ثروت خان کا افسانہ ” میں مرد مار بھلی ” کا تجزیہ :- اسماء امروز

Share

ثروت خان کا افسانہ ” میں مرد مار بھلی ” کا تجزیہ

اسما امروز

اسماء امروز
ریسرچ اسکالر(ایم فل)
یونی ورسٹی آف حیدرآباد

ثروت خان کا شمار اکیسویں صدی کے اہم فکشن نگاروں میں ہوتا ہے انہوں نے مخصوص سماجی و تہذیبی پس منظر میں دل کو چھو لینے والے سنجیدہ اور اہم موضوعات کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔ ہمارا زیادہ تر ادبی سرمایہ دہلی،لکھنو،دکن اور بہار کے تہذیب و معاشرت کے اردگرد گھومتا ہوا نظر آتا ہے۔

ثروت خان نے اسے راجستھان کے صحراؤں کی سیر کرائی، راجستھان کی تہذیب و ثقافت،رسم و رواج اور راجستھانی زندگی کے رنگ ڈھنگ کو اپنے افسانوں کا محور و مرکز بنایا اور اردو ادب کو ایک نئی سرزمین سے متعارف کراکر علاقائی اعتبار سے موضوعات میں وسعت پیدا کی ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان سے قبل راجستھان میں ادب نہیں لکھا گیا، ادب ضرور لکھا گیا لیکن راجستھان کی زندگی اور وہاں کے رسم و رواج اپنے مخصوص ناموں کے ساتھ کھل کر ثروت خان کی فکشن میں نظر آتے ہیں جس کی اور کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
ثروت خان کا افسانوی مجموعہ "ذروں کی حرارت” 2004 میں شائع ہوا جس میں کل 18 افسانے شامل ہیں مجموعہ میں شامل پہلا افسانہ "میں مرد مار بھلی” اپنے موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے منفرد ہے۔
اس افسانے میں ثروت خان نے شوہر کے ہاتھوں ہورہے بیوی کے استحصال کو اپنا موضوع بنایا ہے، ساتھ ہی ساتھ عورتوں کی نفسیات کو بھی اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس افسانے میں عورت کے ساتھ ہو رہے ظلم و زیادتی کے خلاف بغاوت کا جذبہ نظر آتا ہے۔ ثروت خان نے ایک ہی علاقے کے دو متضاد ذہن عورتوں کا کردار پیش کیا ہے جو اپنے طے شدہ ذہنیت کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہیں مصنفہ نے نہایت ہی ہنرمندی سے ان متضاد کرداروں کے ذریعے معاشرے میں موجود عورتوں کی تصویر پیش کی ہے۔ ایک طرف سنبل ضبط و تحمل،ایثار و محبت، اور صبر و وفا کی مورت ہے، تو دوسری طرف کیرتی بغاوت اور انتقام کی آگ میں سالوں سے جلتی ہوئی پتھر۔ سنبل کا کردار ایسی عورتوں کی نمائندگی کرتا ہے جو مرد کے ظلم و جبر کو محبت کی آڑ میں قبول کرتی ہیں، اپنے شوہر کی گالیاں اور مار کھا کر خاموش رہتی ہیں، درد سے کراہتی تو ہیں لیکن زبان سے کبھی حرف شکوہ ادا نہیں کرتیں، اس خیال سے کہ وہ اس کا مجازی خدا ہے۔ سنبل اپنے شوہر کو سرخ رو کرنے کے لیے سہیلیوں کے درمیان اس کی جھوٹی تعریفیں کرتی ہے اور اپنے جسم پر لگے ہوئے چوٹوں کے نشانات کو محبت کی نشانی بتاکر مسکراتی ہے وہ شاید اسے اپنا مقدر سمجھتی ہے۔
” نہیں کیرتی نہیں! یہ میرا مجازی خدا ہے تم بیچ میں نہ آؤ سنبل یہ سب کہہ تو گئی مگر درد سے اس کی کراہیں کیرتی کو صاف سنائی دے رہی تھیں "
” کیرتی کو یاد آیا کہ سنبل نے کئی بار اس سے کہا تھا کہ وہ مجھ پر جان دیتے ہیں کیرتی کو یقین بھی ہونے لگا تھا اور اکثر سنبل کے جسم کے کسی نیل پر اس کی نظر پڑ جاتی اور وہ پوچھ بیٹھتی کہ یہ کیا ہیں تو سنبل مسکرا کر آنکھوں میں سرور لانے کا ناٹک کرتے ہوئے کہتی یہ رات کو انہوں نے ڈال دیئے”۔

