تو مری یاد سے آہستہ گزر۔ ۔ ۔ ۔ علامہ اعجازفرخ

Share
ALEXANDER WITH ARISTOTLE
سکندر اور ارسطو
allama
علامہ اعجازفرخ

تو مری یاد سے آہستہ گزر
یونان کی سرزمین سے ایک کشت زعفران

علامہ اعجازفرخ – حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09848080612
ای میل :

کہانی کسی شخص کی نہیں ہوتی۔ بھلا اکیلے کی کوئی کہانی کیا! کہانی تو اس کے اطراف کے کرداروں سے مل کر تشکیل پاتی ہے۔یہ کردار بھی سانس لیتے ہوئے جیتے جاگتے کردار جن کے اطراف پھر کہانیاں ہی کہانیاں، اس طرح ہر پل کی اپنی ایک کہانی ہے۔پل بہت مختصر سہی لیکن ایک پل کی کہانی کبھی کبھی زندگی سے بھی طویل ہوکر کسی خوبصورت موڑ پریوں رُک جاتی ہے کہ پڑھنے والے کی سانس تھم جائے اور پھر بھی یوں محسوس ہو جیسے خواب کا لمس نرم ہونٹوں کو چھوگیا۔کہانی پوری ہوجاے تومرجاتی ہے ۔ادھوری رہ جائے تو اپنی تکمیل کی خاطر صدیوں کا سفر کرتی ہے کہ شاید اگلے کسی موڑ پر منزل مل جائے۔کچھ کہانیاں انسان کے اندر کا آتش فشاں بھی اگلتا ہے۔باہر سے بظاہر سرونظرآنے والا یہ آتش فشاں اپنے وجود میں کتنا لاوا سمیٹے ہوئے ہے، اس کااندازہ تو اسی وقت ہوتا ہے، جب بستیاں خاکستر ہوجائیں۔شاید یہ بھی درست ہے کہ ایک انسان کی انا ہزاروں معصوم کہانیوں کا قتل عام کرے اور کٹے ہوئے سروں کا مینار صرف اور صرف اس کی انا کی تسکین کا سامان ہو۔فرعون نے بچوں کا قتل کرواکر بے شمار کہانیوں کو چند سانسوں کی مہلت بھی نہ دی،لیکن یہ بھی صرف ایک نسل کا قتل تھا۔سب سے سفاک قاتل تو وہ ہے جو ذہانتوں کا قاتل ہے اور جس نے مسلسل نسلوں کاقتل عام کیا پھربھی سرخرورہا۔ اگران ذہانتوں کا مینارتعمیر کیا جائے تو دہلی کاقطب مینارا ور فرانس کا ایفل ٹاوراپنی قامت پرشرمائے ۔

لیکن سناٹوں کے درمیان خود سناٹے کی آواز اور صرف ایک کانٹے کی کسک ان انسانوں کے اندر کے بیابانوں کی سیر کرواتی ہے تب ان کے باہر کی انجمن اور ان کے اندر کے ہولناک ویرانے جو کہانی سناتے ہیں وہ دُنیا کی سب سے عجیب کہانی ہوتی ہے۔مسلسل بھی،ادھوری بھی،ناتمام بھی،کبھی نہ ختم ہونے والی بھی۔کبھی یہ دُنیا خود بھی ایک سناٹے میں تبدیل ہوجائے گی تب وقت کی منجمد دونوں سوئیوں کے درمیان کا فرق اس کہانی کی علامت کے طور پر اس خلش ناتمام اور اس کسک کی کہانی سناتا رہا ہے گا۔شاید ہمیشہ، شایدابدتک، اگر بہت زیادہ قربتوں کا دوسرانام دوریاں ہو تو طویل ہجر بھی بدن سے ماورا ایک لذت وصل سے سرشار تو رکھتا ہے،جہاں مزاحمتیں، پابندیاں، انتظار کا کرب،سب کچھ بے نام ہوکر رہ جاتا ہے۔
