مابعد کورونا دنیا کا منظرنامہ کیسا ہوگا ؟ :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

مابعد کورونا دنیا کا منظرنامہ کیسا ہوگا ؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
9885210770

انسانی تاریخ حاد ثات، سانحات اور آ فات کی ایک جیتی جاگتی کہانی سناتی ہے۔ تاریخ کے مختلف اداور میں بنی نوع انساں بقاء اور فنا کی جنگ لٹرتا رہا۔ کبھی اس نے موت کو مات دے دی تو کبھی وہ زندگی سے ہار گیا۔ لیکن انسانی فطرت کا یہ بھی خاصّہ ہے کہ وہ آ فت کے ٹلنے اور مصیبت کے دور ہو نے کے بعد اُ سے بھول جاتا ہے۔

اور جب تک کہ پھر وہ نئی مصیبت یا پریشانی کا شکار نہیں ہوتا زندگی کی گہما گہمی میں اس قدر مست رہتا ہے کہ وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اب اُ سے کو ئی حادثہ چُھو کر بھی نہیں جا سکتا ہے۔ لیکن جب وہ کسی ناگہانی صورت حال میں گرفتار ہو جا تا ہے تو گذرے ہو ئے تلخ حادثے ایک بھیانک خواب بن کر اس کا پیچھا کر تے ہیں۔ اکیسویں صدی کے اس دوسرے دہے کے اختتام سے عین قبل پھر ایک بار دنیا میں ایک ایسا بھو نچال آیا ہے کہ ہر طرف موت کا خوف انسانوں سے ان کی ساری خوشیاں چھین چکا ہے۔ آج پوری دنیا کورونا وائرس کی قہر سامانی کی وجہ سے اپنی ساری رنگینی اور رونق کھو تی جا رہی ہے۔ دنیا کے پورے ما حول کو ویرانی اور سنّاٹے نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ دنیا کے وہ ممالک اور قو میں، جنہیں زندگی کی ساری آ سا ئشیں میّسر ہیں آج موت سے بھا گتی ہو ئی نظر آ رہی ہیں۔ ان کے خوبصورت شہر قبرستان بنتے جا رہے ہیں۔ کورونا وائرس نے امر یکہ کے شہر نیویارک کا کیا حال کر کے رکھ دیا اسے دنیا کھلی آ نکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ ایک نیویارک ہی نہیں جدھر نگاہ ڈالیے یہی دلسوز منا ظر دیکھنے کو ملیں گے۔ آج پوری انسا نیت ایک نازک دو راہے پر کھڑی ہے۔ کوئی حتمی طور پر یہ بتانے کے موقف نہیں ہے کہ اس جان لیوا وباء سے انسان کیسے چھٹکارا پاسکے گا۔ امر یکہ کے صدر ڈونالڈ ٹر مپ نے اسی ہفتہ دعوٰی کیا کہ ان کا ملک اس سال کے اواخر تک کورونا وائرس کے علاج کے لئے ویکسین تیار کرلے گا۔ جب کہ دوسری طرف عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے خطرات جلد ختم ہو نے والے نہیں ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ہوسکتا ہے کہ دوبارہ صدارتی انتخاب جیتنے کے لئے اپنے ملک کی عوام کو جھوٹی تسلی دی ہو۔ ویسے وہ جھوٹ بو لنے میں مہارت بھی رکھتے ہیں اور شہرت بھی۔ اس وقت سب سے زیادہ کورونا وائرس سے متا ثر کو ئی ملک ہے تو وہ امریکہ ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطا بق امریکہ میں کورونا وائرس سے 70,000سے زائد لوگ لقمہ اجل ہو چکے ہیں۔اور 12,0000سے زیادہ افراد ابھی زیرِ علاج ہیں۔ ایک ترقی یافتہ اور طاقتور ملک میں یہ شرحِ اموات ہیں تو انداذہ لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر ممالک کا کیا حال ہوگا۔ اس لیے یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس عالمی وباء کا خا تمہ کب ہو گا اور کب انسان کو اس سے را حت ملے گی۔ کورونا وائرس کی اس ہو لناکی کو الفاظ میں کیسے بیان کیا جا ئے کہ انسان اپنے گھر میں رہ کر بھی وحشت زدہ ہے۔ اس بھا گتی ڈورتی دنیا میں انسان عام حالات میں فر صت کے لمحات تلاش کر تا تھا لیکن وہ اسے حا صل کرنے میں بہت کم کا میاب ہو تا تھا۔ ہر شخص کی آ رزو اور تمنّا ہو تی ہے کہ وہ کچھ وقت اپنے چا ہنے والوں کے در میان گذارے۔ آج انسان کو فرصت ہے، وہ گذشتہ سات ہفتوں سے اپنے خاندانی افراد کے ساتھ زندگی گذار رہا ہے لیکن اس کے باوجود نہ طبیعت میں بحا لی ہے اور نہ ماحول میں وہ رونق ہے جو کورونا سے پہلے پا ئی جا تی تھی۔ کورونا کی مہلک بیماری نے بازاروں کو تو ویرانوں میں بدل دیا لیکن خاندانوں کی خوشیاں بھی ماند پڑ گئیں۔ ہر شخص اپنے خول میں قید ہو کر اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ایک انجانے خوف کے سائے میں گذارنے پر مجبور ہے
کورونا وا ئرس کی پھیلتی ہو ئی وباء سے اس وقت پوری دنیا لازمی طور پر حیران اور پر یشان ہے۔ لیکن اس بات کی بھی امید ہے کہ اس پر قابو پا لیا جائے گا۔ دنیا اس سے پہلے اس قسم کے حالات سے دوچار ہو ئی اور اس نے ہر بیماری اور ہر وباء کو شکست بھی دی۔ پندرہویں صدی عیسوئی میں آئے ہوئے بلیک پلیگ نے پورے یورپ کو تباہی وبر بادی سے دوچار کر دیا تھا۔ اس بھیانک وبا نے زندگی کی کو ئی رمق با قی نہ رکھی تھی۔ لیکن وقت کا پہیہ گردش کر تا رہا۔ اسی تاریکی اور بر بادی سے روشنی کی ایک پو پھوٹی اور یورپ میں نشاتہ ثانیہ کا دور شروع ہوا۔ اس انقلاب نے یورپ کو زندگی کے ہر شعبہ میں عروج کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ یوروپی اقوام نے اسی مر حلے میں علم و آ گہی کے ایسے زینے طے کیے کہ دنیا انگشت بدنداں ہو گئی۔ یورپ میں آ ئے ہو ئے صنعتی انقلاب نے دنیا کو ایک نیا را ستہ دکھا یا۔ دنیا میں ہو ئی دو عالمی جنگوں کے بعد بھی دنیا سُکٹر گئی تھی۔ دوسری جنگِ عظیم میں بموں کو استعمال کر کے ہنستی کھلیتی بستیوں کو خاکستر کر دیا گیا تھا۔ ہیرو شما اور ناگاساگی کے ہزاروں بے قصور انسان موت کے گھاٹ اُ تار دئے گئے تھے۔ جو زندہ رہ گئے تھے وہ بھی اپا ہچ ہوگئے۔ لیکن جاپان کی عوام نے ہار نہیں ما نی آج جا پان اپنی ترقی کے معا ملے میں کسی دوسرے ملک سے پیچھے نہیں ہے۔ دنیا میں جو کچھ حادثات اور واقعات ہو تے ہیں، اس کی ہولناکی سے عبرت لیتے ہو ئے اپنے حال اور مستقبل کو بہتر اور شاندار بنانا زندہ قو موں کا شیوہ ہوتا ہے۔
اس وقت یہ سوال اہم ہے کہ کورونا وائرس کے خاتمہ کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی۔ یہ عالمی وبا ء کیا واقعی انسان کے سو چنے سمجھنے کے دریچے کو کھلا رکھے گی یا اس مہلک ترین مرض کی ہولنا کی سے گذرنے کے باوجود انسان کوتاہ ذہنی، تعصب اور تنگ دلی جیسے امراض کواپنے سینے سے لگائے رکھے گا۔ اس ضمن میں ماہرین نفسیات کی جداگا نہ رائیں ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ موت اور حیات کی اس کشمکش کے بعد انسان میں بہت کچھ مثبت تبد یلیاں آ ئیں گی۔ احترامِ آدمیت کو جذ بہ امنڈ کر آ ئے گا۔ لوگ ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کو ہمیشہ تیار رہیں گے۔ کوئی کسی کو گرفتارِ بَلا ہو تا نہیں دیکھے گا۔ سماج میں اخلاقی اقدار کو فروغ ملے گا۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ انسان غرور اور تکّبر کو اپنے اندر سے ختم کر دے گا۔ کورونا وائرس نے اس کے سا منے یہ حقیقت رکھ دی کہ انسان کتنا ہی طاقتور ہو وہ قدرت کے سامنے کتنا بے بس اور مجبور ہے۔ ایک دوسرا نقطہِ نظر یہ ہے کورونا کے بعد جو دنیا وجود میں آ ئے گی وہ بڑی خطر ناک ہو گی۔ اس عالمی وبا نے خوف اور دہشت کا جو ماحول پیدا کردیا ہے اس سے انسان کا نکلنا کو ئی آ سان نہیں ہے۔ اس مہلک مرض نے انسان کو اجتماعی زندگی سے کاٹ کر الگ تھلگ رہنے پر مجبور کر دیا۔ اور اب انسان اس کا عادی بھی ہو چکا ہے۔ ہم نے اپنی کھلی آ نکھوں سے دیکھا کہ لوگ اس وبا سے بچنے کے لیے اپنے گھر کے دروازے اور کھڑ کیاں بھی گذ شتہ سات ہفتوں سے بند رکھے ہیں۔ اپنے گھر کی کھڑکی سے جھانک کر یہ دیکھنا بھی گوارا نہیں کر رہے ہیں کون بھوکا شخص ان کی مکان کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہے کہ کب کوئی ایک روٹی کا ٹکڑا ہی اس کے دامن میں آ کر پڑجائے۔ سماجی فاصلے کے نام پر لوگوں نے ضرورت مندوں سے دوری کو اپنا وطیرہ بنا لیا۔زندگی سے بے انتہا لگاؤ اور موت کے خوف نے بڑے بڑے سماجی مصلحین کو معاشرہ کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ عام وقتوں میں اپنے پِند و نصا ئح کے ذر یعہ لوگوں کو خدمتِ خلق کا درس دینے والے بھی آزمائش کے اس کٹھن وقت بہت کم نظر آ ئے۔ سماجی فا صلہ اور احتیاط ضروری ہے لیکن لوگوں کو بھوکوں مر تے ہو ئے دیکھ کر بھی اپنے اندر خلقِ خدا کی خدمت کا جذبہ پیدا نہ کرنا یہ بھی کو ئی انسانیت نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے اس خطر ناک وبا نے انسانوں کے دلوں اب بھی نرم نہیں کیا۔
کورونا وائرس کے اثرات سماجی زندگی سے زیادہ معاشی شعبہ میں خطرناک انداز میں دیکھے جا ئیں گے۔ پوری دنیا میں بے روزگاری اور غر بت جس تیز رفتاری سے پھیلے گی اس کو سوچ کر حکمراں بد حواس ہو رہے ہیں۔ کورونا وائرس سے پیدا شدہ بحران 1930کے کساد بازاری کے بحران سے بھی زیادہ پریشان کر دینے والا ہے۔ اُس بحران نے دنیا کے چند ممالک کو متا ثر کیا تھا۔ لیکن کورونا کی شکل میں آ ئی ہوئی عالمی آ فت نے ترقی یا فتہ ممالک کی بھی معیشت کو ٹھکا نے لگا دیا ہے۔ آ ثار و قرآئن بتا رہے ہیں معیشت پر قابو پا نے کے لئے کئی دہے لگ جا ئیں گے۔ کتنے ہی غریب ممالک کی معاشی سر گرمیاں تعطل کا شکار ہو جائیں گی۔ اس کے نتیجہ میں بڑے ممالک کو غریبوں کا استحصال کرنے کا بھر پورموقع مل جا ئے گا۔ ورلڈ بنک اپنی من ما نی شرائط پر قرض دینے کی روش اختیار کرے گا۔ ایسے معاشی سمجھوتے کیے جائیں گے جس سے طا قتور ممالک کے مفادات کی تکمیل ہو سکے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا دو خیموں میں تقسیم ہو گئی تھی اسی طرح کورونا کے بعد دنیا کی ایک اور بندر بانٹ ہوگی۔ غریب اور غیر تر قی یا فتہ ممالک، دنیا کی بڑی طا قتوں کے رحم و کرم پر اپنی معاشی پالیسیوں کو مرتب کر نے پر مجبور ہو جائیں گے۔ معاشی طاقت کے ذر یعہ سیاسی بر تری حا صل کی جا ئے گی تاکہ دنیا پر حکمرانی کا خواب پورا ہو سکے۔ یہ بات طے ہے کہ امر یکہ اپنی چودھراہٹ کو دنیا سے ختم ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا ہے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں جب کہ دنیا اس وبا کی چنگل سے نکلنے کے لیے بے چین ہے۔ اب اس پر بحث شروع ہو چکی ہے کہ کورونا وباکو پھیلانے میں کس ملک کا ہا تھ ہے۔ امریکہ نے پھر سے اسی الزام کو دہرایا کہ اس وبا کو پھیلا نے کا ذ مہ دار چین ہے۔ تین دن پہلے امریکی وزیر خارجہ مائیک پو مپیو نے دعوٰی کیا کہ کورونا وائرس کا وبائی مرض کسی بازار سے نہیں بلکہ چین کے شہر ووہان کی لیبارٹری سے نکلا ہے۔ چین نے اس الزام کی کئی بار تردید کر دی ہے۔ حقائق بہرحال جو بھی ہوں، یہ وقت ایک دوسرے پر الزام تراشی کا نہیں ہے بلکہ اس وبا سے انسانیت کو نجات دلانا اہم ہے۔ امریکہ اس جان لیوا جنگ میں ہر روز ہارتا جارہا ہے، شا ید اسی کے پیش نظر عوام کی تو جہ کو باٹنے کے لئے چین کو موردِ الزام ٹہرایا جارہا ہو۔ یہ بات سچ ہے کہ چین کے شہر ووہان سے ہی کورونا وائرس ساری دنیا میں پھیلا ہے۔ چین کو اس بات کے لئے قصوروار ٹہرایا جاسکتا ہے کہ اس نے اس وبا کو روکنے میں لا پروائی برتی اور اسے راز میں رکھا۔ کورونا پر قابو پانے کے بعد جو سب سے بڑا چیلنج دنیا کے سا منے آ ئے گا وہ معاشی بحران ہو گا۔ اس مہلک وائرس نے پورے معا شی نظام کو ٹھپ کردیا ہے۔ کم و بیش پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام معاشی سرگرمیاں معطل ہوگئیں ہیں۔ دنیا کورونا کی جنگ جیت بھی لے تو بھوک اور فاقہ کشی سے انسانوں کا نکلنا کا فی دشوار ہے۔ معاشی ناہمواری اس حد تک بڑھ جائے گی کہ وہ ناقابل برداشت ہو جا ئے گی۔ مابعد کورونا، معاشی مسائل انسانوں کی زندگی کو اجیرن کردیں گے۔ بیروزگاری اور بھوک کی وجہ سے لوگ نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو جا ئیں گے۔ خوف، ڈر اور مستقبل سے مایوسی کے نتیجے میں ذہنی تناوکالوگ شکار ہو تے جا ئیں گے۔ حفظانِ صحت اور تعلیم کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔ حکو متیں کورونا وائرس سے نبرد آ زماہوتے ہوئے انسانوں کی زندگیوں کے بارے میں نہیں سو چیں گی تو ما بعد کورونا دنیا کا جو منظر نا مہ سامنے آ ئے گا وہ بڑا بھیانک اور دردناک ہو سکتا ہے۔ دنیا کو اس ہولناکی سے بچا نے کے لئے حکومتوں کو اپنی معاشی تر جیحات کو درست کر تے ہو ئے عوام کی بنیادی ضرروتوں کی تکمیل پر خصوصی تو جہ دینی ہو گی۔ غربت کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کر نے ہوں گے ورنہ کورونا کے ختم ہونے کے بعد دنیا میں طوائف الملوکی اور لا قانونیت کا دور دورہ ہو جائے گا۔
—–
Dr. Syed Islamuddin Mujahid
Associate Professor (Retd)
Urdu Arts College , Hyderabad-29

Share
Share
Share