ممتاز صحافی اور دانشور ۔ حفیظ نعمانی :- ڈاکٹرمحمد نجیب قاسمی سنبھلی

Share
حفیظ نعمانی

ممتاز صحافی اور دانشور ۔ حفیظ نعمانی

ڈاکٹرمحمد نجیب قاسمی سنبھلی
(www.najeebqasmi.com)

سنبھل صو بہ اترپردیش کا ایک تاریخی شہرہے جو اپنی تعلیمی اور ثقافتی روایات کی بناء پر تاریخی ریاست روہیل کھنڈ میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ شیخ حاتم ؒجیسی عظیم شخصیت نے یہاں علم کی قندیل روشن کی اور ملا عبد القادر بدایونی ؒ، ابو الفضل ؒاور دارالعلوم دیوبند کے مشہور استاذ علامہ محمد حسین بہاری ؒ جیسی مایہ ناز ہستیوں نے حصول علم کی غرض سے سنبھل کی سرزمین کے لئے رخت سفر باندھا۔

اسی سرزمین پر پیدا ہونے والی بے شمار علمی شخصیات نے جہاں قرآن وحدیث کی عظیم خدمات پیش فرمائی ہیں وہیں قوم وملت اور ملک کے لئے بیش بہا خدمات انجام دی ہیں۔ سنبھل کی علمی شخصیات میں سے مجاہد آزادی حضرت مولانا محمد اسماعیل سنبھلی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کا نام خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔ نہ صرف ان دونوں شخصیات نے بلکہ ان کی اولاد نے بھی جہاں سنبھل کا نام روشن کیا ہے وہیں آج بھی اِن دونوں خاندانوں کے بعض جیالے قوم وملت کی خدمات کے ساتھ قرآن وحدیث کی خدمات میں مصروف ہیں۔
حضرت مولانا منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کے سب سے بڑے صاحبزادے اور مشہور عالم دین حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب کے بڑے بھائی محترم جناب حفیظ نعمانی صاحب ۸ دسمبر ۲۰۱۹ء کو دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئے جنہوں نے ۶۰ سال سے زیادہ اپنے قلم سے ادب وصحافت دونوں کی آبیاری کی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ خالق کائنات کا نظام ہے کہ جو بھی اس دنیا میں آتا ہے ایک دن اسے ضرور یہ دنیا الوداع کہنی پڑتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں متعدد مرتبہ اس حقیقت کو بیان کیا ہے۔ ایک آیت کا ترجمہ پیش ہے: ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور تم سب کو (تمہارے اعمال کے) پورے پورے بدلے قیامت ہی کے دن ملیں گے۔ پھر جس کو دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا، وہ صحیح معنی میں کامیاب ہوگیا، اور یہ دنیاوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ (سورۃ آل عمران آیت ۱۸۵) آئیے اس موقع پر سب سے پہلے قلم کے اس عظیم سپاہی کے لئے بارگاہ الٰہی میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنائے، انہیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے، اور ان کے وارثین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
اِس ایمان دار صحافی اور بے باک قلمکار کی پیدائش ۱۹۰۳ء میں شہر سنبھل کے مشہور محلہ دیپاسرائے میں ترک برادری کے نعمانی خاندان میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم سنبھل میں ہی حاصل کی۔ کچھ عرصہ والد محترم حضرت مولانا منظور نعمانی ؒکے ہمراہ بریلی میں گزارا۔ بریلی سے واپس سنبھل آئے اور پھر ندوۃ العلماء لکھنؤ میں تعلیم حاصل کرنے لگے، مگر حالات کے پیش نظر ندوۃ العلماء لکھنؤ میں تعلیم مکمل نہ کرسکے۔ شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی رحمۃاللہ علیہ انہیں اپنے ساتھ دیوبند لے گئے مگر بیماری کی وجہ سے وہاں پر بھی تعلیم مکمل نہ کرسکے اور واپس لکھنؤ چلے گئے۔ گھر کے حالات کے پیش نظر والد محترم کے مشورہ کے بعد بک ڈپو کی ذمہ داری سنبھال لی مگر علمی ذوق وشوق کے پیش نظر لکھنے پڑھنے کا سلسلہ برابر جاری رکھا۔
