر شریک حیات ادیبہ اورمصنفہ محترمہ ڈاکٹرثمینہ شوکت صاحبہ کی شراکت سے پیش قیمت کتاب لکھی اور ایک کارنامہ جو اگر پائیہ تکمیل کو پہونچ جاتا تو علمی دنیا میں میں بہت دنوں تک سنہری حرفوں میں سے لکھا جاتا وہ تھا اُردو میں Thesaurus(قاموس) کے جمع وترتیب کا کام ‘ یقیناًیہ ایک فرد کا کام نہیں تھا بلکہ ایک پوری اکیڈیمی کے کرنے کا کام تھا جو آپ اپنی شریک حیات کے ساتھ’’ گنجینۂ معافی‘‘ کے نام سے ترتیب دے رہے تھے مگر مختلف وجوہات کی بناء پر یہ کام پایۂ انجام تک نہیں پہونچ سکا۔
آپ کے ڈراموں کا ایک مجموعہ جواُردو دنیا میں بہت مقبول ہوا وہ تھا ’’کیا گھرنگر کیا خانقاہ‘‘جس میں آپ نے دورحاضرکے مسائل نسواں اورسماج میں عورت کے مقام کا اسلامی تعین پیش کرنیکی کوشش کی ہے۔ اسلامی اقدارکا اظہارآپ کے ڈراموں کی خصوصیت ہے ۔
ادب کے ساتھ ساتھ شاعری کے میدان میں بھی ایک نمایاں مقام حاصل کیا اورشاعری کی ایک نئی صنف ثلاثی ایجاد کی اوراپناایک مجموعہ بھی ترتیب دیا تھا۔
آپ کی شخصیت اورزندگی کا وہ پہلو جو میرے نزدیک سب سے اہم اورسب سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے وہ ہے آپ کا اسلامی مزاج ۔ جب سے آپ نے اپنی شخصیت کے اس مزاج کا ادراک کیا ہے اس وقت سے آپ اپنے ہوش وحواس میں رہے اس کا نہ صرف خودپاس رکھا ہے بلکہ اس کو اپنے بچوں میں بھی اسطرح پیدا کیا ہے جسے کہ وہ ان کی زندگی کا جزولاینفک ہوشعائراسلامی کی پابندی ‘دینی حمیت وغیرت‘ اتباع سنت‘ اور مسلمان ہونے پر فخر وغرور‘ یہ آپکی خالص اسلامی تربیت کا نتیجہ تھی جو آپ کے تمام بچوں میں بخوبی دیکھی جاسکتی ہے۔
آپ کی علمی خدمات میں سیرت مبارکہ کی اہم کتاب خطبات مدراس جو مولانا سلیمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ کی گرانقدر تصنیف ہے اسکا انگریزی ترجمہ جوکہ زیور طبع سے آراستہ ہونا باقی ہے۔
جناب محترم کی شخصیت کا ایک جز‘ آپ کا قرآن پاک سے شغف ومحبت تھا جب بھی وقت ملتا آپ کلام اللہ کی تلاوت وتدبیر میں مشغول ہوجاتے ‘قرآن سے آپ کے اس تعلق ہی کا نتیجہ ہیکہ آپ کے بچوں نے کم عمری ہی میں قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ ختم کرلیا اوراب تفسیر کے ساتھ پڑھکراسکو سمجھتے اوراس پرعمل پیر اہونے میں لگے ہوتے ہیں ۔اور ان کا ایک پوتا کینیڈا میں حافظ قرآن ہے۔
1949ء میں آپ اپنی بڑی دختر کی دعوت پر ہندوستان سے کناڈا کیلئے روانہ ہوگئے میری رائے میں یہ کناڈا کی خوش قسمتی ہیکہ اب آپ کی خدمات کناڈا کے مسلمانوں کیلئے وقف ہوگئیں۔ آپ کی وہ خدمات جو رہتی دنیا تک یاد کی جائیں گی ان میں ٹورنٹو کے علاقہ مارکھم کے اسلامک سوسائٹی کیلئے جامع مسجد کی تعمیرتھی۔ آپ نے اس کے لئے شب وروز محنت کی آپ کی ذاتی وجسمانی محنت کے ساتھ ساتھ آپ کے قلم نے بھی اس میں بھرپورساتھ دیا۔ اُردو اور انگریزی میں ایسی پرجوش اور اسلامی جذبہ سے بھرپور نظمیں لکھیں کہ لوگوں کے ہاتھ بے اختیار اپنی جیسوں کی طرف بڑھ گئے۔
ایک اور خدمت جو بھلائی نہیں جاسکتی وہ ہے بوسنیا کے مسلمانوں کی خدمت ‘جب مغربی اقوام خاص طورسے یوگوسلاویہ کی اسلام دشمن طاقتیں بوسنیا کے مسلمانوں پر قہر ڈھارہی تھیں۔ اسوقت آپ کے قلم کی جولانی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ ایسی درد بھری نظمیں آپ نے لکھیں کہ کناڈا کے مسلمان تن من ودھن سے بوسنیا کے مسلمانوں کی مدد کیلئے آگے آگئے!
