ادراک قلم – مصنف : ڈاکٹر م۔ق۔سلیم :- مبصر : محسن خان

Share
محسن خان

ادراک قلم
مصنف : ڈاکٹر م۔ق۔سلیم

مبصر: محسن خان
محسن خان
موبائیل : 9397994441
ای میل :

ڈاکٹرم۔ق۔ سلیم حیدرآباد دکن سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ پیشے سے مدرس ہیں اور شاداں کالج میں صدر شعبہ اردو کے طورپر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ اردوکے ایک ایسے سپاہی ہیں جو نہ صرف اپنی تحریروں کے ذریعہ اس عظیم الشان زبان کی خدمت کرتے ہیں بلکہ اپنے دولت خانہ کے ایک حصہ کو انہوں نے ادبی محفلوں کے لیے مختص کردیا ہے

جہاں ہرہفتہ پابندی سے سمینار‘ ادبی اجلاس‘مشاعرے‘تہنیتی وتعزیتی پروگرامس کے علاوہ دیگر ادبی مشاغل جاری رہتے ہیں۔پچھلے سال انہوں نے گرمائی تعطیلات میں قوم کے نونہالوں کو اردوسیکھانے کے لیے ایک ماہ کے لیے کلاسیس منعقدکیں جہاں پرانے شہر کے اطراف واکناف کے سینکڑوں معصوم بچوں نے شوق سے اردوسیکھنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ وہ ہر عمر کے لوگو ں کواردوسیکھانے کے لیے اپنے دروازہ ہمیشہ کھولے رکھتے ہیں اور اخبارات کے ذریعہ اپیل بھی کرتے ہیں کہ اگرکوئی اردوزبان سیکھنا چاہتا ہے تووہ کبھی بھی حاضرہوسکتا ہے وہ اس کے لیے دستیاب رہیں گے۔ زیر تبصرہ کتاب ”ادراک قلم“ ان کی 23ویں تصنیف ہے۔ادراک لفظ کے تعلق سے وکی پیڈیا میں بیان کیاگیا ہے کہ”علم طب اور نفسیات سمیت سائنس کی تمام شاخوں میں ادراک (cognition) سے مراد عقل mind کا وہ عالجہ یا operation ہوتا ہے جس کے ذریعہ کوئی جاندار یا یوں کہ دماغ کسی خیال (thought) یا کسی حس (sensation) کا احساس کرتا ہے اور پھر اس ادراک سے آگاہی (perception) پیدا ہوتی ہے یعنی اس احساس کی بصیرت اور گہرا تاثر دماغ میں نمودار ہوتا ہے جو گذشتہ یاداشتوں کے ساتھ ملکر تشکیل پاتا ہے۔“
ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں
(مرزا غالب)
ڈاکٹرم ق سلیم نے جن کتابو ں کوپڑھا‘ محسوس کیا اور تبصرہ کیا اس کو”ادراک قلم“کے ذریعہ کتابی شکل میں ہم سب کے لیے پیش کیاہے۔ ایک ہزار سے زائد صفحات پر اگر کوئی کتاب موجود ہواوراس پرکوئی ایک صفحہ کا جامع تبصرہ کردیتا ہے تو قاری ایک صفحہ کے ذریعہ اس ایک ہزار کتاب کا نچوڑ حاصل کرلیتا ہے اسی لیے تبصرہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ تبصرہ میں کن پہلوؤں کواجاگرکرنا ہوتا ہے اورباریکی سے مطالعہ کے ذریعہ اس میں تنقیدی پہلونکالاجاتا ہے وہ ہرکسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے۔ یہ صلاحیت ڈاکٹرم ق سلیم کے پاس موجود ہے جس کی وجہ سے تبصروں پراب تک ان کی چار کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور وہ روزنامہ صحافی دکن کے ادبی ایڈیشن کے انچارج بھی ہیں جس میں ہرہفتہ وہ بڑی محنت سے پوری کتاب کامطالعہ کرکے تبصرہ کرتے ہوئے قارئین کونئی نئی کتابوں سے متعارف کرواتے ہیں۔ تبصرہ کے ذریعہ کتاب کے ساتھ ساتھ مصنف بھی متعارف ہوتا ہے اوراس کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ کامیاب تصنیف وہی کہلاتی ہے جس پر زیادہ سے زیادہ لوگوں نے تبصرہ کیا ہو۔عام طورپرمبصرین صرف بڑے قلمکاروں کی کتابو ں پرہی تبصرہ کرتے ہیں تاکہ وہ مصنف کے قریب ہوں اوران کو زیادہ شہرت ملے لیکن ڈاکٹر م ق سلیم ہرنئے لکھنے والے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اوراس کی کوششوں کوسراہتے ہوئے اس کواپنے تبصرہ کے ذریعہ ادبی دنیا میں متعارف کرواتے ہیں اوروہ استاد ہونے کی وجہ سے نئے لکھنے والوں کی ہلکی سی اشاروں اشاروں میں تنقید کے ساتھ رہبری بھی کرتے ہیں جس سے نئے لکھنے والے بہت کچھ سیکھ کرآگے بڑھتے ہیں۔
”ادارک قلم“میں 23کتابوں پران کے تبصرے موجود ہیں جو مذہب‘افسانہ‘ شاعری‘ نعت گوئی‘ متفرق مضامین‘یاد رفتگاں‘تحقیق‘ ڈراما‘رسائل‘دکنیات‘تنقید‘حیات وخدمات‘مرتبہ‘مراسلات‘اصلاحی‘ادب اطفال اورجریدہ وغیرہ جیسے محتویات کااحاطہ کرتی ہیں۔ جن کتابوں پرتبصرے کیے گئے ان میں منزل نادور نیست(ڈاکٹرکوثر فاطمہ)‘ نورس قاضی(ڈاکٹرعقیل ہاشمی)‘ نملوس کا گناہ(شموئیل احمد)‘ دکنی ادب کی تحقیق اورمحمدعلی اثر(پروفیسر سید فضل اللہ مکرم)‘ ایک چٹکی خاک افسانچہ(صاحبزادہ مجتبیٰ فہیم)‘ احساس کا پرتو (ڈاکٹرنادرالمسدوس)‘ نعت رسولؐ اور شعرائے حیدرآباد (ڈاکٹرعقیل ہاشمی)‘ صدائے سلیم‘شعری مجموعہ(ڈاکٹرسلیم عابدی)‘ تربیت عازمین حج وعمرہ(مفتی سید آصف الدین ندوی)‘ ہمالیہ کی چاندی پگھلتی رہے(انیس قمر)‘ فکری دھوپ اور چاندنی۔آزاد غزلیں (صابرفخر الدین)‘بے خواب دریچے۔ شعری مجموعہ(محمدانیس فاروقی انیسؔ)‘ دیار ادب۔تحقیقی وتنقیدی مضامین(ڈاکٹرمحمدعبدالعزیز سہیل)‘ میرے دکھ کی دوا کرے کوئی۔افسانے(محمدمجیب احمد)‘ شان چمن۔بچوں کے لیے دلچسپ کہانیاں ومضامین(ثریا جبین)‘ حقوق گوئی وبے باکی(ڈاکٹرمعین ؔافروز)‘ ترسیلے۔تین سطری نظمیں (علی صباؔ نویدی)‘ رشحات محسن(محسن خان)‘ اقبال کی نظمیں (ابن غوری)‘ مولوی محمدعبدالغفار حیات وخدمات(ڈاکٹرعزیز سہیل)‘مراسلات سحر(فرید سحر)‘ اک دیا جلائے رکھنا۔مختصر افسانے(خیرالنساء علیم) اور سہ ماہی ہندوستانی زبان (ممبئی) شامل ہیں۔
کتاب کا انتساب انتہائی دلچسپ ہے”قلم کے نام جس کے درک سے ادراک عالم وجود میں آیا“۔ کتاب کے صفحہ سات پر یوسف روشؔ نے ادراک قلم کی اشاعت کی مسرت میں تہنیتی قطعہ لکھا ہے:
یہ دین حقیقت میں ہے اللہ کے کرم کی
کیا خوب سلیمؔ آپنے تحریر رقم کی
