اذان کا تیسرا کلمہ – اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّداً رَّسُوْلُ اللہ ِ (5) :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

اذان کا تیسرا کلمہ ،
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّداً رَّسُوْلُ اللہ ِ (5)

مفتی کلیم رحمانی
پوسد(مہاراشٹر)
09850331536

اذان کا تیسرا کلمہ ، اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّداً رَّسُوْلُ اللہ ِ (4) قسط کے لیے کلک کریں

آج کے دور میں میدان سیاست میں کلمہ شرک و کفر،نظام جمہوریت و سیکولرازم ہے، جس کو بہت سے مسلمانوں نے سیاست میں حلال قرار دیدیا ہیں، بلکہ فرض قرار دیدیا ہیں، جس کی وجہ سے آج پوری دنیا میں میدان سیاست میں مسلمان اللہ کے عذاب میں گرفتار ہیں،

اسی طرح بہت سے مسلمانوں نے عقائد و عبادات میں نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ حلال قرار دیدیا ہیں، جس کی وجہ سے آج ہزاروں لاکھوں قبروں کی پوجا پرستش ہو رہی ہے، جب کہ اسلام میں کسی نبی اور رسول کی قبر کو بھی سجدہ کرنا شرک اور حرام ہے، جب کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی لعنت ہو، یہود و نصاریٰ پر جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا، ساتھ ہی آپؐ نے اللہ سے اپنے لئے یہ دعا کی اَللَّھُمَّ لَا تَتَّخِذُ قَبرِی وَثْناً (یعنی ائے اللہ میری قبر کو بت نہ بننے دینا۔لیکن افسوس ہے کہ آج کروڑوں مسلمانوں نے اولیاء اور صلحاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ہیں، جب کہ یہ عمل کھلے طور پر خبیث کے درجہ میں آتا ہے، اور نبی کریمﷺ کے کاموں میں ایک اہم کام خبائث کو حرام قرار دینا تھا، اسی طرح ایک امتی کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ہر خبیث کو اپنے لئے حرام سمجھے اور دوسروں کے لئے بھی حرام قرار دے۔ اسی طرح بہت سے مسلمانوں نے اپنے لئے شراب اور زنا کو حلال کر لیا ہیں، جب کہ یہ کام ام الخبائث ہیں، یعنی گندے کاموں کی جڑ اور بنیاد، چنانچہ آج دنیا میں شراب اور زنا عام ہو گیا ہے، جس کی بناء پر انسانی معاشرہ گندگی میں لت پت ہو چکا ہے، اس لئے نبیؐ پر ایمان لانے والوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی شراب اورزنا سے دور رہیں اور دوسروں کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں۔
مذکورہ آیت میں نبیﷺ کا پانچواں کام، وَیَضَْعُ عَنْھُمُ اِصْرھُمْ بیان کیا گیا ہے، یعنی وہ ہٹاتا ہے ان سے ان کا بوجھ، اس سے مراد وہ بے جا عقائد و اعمال و رسومات کا بوجھ ہے، جو یہود و نصاریٰ نے اپنے اوپر عائد کر لیا تھا، جیسے رہبا نیت یعنی دنیا کی جائز چیزوں سے بھی تعلق منقطع کرکہ جنگلوں اور غاروں میں بیٹھ جانا اور اسے اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ سمجھنا، وغیرہ اسی طرح مشرکین مکہ نے بھی نیکی کے نام پر بہت سے غلط عقائد و اعمال اپنے اوپر عائد کرلئے تھے۔
