تانیثیت کے بنیادی محرکات و مبادیات اوردرپیش مسائل :- محمد لطیف شاہ

Share
محمد لطیف شاہ

تانیثیت کے بنیادی محرکات و مبادیات اوردرپیش مسائل

محمد لطیف شاہ
(ریسرچ اسکالر، شعبہ اُردو، کشمیر یونیورسٹی)
9797130907,

تانیثیت (Feminism) ایک کثیرالجہات (Multi-Dimensional) اصطلاح ہے۔ جو اپنے اندر مختلف النوع محرکات، مبادیات، رجحانات، نظریات اور مدلولات رکھتی ہے۔ اس تحرک کا بنیادی اور سب سے بڑا محرک مردوں اور عورتوں کے درمیان حقوق کی مساوات(Equality) اور عورت کا تشخص ہے۔

اس سیاق و سباق (Context)میں یہ تحریک پدری نظام(Patriarchy)، مرد غالب معاشرہ(Male Dominated Society)، سماجی، سیاسی، اقتصادی ناہمواری، حقوق کی غیر مساوی تقسیم، روایات کا جبر، اخلاقی اقدار کی پامالی، عورت کے تئیں مرد کا تصورِ غیر(The other) وغیرہ جیسے متعدد مسائل وا مکانات کو حرفِ تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔
تاریخ کے نگار خانے میں یہ امر واضح ہو ہی گیا ہے کہ عورت کی زبوحالی، کمتر سماجی حیثیت، صدیوں سے چلے آرہے عورت کا استحصال، اسکے حقوق کی پامالی، ظالموں کے رویہ کی خود غرضی، اپنے بداعمال کے سزا کی وجہ عورت کو قرار دینا وغیرہ نے اس تحریک کو ابھارنے میں اہم اور قلیدی رول ادا کیا ہے۔ بقول پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ:-
”تانیثی تحریک کا بنیادی مقصد عورتوں کو مردوں کے مساوی سیاسی، سماجی، معاشی ادر قانونی حقوق دلانا تھا اور ترقی کے میدان میں انہیں برابر کے موقع فراہم کرانا تھا۔ تانیثت، اپنے واسیع مفہوم میں صرف عورتوں ہی کے اشوز کی ذمہ دار ہے اور جینڈر کے تعلق سے نابرابری کو ختم کر دینا چاہتی ہے۔ جیسے جیسے تانیثی تحریک فروغ پائی گئی، اس کے نظری اور فلسفیانہ ڈسکورس میں بھی تبدیلی آتی گئی“۱؎
موضوع پر مزید بات کرنے سے پہلے تانیثیت پر دی گئی چند مختلف تانیثی مفکروں کی اراء کو دیکھتے چلیں جن سے بیشتر (تانیثیت کے حوالے سے) محرکات و مبادیات بھی سامنے آجاتے ہیں۔ اور اس تحریک کی وسعت کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔
۱) پیٹر کا لنگرمین اور گلین نیروگ(Patricia Lengermann and Gillian Nierugge) اپنے ایک مشترکہ مضمون تانیثیت "Feminism”تانیثیت کی تعریف کرتے ہونے لکھتے ہیں۔
"Feminism is the system of ideas and Political Practices based on the principle that women are human beings equal to men. Feminism may be the most wide ranging social movement in history, effecting change in the institution, stratification practices and culture of nearly all societies”۲ ؎

۲۔ جولی شینی (Julie Shayne)اپنے ایک مضمون”Feminism Activism in Latin America”میں لکھتی ہے کہ۔
"Feminism attempts to transform women from object to subject, specifically with respect to knowledge. In other words, Feminism and by extension feminist activism is about centering the lives of women”۳؎

۳۔ پروفیسر قدوس جاوید اگر چہ یہ ماہر تانیثیت نہیں ہیں لیکن تانیثیت پر بات کرتے ہو بڑی اہم اور مستند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