جس طرح نبی کریم ؐ کے اخلاق کے بارے میں حضرت عائشہؓ نے فرمایا تھا کہ ’’کان خلقہ القرآن‘‘ کہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا آئینہ دار ہے اسی طرح جناب محترم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں حُسن اخلاق کا نمونہ تھے۔ جیسے ہی آپ کے انتقال پر ملال کی خبر لوگوں تک پہونچنی شروع ہوئی آپ کے ساتھیوں نے ادبی ای میلاور ٹیلی فون کالس کے ذریعہ اپنے تاثرات بھیجنے شروع کئے اور آپ کے وہ ساتھی جن تک اس حادثہ کی خبر پہونچی سب نے آپ کی جس صفت کا بہت شدّت سے اظہار کیا وہ آپ کے اخلاق تھے کہ کبھی کسی کو اپنے کسی عمل پازبان سے تکلیف نہیں پہونچائی حتیٰ کہ بے تکلف ساتھی بھی اس حقیقت کا اظہار کررہے ہیں کہ مذاق میں بھی کوئی حد ادب سے گذرا ہوا لفظ آپ کی زبان سے نہیں نکلا۔ آپ اپنے عملی اخلاق عمدہ اصولوں اور صاف ستھرے خیالات کی وجہ سے تمام حلقوں میں یکساں مقبول اور امتیازی حیثیت کے حامل تھے۔
اس حقیقت کا تو سب کو پتہ ھیکہ ادیب اور خاص طورسے وہ شخص جسکا دل اسلام کیلئے دھڑکتا ہوا سکا قلم بھی خاموش نہیں رہ سکتا اسی لئے جناب محترم نے کناڈا آنے کے بعد اپنے آپ کو ایک نئے مشن کیلئے وقف کردیا۔ آپ کو مطالعہ کا بے حد شوق تھا کوئی وقت ایسا نہیں گذرتا تھا جب آپ کے ہاتھ میں کتاب نہ ہو‘ اورکناڈا آنے کے بعد اور یہ محسوس کرکے کہ انگریزی میں اسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کافی مواد لکھا جارہا ہے تو آپ نے اس طرح کی کتابوں کا مطالعہ کرکے اور اس کا اُردو میں ترجمہ مشترقین کی اسلام مخالف کو ششوں کا جواب دینے والوں کے حوالہ کرنا شروع کردیا تاکہ وہ لوگ اس مواد کو استعمال کرکے دندان شکن جواب دے سکیں۔
اسی شوق میں آپ کے پاس ایک اچھی خاصی لائبریری جمع ہوگئی جس میں اسلام اور ادب کی انتہائی اہم کتابوں کا ایک اچھا خاصاََ ذخیرہ جمع ہوگیا ‘اُمید ہے آپ کی اولاد اس سے کماحقہ استفادہ کرے گی اور چراغ سے چراغ جلتارہے گا۔
جس طرح آپ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اللہ نے آپ کو رشتہ دار بھی ایسے ہی عطا فرمائے تھے۔ آپ کی بڑی ہمشیرہ ڈاکٹررفعیہ سلطانہ صاحبہ عثمانیہ یونیورسٹی کی پہلیP.hd خاتوں تھیں جو بعد میں پرعفیسر شعبہ اردوبنیں اور پھر اللہ نے آپ کے لئے ایک ایسی ہی شریک حیات کاانتخاب فرمایا ‘آپ عثمانیہ یونیورسٹی کی دوسریP.hd خاتون ہیں جو دنیائے اُردو میں ڈاکٹر ثمینہ شوکت کے نام سے مشہور ہیں۔ جنھوں نے پروفیسروصدر شعبہ اردو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔اس سے قبل وہ ویمنس کالج عثمانیہ یونیورسٹی سے وابستہ تھیں۔ آپ نے بھی اپنے زمانہ تعلیم میں کئی غیرمعمولی اہم کتابیں اُردو دنیاکے لئے پیش کیں‘اللہ آپ کو صحت وعافیت کے ساتھ طویل زندگی عطا فرمائے آمین۔ اسی طرح آپ کی اولاد بھی ماشاء اللہ غیر معمولی صلاحیتوں کی مالک ہیں۔ اللہ نے آپ کو تین لڑکے اور تین لڑکیوں سے نوازا ہے جو ماشاء اللہ سب اپنے اپنے میدان میں ممتاز وماہر ہیں۔ اللہ ان سب کو صحت وعافیت عطا فرمائے اور ماں باب کا نام خوب روشن کرکے اسلام کیلئے مفید ومعاون ثابت ہوں۔
ایک کامیاب اللہ کی مرضی اور سنت کے مطابق زندگی گذارنے کے بعد آپ نے /3 اپریل 2015ء بروز جمعہ داعئی اجل کو لبیک کہا۔
اللہ آپ کو جنت الفردوس سے نوازے آپکی قبر کو نور سے بھردے آپ پر اپنی خصوصی رحمتوں کی بارش کردے آپ کی قبر وسیع تر فرمادے اور آپ کی آخری آرام گاہ کو جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری بنا دے۔آمین

Share
Share
Share