شامل ہوئے تبصرے اور تجزیے اس میں
پھیلی ہے مہک اس لیے”ادراک قلم“ کی
اورایک تہنیتی قطعہ ڈاکٹرنادرؔ المسدوسی کا ہے:
اردوادب کی خدمتیں بے شک ہیں لاجواب
دنیائے علم وفن میں تمہاری ہے آب وتاب
شہرت ادب کی دنیا میں ہے ہر طرح سلیمؔ
”ادراکِ قلم“ ویسے ہے تیسؤیں کتاب
درک اول عنوان کے تحت ڈاکٹر م ق سلیم لکھتے ہیں کہ ”تبصروں پرمیری چارکتابیں شائع ہوچکی ہیں اور ان میں جن کتابو ں پر میں نے تبصرہ کئے ہیں وہ دو ٹوک اور بے لاگ تبصرے ہیں۔کتاب کومدنظررکھ کرتبصرہ کیاگیا ہے شخصیت مدنظر نہیں رہی“۔ ان کے اس اظہار سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ مصنف کی شخصیت سے متاثرنہیں ہوتے چاہے وہ پروفیسر ہویاادب کی دنیا کا بادشاہ وہ صرف کتاب کے متن اوراس کے مقصد میں وہ کس طرح کامیاب ہوا اسی پرچیل کی نگاہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹرراہی نے چارصفحات پر”ڈاکٹر م ق سلیم کی تنقیدی بصیرت“ کے عنوان تحت اپنے خیالات کااظہار کیاہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”صحت مند تنقید کے لیے مبصر یا تنقید نگار کا سخن فہم ہونا‘فن عروض اور قواعد سے آشنا ہونا لازمی ہے۔ انہوں نے تحسینی تبصروں پرتنقید کرتے ہوئے ڈاکٹرم ق سلیم کی شخصیت بیان کی کہ”وہ دودھ کا دودھ پانی پانی کرنے کے فن سے آشنا ہیں اور اغلاط کی نشاندہی میں بڑی سے بڑی شخصیت کابھی پاس ولحاظ ان کے پیش نظر نہیں رہتا ہے“۔ڈاکٹرراہی نے ایک صفحہ 2008ء میں شائع ان کی کتاب ”تنقیص وتحسین“ کی تعریف میں لکھ دیا اور عنوان چشتی نے ان کی کتاب کے متعلق جومضمون لکھا اس کونقل کردیا اور خود کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ ہر تنقید نگار اورمبصر کے لیے یہ چیزیں اہم ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹرم ق سلیم کو حد درجہ جذباتی کہتے ہوئے کہاکہ وہ تخلیق کودیکھتے ہوئے اس کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کی خامیوں پرنشر لگاتے ہیں۔
نوجوان قلمکار وصحافی ڈاکٹرجہانگیراحساس نے”کائنات کتب کا کھرا مبصر:ڈاکٹرم۔ق۔سلیم“ عنوان کے تحت مضمون لکھا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر م ق سلیم کی جانب سے پروفیسر سیدہ جعفر اور پروفیسر گیان چند کی مشترکہ کاوش”تاریخ ادب اردو“پرکیے گئے تبصرہ کویاد کیا اور کہاکہ سولہ آنے سچ کی مترادف کتاب کی خوبیوں کوگنوایا‘نشاندہی کی وہیں اس کے معائب پربھی خوب نشتر زنی کی۔