”تانیثیت وہ زاویہ نظر، طرزِ حیات ہے جو کسی بھی ماحول اور معاشرہ کے صحت مند ارتقاء کے لیے عورت اور مرد کو یکسان حقوق اور فرائض عطا کرنے پر اصرار کرتی ہے۔ ادب وفن ہویا سماجیات، تہذیب و ثقافت ہو یا سیاست و معشیت، کسی بھی شعبہ میں جب عورت اور مرد کو برابری کے حقوق سے متعلق فکری اور ادبی رویے ظاہر کیے جاتے ہیں خواہ ان رویوں کا اظہار عورت کرے یا مرد ان کا شمار تاثینی فکر میں کیا جاتا ہے۔“۴؎
مذکور ہ اقتباسات سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ تانیثیت نام ہے عورت کے تئیں سماجی، سیاسی، معاشرتی، اقتصادی، قانونی، جنسی اور تعلیمی ہر طرح کے ظلم و جبر اور استحصال کا ازالہ۔ اس تحریک کو اول تاحال زیادہ تر مغربی ادیبوں نے ابھارنے اور نکھرانے کی کوشش کی ہیں۔ انہوں نے ایک عورت کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کا صدبات کرنے کے لیے بہت ساری تخلیقیات و نگارشات کو معرضِ وجود میں لایا ہے۔ جن کو بقول ایلن شوولٹر (Elaine Showater) تین ادوار میں منقسم کیا جاسکتا ہیں۔
پہلا۔ نسائی (Feminine) 1840-1880تک کا دور ہے۔ اس دور میں عورتوں نے مرد اساس تہذیب کی رو سے سوچا اور لکھا ہے
دوسرا۔ نسائی پسند (Feminist) 1880-1920تک دور ہے اس دور میں لکھنے والوں نے تانیثیت کے مروجہ رویہ سے انحراف کی اور طبقاتی کشمکش کو خاص موضوع بنایا۔
تیسرا دور۔ عورت (Female)حال 1920تک کا دور۔ اس دور میں مروجہ دونوں ادوار سے انحراف کرکے۔ اور عورت کو مکمل طور پر ایک الگ حیثیت دینے اور ادبی تحریروں کی زمرہ بندی کا رحجان بھی عام ہوا۔ اس دور کے لکھنے والوں نے مرد اساس ادب کو صحافت اور عورتوں کے ادب کو تانیثی فکشن گردانا۔
ابتداء سے لے کر تا حال تک تانیثیت کے حوالے سے بہت ساری تخلیقی اور تنقیدی نگارشات کو نوکِ نشتر سے صفحہ قرطاس پر لایا گیا ہے۔ جن میں کچھ اہم کے نام اس طرح ہیں۔
۱) میری وول سٹون کرایفٹ (Mary wall Stone Craft)کی مشہور و معروف کتاب”A Vindication of the Rights women (1792)”
۲)جان اسٹورٹ مل (John Stuart Mill)کی کتاب "Subjugation of Women”, (1869)
۳)ایل کوئز اوٹو پیٹرز (L. Kouise otto Peters) کی کتاب "Participation of the Feminine sphere in Affairs of the state”, (1847).
۴)ورجینا وولف (Virginia Woolf) کی شہرآفاق کتاب "A Room of One’s Own” (1929)
۵)سیمون دی بوایئر Simon-de-Beavior کی فرانسیسی زبان میں لکھی گئی فقید المثل کتاب "La Deuxieme Sexe (1949)”جس کا ترجمہ انگریزی زبان میں 1953ء میں "The Second Sex”کے نام سے شائع ہوا۔
۶)میری ایلمان (Mary Ellmann)کی مشہور کتاب "Thinking about women (1968)”
۷)کیٹ مِلّٹ (Kate Millett)کی دقیانوسی اور پددانہ شماج میں عورت کا تصور سے متعلق مشہور و معروف کتاب”Sexual Politics (1969)”
۸)ایلین شوالڑ (Elain Showalter)کی شہرآفاق کتاب "A literature of their own (1977)”
۹)ایلز بتھ ہارڈوک (Elizabeth Hardwick)کی کتاب "Seduction and Betreyal (1974)بھی تانیثیت کے زمزے میں ایک اہم اور قابل تحسین کتاب ہے۔
۱۰)ایلین شوالٹر (Elain Showlater)کی مرتب کردہ کتاب "The new feminist criticism: Essays on women literature and Theory (1985)
اردو شعر و ادب کے تناظر میں تانیثی فکریات کو شاعری اور نثر دونوں طرح کی تحریروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ چاہیے وہ چندہ بائی ماہ لقا ہویا پھر پروین شاکر ہو، چاہے وہ رشیدۃ النسا (اصلاح النسا) ہو یا پھر رشید جہاں کی افسانہ نگاری ہو، چاہے وہ نذیر احمد کا ناول ’مراۃ العروس“ ہو یا پھر قرۃ العین حیدر کے ناول ہوں وغیرہ۔ میں یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ تانیثیت کے دائرے میں اردو ناولوں کے چند نام درج کرے تاکہ اس بات کا انداز ہو جائے کہ اردو ادب میں بھی تانیثیت کی فکر کو فکشن نگاروں نے اپنی تخلیقات میں کس قدر پیش کیا ہیں۔ مثلاً: عصمت چغتائی (ٹیڑھی لکیر)، راجندر سنگھ بیدی (ایک چادر صیلی سی)، خدیجہ مستور (آنگن)، مرزا محمد ہادی رسوا (امرؤ جان ادا)، پریم چند (نرملا)، پیغام آفاقی (مکان)، غضنفر (کینچلی)، باتوقد سیہ (راجہ گدھ)، رضیہ فصیح احمد (آبلہ پا) اصغرمہدی (جو بچے ہے سنگ سمیٹ لو)، جیلانی بانو(ایوانِ غزل)، واجدہ تبسم (کیسے کاٹوں ریں اندھیری) شموئل احمد (ندی)، شائستہ فاخری (صدائے عندلیب بر شاخ شب)، حسن منظر (بیرشیبا)، انیس ناگی (ناراض عورتیں)، عذرا عباس (میں اور موسیٰ)، شمیم منظر (زوال سے پہلے) وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
الغرض تانیثیت کی لہر برطانیہ سے اٹھ کر دوسرے یورپی ممالک جیسے امریکہ، لندن، جرمنی، افسریکہ، فرانس وغیرہ سے گزرتے گزرتے عالمی تحریک کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔
جس نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف اور متنوع روپ بھی اختیار کیے ہیں مثلاً۔
۱)شدت پسند تانیثیت
Radical Feminism
۲)سماجی تانیثیت
Social Feminism
۳)ترقی پسند تانیثیت
Marxist/Progressive Feminism
۴)سیاہ فام تانیثیت
Black Feminism
۵)ہم جنس تانیثیت
Lesbian Feminism
۶)تحلیل نفسی تانیثیت
Psycho Analytic Feminism