افسوس ہے کہ آج امت مسلمہ کے بھی بہت سے افراد نے اپنے اوپر بہت سے بے جا اور غلط عقائد و اعمال عائد کر لئے ہیں جن کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہیں، جیسے محمدﷺ کو عالم الغیب اور ہر جگہ حاضر و ناظر سمجھنا نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ کرنا اور ان سے منتیں مراد یں مانگنا اور ان کی قبروں پر ہر سال عروس بھرانا، صندل نکالنا اور قوالیوں کی محفلیں لگانا، اسی طرح بارہ ربیع الاول کے دن کو،عید میلاد النبیؐ کے نام سے منانا اور اس دن جلوس نکالنا وغیرہ۔
مذکورہ آیت میں نبیؐ کا چھٹا کام، وَالْاغَلاَلَ الّتیِ کَانَتْ عَلَیْھِمْ بیان کیا گیا ہے، یعنی نبیﷺ ان کی گردنوں کے طوق ہٹاتے ہیں، مطلب یہ کہ یہود و نصاریٰ نے قومی و خاندانی روایات کی پیروی میں جو بے جا رسومات اپنے اوپرعائد کرلی تھیں، آپؐ نے ان رسومات سے انہیں نجات دلائی، اس میں باپ دادا کی اندھی تقلید بھی داخل ہے، اور کسی شخص کی اندھی عقیدت و محبت بھی داخل ہے اور کسی شخص کی اندھی مخالفت و عداوت بھی داخل ہے۔ افسوس ہے کہ آج امت مسلمہ کے بھی بہت سے افراد اس مرض کا شکار ہیں، چنانچہ آج مسلم معاشرہ میں بہت سی رسومات محض قوم و خاندان اور باپ دادا کی تقلید میں انجام دی جاتی ہیں، جن کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ در اصل بات یہ ہے کہ جب قرآن و حدیث کی اتباع کمزور پڑ جاتی ہے تو قوم و خاندان کی اتباع مضبوط ہو جاتی ہے، سورۂ اعراف کی آیت ۷۵۱ کے اخیر کے حصہ میں نبیﷺ سے تعلق و محبت کے چار تقاضے بیان ہوئے ہیں، ایک طرح سے نبیﷺ کے یہ چارحقوق ہیں جو انسانوں اور اہل ایمان پر عائد ہوتے ہیں، ان میں سے سب سے پہلا حق، اَمَنُوْابِہ ہے یعنی ان پر ایمان لائے، مطلب یہ کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ کا آخری رسول سمجھا جائے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا، دوسرا حق وَعَزَّرُوْہُ ہے یعنی آپؐ کی عزت کی جائے، اور صرف عزت ہی نہ کی جائے بلکہ اللہ کے بعد سب سے زیادہ معزز آپؐ ہی کو مانا جائے، اور عزت میں یہ بھی داخل ہے کہ آپؐ کے ہر قول و عمل کو دل و جان سے مانا جائے، جب تک نبیﷺ دنیا میں حیات تھے، تب تک آپؐ سے سلوک و برتاؤ میں بھی عزت سے پیش آنا ضروری تھا، لیکن اب چونکہ نبیﷺ دنیا میں حیات نہیں ہے، اسلئے آپؐ کی عزت کا مطلب آپؐ کی تعلیمات کی عزت کرتا ہے، مگر افسوس ہے کہ آج بہت سے مسلمان آپؐ کی تعلیمات کو ٹھکراکر زندگی گزاررہے ہیں، یہ ایک طرح یہ نبیؐکی بے عزتی کرنا ہے، اس لئے اس تقاضہ کے حوالہ سے ہر مسلمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نبیؐ کے ہر قول و عمل کی اطاعت کرے۔
نبیﷺکا تیسرا حق وَنَصَرُوْہُ ہے یعنی آپؐ کی مدد کرنا، اور اس سے مراد دین کے کاموں میں آپؐ کی مدد کرنا ہے، ورنہ جہاں تک کھانے پینے اور ضرور یات زندگی میں آپؐ کی مدد کی بات ہے تو، آپؐ خود دوسروں کی مدد کرتے تھے، یہ اسی طرح کی مدد ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مخاطب کرکے دیا، چنانچہ ارشاد ربانی ہے، یَاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْآ انْصَارَ اللہِ (سورۂ صف آیت ۴۱) ترجمہ: (ائے ایمان والوں اللہ کے مدد گار ہو جاؤ) ظاہر ہے اس