حفیظ نعمانی صرف ایک صحافی نہیں تھے بلکہ آپ نے سماج کے لئے بھی بڑی خدمات پیش کی ہیں۔ سنبھل، مرادآباد، احمد آباد، ممبئی اور کلکتہ میں ہوئے ہندو مسلم فسادات کے بعد مسلم مجلس مشاورت کے امن کاروان میں آپ سرگرم رہے۔ ۱۹۷۸ء میں سنبھل کے ہندو مسلم فسادات کے دوران آپ کی گرانقدر خدمات کو یاد کیا جاتا رہے گا۔ سیاسی و سماجی خدمات کے ساتھ ساتھ سنبھل میں ادبی سرگرمیوں میں بھی حفیظ نعمانی صاحب سرگرم رہے بلکہ آزادی کے بعد سنبھل میں مشاعرہ کی باقاعدہ شروعات بھی ان کے ذریعہ ہی کی گئی۔
۵۵۹۱ء میں ”تحریک“ شروع کیا، تو ۷ سال تک ”ندائے ملت“ نکالا۔ ۱۹۶۵ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی تحریک پر ایک خصوصی نمبر ”ندائے ملت“ کے ذریعہ نکالنے پر آپ کو ۹ ماہ تک جیل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ جیل میں ۹ ماہ کے دوران ایک ایسا کارنامہ حفیظ نعمانی نے انجام دیا جس سے لمبے عرصہ تک لوگ استفادہ کرتے رہیں گے۔ ”روداد قفس“ یعنی Jail Diary کے نام سے آپ نے جیل کے دوران اپنی تکلیفوں اور پریشانیوں کو قلمبند کرنے کے بجائے جیل میں قیدیوں کے احوال اور ان کے مسائل تحریر کئے، جس کا بعد میں ہندی ایڈیشن بھی شائع ہوا۔ حفیظ نعمانی صاحب نے خاکہ نگاری میں بھی کافی شہرت حاصل کی۔ ان کے خاکوں کے مجموعہ ”بجھے دیوں کی قطار“ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی ہے، جس کو محمد اویس سنبھلی نے ترتیب دے کر خوبصورت انداز میں شائع کیا ہے۔ اہلیہ کی وفات کے بعد آپ کا کتابچہ ”ہم رہ گئے اکیلے“ بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا۔ ان کے کالموں کا ایک انتخاب قلم کا سپاہی کو کافی شہرت حاصل ہوئی۔
حفیظ نعمانی نے متعدد اخبار وجرائد کی ادارت کے فرائض انجام دئے۔ ”اِن دِنوں“، ”عزائم“، ”اپنا اخبار“ اور ”اودھ نامہ“ کے چیف ایڈوائزر رہے۔ گزشتہ بیسیوں سالوں سے ملک کے اہم روزناموں میں ان کے بے لاگ مضامین تواتر کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔ زبان وبیان کے ساتھ ساتھ ملک وملت کی تاریخ پر ان کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ وطن عزیز کے مسائل پر بہت لکھا۔ ملی مسائل سے خوب دلچسپی رکھتے تھے۔ صاف گو تھے، یعنی جو دل میں ہوتا تھا اُس کو کہہ دیا کرتے تھے خواہ کسی کو اچھا لگے یا نہ۔ تقریباً ۰۰۰۵ مضامین کے مسودے اُن کے پاس موجود تھے جو مختلف اخباروں وجرائد میں شائع ہوئے ہیں، اُن کی اشاعت کے لئے تقریباً تین ماہ کا عرصہ درکار تھا مگر اُس کے لئے ضروری تھا کہ مزید لکھنے کا سلسلہ منقطع کیا جائے جس کے لئے وہ تیار نہیں تھے۔ اترپردیش اردو اکیڈمی کی طرف سے آپ کو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
سنبھل کا یہ عظیم سپوت ۸ دسمبر ۲۰۱۹ء بروز اتوار کو ۹۰ سال کی عمر میں لکھنؤ میں رحلت فرماگیا۔ ۹ دسمبر بروز پیر بعد نماز ظہر ندوۃ العلماء لکھنؤ میں نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی صاحب نے نمازِ جنازہ پڑھائی، اور عیش باغ قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
—-

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی
Share
Share
Share