مجموعی طور پر ان تمام نظریات میں جو بنیادی مسائل، مطالبات، تفکرات، تدبیرات اور محرکات دیکھنے کو ملتے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔
۱) عورتوں کی پستی(Oppression)کی بنیادی وجہ پدرانہ نظام ہے۔ جس میں اقتدار مرد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور عورت مجبور محض تصور کی جاتی ہے۔
۲)مردوں کے ظلم وجبر اور جابرانہ رویے کی شکار ہمیشہ عورت ہوئی ہے۔
۳)ماضی میں مرد نے خود کو فاعلیت اور عورت کو مفعولیت کے نقطہئ نظر سے بھی Treat کیا ہے۔
۴)مردوں نے عورتوں کو ہمیشہ تاریخی طور پر ہیچ (Insignificant)اور کم تر تصور کیا ہے۔
۵)انسانی تاریخ میں نہ صرف فرانس بلکہ دوسرے مغربی ممالک میں بھی مردوں کے مقابلے میں عورت کو غیر (The Other)اور ثانوی جنس سمجھا ہے۔
۶)پدرانہ سماج(Patriarchal Society)ہی نے عورتوں کو دبا کر اقتصادی، سیاسی، سماجی اور تعلیمی طور پر نابرابری کی راہ پر لاکر کھڑا کیا ہے۔
۷)زبان کی ساخت بھی (کافی حد تک) مرد مرکز (Phallocentric) بنی ہوئی ہے۔
۸)آج تک عورتوں کے بارے میں سب نے لکھا اور کہا ہیں۔ لیکن کبھی عورت کے لیے نہیں کہا۔
۹)عام زندگی میں ابتداء تا حال سے ہی تذلیل و خواری، خانگی تشدید (Domestic Violence)، بہ ذریعہ شوہر عورت کو زودو کوب (Wife – beating)کیے جانے، آبرو ریزی (Rape)، جنس زور زبردستی اور جنسی استحصال کا نشانہ عورت کو بنایا گیا ہے۔
۱۰)شکل و صورت کی بنیادوں پر عورتوں کی آپسی مخالفت کا ازالہ بھی تانیثیت کا ایک مسلہ رہا ہے۔
۱۱)صنفی(Sex) کے طور پر مرد اور عورت کے درمیان افتراق پر اعتراض نہ ہونے کے ساتھ تانیثیت پسندوں نے اس رویے کی شدید مخالفت کی ہے کہ احساسات، خیالات، دہنیت، صلاحیت اور اظہارات کے تناظر میں قطعی طور پر عورت مرد سے کم تریا متفرق نہیں ہے۔ اس حوالے سے اناجیمسین نے لکھا ہے:

"The Intellect of women bears the same relation to that of man as her physical organisation, it is inferior in power and different in kind”۵؎
۱۲) "Take Back the Night”کے نام سے نسوانی انجمنوں نے عورت پر ہونے والے ظلم و تشدد کے خلاف جرمنی میں زبردست آواز اٹھائی نہ صرف گھر سے باہر بلکہ گھر کے اندر باپ، شوہر، بھائی اور بیٹے کے ہاتھوں عورتوں کے استحصال کے خلاف شدید ردِ عمل اور بحث و مباحث کو اٹھایا۔ اور عورتوں کے لیے ایسے گھروں کی تعمیر پر زور دیا جہاں وہ محفوظ و مسرور رہ سکیں۔
۱۳)تانیثی تحریک میں جنسی تفریق، عورتوں کو چڑیل سمجھنا، عمر رسیدہ عورتوں کے مسائل و مطالبات، جسم فروشی اور ہم جنسیت جیسے نظریات و موضوعات کو بھی بیشتر تانیثیت پسند ادبا/ادیبائیوں نے اپنی تخلیقات و نگارشات میں شدت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ نیز غیر شادی شدہ ماؤں کی حمایت میں ہمدردانہ انداز میں لکھا کہ انہیں لعن طعن کرنے اور ان سے نفرت کرنے کے بجائے ان سماجی عوامل و مسائل پر غور کیا جائے جن کے تحت وہ ناجائز بچوں کی ماں بتی ہیں یا جن کے زیر اثردب کروہ یہ غیر مہذب کام کرنے کے لیے مجبور ہوتی ہیں۔
۱۴)تانیثیت کے مفکروں نے اس مفروضے کو بھی حرفِ تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ عورت ایک قابل رحم اور مجبور صنف ہے جسے ہمیشہ مردوں کے دست شفقت اور پناہ کی ضرورت ہے۔
قصہ مختصریہ کہ تانیثیت پسندوں کا بنیادی موقف سماج کے ان تمام عوامل میں تبدیلی لانی تھی جہاں عورت کو دوسری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور حق تلفی کرکے اس سے بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے لویس ٹیسن بات کرئے ہوئے لکھنے ہیں:
"All feminist activity, including feminist theory and literary criticism, has its ultimate good to change the world by promoting women’s equality. Thus all feminist activity can be seen as a farm of activism, although the word’s usually applies to feminist activity that directly promotes social change through political activity such as public demonstrations, boycotts, voter education and registration, the prevision of hotlines for rape victims and shelters for abused women, and the like, Although frequently falsely portrayed in apposition to "family values” feminists continue to lead the struggle for better family politics such as nutrition and health care for mothers and children’s parental leave; and high – quality, affordable day care” ۶؎
تانیثی تنقید کے زمرے (Paradigm) میں بھی تانیثیت پسند متفق نظر نہیں آتے ہیں۔ اس کی طرف سب سے پہلے گہرائی کے ساتھ ایلین شووالٹر نے سوچنا شروع کیا۔ ان کا موقف یہ ہے کہ تانیثی تنقید میں شعروادب کے تجزیاتی عمل میں مردوں کے اپنے تصورات، تفکرات، مفروضات اور تاثرات برسرِ پیکر رہتے ہیں۔ اور اس طرح یہاں بھی وہی مرد حاوی نقطہ نظر اقتدار کی سند حاصل کرتا ہے۔ جس کے خلاف یہ تحریک معرضِ وجود میں آگئی۔ اس تناظر میں انہوں نے تانیثی تنقید کو دو زمردوں میں منقسم کیا عورت بحیثیت قاری (Woman as Reader)او ر عورت بحیثیت مصنف (Woman as Writer)دوسرے پر زیادہ زور دیتے ہوئے ایلین شوالٹر نے کہا تھا کہ آج تک عورتوں کی تخلیقات اور نگارشات کو انہیں کے تصورات، تفکرات اور مصروضات کے سانچے میں پر کھنے کے لیے کوئی تنقیدی کلامیہ (Critical Discourse)معرضِ وجود میں نہیں آیا ہے جو وقت کی ضرورت بھی ہے اس لیے انہوں نے نسوانی تنقید (Gynocriticism) کی اصطلاح کو منظر عام پر لایا۔ اس کے ماخذ اور ضرورت کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ایک مضمون Towards a feminist poetics; women writing about women”لکھا ہیں:۔