مشہور تو یہی ہے کہ مقدونیہ کا بادشاہ جو زمینو ں کی فتوحات کے بعد سکندر اعظم کہلایا۔جب دُنیا سے گیا تو دونوں ہاتھ خالی تھے۔صدیوں سے ان خالی ہاتھوں کے اطراف ایک ہی کہانی گردش کررہی ہے کہ دُنیا،دولت،شہرت،عزت،حشم،قدم سب دُنیا میں دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ہاتھ جنازے کے باہر ہوں یا اندر حقیقت تو بدلنے والی نہیں۔ہاں ایک نمود کا سامان ہوگیا۔ویسے خالی ہاتھوں کی سونی لکیریں بھی اپنے اندر کچھ کہانیاں رکھتی ہیں،کسی سے نہاں کسی پر عیاں،کسی کے آگے چپ اور کسی سے سرگوشی۔
سکندربچپن ہی سے ضدی تھا، اس کا باپ فلپ جب علاقے فتح کرکے واپس لوٹتا اور فتح کا جشن منایا جاتا تو وہ کبھی اپنے کمرے میں بند رہتا اور کبھی دور باغات میں جاکر تناور پیڑوں پر مکے برساتا۔اسے غصہ اس بات پر تھا کہ اس کا باپ فتوحات پر فتوحات کرکے اپنی سلطنت کو وسعت دے رہا ہے اور سکندر کو فتح کرنے کے لئے اس کے حصہ میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔نو برس کی عمر میں سکندر کو فوجی تربیت کے لئے بھیج دیا گیا۔سخت جسمانی مشقت،فنون سپہ گری،شہسواری،تلواروں کی جھنکاریں،نیزہ بازیاں،بدن پر لگنے والے گھاؤاور اس پر بے مزہ غذائیں،لیکن سخت گیرتربیت دینے والے ماہر جنگجو اور فلسفیانہ تعلیم دینے والے اتالیق نے سکندر کے مزاج میں ٹھہراؤ پیدا کردیا۔ا س کے اندر کا ضدی بات بے بات مچلتا تو نہیں تھا،لیکن اس نے حساب سیکھ لیا تھا۔دوسال بعد جب سکندر لوٹا تو اسے فوجی چھاؤنی ہی میں ٹھہرایا گیا۔اسے اجازت نہیں تھی کہ وہ مقدونیہ کے شہری علاقہ میں داخل ہوتا۔نہ اس نے شہر کی روشنیاں دیکھیں، نہ محلات،نہ باغات،نہ تفریح گاہیں،نہ زندگی کے عیش وطرب،تاجر جنگ کے ہتھیار،خود، زرہ بکتر،جانوروں کی کھال کے خیمے،عمدہ نسل کے تربیت یافتہ گھوڑے اور سامان حرب و ضرب لے کر آتے۔سکندر اپنے باپ کے پہلو میں بیٹھ کر تلواروں کو الٹ پلٹ کر دیکھتا پرکھتا اور الگ کرتا جاتا۔نیزوں کی انی کو وہ انگوٹھے کی پور سے پرکھتا۔شہسوار ایک ایک گھوڑے کو دوڑاتے،کنوتیوں اورکاٹ کو پرکھتے اور پھر فلپ کے آگے پیش کردیتے اور سکندر کی مرضی پاکر ہی فوج میں شامل کئے جاتے۔اسی طرح ایک گھوڑوں کے تاجر نے اپنے گھوڑے پیش کئے،لیکن ایک گھوڑے کو سب سے الگ رکھا۔چمکیلی سیاہ جلد،گردن پر خوبصورت ایال،پھڑکتی ہوئی کنوتیاں،سم کبھی ہوا میں بلند تو کبھی زمین کو روندتے ہوتے۔لگتا تھا کہ بدن میں لہو نہیں پارہ دوڑ رہا ہے۔فوج کے ایک سوار نے زین رکھنا چاہی تو سرکش گھوڑے نے چہرے پر ٹاپ ایسے مارے کہ صورت بگڑگئی۔دوسرے نے اپنی مہارت دکھلانی چاہی تو اسے روند گیا۔تاجر نے ادب سے کہا گھوڑا خوبصورت تو ہے، لیکن بڑا ہی سرکش ہے‘ آج تک قابو میں نہیں آیا‘ اسی لئے الگ رکھا ہے۔سکندر اٹھ کھڑا ہوا ور آگے بڑھنے لگا تو تاجر تعظیماً جھک گیا اور چاہتا تھا کہ سکندر کو باز رکھے،لیکن فلپ کے اشارے پرہٹ کر دور کھڑا ہوگیا۔سپہ سالار نے بڑھ کر روکنا چاہا تو سکندر کی نگاہ غلط انداز اور ارادے کو بھانپ کر دو قد پیچھے ہٹ گیا۔سکندر