کتاب میں پہلا تبصرہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی جانب سے چلائے گئے برج کورس میں شریک طلبہ نے جواپنے خیالا ت لکھے ہیں اس کو ڈاکٹرکوثر فاطمہ کی نگرانی میں کتاب کی شکل میں جمع کیاگیا اور اس کو منزل مادور نیست عنوان کے تحت شائع کیا گیا۔ اس پرتبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر م ق سلیم نے برج کورس کی اہمیت پرتفصیلی روشنی ڈالی اور کہاکہ ”تفصیل سے برج کورس کی اہمیت پڑھ کرایسا لگتا کہ اب برج کورس کا اہتمام ہریونیورسٹی میں ہونا چاہئے“۔
برصغیر کے نمائندہ افسانہ نگار شموئیل احمد کے افسانوی مجموعہ”نملوس کا گناہ پر تفصیلی روشنی ڈالی اوران کے چارافسانوی مجموعے بگولے‘ سنگھاردان‘ القموس کی گردن او رعنکبوت پربھی اظہارخیا ل کیا۔ اس میں موجودہ سنگھاردان افسانہ پرخوب بحث کی۔ سنگھاردان افسانہ سے شموئیل کوکافی شہرت ملی لیکن لنگی افسانہ نے ساری ادبی دنیا خاص کرجامعات میں اس پرخوب کھل کربحث کی گئی اورڈاکٹرم ق سلیم نے اس کواپنے ادبی صفحہ میں جگہ دی تھی جس پرمہینوں قارئین نے اپنے ردعمل کااظہار کیاتھا۔ سنگھاردان افسانہ کوچوری کرتے ہوئے ایک فلم بھی تیار کی گئی ہے جس کے خلاف شموئیل احمدعدالت سے رجوع ہوئے ہیں اوریہ کیس جاری ہے۔
”دکنی ادب کی تحقیق اورمحمدعلی اثر“کوحیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے صدرشعبہ اردو ڈاکٹرسیدفضل اللہ مکرم نے مرتب کیا ہے۔ ڈاکٹرم ق سلیم محمدعلی اثر کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ”دوران طالب علمی میں احقر کوبھی ڈاکٹرمحمدعلی اثر سے بحیثیت استاد کے استفادہ کرنے ا موقع ملا بلکہ ایک مضمون دکنی ادب نصاب میں شامل تھا۔ عصرحاضرمیں دکنی ادب پرکام کرنے والے صرف ان ہی کتابو ں سے استفادہ کررہے ہیں (صفحہ:31)۔ڈاکٹرفضل اللہ مکرم محمدعلی اثر کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ ”پروفیسر اثرمیرے باضابطہ استاد نہیں ہیں مگر میں نے ہمیشہ انہیں استاد کا درجہ دیا ہے۔جب بھی کوئی علمی وادبی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تومیں ان سے ہی رجوع ہوتا ہوں“۔ جس سے اتفاق کرتے ہوئے ڈاکٹرم ق سلیم نے کہاکہ ”ڈاکٹرفضل اللہ مکرم نے بجاکہا ہے اس کی جیتی جاگتی مثال میں ہو ں انہوں نے مجھے افسانہ نگار سے بحیثیت مبصر‘ محقق اورنقاد کے آگے بڑھایا اوران ہی کی بدولت اردوادب میں 24کتابوں کا خالق ہوں“۔وہ کتاب کی ابتدائی حصہ میں درک ِ اول کے تحت پروفیسر محمدعلی اثر کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ ”پروفیسر محمدعلی اثر نے مجھے ہمت دلائی‘1997ء میں‘میں نے پہلی تبصروں کی کتاب ”مطالعے اورجائزے“شائع کی جس کواردواکیڈیمی کی جانب سے انعام سے بھی نوازاگیا۔یہی قدم میرے لیے مبارک تھا اور آج میں ایک اخبار کے ادبی ایڈیشن کا مدیر بھی ہوں۔(صفحہ:9)۔دکنی زبان وادب کو فروغ دینے میں سب سے بڑا نام پروفیسر محمدعلی اثر کاہے۔