سے مراد اللہ کے دین کی مدد ہے، اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک دوسرے مقام پر ذرا وضاحت اور بشارت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، یَایُّھَا الَّذِینَ اٰمنُوْآ اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبّتِ اَقْدَامَکُمْ(سورۂ محمد آیت ۷) ترجمہ (ائے ایمان والوں اگر تم اللہ کی مدد کروتو وہ تمہاری مدد کرے گا، اور تمہارے قدموں کو جمادے گا) اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اللہ کی مدد حاصل کرنے اور اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لئے اللہ کے دین کی مدد کرنا ضروری ہے، اور اللہ کے دین کی مدد سے مراد دین پرعمل کرنا دوسروں کو اس کی دعوت دینا، اور اس کی سر بلندی کے لئے جان و مال سے جدوجہد کرنا ہے، لیکن افسوس ہے کہ آج مسلمان اللہ کے دین کی مدد سے منہ موڑ کر اللہ کی مدد اور اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی امید لگائے ہوئے ہیں۔
چونکہ نبیﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں، اس لئے اللہ کے دین کی مدد کا طریقہ نبیﷺ کی نبوت و رسالت کے بعثت کے مقصد میں مدد ہے،اور آپؐ کی بعثت کا مقصد قرآن میں متعین ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا۔ ھُوَ الَّذِیٓ اَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْھُدیٰ وَ دِیْنِ الْحَقّ لِیُظْھِرَہ عَلیَ الْدِّیْنِ کُلِّہِ وَ لَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (سورۂ صف آیت ۹)ترجمہ: (وہی اللہ ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ، تاکہ وہ اسے غالب کردے، تمام دینوں پر اگرچہ مشرکین کو ناگوار ہو)
مذوکورہ آیت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ نبیﷺ کی رسالت کا مقصد، اس دنیا میں تما دینوں پر دین اسلام کا غلبہ ہے، اس لحاظ سے نبیؐ کی مدد کا مطلب دین اسلام کے غلبہ کی کوشش ہے، اسلام کے غلبہ میں سب سے پہلے نظریاتی غلبہ ہے اس کے بعد دعوتی، تعلیمی و سیاسی غلبہ ہے، ساتھ ہی مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ مشرکین کو اسلام کا غلبہ پسند نہیں آئے گا،
بلکہ ان کو اسلام کا غلبہ بُرا لگے گا، چنانچہ دور نبوی کی تاریخ اور اس کے بعد کی تاریخ اوردورِ حال کی تاریخ اس پر گواہ ہے، لیکن افسوس ہے کہ بہت سے مسلمان مشرکین کو راضی اور خوش کرکے اسلام کے غلبہ کا کام کرنا چاہتے ہیں، اور اسلام کے جس کام سے مشرکین بھی راضی اور خوش ہیں، اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ دین کا کام نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نے صاف طور سے فرما دیا ہیں کہ مشرکین کو اسلام کا غلبہ ناگوار لگے گا، اور اللہ کافرمان کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔
سورۂ اعراف کی آیت ۷۵۱ میں اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کا چوتھا حق وَ اَتَّبعُوا النُّورَ الّذِیْ اُنْزِلُ مَعَہ بیان کیاہے، یعنی اس نور کی اتباع کی جائے جو ان پر نازل کیا گیا، اس سے مراد قرآن مجید ہے، جس کا ایک صفاتی نام نور ہے، چونکہ قرآن سے روشنی حاصل ہوتی ہے، اس لئے اسے نور قرار دیا گیا ہے۔ اتباع نور کا مطلب اتباع قرآن ہے، اس لحاظ سے نبیؐ اور اہل ایمان کا مقصد وجود ایک ہی ٹھہرتا ہے اور وہ ہے اتباع قرآن، اتباع قرآن در اصل اتباع ربُّ العالمین ہے، کیونکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اور اسی سے اللہ کی مرضی اور نامرضی کا علم حاصل ہوتا ہے، جو اتباع قرآن سے منہ موڑے ہوئے ہے وہ در اصل اللہ اور اس کے رسولؐ کی اتباع سے منہ موڑے ہوئے ہے۔ جنہوں نے اس دنیا میں قرآن کی روشنی میں زندگی گزاری ہوگی قیامت کے دن وہ کس طرح کامیاب و کامران ہوں گے، اور جنہوں نے قرآن کی روشنی سے منہ موڑ زندگی گزاری ہوگی، وہ کس طرح ناکام و نامراد ہوں گے، اللہ تعالیٰ نے سورۂ حدید کی تین آیات میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے چنانچہ فرمان باری تعالیٰ یَوْمَ تَرَی الْمُوْمِنِینَ وَ الْمُوْمِنَتِ یَسْعیٰ نُورُھُمْ بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ بِاَیَْمَانِھِمْ بُشْرٰلَکُمُ الْیَوْمَ جَنَّتُ تَجْرِی مِنْ تَحْتِھَا الْاَ نْھَارُ خٰلِدیْنَ فِیْھَا ذٰلِکَ الْفورُ الْعَظِیمْ۔ یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِینَ اٰمَنُوا انْظُرُ وْنَانَقْتَبِسْ مِنْ نُّوِرِکُمْ قِیلَ ارْجعُوْا وَرَآء کُمْ فَالْتَمسُوْا نُوراً فَضُرِبَ بَیْنَھُمْ بِسُوْرِ لَّہ بَابُ باطِنُہ فِیہُ الرَّ حْمَۃُ وَظَاھِرُہ مِنْ قِبَلہِ الْعذابُ۔ یُنَا دُونَھُمْ اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ قَالُوا بَلیٰ وَ لٰکِنَّکُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَکُمْ وَ تَرَ بَّصْتُمْ وَ ارْتْبتُمْ وَ غَرَّ تْکُمُ الْاَمَانِیُّ حَتّیَ جَآء اَمْرُ اللہ وَ غَرَّکُمْ بِاللہ ِ الْغَرُ وْرُ۔ (سورۂ حدید آیات ۲۱،۳۱،۴۱) ترجمہ :(تو قیامت کے دن دیکھے گا کہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کانور ان کے آگے اور دائیں دوڑ رہا ہوگا، ان سے کہا جائے گا کہ تمہارے لئے آج خوشخبری ہے ایسے باغات کی جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، اس میں تم ہمیشہ رہو گے، اور یہی بڑی کامیابی ہے، اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے، تم ذرا ہمارا بھی خیال کرو تاکہ ہم تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائے، ان سے کہا جائیگا تم پیچھے واپس پلٹو اور اپنا نور تلاش کرو، پس اسی اثنا میں ان کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی، اس میں ایک دروازہ ہوگا، اس کے اندر کے حصہ میں رحمت ہوگی، اور اس کے باہر کے حصہ میں عذاب ہوگا، وہ منافقین ایمان والوں کو آواز دیکر کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے وہ کہیں گے کیوں نہیں تھے لیکن تم اپنے نفسوں کے فتنہ میں پڑ گئے اور(ہمارے حق میں پریشانی منتظر رہے اور اسلام میں شک کیا اور لمبی آرزؤں نے تمہیں دھوکہ دیا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچا، اور اللہ کے بارے میں تم کو شیطان نے دھوکہ دے دیا-
