بابائے اردو مولوی عبدالحق کا دکن میں قیام اور کارنامے :- یوسف شاشی

Share
محمد یوسف ساشی

بابائے اردو مولوی عبدالحق کا دکن میں قیام اور کارنامے

یوسف شاشی

Mobile no.8130198952

اردو دنیا کا کون شخص مولوی عبدالحق کے نام سے واقف نہیں۔آپ ایک ایسی شخصیت کے حامل تھے،جس نے اردو ادب کی وہ خدمات انجام دیں جو اردو زبان کے وجود تک قابل قدر رہیں گیں۔آپ ایک بلند پایہ محقق اور نامور نقّاد تھے۔وہیں آپ ایک اعلی انشاپرداز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین خاکہ نگار بھی تھے۔

لیکن یہ باتیں اکثران کے ہم عصر ساتھیوں اور دوسرے ادّبا میں بھی پائی جاتی ہیں۔جوبات ان کو دوسرے تمام اہل قلم سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کے ”بابائے اردو“کہلانے میں مضمر ہے۔جو ان کو کسی سرکاری نیم سرکاری یا رضا کار ادارے کی طرف سے عطا کیا ہوا خطاب نہیں تھا۔بلکہ ان کی اُردوزبان و ادب کی وہ خدمات کا نتیجہ ہے۔جو انہوں نے رات دن کی محنت سے انجام دیں تھیں۔ اوراُس اخلاص سے اُ ردو زبان و ادب کی خدمت کرنے والا شائد ہی کوئی ان کے بعد پیدا ہوا ہو۔
بیسویں صدی کی ابتدا میں ہی حیدرہ آباد کو اردو ادب کے گہوارے کا درجہ حاصل تھا۔علی گڑھ کے بے شمار تعلیم آفتہ افراد حیدرہ آباد کا رخ کر رہے تھے۔حیدرہ آباد اس وقت مرکز توجہ بن گیا تھا۔کیوں کہ یہاں بہتریں تنخواہیں ملتی تھیں اور ساتھ ہی مناسب سہولیات بھی مہیّا تھیں۔اسی طرح مولوی عبدالحق صاحب نے بھی عوام کی خدمت اور ملازمت اختیارکرنے کے ارادے شہر حیدرہ آباد کا نتخاب کیا۔مولوی صاحب نے ہندوستان کے دوسرے شہروں کے مقابلے مین حیدرآباد کو پسند کیا۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حیدر ہ بادی حکومت کی اردو دوستی اور برّصغیر کے ذہین اور دانش ورحضرات کوحیدرہ آباد میں اعلیٰ عہدے دے کر ان سے استفادہ کرنا تھا۔مولوی عبدالحق کے ذہن میں بھی قوم اور اردو کی خدمت کا جذبہ تھا۔اس لئے انہوں نے حیدرہ آباد میں ملازمت اختیار کرتے ہوئے اس نیک کام کی تکمیل کا بیڑا اٹھایا۔
انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز حیدرہآباد میں ایک صدرِ مدرس کی حیثیت سے کیا۔ اور ان کی ابتدائی ملازمت مدرسہ آصفیہ سے وابستہ رہی اسی دوران مولوی عبدالحق نے تصنیف و تالیف سے دلچسپی لینی شروع کی۔مولوی صاحب کو اردو زبان سے بے انتہا لگاو تھااور وہ اردو زریعہ تعلیم کو وسعت دینا چایتے تھے۔زمانہ طالب علمی سے ہی مولوی صاحب محنت و جدوجہد سے آگے بڑھنے کے قائل تھے۔اور قوم کی خدمت کا جذبہ موجود تھا۔در اصل یہ سرسیّد احمد خان کی صحبت کا نتیجہ تھا۔