گھوڑے سے کچھ فاصلے پر رُکا۔گھوڑے نے اپنا رُخ بدل دیا۔سکندر نے اپنی جگہ بدلی تو گھوڑے نے پھر سے رُخ بدل لیا۔اب وہ سورج کے عین سامنے تھا کہسکندر نے ہٹ کر تھوڑا سے چکر کاٹا اور پیچھے سے آکر اس کی کمر تھپتھپائی۔اگلی پچھلی ٹانگوں کے بیچ پہلو میں کھڑے ہوکر گردن سے پہلے توتھوڑا سا ہاتھ پھیرا۔سامنے دھوپ تھی اور پیچھے سائے تو یکلخت سکندر نے جست کرکے گھوڑے کی ننگی پشت پر سوار ہوکر دونوں مٹھیوں میں ایال کس کر تھام لی اور دونوں پنڈلیاں اس کی پسلیوں میں پیوست کردیں۔گھوڑا بہت مچلا،لیکن سکندر نے پیٹھ چھوڑی نہ ایال اور اب جو مہیمز کیا تو سرپٹ دوڑتا ہوا نکل گیا سکندر نے اسے خوب خوب دوڑاکر بے حال کردیا اور جب لوٹ کر دُلکی چال پر واپس لاکر باپ کے سامنے کھڑا کردیا تو اتر کر گھوڑے کی گردن کو پیار کرکے اپنے ہاتھ سے ایال سہلادی۔معلوم نہیں سکندر کی شہسواری کا فن تھا یا دوضدی ایک دوسرے کو پہچان کر گھل مل گئے تھے۔گھوڑوں کا تاجر سکندر کے آگے کورنش بجالایا اور کہا کہ یہ گھوڑا سکندر کی نذر ہے۔سکندر نے اشارہ کیا تاجر کو اس کی رقم دوگنی ادا کی جائے اور کلائی سے ہیرا جڑا کڑا اتار کر تاجر کی طرف اچھال دیا۔سکندر نے اس گھوڑے کا نام بیوی فالس رکھا۔ اس نے اس سے ہٹ کر پھر کسی گھوڑے پر سواری نہیں کی۔اس کے بعد سات برس تک سکندر مسلسل میدانوں میں نبرد آزما رہا۔دوتین مرتبہ مقدونیہ آیا بھی تو شہر کا رُخ نہیں کیا۔پورے نوبرس بعد جب یہ خبر عام ہوئی کہ سکندر شہر مقدونیہ میں آنے والا ہے اور اپنی ماں ملکہ اولمپیا سے ملے گا تو شہر کی از سر نو تزئین و آرائش ہوئی۔ہر درخت پر رنگ برنگی قندیلیں جگمگائی گئیں۔راستے میں دورویہ لڑکیوں بالیوں،عورتوں اور بچوں نے پھول نچھاور کئے۔نوجوان سکندر مردانہ وجاہت کاشاہکار کسی سنگتراش کے خوبصورت یونانی مجسمہ کی طرح اپنے پسندیدہ گھوڑے بیوی فالس پر سوار،جلو میں گھڑسوار دستہ، آگے آگے نقیب،پیچھے فوج کا ہر اول مقدونیہ کے راستوں سے گزرتا ہوا اولمپیا کے محل کی طرف رواں دواں تھا۔اولمپیا عیش و طرب کی دلدادہ ‘تزئین و لطف اٹھانے کی خوگر۔ اسی کے نام سے آج تک اولمپک گیمس موسوم ہیں اور ایتنھز میں اولمپک مشعل جلا کر دُنیا بھر میں گشت کروائی جاتی ہے۔اولمپیا نے سکندر کے استقبال کے لئے ایک محل محضوص کیا اور اس مخصوص محل میں مقدونیہ اور اس کے باہر سے مشہور مطرباؤں،رقاصاؤں کے ساتھ ساتھ دوشیزاؤں کو جمع کیا کہ سکندرکولبھاسکیں،رجھاسکیں،لیکن کمبخت نہ جانے کس پتھر کا بناتھا کہ ٹس سے مس نہ ہوا اور صبح جب الٹے قدموں جیسا آیا تھا ویسے واپس نکل گیا تواولمپیا نے صرف اس جرم میں کہ کوئی بھی شہزادے کو اپنی طرف متوجہ نہ کرسکی،سب کو قتل کروادیا۔