مذکورہ آیات میں جس نور کا تذکرہ ہے اس سے مراد یہی قرآن ہے مطلب یہ کہ جن اہل ایمان نے قرآن کی روشنی میں زندگی گزاری ہوگی، دراصل قیامت کے دن یہی روشنی انہیں جنت کا راستہ طئے کرائیگی، کیونکہ آخرت دنیا کا بدلہ ہے، چونکہ دنیا میں سچے ایمان والوں کو قرآنی زندگی میں آنے کے لئے اِدھر اُدھر دوڑنا پڑتا ہے، کوشش و جدوجہد کرنی پڑتی ہے، اس لئے قیامت کے دن قرآن ان کے لئے دوڑے گا، یہاں تک کہ وہ انہیں جنت میں پہنچا دے گا، اسی لئے ایک حدیث میں حضورﷺ نے فرمایا، اَلْقُرآنُ حَجَّۃُ لَّکَ اَوْ عَلَیْکَ (یعنی قرآن تیرے حق میں حجت ہوگا، یا تیرے خلاف حجت ہوگا) ساتھ ہی مذکورہ آیات سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ جن ایمان والوں نے دنیا کی زندگی قرآن کی روشنی میں نہیں گزاری، انہیں قیامت کے دن قرآن کی روشنی حاصل نہیں ہوگی، یہاں تک کہ وہ سچے ایمان والوں کو آواز دیکر کہیں گے کہ ذرا ہمارا بھی خیال کیجئے اور ہمیں بھی تمہارے نور سے فائدہ اٹھانے دیجئے، لیکن انہیں واپس کر دیا جائے گا، دراصل منافقین کے آواز دینے اور مومنین کی طرف سے ان کی آواز کو ٹھکرا دینے میں بھی بڑی حکمت ہے، وہ یہ کہ دنیا میں سچے ایمان والے ان بناوٹی اور نقلی مسلمانوں کو جنہیں قرآن کی زبان میں منافقین کہا گیا ہے، قرآن کی ہدایت کی طرف آواز دیکر بلاتے ہیں، لیکن یہ منافقین ان کی آواز کو ٹھکرا دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہاں سے واپس چلے جاؤ، گویا کہ دنیا میں منافقین، سچے ایمان والوں کی توہین کرتے ہیں، تو آخرت میں اس توہین کا بدلہ ان کے سامنے آئے گا، چناچنہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے آج مومنین عزت و احترام کے مقام پر ہے، اور منافقین ذلت و رسوائی کے مقام پر ہے۔
مذکورہ آیات سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ محمدﷺ کو اللہ کے رسولؐ ماننے کے بعد آپؐ پر نازل ہونے والے قرآن کی اتباع ضروری ہو جاتی ہے۔
دستور جماعت اسلامی ہند کی دفعہ ۳ کے تحت محمدﷺکی جو تشریح کی گئی ہے اس سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ محمدﷺ کو اللہ کے رسول ماننے کے بعد کچھ چیزوں کو کرنا ضروری ہو جاتا ہے، اور کچھ چیزوں کو چھوڑنا ضروری ہو جاتا ہے، افادہ عام کے لئے اس تشریح کے الفاظ مِنْ وعَنْ نقل کئے جارہے ہیں۔ (اس عقیدے کے دوسرے جز محمدﷺ کے رسول اللہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ معبود برحق اور سلطان کائنات کی طرف سے روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو جس آخری نبی کے ذریعہ قیامت تک کے لئے مستند ہدایت نامہ اور مکمل ضابطہ حیات بھیجا گیا، اور جسے اس ہدایت اور ضابط کے مطابق عمل کرکے ایک مکمل نمونہ قائم کرنے پر مامور کیا گیا، وہ حضرت محمدﷺ ہیں۔اس امر واقعی کو جاننے اور تسلیم کرنے سے لازم آتا ہے کہ انسان
۱) ہر اس تعلیم اور ہر اس ہدایت کو بے چوں و چرا قبول کرے جو محمدﷺ سے ثابت ہو۔