قیام ِدکن میں مولوی عبدالحق کی ابتدائی تصانیف اور علمی و ادبی مشاغل:
قیام ِحیدرہ آباد کے دوران مولوی عبدالحق کی تصنیف و تالیف سے دلچسپی کا ثبوت ملتا ہے۔۶۹۸۱؁ء میں حیدرہ آباد سے وابستگی کے بعد مولوی عبدالحق نے مدرسہ آصفیہ کی صدر مدرسی کے ساتھ ساتھ رسالہ”افسر“ کی ترتیب و اشاعت پر بھی توجہ دی۔ رسالہ افسر میں فروری ۰۰۹۱؁ء سے لیکر جون ۱۰۹۱؁ء تک مولوی عبدالحق نے بہت زیادہ مضامین لکھے۔ان مضامین میں شخصی خاکے بھی ہیں۔اور مختلف کتب پر تبصرے بھی اور بعض مضامین میں مولوی صاحب نے تعمیری مشورے بھی دئے۔مولوی صاحب کے ان مضامین میں ایک جانب تو سنجیدگی دکھائی دیتی ہے۔اور دوسری جانب زبان و ادب سے مولوی صاحب کی فطری وابستگی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
مولوی عبدالحق کی ابتدائی تصنیف کی حیثیت سے علم انشا ء کو اہم مقام حاصل ہے۔ اسلئے ۱۰۹۱؁ء میں خطوط نویسی پر مولوی صاحب نے جو کتاب لکھی اس کو مولوی عبدالحق کی پہلی تصنیف قرار دیا گیا ہے۔مولوی صاحب نے مکتوب نگاری کی تربیت اور اس کے زریعہ ذہن سازی پر بھی توجہ دی۔”باپ کی جانب سے بیٹے کے نام سے لکھے گئے خط“میں انہوں نے مادری زبان کی اہمیت کو بھی واضح کیا ہے۔مدرسہ آصفیہ کی ملازمت کے دوران ان کی تصنیفی خصوصیات ابھر کر سامنے آئیں۔لیکن اس کا سلسلہ مضامین کی حد تک محدود رہا۔
عبدالحق نے مضمون نگاری کا سلسلہ جاری رکھا،اور حیدرہ آباد کے ادبی حلقوں میں ان کو شہرت مل چکی تھی۔ادبی مضامین کے علاوہ مولوی صاحب نے مذہب و اخلاق کے موضوعات پر بھی خصوصی توجہ دی۔دکن رویو ۶۰۹۱؁ء سے ۸۰۹۱؁ئتک ان کے سلسلہ وار مضامین کی اشاعت بہ عنوان”العالم الاسلامی“سے ان کے موضوعات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اسی دوران مولوی صاحب کا ایک اہم کام بھی منظر عام پر آیا جو انہوں نے مولوی چراغ علی کے ساتھ مل کر کیا وہ ہی انگریزی کتاب ”پرویوزڈی پولٹیکل،لیگل ایند سوشل ریفارمرانڈر مسلم رول“کا ترجمہ ہے۔
اسی دوران اک یورپین عالم ریورنڈملکم میکال، نے یہ اعتراض اٹھایا کہ مذہب اسلام مانع ترقی ہے۔مولوی عبدالحق کے ہم عصر اور قریبی دوست مولوی چراغ علی نے ۱۸۸۲ ء مین اس کے جواب میں ایک کتاب لکھی اور قرآن و احادیث،فقہ اور تاریخ سے نہایت ہی عالمانہ طریقے پر یہ ثابت کیا کہ ”اسلام روحانی،اخلاقی اور دماغی ترقی کا حامی،دور جدید کے ساتھ نئے تمدن و سیاست کا ساتھ دینے والا اور زندہ ضروریات کے مطابق ہر قسم کے قوانین کی بنیاد بننے کی صلاحیت رکھنے والا مذہب ہے۔اس کی فطرت جمود و خمود کے منافی ہے۔“۔۱
مولوی صاحب نے قیام حیدرہ آباد کے دوران تصنیف و تالیف کے علاوہ مطالعہ کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔علوم و فنون کی کی کتابوں کے مطالعے کے ساتھ ساتھ مدرسہ آصفیہ کے دوران ہی دکھنیات پر تحقیقی کام کتابوں اور قدیم دکھنی قلمی نسخوں کا بھی مطالعہ شروع کر دیا تھا۔