سکندر واپس اپنی چھاؤنی میں لوٹ چکا تھا۔کبھی شام کے وقت اپنے پسندیدہ گھوڑے پر دور دورتنہا نکل جاتا اور ہرے بھرے درختوں کے بیچ کھڑے ہوکر گہری سانسیں لیا کرتا۔ایک عجیب قسم کی مہک جب اسے اپنے وجود میں محسوس ہوئی،جو اس نے اس سے پہلے نہیں محسوس کی تھی تو پھر گھوڑے کوایڑدے کر دور نکل جاتا کہ یہ مہک اسے پریشان کردیتی تھی۔اس نے تو آج تک ہمیشہ جنگ کے میدانوں میں صرف خون کی بو سونگھی تھی اور تلواروں کی جھنکاریں سنی تھیں۔نہ پھولوں کی مہک، نہ ہوا کی خوشبو،صرف پتتی دھوپ دیکھی تھی۔پیڑوں کی نرم چھاؤں دیکھ کردہ یوں پریشان ہوجاتا، جیسے اس کا گھوڑا پہلی سواری سے پہلے۔ایک شام وہ اپنے گھوڑے پر سوار اسی طرح سبزہ زاروں کے بیچ تھا کہ اسے سامنے ایک دیوارسی نظر آئی۔اس نے گھوڑے کو کچھ پیچھے لے جاکر ایڑوی اور لمحہ بھر میں دیوار کے اس پار تھا۔کچھ دور آگے بڑھا تھا کہ اس نے دیکھا بھرے درختوں کے بیچ ایک لڑکی ٹوکری میں چیری چن رہی ہے۔نازک انگلیوں کے بیچ سرخ چیری کی رنگت کا عکس اس کے چہرے پر شفق کی طرح کھلا کھلا ساتھا۔سنہری زلف، رخساروں پر یوں جھول رہی تھی،جیسے سفید صندل پر سنہری ناگن جھکی ہوئی،مخمور پلکیں۔سکندر کو پہلی مرتبہ پیاس کا احساس ہوا‘وہ اپنے گھوڑے پریوں ساکت تھا جیسے واقعی کوئی مجسمہ ہوا اور گھوڑا بھی یوں کھڑا تھا، جیسے اس کے وجود ہی کا ایک حصہ ہو۔اس لڑکی نے ایک مرتبہ نظر اٹھاکر سکندر کو دیکھا۔جھکی ہوئی پلکیں یوں آہستہ آہستہ اٹھیں کہ کلی نے کھلنا کم کم ان آنکھوں سے سیکھا ہو۔سکندر گھوڑے سے اترا قریب پہنچا۔پوچھا’’تم کون ہو،یہاں کیا کررہی ہو؟‘‘ ۔اس نے معصومیت سے کہا چیریاں چن رہی ہوں اپنے مالک کے لئے‘ سکندر نے کہا’’کچھ دیر یہاں پیڑ کے نیچے بیٹھ جائیں !تم سے باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے‘‘۔باتیں تو کسی نے کی نہیں،وہ اسے تکتا رہا اور وہ چپ چاپ سرجھکائے نرم مٹی کریدتی رہی۔جب شام کے سائے پھیلنے لگے تو اس نے کہا میں چلوں شام ہوگئی ہے، مجھے دورجانا ہے۔سکندر نے کہا’’چلو میں تمہیں چھوڑدوں‘‘اس نے اپنے آگے گھوڑے پر بٹھالیا تو گھوڑا بھی اتنی سبک خرامی سے چل پڑا جیسے منزل بھی معلوم ہوا اور کب پہنچنا بھی۔درختوں کے بیچ ایک خوبصورت شاہ بلوط کی لکڑی سے بنے کاٹیج سے کچھ دور اس نے سکندر کا ہاتھ تھا ما اوراتر پڑی۔سکندر کو پہلی بار یوں لگا جیسے ہتھیلی میں سنسناہٹ سی ہے۔اس نے پوچھا’’کل پھر آؤ گی‘‘ اس نے پلکیں جھکالیں، لیکن کاٹیج میں جانے سے پہلے مڑ کر دیکھا۔گویاوعدہ بھی اورا قرار بھی۔