The Second type of feminist criticism is concerned with women as writer – with woman as the producer of textual meaning, with the history, themes, genres and structures of literature by women, its subjects include the psychodynamics of female creativity, linguistics and the problem of a female language; the trajectory of the individual or collective female literary career; literary history; and of course, studies of particular writers and words. No term exists in English for such a specialized discourse, and i have adopted the French term Lagynocritique; "gynocritics” (although the significance of the male psedonym in the history of women’s writing also suggested the term "georgics”).۷؎
سماجی سطح پر آج بھی بہت سارے مسائل ایسے ہیں جن میں عورت کو تحفظ ملنا باقی ہے۔مثلاً ہندوستان کے اس خطہ کشمیر میں آج بھی جب پرتاب پارک میں مختلف اداروں اور شعبوں کی طرف سے دھرنا دیا جاتا ہے تو Female Reporters کو وہاں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، آئے دن اتنے سخت اور کھٹن قوانین کی تشکیل کے بعد بھی اس عورت سے زنا بالجبر (Rape) کے حادثات پیش آتے رہتے ہیں وہ چاہیے راجوری کا علاقہ ہو یا پھر دہلی، ممبئی، حیدرآباد، بہار،گا ندوبل، شوپیاں، کرنا ٹکہّ وغیرہ کے علاقے ہوں، نیز گھریلو تشدد (Domestic Violence)کے واقعات میں بھی اس عورت کی آزادی اور خواہشات کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ سب سے بڑ کر یہ کہ آج بھی اس عورت کو بیٹی کے روپ میں اپنے والدین غیر (The other)سمجھتے ہیں سسرال میں اسی عورت کو بہو کے روپ میں پرائے گھر سے آئی ہوئی غیر (The Other) تصور کیا جاتا ہے اور محبت کے روپ میں آج بھی (کم و بیش) ان سے جڑا ہوا تصور! بے وفا، ہرجائی، ظالم، بت، صنم وغیرہ جاری و ساری ہے۔ علاوہ ازیں آج بھی ہمارے سماج میں رائے شماری کے زمرے میں مردوں کی رائے کو اطمنانِ قلب اور عورتوں کی رائے (گھروں کے حوالے سے)کوحینِ حیات کے سرمایے عزت کو خاک میں ملا دینے کے مترادف تصور کیا جاتا ہے۔ القصہ اس مضمون کو میں ساجدہ زیدی کے اس اقتباس سے اختتام پذیر کرتا ہوں:
”اس (عورت) کی شخصیت محض جنگ و جدل میں سکٹر سمٹ کر نہ رہ جائے بلکہ وہ زندگی کی وسعتوں میں پھیل کر کائنات کی رمز شناسی کر سکے اور کشمکش زیست میں شامل ہوکر اپنے وجود کا راز پاسکے اور آزادی و بیباکی سے زندگی کرنے کا ہنر اپنا سکے کہ
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون ۸؎
——
حواشی
۱؎بحوالہ: ادبی تنقید کے لسانی مضمرات۔ ایجوکیشنل ہاؤس، علی گڑھ، 2012 ؁ء ۔ ص۔59
۲؎The Blackwell Encyclopedia of Sociology. edit by, George Ritzer Blackwall publishing ltd. 2007 – p – 1666)
۳؎بحوالہ:۔ ایضاً۔ص۔1685۔
۴؎بحوالہ۔ متن، معنی اور تھیوری۔ موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی، 2015 ء ص ۔152۔
۵؎بحوالہ:۔ پروفیسر قدرس جاوید متن، معنی اور تھیوری، موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی، 2015 ء۔ ص۔ 145
۶؎Critical Theory today: A user-friendly guide. Lois Tyson. Routledge, London and New York, 3rd Ed. 2015. P.88
۷؎Modern literary theory. Philip Rice and Patricia Waugh Edward Arnold London. 1992. P-92-93.
۸؎بحوالہ: پروفیسر قدوس جاوید۔ متن، معنی اور تھیوری۔ص۔172۔

Share
Share
Share