قیام اورنگ آباد اور حیدرہ آبادکے دوران عبدالحق صاحب کی تصنیفات و تالیفات کا جائزہ:
مولوی عبدالحق کی قابلیت کا ندازہ ان کے طالب علمی دور سے ہی ہو گیا تھا۔لیکن دکن مین آنے کے بعد ان کی وہ ساری صلاحیتیں بھی منظر عام پر آگیں تھیں جو اب تک پوشیدہ تھیں۔انہوں نے کتابوں پر مقدمے لکھے،رسالہ اردو میں تبصرے کئے۔دوستوں کو خطوط لکھے۔اور مقدمہ نگار، مکتوب نگار،اور نقاد کی حیثیت سے نمایاں ہوئے۔وہیں مولوی عبدالحق صاحب ایک بہترین مقّرر بھی تھے۔انجمن ترقی اردو کی حیثیت سے انہوں نے کئی تقریریں بھی کی۔اور اورنگ آباد میں رہتے ہوئے ان کی موجودہ صلاحیتیں پختہ ہوگیں
تھیں۔انجمن ترقی اردو اورنگ آباد کے زیر اہتمام کئی کتابیں بھی شائع ہوئیں۔اور مصنفوں اور مترجموں سے کتابیں تصنیف و تالیف اور ترجمہ کروائیں۔اس کے علاوہ خود انہوں نے دکنی کی قدیم کتابیں،تذکرے اور اردو شعراء کے دیوان مرتب فرمائے۔اسٹنڈرڈ انگلش،اردو ڈکشنری،لغت و اصطلاحات علمیہ اور نصابی کتب کی ترتیب اردو زبان کی تاریخ میں اہمیت کی حامل ہیں۔ان کی چند کتابوں کا مختصر ساتعارف پیش کیا جا رہا ہے۔

قواعد اردو:
مولوی عبدالحق صاحب کی”قواعد اردو“ اردو کی تمام قواعد کی کتابوں میں اہم درجہ رکھتی ہے۔ جس میں انہوں نے زبان کے مختلف پہلووّں کا بڑی باریکی سے مشاہدہ کیا ہے۔ خود دیباچے میں لکھتے ہیں کہ مادری زبان سیکھنے کے لئے قواعد کی ضرورت نہیں، ہندوستانی گرائمر اہلِ زبان کی گفتگو اور تحریر سند ہوتی ہے۔اور اسی پر قواعد اور فرہنگ کی اساس قائم ہوتی ہوتی ہے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کسی زبان کی گرائمر سے واقفیت کے بغیراس زبان میں تحریر و تقریرپر کامل عبور مشکل ہے۔زبان کے اصول و ضوابطمرتب کر لئے جائیں تو زبان کی ترقی کے لئے مفید ثابت ہوتے ہیں۔اور زبان کے قواعد موجود ہونا اس کی ترقی یافتہ ہونے کی دلیل ہے۔“۲
اس کتاب میں انہوں نے قواعد کی مختصر تاریخ بھی بیان کی ہے۔پہلی بار ”قواعد اردو“ ۱۹۱۴ء میں شائع ہوئی۔