ڈاکٹرنادرالمسدوسی کی کتاب”احساس کا پرتو“پربھی انہو ں نے کھل کرتنقید کی ہے۔صفحہ 39پروہ لکھتے ہیں کہ”پیش لفظ میں مصنف اپنے اوراپنے احباب کے ساتھ کتابوں وانعامات کاذکرکیا ہے جو کتاب کے آخر میں شامل ہے۔فہرست کے بعد دوبارہ پیش لفظ میں فہرست کی تفصیلات مناسب نہیں لگتی“ اس طرح انہوں نے اپنے خاص دوست کی کتاب پربھی کھل کرتنقید کی ہے اورثابت کردیا کہ وہ دوستی اور شخصیت سے متاثرنہیں ہوتے اور کھل کرحق کی بات کرتے ہیں۔ ڈاکٹرم ق سلیم صفحہ40کے ابتدائی حصہ میں لکھتے ہیں کہ”صفحہ 42سے دوسرا حصہ یاد رفتگان کے تحت10شخصیات پر قلم اٹھایاگیا ہے“۔ انہوں نے دس لکھا ہے لیکن مضامین کی تعداد13تھی۔انہوں نے کہاکہ کسی مفکر نے کہاکہ میرے چار وفادار ملازم ہیں۔کیا‘کب‘کس طرح‘کیوں‘کون اوربہر حال۔ جبکہ یہ صحافت کے اصول ہیں جس کوW5اورH1کہاجاتا ہے۔ اور ان ہی اصول کومد نظررکھتے ہوئے کوئی بھی صحافی اپنی خبرتیار کرتا ہے۔ انہوں نے مزاحیہ طورپر لکھاکہ ڈاکٹرنادرالمسدوسی کا مجموعہ ادب نوازوں کے لیے چورن کا کام دے گا(صفحہ:41)۔
”صدائے سلیم“ڈاکٹر سلیم عابدی کا شعری مجموعہ ہے جن کا حال ہی میں انتقال ہواہے۔ ڈاکٹرسلیم عابدی ایک کامیاب شاعر‘ مصنف‘ ادیب اور ایک بہترین ناظم مشاعرہ تھے اور وہ ڈاکٹرنادرالمسدوسی اور ڈاکٹر م ق سلیم کے یہاں ہونے والے تمام مشاعروں کی نظامت کرتے تھے۔ڈاکٹرم ق سلیم نے ان کی شخصیت پربھی کھل کر تبصرہ کیا ہے۔
نوجوان قلمکار ڈاکٹرمحمدعبدالعزیز سہیل کی کتاب”دیار ادب (تحقیقی وتنقیدی مضامین) پرانہوں نے اپنے خیالات کایوں اظہار کیا کہ”ڈاکٹرمحمدعبدالعزیزسہیل کی چھٹی تصنیف ہے۔ کم عرصے میں کم عمر میں جس کی کتابیں منظرعام پرآئے اور وہ رسالوں اور اداروں کا مدیرورہنما ہو توپھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اردودنیا ادب سے خالی ہوتی جارہی ہے“۔اس تبصرہ کے ذریعہ انہوں نے نہ صرف مصنف کی حوصلہ افزائی کی بلکہ اردو سے مایوس ہونے والوں کہاکہ وہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں اور مایوسی کے اندھیرے میں جانے کے بجائے نئے دیپ جلانے کی کوشش کریں۔
محمدمجیب احمد کے افسانوں ”میرے دکھ کی دوا کرے کوئی“ پرتبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹرم ق سلیم نے افسانہ کیا ہوتا ہے‘ اس کی تکنیک کیا ہوتی ہے‘ کیسا لکھا جاتا ہے ان پربھی کھل کرروشنی ڈالی ہے۔انہوں نے اس افسانوی مجموعہ کے تناظرمیں ڈاکٹرمجیب کے تعلق سے لکھا کہ ”افسانہ نگار ایک حساس دل کے مالک ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا دل ان واقعات کو پڑھ کرخون کے آنسو رورہا ہے اوروہی آسنو قلم کی نوک پرآکر صفحہ قرطاس پربکھیرگئے ہیں“۔(صفحہ:69)۔