۲) اس کو کسی بات پر آمادہ کردینے اور کسی چیز سے روک دینے کے لئے صرف اتنی بات کافی ہو کہ اس بات کا حکم یا اس چیز کی ممانعت رسول خداﷺ سے ثابت ہے اس کے سوا کسی دوسری دلیل پر اس کی اطاعت موقوف نہ ہو۔
۳) رسول خداؐ کے سوا کسی کی مستقل بالذات پیشوائی و رہنمائی تسلیم نہ کرے دوسرے انسانوں کی پیروی کتاب اللہ و سنت رسول اللہؐ کے تحت ہو، نہ کہ ان سے آزاد۔
۴) اپنی زندگی کے ہر معاملہ میں خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت ہی کو اصل حجت، سند اور مرجع قرار دے۔ جو خیال یا عقیدہ یا طریقہ کتاب و سنت کے مطابق ہو، اسے اختیار کرے اور جو ان کے خلاف ہو اسے ترک کر دے۔
۵) تمام جاہلی عصبیتیں اپنے دل سے نکال دے، خواہ وہ شخصی و خاندانی ہوں خواہ قبائلی، نسلی اور وطنی یا فرقی و جماعتی، کسی کی محبت و عقیدت میں ایسا گرفتار نہ ہو کہ وہ رسول خداؐ اور آپؐ کے لائے ہوئے حق کی محبت و عقیدت پر غالب آجائے، یا اس کے مد مقابل بن جائے۔
۶) رسول خداؐ کے سوا کسی انسان کو معیار حق نہ بنائے، کسی کو تنقید سے بالا تر نہ سمجھے، کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو، ہر ایک کو خدا کے بنائے ہوئے اسی معیار کا مل پر جانچے اور پرکھے اور جو اس معیار کے لحاظ سے جس درجہ میں ہو، اس کو اسی درجہ میں رکھے۔ (منقول دستور جماعت اسلامی ہند،صفحہ۶) محمدؐ کے متعلق جماعت اسلامی کے دستور میں مذکورہ چھ نکات کے تحت جو باتیں لکھی گئی ہیں، ایک طرح سے وہ امت مسلمہ کا متفق علیہ عقیدہ ہے، لیکن اس کے باوجود خوامخواہ کچھ لوگوں نے کچھ باتوں کو لیکر جماعت اسلامی پر بے جا الزام و اختلاف کا بازار گرم کر رکھا ہے، خاص طور سے، رسول خدا کے سوا کسی انسان کو معیار حق نہ بنائے، کسی کو تنقید سے بالا تر نہ سمجھے۔
کی تحریر کو لیکر، جب کہ یہ عین اسلام کی اصولی بات ہے، اس میں نہ صحابہ کرام کے مرتبہ کو گھٹانے کی کوئی بات ہے اور نہ ان کی توہین کی کوئی بات ہے، لیکن افسوس ہے کہ کچھ لوگوں نے جماعت اسلامی پر یہ الزام لگاد یا کہ یہ صحابہ کو نہیں مانتی اور ان کی توہین کرتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ محمدﷺ کو اللہ کے رسولؐ ماننے کی گواہی ہر اذان کی دعوت ہے، اور محمدؐ کو اللہ کے رسول ماننے کالازمی تقاضہ ہے کہ آپؐ کے لائے ہوئے پیغام کو اختیار کیا جائے، اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دی جائے، آپؐ کے پیغام کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ کسی سے محبت کی جائے تو اللہ کی محبت کی بنیاد پر کی جائے، اور کسی سے دشمنی کی جائے تو اللہ کی دشمنی کی بنیاد پر کی جائے، مطلب یہ کہ اپنی ذاتی پسند و نا پسند سے دستبردار ہو جائے، اور ہر کام میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی پسند و ناپسند کو معیار بنائے، ان ہی کلمات پر اذان کے تیسرے کلمہ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً ارَّسُولُ اللہ کی مختصر تشریح ختم کی جاتی ہے، اس امید پر کہ قارئین ضرور قرآن مجید اور سیرتِ رسول اللہﷺ کے ذریعہ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً ارَّسُولُ اللہ کے مکمل تشریح پڑھیں گے اور سنیں گے۔

Share
Share
Share