دوتین دن دونوں اسی پیڑ تلے تلے ملتے رہے۔ایک شام جب سکندر اسے چھوڑنے پہنچا تو گھوڑے سے اتر کر وہ سکندر کاہاتھ تھامے رہی۔سکندر کو لگااس کاہاتھ کپکپارہا ہے اور وہ کھلی کھلی آنکھوں سے سکندر کو تک رہی ہے، جیسے ڈوب جانا چاہتی ہو۔نیلی آنکھوں کے سمندر میں ،گہرائی میں اور گہرائی میں،گہرے پانیوں میں۔سکندر نے بے ساختہ وہ جواہرات سے مرصع لاکٹ جو مقدونیہ میں آنے پر اسے پہنایا گیاتھا، اس کے گلے میں ڈال دیا۔بس پہلی بار وہ کسی سینے سے لگی تھی۔دوسرے دن جب سکندوہاں پہنچا تو پیڑ خاموش تھے اور کاٹیج ویران۔کئی دن وہ اسے تلاش کرتا رہا۔پوچھتا رہا‘ کسی نے کہا’’نہیں معلوم کہاں سے آئی تھی، کونتھی۔‘‘ کسی نے کہا’’شام کو پریاں بھی جنگل میں آنکلتی ہیں۔‘‘ اسے نہ ملنا تھا نہ ملی۔سکندر کا لشکر کوچ کے لئے تیار تھا۔بگل بجنے سے پہلے سکندر بیوی فالس کو دوڑاتا ہوا دور نکل گیا۔فوج ٹھہری رہی۔اس پیڑ کے پاس پہنچ کر جہاں وہ پہلی بار ملی تھی، اس نے جھک کر دیکھا، اس کے ناخن سے کریدی ہوئی مٹی بھی نرم بھی تھی،کچھ گیلی بھی۔سکندر نے بڑی احتیاط سے وہ مٹی محفوظ کرلی اور پھر واپس آکر لشکر کے ساتھ کوچ کرگیا۔تین سال تک وہ لشکر کشی کرتا رہا۔ایک مرتبہ مقدونیہ کے اطراف میں بغاوت ہوگئی۔سکندر بھی باپ کی مدد کے لئے پہنچ گیا۔ایک دن گھمسان کا رن پڑا،فوج ہر طرف لڑرہی تھی۔سکندر بڑی جی داری سے لڑتے لڑتے دشمن کی فوج میں دھنستا چلا گیا اور پھر شام سے پہلے کسی کی کچھ خبر نہ تھی۔
سکندر کی جب آنکھ کھلی تو اس نے خود کو لکڑی کے ایک کاٹیج میں پایا اور وہ ابھی کراہ ہی رہاتھا کہ اسے لگاکوئی اس کے سرہانے سے اٹھ کر تیزی سے باہر نکل گیا۔کچھ ہی دیر میں ایک شخص اندر آیا اور بڑے تپاک سے کہنے لگا۔’’شکر ہے تمہیں ہوش آگیا، لو یہ تھوڑی سے یخنی پولو، خون بہت بہہ گیا ہے۔زخم تو ٹھیک ہوجائیں گے،لیکن یخنی سے قوت محسوس کرو گے۔‘‘سکندر ابھی یخنی پی ہی رہاتھا کہ باہر سے شور سنائی دیا۔وہ شخص باہر نکلا تو سپاہیوں نے اسے جکڑ لیا اور سکندر کے پاس لے آئے اور چیخ کر کہنے لگے۔’’سکندر یہاں ہے‘‘ فلپ خود دستے کی کمان کررہاتھا، وہ بھی پہنچ گیا۔پتہ چلا کہ سکندر کے حملے کے بعد مقابل تو ہار گیا تھا اور تین دن سے فوج اسے ڈھونڈ رہی تھی۔بیوی فالس کو یہاں بندھا دیکھ کر وہ یہاں تک پہنچے۔اس شخص نے بیان کیا کہ بیوی فالس زخمی سکندر کو لے کر قریب کے تالاب تک پہنچا۔اس نے سکندر کو وہاں چھوڑ کر ان کی کاٹیج کے دروازے کو ہلایا اور جب وہ شخص برآمد ہوا تو اس نے تالاب تک رہنمائی کی۔وہ اسی گھوڑے پر ڈال کر گھر لایا۔اس کے زخموں کو صاف کیا۔سکندر کو شدید بخار تھا، ابھی ابھی ہوش آیا ہے۔فلپ نے کہا’’اسے چھوڑ دو‘‘ اور اس سے کہا’’تم کل مقدونیہ آجانا،منہ مانگا انعام پاؤ گے۔