کیرتی کا کردار ایک مرد مار خاتون کا کردار ہے جو تانیثیت کی علمبردار ہے، یہ ظلم برداشت کرنے کے بجائے اس کے خلاف آواز بلند کرتی ہے اس کے دل میں مردوں کے لیے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، وہ سماج کے ان اصولوں کو جو عورتوں کو کمزور اور لاچار بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں، قبول کرنے سے انکار کرتی ہے وہ مرد کے مجازی خدا اور پتی کے پرمیشور ہونے کے نظریے کو رد کرتی ہے اس کے مطابق مرد عورتوں کو کمزور کرنے کے لئے عشق و محبت کے ڈھونگ کرتے ہیں محبت کے اظہار میں عورتوں کی آواز کو مثل خش و خاشاک کے اڑا دیتے ہیں۔
” سنبل! پتی پرمیشور ہمارے یہاں بھی ہوتا ہے لیکن یہ سب القاب ان مردوں نے ہم عورتوں پر ظلم کرنے کے لیے گڑھے ہیں خود تو مجازی خدا اورپرمیشور بن بیٹھے اور ہمیں ابلا اور صنف نازک قرار دے دیا یہ سب ڈھونگی ہے پکے ڈھونگی”
"واہ رے مرد ذات،واہ رے محبت اور واہ رے سماج خوب جکڑا خوب فریبوں کا جال پھیلا۔ آزادی سلب کرنا کوئی تم سے سیکھے۔خوب کھل کر کھیلتے ہو عورت کے جذبات سے، اس کی خود سپردگی سے۔۔۔۔ واہ!واہ!کیرتی کا عضو عضو اس ناانصافی کے خلاف چیخ رہا تھا "
اس افسانے میں ثروت خان کی کردار نگاری اس اعتبار سے بھی قابل داد ہے کہ انہوں نے جن دو کرداروں کا انتخاب کیا ہے وہ دونوں الگ الگ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ایک ہندو ہے تو دوسری مسلمان لیکن ان دونوں میں جو بات مشترک ہے وہ یہ ہے کہ وہ عورت ہیں۔
ثروت خان نے ان کرداروں کے ذریعے اس بات کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ مذہب چاہے جو بھی ہو عورت کے مسائل وہی ہے جو صدیوں سے چلے آرہے ہیں دونوں مذاہب میں مرد بالادست ہیں اور عورت محکوم اور کمزور،اگر ایک طرف مسلمان اپنی بیوی کو بحیثیت مجازی خدا مارتا ہے تو دوسری طرف ایک ہندو شخص بھی اپنی پتنی کو بحیثیت پرمیشور مارتا ہے۔ یہ ہمارے سماج کی ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس سے آنکھیں چرائی نہیں جا سکتی۔
دراصل کیرتی پولیس میں اعلی عہدہ پر فائز ہے، اور اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وہ مرد مجرموں کو اس وقت تک مارتی ہے جب تک کہ اس کا غصہ ٹھنڈا نہ ہو جائے۔
"مجرم سامنے تھا اور کیرتی کا غصہ تھا کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ ایک مجرم سنبل کا مجازی خدا بن جاتا کبھی اس کا باپ، کبھی ننھا وجود بن جاتا تو کبھی بلکتیماں "
ثروت خان سے پہلے لکھنے والوں نے بھی عورتوں کا وہ کردار پیش کیا ہے جس میں عورت ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے، سماج کے فرسودہ رسومات کے خلاف بغاوت کرتی ہے، لیکن ثروت خان کی تخصیص یہ ہے کہ انہوں نے عورت کو ایک ایسا عہدہ دیا جس کے ذریعے نہ صرف وہ بغاوت کر سکتی ہے، بلکہ وہ عملی طور پر بھی بدلہ لے سکتی ہے، مردوں کو مار بھی سکتی ہے،کیونکہ وہ اب صنف نازک نہیں ہے بلکہ ایک مضبوط کراٹے چیمپئن ہے۔
"جیسے کوئی جواں مردی کا کام کرنے والاآتا، تابڑ توڑ اس کا غصہ اس پر برپا ہوجاتا وہی باپ وہی ماں وہی لاتے،گھونسے وہی تلملاہٹیں، منتیں اور وہی وجود مگر سہما سا نہیں بلکہ غراتا ہوا دھاڑتا ہوا”
یہ افسانہ پلاٹ کے اعتبار سے بھی کامیاب ہے، پلاٹ مربوط اور گٹھا ہوا ہے۔ قاری کا ذہن مرکزی خیال پر ابتدا سے آخر تک جمع رہتا ہے، کہانی منطقی ترتیب سے آگے بڑھتی ہے۔ سنبل کا شوہر اسے بری طرح مارتا ہے اور وہ درد سے کراہتی ہے۔ یہ منظر کیرتی دیکھتی ہے اور غصے سے آگ بگولا ہو جاتی ہے اور ردعمل کے طور پر سنبل کے شوہر کو ایسا دھکہ دیتی ہے کہ وہ دیوار سے ٹکرا جاتا ہے۔ اس غصے کو مصنفہ نے اس کے بچپن سے نہایت خوبصورتی سے جوڑا ہے جب اس کا باپ اس کی ماں کو مارتا ہے اور وہ درد کی شدت سے کراہتی ہے دراصل کیرتی بچپن سے ہی یہ سب دیکھتی آرہی ہے اسی وجہ سے اس کے دل میں مردوں کے لیے نفرت اور غصہ بھرگیا ہے، جس کا شکار وہ مرد ہوتے ہیں جو اس کے تھانے میں مجرم بن کر آتے ہیں۔
