لاک ڈاؤن میں رمضان اور تراویح کا اہتمام کیسے کریں؟ :- فیاض احمد برکاتی مصباحیؔ

Share
یاض احمد برکاتی مصباحیؔ

لاک ڈاؤن میں رمضان اور تراویح کا اہتمام کیسے کریں؟

فیاض احمد برکاتی مصباحیؔ
استاذ جامعہ اہلسنت نورالعلوم عتیقیہ
مہراج گنج بازا ترائی ضلع بلرامپور(یو،پی)

اس وقت پوری دنیا کرونا کی مہاماری سے پریشان ہے، پوری یک بارگی رک سی گئی ہے، معیشت، تجارت، صنعت وحرفت سب متاثر ہوئے ہیں۔عام زندگی قید ہوکر رہ گئی ہے۔ زندگی کے بچاؤ کے لیے ہماری حکومت نے کئی ٹھوس اقدامات کئے ہیں

تاکہ اس خطرناک مرض پر کنٹرول ہو سکے۔ پورے ملک میں دفعہ 144/لاگو ہے۔ اس دفعہ کا مطلب ہی یہی ہے کہ کسی بھی جگہ پانچ سے زیادہ آدمی جمع نہ ہوں، چاہے مذہبی مقامات ہوں یا غیر مذہبی۔ ہماری ذمہ دری بنتی ہے کہ ہم اس مہاماری کو روکنے کے لیے اپنی حکومت کی مددکریں۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہمیں اپنے مذہبی حقوق ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔تعصب سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ہمیں بھی کوء ایسا موقع نہیں دینا چاہیے جس ہمیں سماج میں بدنامی کی دستار اپنے سر باندھنی پڑے۔
ایسے میں مسلم معاشرے میں رمضان کے مہینے میں کی جانے والی عبادات کو لے کر کئی طرح کی باتیں ہورہی ہیں، اس لیے مناسب ہے کہ اس کے لیے ایک رہنمااصول جاری کردئے جائیں۔
تراویح کی جماعت سنت کفایہ ہے اگر گاؤں کے سب لوگ چھوڑدیں تو یہ بہتر نہیں ہے، کچھ لوگ جماعت سے پڑھ لیں تو باقی افراد الگ الگ بھی پڑھ سکتے ہیں، اس لیے جس گاؤں یا مسجد میں حافظ کا انتظام ہوجائے وہاں جتنے افراد کو جماعت سے پڑھنے کی اجازت ہو،اتنے ہی افراد جماعت سے نماز پڑھیں باقی تنہابھی پڑھ سکتے ہیں یا اپنے گھروں میں بھی جماعت کرسکتے ہیں۔گھروں میں الگ جماعت کرتے وقت بھی تعداد کا خصوصی خیال رکھیں۔اگر کوئی حافظ ہوتو بہتر ہے نہ ہوتو ” الم ترکیف ” یعنی سورہ تراویح پڑھ لیں۔ سورہ تراویح پڑھنے کے بعد کسی اچھے قرآن پڑھنے والے سے کچھ نہ کچھ قرآن کی تلاوت روزانہ سننے کا معمول بنائے۔اپنے گناہوں سے توبہ کریں۔ بھیڑ اکٹھی کرنے سے گریز کریں کہ ہماری ہر حرکت پر نظر رکھی جارہی ہے۔ پچھلی سوسالہ ہندوستانی تاریخ میں ہم نے اپنے مذہب کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کے فصل کاٹنے کا وقت ہے۔ ابھی کے ماحول میں مسلمانوں کو اپنے گھروں میں عبادات کی کثرت کرنی چاہیے تھی تو مسلمان اب بھی نماز کے اوقات گپ شپ کرکے گزارتے ہیں۔نوجواں کی روزمرہ کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انسانی تاریخ میں شاید یہ پہلی دفعہ ہواہے کہ پوری دنیا ایک ساتھ تھم سی گئی ہے۔اس وقت ملک میں مسلمانوں کی معاشی صورت حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے مزید اس وائرس کے ساتھ نفرت کے وائرس سے ہمارے پاس نپٹنے کا کوئی بہتر فارمولہ نہیں ہے۔ نہ ہماری کوئی اجتماعی حیثیت ہے۔ نہ ہمارا کوئی ایسا لیڈر ہے جو ہمیں آنے والے بحران سے باہر نکال سکے۔اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لئے اور مسلمانوں کو حقیقی اسلام سے متعارف نہ کراسکے تو شاید ہمارے لیے آنے والا وقت اس سے زیادہ برا ہوگا۔
رمضان کے مقدس مہینے میں اپنے پڑوسی کا خاص خیال رکھیں، اگر کوئی ضرورت مند ہوتو اسے کچھ نقدی وغیرہ پیش کریں، اکثر مدارس اور کالجز میں بچے پھنسے ہوئے ہیں ان کے لیے بھی اپنی وسعت بھرامداد کریں، مدارس اسلامیہ جو رمضان کے چندے پر ہی چل رہے ہیں اور اپنی دینی خدمات پیش کررہے ہیں ان مدارس کا باقی رکھنا بھی ہمارا مذہبی فریضہ ہے اس لیے ذاتی طور بھی ہم اس کا خصوصی خیال رکھیں۔ اپنی امداد عام رکھیں نفرت کو نفرت سے نہیں محبت سے مارا جاسکتا ہے۔ ہمیں اب ہر حال میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک اپنانی چاہیے۔