اردو کی ابتدائی نشونما میں صوفیائے اکرام کا حصہ:
یہ کتاب پہلی مرتبہ انجمن ترقی اردو اورنگ آباد سے ۱۹۳۳ء میں شائع ہوئی۔اس سال مجلس تحقیقات علمیہ کلیہ جامعہ عثمانیہ کی جانب سے نکلنے والا رسالہ”مجموعہ تحقیقات علمیہ“میں یہ مقالہ شائع ہوا۔یہ نرسالہ کی اوّلین اشاعت تھی۔مولوی صاحب نے اسکتاب میں یہ بتایا کہ مسلمانوں کے ابتدائی قیام ہند سے صوفیائے اکرام ہندوستان تشریف لائے۔ اور اپنے نور باطن سے اہل ہند کے دل و جان کو روشن کرنا شروع کیا۔مسلمانوں کو ایک نئی تہذیب اور نئی قوم کے ساتھ تعلقات بڑھانے تھے۔ ان کو سمجھنا ساری قوم کو سمجھنا تھا۔اپنے مذہبی عقائد کو واضح طور پر پیش کرنا تھا۔اور یہ صوفیا اکرام سارے ہندوستان میں پھیل گئے۔اور عوام کی ضرورت کے لحاظ سے فارسی کے بجائے ہندی زبان (یعنی ہندوستان میں بولی جانی والی زبان)کو مذہبی تبلیغ کے لئے استعمال کیا۔ کتاب کی ابتداء میں صوفی کی تعریف لکھی ہے۔اور صوفی اور مولوی کا درمیانی فرق بھی واضح کیا ہے۔
ٓؓ ابتداء میں ایسے سترہ بزگوں کا ذکر ہے جن کی ہندی تصانیف دستیاب نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو وچوق کے ساتھ کہنا دشوار ہے کہ اس کے بعد آٹھ اہل اللہ کا ذکر ہے جن کا کلام مولوی صاحب کے پاس موجود تھا۔ مولوی صاحب سب سے پہلے خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے مطعلق لکھتے ہیں۔ان کے بعد شیخ فریدالدین شکر گنج ؒ،شیخ حمیدالدین ناگوریؒ،حضرت بو علی قلندرؒ اور حضرت امیرخسرو ؒکے حالات اور نمونہ کلام در ج ہے۔ خواجہ بندہ نواز گیسودراز کے حالات بھی قدرے تفصیل سے تحریر کئے ہیں۔اور نمونہ کلام بھی پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ شیخ بہاوالدینؒ،شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ،شیخ وجیہ الدینؒ۔ شاہ ہاشم حسینی کے نمونہ کلام درج ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سارے صوفیا
اکرام کا ذکر ملتا ہے۔ ان کے بعد مولوی صاحب نے ایسے بزرگو زکر کیا ہے جن کا کلام کسی شک و شبہ کے دستیاب تھا۔