جذبات نگاری میں بھی مصنفہ نے اپنے کمالات کے جوہر دکھائے ہیں وہ نہایت ہی بے ساختگی سے جذبات کا اظہار کرتی ہیں وہ اشارے کنایہ میں بات کرنے کی عادی نہیں ہیں بلکہ کھلم کھلا کرداروں کے جذبات اپنے مکالموں کے ذریعے بیاں کر دیتی ہیں، ان کو جذبات نگاری پر اتنی قدرت ہے کہ انھوں نے مختصر سے مکالمہ میں بھی بھرپور جذبہ بیان کر کے کرداروں کی ذہنی ساخت کو عیاں کردیا ہے۔
افسانے میں مصنفہ نے نہایت شدید رویہ اپنایا ہے۔ پورے افسانے میں ایک ہی جذبہ ابھر کر سامنے آتا ہے، وہ ہے مردوں کے لیے غصہ اور نفرت۔ افسانے میں اس مرد کو نظر انداز کیا گیا جو اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے۔ ہاں ایک جگہ مصنفہ نے ضرور ذکر کیا ہے، جس میں کیرتی کا باپ اس کی ماں کو پیار سے کولہوں میں چیونٹی کاٹتا ہے گال کاٹتا ہے لیکن وہاں بھی انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ماں درد سے تلملا جاتی ہے مصنفہ نے اس محبت میں بھی درد اور تلملانا ہی تلاش کیا ہے۔
” کبھی پیار کرتاتو کولھے پر زور کی چٹکی لیتا۔۔۔ ماں پھر تلملا اٹھتی بس وہ تلملاتی ہی رہتی اس کی جوانی سسکتی رہتی”
کیرتی محبت سے متنفر ہے جب کہ سنبل محبت کے ہاتھوں مجبور۔ ایک کے اندر نفرت کا جذبہ غالب ہے تو دوسرے کے اندر محبت گھر کر چکا ہے۔کیرتی کی نفرت کی وجہ سے ہی سنبل اسے مرد مار کہتی ہے۔دیکھا جائے تو کیرتی کے اس متشدد رویہ کا ذمہ دار بھی ایک مرد ہی ہے اور وہ مرد اس کا باپ ہے جو نشہ کرکے اس کی ماں کو مارتا ہے جسے دیکھ کر وہ بڑی ہوئی ہے۔
” ماں پٹتی جا رہی ہے، بلک رہی ہے، ہر چوٹ پر بلک کر منتیں کر رہی ہے”
” اور ان سب لعنتوں کے بیچ اس کا ننھا وجود۔۔ مگر یہ وجود سب کچھ دیکھتا اور اندر ہی اندر سلگتا رہتا،غبار پنپتا رہتا "
افسانے میں ثروت خان نے عورت کی نفسیات کو بھی پیش کیا ہے۔ عورت چاہے جتنی بھی شدت پسند کیوں نہ ہو لیکن وہ عورت ہے،اور اس کی شرست میں ہی محبت ہے یہی وجہ ہے کہ جب سنبل اپنے شوہر کی محبت اور اس کے ساتھ گزارنے والے ان لمحوں کی کہانی گڑھ کر سناتی ہے تو وہ بھی برف کی مانند پگھلنے لگتی ہے، اکیلے میں مسکراتی ہے، اس کے جسم میں بھی محبت کے نام سے جھرجھری پیدا ہوتی ہے اس کی خواہشیں بھی سر اٹھانے لگتیں ہیں۔
” رومان کے یہ نشانات دیکھ کر کیرتی کے جوان جسم میں ایک جھرجھری سی پیدا ہو جاتی کلیاں چٹکنے لگتیں جسے وہ بڑی خوبصورتی سے چھپا لیتی”
” زندگی کو دیکھنے کا نظریہ اس کا بدلنے لگا تھا۔لاوا اب ٹھنڈا ہونے لگا تھا اور موم کی طرح نرم و ملائم سانچوں میں ڈھل کر محفل ضیائبننے کی خواہش کرنے لگا تھا”
لیکن جب وہ سنبل کے حالات سے واقف ہوتی ہے تو اس کے اندر نفرت اور بھی زیادہ شدید ہو جاتی ہے۔
افسانے کا اسلوب نہایت ہی سادہ، سلیس ہے جسے قاری آسانی سے سمجھ سکتا ہے، اس میں الفاظ کی بازیگری نہیں ہے نہایت ہی سادہ زبان میں انھوں نے سماج کے بہت ہی بڑے مسئلے کو بیان کیا ہے۔
یہ ایک بیانیہ افسانہ ہے جس میں فلیش بیک کی تکنیک کا بھی استعمال کیا گیا ہیں۔
الغرض یہ افسانہ مجموعی طور پر ایک کامیاب افسانہ ہے اس میں پرانے مضمون کو نئے اور اچھوتے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔


ثروت خان
Share
Share
Share