ڈاکٹر معین افروز کی کتاب”حق گوئی وبے باکی“ پربھی انہوں نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ حق گوئی وبے باکی کے نام سے حیدرآباد دکن کے مشہو ر ومعروف شاعر‘ادیب ونقاد ڈاکٹررؤف خیر کی کتاب شائع ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر م ق سلیم نے لکھا کہ حق گوئی وبے باکی کتاب میں ادب بھی ہے‘ تاریخ بھی ہے اور سماج بھی ہے۔ آگے انہوں نے ایک شعر کا آغاز یوں کیا کہ کسی نے کہاکہ پھربعدمیں شاعر کانام دیاگیا ہے۔ آگے انہوں نے کہاکہ کتاب میں درجہ بھی صحیح نہیں ہے۔ انہوں نے کتاب میں ڈاکٹرمحمدقمرعالم کی جانب سے لکھے گئے مضمون میں موجود نقائص کا ذکرکرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے اپنے مضمون میں ایک جگہ معین افروز کو نوجوان دوست لکھا پھرآگے چل کرانہیں صاحب سے مخاطب ہیں۔مضامین کومقالات کا نام دیا ہے(جبکہ وہ پروفیسر ہیں)دراصل یہ مضامین کا مجموعہ ہے۔(صفحہ:77)۔
رشحاتِ محسن جو میری ایک پہلی کوشش تھی اس پربھی انہوں نے کھل کرتنقید کی اور میری رہنمائی کی اورمجھے مشوردیا کہ مطالعہ وسیع کرو اورپھرقلم اٹھاؤ اس وقت قلم سے شاہکارنکلیں گے۔
فرید سحر کی مراسلات سحرمیں ڈاکٹر م ق سلیم نے مراسلہ کی اہمیت پرروشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ ”مراسلہ نگاری بھی ایک فن ہے۔ عموماً اخبارات میں عوامی مسائل کی پیش کشی کے لیے اس طرح کے کالم مختلف عنوانات کے تحت ہوتے ہیں۔ جس سے عوامی رائے کااظہار ہوتا ہے ایک عام آدمی جس کی رسائی متعلقہ محکمہ جات‘ ادارہ جات یا حکومت کے نمائندوں تک نہیں ہوسکتی۔وہ مراسلہ کے لیے اپنی رائے اخبار یا رسلہ کوروانہ کرتا ہے“۔ (صفحہ:95)
مجموعی طور پر یہ کتاب ہر مبصر کو پڑھنا چاہئے۔ ڈاکٹرم ق سلیم نے اپنے23 بہترین تبصروں کو ادراک قلم کے ذریعہ پیش کرکے تبصرہ کے فن کو پیش کیا ہے۔ ان تبصروں کوکتابی شکل دینے سے تمام مصنفین کے لیے یہ کتاب دستاویز بن گئی ہے۔ ڈاکٹرم ق سلیم نے چھ مضامین میں ایم اے کیا ہے اور ان کی 13کتابو ں کوانعامات واعزازات سے نوازاجاچکا ہے اور مختلف تنظیمو ں نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں مختلف ایوارڈ سے نوازا ہے اورحال ہی میں حکومت تلنگانہ نے انہیں کارنامہ حیات ایوارڈ سے نوازا ہے۔سلیمان اریب حیات اورکارنامے‘فن مراسلہ نگاری اور اردورسائل وجرائد کی ڈائرکٹری پروہ کام کررہے ہیں اورجلد ہی یہ کتابیں منظرعام پرآجائیں گی۔ ادراکِ قلم کی اشاعت پرمیں انہیں دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اورامید کرتا ہوں کہ وہ اپنا سفرجاری رکھیں گے۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کاآغاز ہے
—-

Share
Share
Share