مرحوم دہلی کالج:
مولوی عبدالحق کی اس کتاب کا متن جنوری،اپریل،جولائی اور اکتوبر ۳۳۹۱؁ء کے رسالہ ”اردو“ میں قسط وار شائع ہوا۔اور اس کے بعد اسی سال کتابی شکل میں انجمن ترقی اردو اورنگ آباد سے اور دوسری مرتبہ ۵۴۹۱؁ء میں انجمن ترقی اردو(ہند) دہلی سے شائع ہوئی۔
اس کتاب مین مولوی صاحب نے دہلی کالج سے متعلق ابتداء سے آخر تک تمام اہم نکات کا تفصیل سے جائزہ پیش کیا ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے کالج کی تمام تفصیلات جیسے کالج کا قیام،انگریزی زبان کی تعلیم کی ابتدا،نواب عمادالدولہ کا وقف تمام سالون کی رپورٹیں۔طلبا کی تعداد،ماسٹر رام چندر جی کا عسائی ہونا، کالج کے اساتذہِ تعطیلات، غدر میں کالج کی تباہی،دوبارہ کالج کی ابتدا ء نصاب، کالج کے قدیم طالب علم وغیرہ کو صحیح تاریخوں اور مستند حوالوں کے ساتھ درج کیا ہے۔ کتاب کے دوسرے ایڈیشن مین مولوی عبدالحق صاحب نے دہلی کالج کے پرنسپل مسٹر بتروس کا خط گارساں دتاسی کے نام جو ۱۱ دسمبر ۱۹۴۱ء کو لکھا گیا تھا، شامل کر دیا تھا۔ اس خط سے کالج کی کارگردگی کا پتہ چلتا ہے۔
مولوی عبدالحق صاحب کی یہ کتاب دہلی کالج کی تاریخ پر پہلا مستند محققانہ مقالہ ہے۔اس کالج نے کئی برسون علوم کی خدمات انجام دیں اور ملک کے نامور سپوت اس کالج کے ساختہ و پرداختہ ہیں۔لیکن کسی نے اس کی تاریخ لکھنے کی طرف توجہ نہیں کی۔لیکن مولوی عبدالحق صاحب نے اس کو تاریخ کے حوالے سے حقائق کو مدّ ِ نظر رکھ کر قلم بند کیا۔ جو کہ نہایت ہی اہم کام تھا۔
چند ہم عصر۔
”چند ہم عصر“ مولوی عبدالحق کے قلمی مرقعوں کا مجموعہ ہے۔خاکہ نگاری،سوانح نگاری سے مکتلف صنف ہے۔ اس صنف مین مصنف کسی شخص کا حلیہ، اس کے اعدات و اطوار رہن سہن،اس کی زندگی کے خاص واقعات کچھ اس طور پر پیش کرتا ہے کہ اس کی زندگی کی پوری تصویر ہماری نگاہوں کے سامنے اس طرح گھوم جاتی ہے جیسے ہم نے بہت قریب سے اس کی زندگی کا مشاہدہ کیا ہو۔اس میں مصنف اچھائیوں اور برائیوں سب کو منظر عام پر لاتا ہے۔
اسی طرح مولوی عندالحق کیان قلمی مرقعوں کو ان کے شاگرد شیخ چاند نے ۶۳۹۱؁ء مجموعہ کی صورت مین مرتب کیا۔جسےِ انجمن نے ۱۹۳۷ ء میں اپنے سلسلہ مطبوعہ نمبر ۱۰۳ کے تحت شائع کیا۔ اس وقت اس میں چودہ مرقع شامل تھے۔ اس کے بعد بھی چند ہم عصر کے مختلف ایڈیشن مختلف مقامات سے شائع ہوتے رہے اور اس کے خاکوں میں اضافہ ہوتا رہا۔
چند ہم عصر“ میں جن شخصیتوں کا خاکہ تحریر کیا گیا ہے،ان سب کے مطالعے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ مولوی صاحب کچھ خاص اوصاف کو پسند کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اور ان کی یہ خوبی ہے کہ وہ عام انسانوں سے اخلاق،علم اور مزاج کی بناء پر ممتاز رہی ہیں۔ ان کا
کہنا ہے کہ انسان کی اصل چیز اعمال ہے۔قربانی سلوک اور ضبط نفس ایسے جوہر ہیں جس سے شخصیت کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ مولوی عبدالحق کی خاکہ نگاری اس لئے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ ان کے خاکوں کے ذریعہہم مولوی عبدالھق کی سیرت اور شخصیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ وہ زندگی میاں کن اخلاقی قدروں کو عزیز رکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں انسان کو کون سے اوصاف سے متصف ہونا چاہئے۔ان خاکوں کے پردہ سے خود مولوہ صاحب کی شخصیت واضح ہوتی ہے۔ مولوی صاحب نے ہرن شخص کی سیرت سے کوئی نہ کوئی اخلاقی نتیجہ اخذ کیا ہے اور قارئین کے لئے ان کا یہی مشورہ ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں پر نظر رکھے۔ اور مستقبل کی تعمیر میں اپنے ماضی کی غلطیوں یا بھول سے عبرت حاصل کرتا رہے۔ ”چند ہم عصر“کی تخلیق کا سب سے اہم وصف جو قابلِ تعریف ہے،وہ مصنف کا سلوبِ بیان ہے۔انتہائی سادہ اور روزمرّہ کی زبان کا استعمال کیا گیا ہے۔