مدارس اسلامیہ کو باقی رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہے، حالات جیسے بن رہے ہیں اکثر مدارس کا وجود خطرے میں نظر آرہاہے۔ جب لوگوں کی آمدنی ہی کچھ نہ ہوگی تو وہ صدقہ اور عطیات کہاں سے کریں گے؟۔ہمارے وہ مدارس اسلامیہ جو سرکاری امداد یافتہ ہیں ان کے افراد کو اپنے تعلیمی اداروں پر تعلیمی اعتبارسے بہت زیادہ توجہ دینی ہوگی۔غالبا اپنے مذہبی تعلیم کے ساتھ ناانصافی کا خمیازہ ہمیں بہت شدید بھگتنا ہوگا۔مکاتیب اور چھوٹے مدارس کثرت سے بند ہوسکتے ہیں۔ اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے مسلمانوں میں بیداری لانا اسلام کے تئیں ان کے جذبات کے ساتھ ان کے اعمال کا درست کرنا اگر ہم اس مشکل گھڑی میں اپنے لیے کچھ بہتر تدبیر کرسکتے ہیں تو ضرور کریں۔
ویڈیو کانفرنسینگ کے ذریعہ نماز تراویح وغیرہ نہ پڑھیں یہ ایک نئے فتنے کا سبب بن جائے گا جس کا گناہ الگ ہے اور نماز نہ ہونے کی غلطی الگ ہے۔ رمضان کے مہینے میں امراض کے ٹیسٹ کے لیے ڈاکٹروں کو خون دینے یا انجیکشن لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا اس لیے اگر کہیں ایسی ضرورت پڑجائے تو روزہ رکھ کر بھی مرض کا علاج کرایا جاسکتاہے۔ افطار وسحرکے وقت دعاکا خاص اہتمام کریں یہ دعاکی اور گناہوں سے توبہ کی گھڑی ہے۔ اس وقت ہم مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم کس کی بات مانیں اور کس کی نہ مانیں؟ عمومی طور پر دیکھاجاتاہے کہ اگر معاشرے میں کوئی شخص کسی دوسرے پر اعتماد کرکے ان کے مسائل پر عمل کررہاہے تو اس پر لعن وطعن کرکے اور منفرد کی طرف سے تشدد کرکے اچھاخاصہ معاشرہ خراب کیا جاتا ہے۔ اس وقت ہم مسلمانوں کا آپسی لعن وطعن سے بچنا بے حد ضروری ہے، فروعی مسائل میں ہرشخص آزاد ہے جس کی پیروی چاہے کرے البتہ دوسرے کواسی کا تابع رہنے کے لیے مجبور نہ کرے۔ رمضان کے مہینے میں بہت طرح کی افواہیں اور مسائل اچھالے جاتے ہیں اس کی طرف قطعی توجہ کی ضرورت نہیں ہے۔ خاص کر ویڈیو کالنگ کے ذریعہ نماز یا آن لائن نماز یہ جدید فتنے کی طرف پوری قوم کو لے جاناہے۔ اللہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اہم ہے یہاں ہم اپنی ذہنی اختراعات کی اقتدا نہ کریں ورنہ عذاب الہی کے مستحق ہونگے۔
اسی طرح انجکشن والے مسئلے پر تشدد نہ برتیں، اگر انجیکشن لگوانا ضروری ہوتو ضرور لگوائیں تاکہ بیماری کا خاتمہ ہو، اسی طرح خون نکالنے کی ضرورت ہوتو خون بھی نکلوائیں خاص کر نہ نکلوانے کی صورت میں مذہب کے نشانہ بننے کا اندیشہ ہو تو اس عمل کو ضرور کریں، کیونکہ دونوں صورتوں میں فقہا کی ایک بڑی جماعت اس بات کی قائل ہے کہ روزہ نہیں ٹوٹے گا۔اگر کوئی مسلمان خون نکلوائے یا انجیکشن لگوائے تو اس کا روزہ باقی رہے گا اور روزے میں کسی طرح کی کراہت بھی نہیں آئے گی۔البتہ گل منجن کرنے سے مکمل پرہیز کریں کہ اس عمل سے روزہ باطل ہوجاتاہے۔
رمضان کے مہینے میں جو لوگ عمرہ کا ارادہ رکھتے تھے ان کو چاہیے کہ اپنے ان پیسوں کا استعمال فقراء ومساکین پر کریں۔ مسلمانوں کی دلی اور ایمانی خواہش ہوتی ہے کہ وہ رمضان میں عمرہ کرے تاکہ ثواب بھی زیادہ ملے اور خداکے گھرکی روحانی برکات سے مالامال ہو۔اس سال عمرہ پر پابندی لگ چکی ہے، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جانے کے تمام راستے بند ہیں تو مناسب ہے کہ جورقوم آپ نے عمرہ کے لیے خاص کیا ہے اسے فقراء، مساکیں، غربا اور مدارس اسلامیہ پر کریں۔اس سے دوہرے ثواب کی امید ہے۔ ایک تو اپنا پیسہ خرچہ کرنے کا ثواب دوسرا ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنے کا ثواب۔
رمضان المبارک کا مہینہ بڑا متبرک ہے، رب تبارک وتعالی اس مہینے میں بندے کے گناہ معاف کرتا ہے۔ رزق میں اضافہ فرماتاہے۔جہنم سے آزادی دیتا ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس مبارک مہینے میں اپنے گناہ سے توبہ کرے اور سچا مسلمان بن کر زندگی گزارنے کا اپنے رب سے عہد کرے۔ ہمارے اعمال بد کی وجہ سے جو برے حالات ہمارے بنے ہیں امید ہے اللہ ہمارے استغفار کرنے کی وجہ سے دور فرمادے۔اور ملک کو کووڈ۹۱ وائرس سے مستقل نجات عطافرمادے۔

Share
Share
Share