‘‘ جانے سے پہلے سکندر نے اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے تین دن خدمت کی زحمت اٹھائی، تواس نے کہا’’میں نے کیا کیا ،تمہاری تیمارداری تو میری بیوی نے کی، وہ تین دن تین رات مسلسل جاگتی رہی۔اس نے پلک تک نہیں جھپکائی اور اب جب تمہیں ہوش آیا تو اسی نے مجھے اطلاع دی۔‘‘سکندر نے پوچھا۔’’تمہاری بیوی نے میری تیمار داری کی؟‘‘۔اس نے کہا’’ہاں‘‘ اور گھر میں جاکر جب لوٹا تواس کی گود میں ڈیڑھ دو سال کا بچہ تھا۔سکندر نے اسے آغوش میں لیا تو دھک سے رہ گیا۔اس کے گلے میں وہی لاکٹ تھا، جو اس نے آخری ملاقات پر کسی کے گلے میں ڈال دیاتھا۔سکندر جب بوجھل قدموں سے باہر نکل رہاتھا تو فلپ نے سوچا شاید بدن پر زخموں کا اثر ہے، لیکن جب وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا تو باپ نے دیکھا وہ اسی شان سے گھوڑے پربیٹھا ہے، جیسے سارے زخم سوکھ گئے ہوں۔لیکن سکندر کو لگاکہ اندر کے گھاؤ کے سارے ٹانکے ٹوٹ چکے ہیں اور زخم سے خون یوں بہہ رہا ہے، جیسے ابھی لگا ہے۔گہرا، بہت گہرا،نیلے گہرے سمندراتنا گہرا۔
سکندر نے زندگی میں بہت فتوحات حاصل کیں،وہ سکندر اعظم کہلایا۔ہندوستان میں اس نے پورس کے ایک جملے پر کہ جب اس نے پوچھا تھا کہ’’تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے‘‘تو پورس نے کہاتھا’’وہی جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے‘‘ سکندر نے اس کی سلطنت واپس کردی۔ہندوستان سے واپسی پر دریائے سندھ میں طغیانی تھی۔گھوڑا اسے داغ مفارقت دے گیا، اس کا ساتھی اس کا راز داں بیوی فالس اس سے چھوٹ گیا۔اس نے اپنے گھوڑے کی یاد میں ایک شہر آباد کیا۔ابھی وہ جوان تھا کہ بیمار ہوا۔کسی موذی مرض سے نہیں، صرف ملیریا سے اور اسی مرض میں وہ مرگیا۔جس سکندر اعظم کو دُنیا کی فوج اور ہتھیار نہ مارسکی، اسے صرف ایک مچھر نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔سنتے ہیں کہ آخری وقت اس نے اپنے بازوسے کوئی تعویذ نما چھوٹی سی ڈبیا کھولی۔اس میں مٹی سی تھی۔بہت دیر وہ اسے سونگھتا رہا، پھر ہتھیلیوں میں مل کر اسے اپنے سینے سے لگالیا اور وصیت کردی کہ میرے ہاتھ جنازے کے باہر رکھ دیئے جائیں۔جانے ہاتھ باہر تھے یا بانہیں کھلی تھیں۔لیکن ہوا کہتی ہے کہ وہ آخر وقت کچھ کہہ رہا تھا۔ہوا ہی کے دامن میں یہ بھی تحریر ہے کہ وہ لفظ کچھ یو ں تھے:
اب وہ چہرہ نہ سنائی دے گا
اب وہ آواز نہ آئے گی نظر
تو مری یاد سے آہستہ گزر

Article :Tu meri yaad se ahista guzar
Written by : Allama Aijaz Farruq
,18-8-450/4 ,SILVER OAK, EDI BAZAR
NEAR SRAVANI HOSPITAL ’HYDERABAD- 500023
Mob.: +919848080612۔ ۔ afarruq[@]gmail.com

Share

۹ thoughts on “تو مری یاد سے آہستہ گزر۔ ۔ ۔ ۔ علامہ اعجازفرخ”

Comments are closed.

Share
Share