اردو کا قاعدہ و کلید قاعدہ ۔
انجمن ترقی کے زیر اہتمام اردو طریقہ تعلیم اور مروجہ اردو قاعدوں کی اصلاح کی گئی۔اس مسئلہ پر غور و خوض کے لئے ۲۹ دسمبر ۱۹۱۳ء کا دن مقرر کیا گیا۔۱۹۳ ویں انجمن کی تحریک پر مختلف اصحاب نے اپنے قاعدے بھجوائے۔ان میں سے منشی الطاف حسین تشنہ فرید آبادی اور سیّد امیر علی صدر مدرس کے قاعدے پسند کئے گئے۔”اردو قاعدہ“ ۶۱۹۱؁ء مین انجمن سے شائع ہوا اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی کتاب ”کلید قاعدہ“بھی بھی معلمین کے لئے شائع کیا گیا۔جس میں طریقہ تعلیم سے متعلق ہدایات درج تھیں۔لیکن وہ قائدہ آج نایاب ہے۔
درسیہ عثمانیہ۔
انجمن ترقی اردو اورنگ آْباد کے زیرِ اہتمام پہلی جماعت سے لے کر ساتویں جماعت تک اردو کی سات ریڈرس تیار کی گیں۔جو ریاست حیدرہ آباد کے مدارس میں رائج تھیں۔اور درسیہ عثمانیہ کہلاتی تھیں۔در اصل مدارس کے لئے ریڈریں تیّار کرانا انجمن ترقی اردو کا پرانا منصوبہ اور مولانا حبیب الرحمٰن خان شیروانی کے زمانے سے زیرِ غور تھا۔ مولوی عبدالحق اور حیدرہ آباد کا پڑھا لکھا طبقہ انجمن حمایت اسلام کے مرتبہ درسی کتب سے مطمئن نہیں تھا۔اسی و جہ سے اردو ریڈریں مرتب کرنے کا خیال آیااور”اردو قاعدہ“ ۴۱۹۱؁ء میں ترتیب پایا گیا۔اردو کی پہلی ریڈر کا ذکر پہلی مرتبہ ۶۱۹۱؁ء میں ملتا ہے
اس کے علاوہ ”میٹریکولیشن کا نصاب اردو (حصہ اول ودوم) مرتبہ مولوی عبدالحق ۷۲۹۱؁ء میں شائع ہوئی
”دی اسٹندرڈ انگلش اردو ڈکشنری“ بھی انجمن کے زیر اہتمام ۱۹۳۷ء میں شائع ہوئی۔
رسالہ اردو۔
بابا ئے اردو مولوی عبدالحق کے ادبی کارناموں میں سے ”رسالہ اردو“ایک اہم کارنامہ ہے۔جو کہ انجمن ترقی اردو اورنگ آباد کے زیرِ اہتمام شائع کیا جاتا تھا۔جب مولوی صاحب انجمن کے سکریٹری ہوئے تو ۱۹۱۳ء میں انجمن کی رپورٹ کے ساتھ انجمن کے قواعد و ضوابط اس میں شائع ہوئے۔ لیکن بعد میں ردو بدل کر کے۱۹۲۱ء میں دوبارہ رسالہ اردو کا اجرا کیا گیا۔ جو کہ اب اعلیٰ درجے کے ادبی مضامین کا ضامن تھا۔ اس کے علاوہ بھی مولوی عبدالحق صاحب نے ایک اور رسالہ ”سائنس“ کے عنوان سے جاری کیا تھا۔ان سب کے بعد مولوی صاحب کے ان گنت مضامین بھی قارئین کی نظر ہوتے تھے۔
مولوی عبدالحق نے جو خدمات حیدرہ آباد اور اورنگ آباد کے قیام کے دوران انجام دیں ہیں،تمام تر قابلِ قدر ہیں۔ان کی تمام تخلیقات کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آپ کتنی بڑی مخلص ترین شخصیت کے مالک تھے۔ مولوی عبدالحق صاحب نے جو اردو زبان و ادب کی ترویج کے لئے کام کئے ہیں، وہ ہمیشہ سراہے جاتے رہے ہیں اور ہمیشہ یاد بھی کئے جاتے رہیں گے۔ آپ حقیقی معنوں میں اردو زبان و ادب کے محسن اور مربع تھے۔
———–
کتابیات و حوالہ جات۔
۱۔ مولوی عبدالحق کی حیات اور خدمات۔ از شہاب الدین ثاقب۔۱، ص۔۸۷۱
۲۔قومی بان بابائے اردو نمبر ستمبر۔مضمون بیاد عبدالحق۔ از حبیب اللہ رشدی۔
۳۔مولوی عبدالحق کی خدمات۔ڈاکٹر مسرت فردوس۔۹۹۹۱؁ء
۴حیدرہ آباد میں اردو کی ترقی(تعلیمی اور سرکاری زبان کی حیثیت سے)۔ڈاکٹر سیّد مصطفی کمال۔

Share
Share
Share