عالمی وباء کورونا اور بلند بانگ دعوے :- ڈا کٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

عالمی وباء کورونا اور بلند بانگ دعوے
کیا ہندوستان کو دنیا کا طاقتور ملک بناسکیں گے؟

ڈا کٹر سید اسلام الدین مجاہد

9885210770

وزیر اعظم نر یندر مودی نے عالمی وباء کورونا وائرس کو ملک میں پھیلنے سے روکنے کے لئے لاک ڈاؤن کے چوتھے مر حلے کا آغاز کرنے سے پہلے منگل کی رات (12/ مئی) ٹیلی ویژن پر قوم سے راست خطاب کرتے ہوئے بڑے فلسفیانہ انداز میں یہ بات کہی کہ کورونا وائرس نے پوری دنیا کو تباہ کردیا

لیکن اس وباء نے ہندوستان کو خود مکتفی ہونے کا اور اکیسویں صدی میں عالمی سطح پر ایک طا قتور ملک کی حیثیت سے ابھرنے کا مو قع فراہم کیاہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی قوم گذشتہ پچاس دن سے اس جان لیوا وباء سے چھٹکارا پانے کے لئے ہر سطح پر حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے ملک کو اس انسانی بحران سے بچانے میں اپنا اہم رول ادا کر رہی ہے۔اسی عزم مصمم کے ساتھ ہمیں 21ویں صدی کو ہندوستان کی صدی بنانا ہے۔ اس صدی کے آغاز سے پہلے ہی یہ باتیں بین الاقوامی سطح پر بڑی سنجیدگی سے لی جارہی تھی کہ آنے والے صدی ایشیاء کی ہو گی اور اس میں ہندوستان کا رول قا ئدانہ ہو گا۔ لیکن اس صدی کے دو دہوں کے اختتام سے پہلے ان دعوؤں کا معروضی انداز میں جا ئزہ لیا جا تا ہے تو یہ تلخ حقیقت سا منے آ تی ہے کہ ہندوستان کے بشمول سارے ایشیائی ممالک، اب بھی مغرب کے طاقتور ملکوں کے مقا بلے میں کا فی پسماندہ ہیں۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں وا قعی ہندوستان نے اتنی ترقی کر لی ہو کہ وہ دنیا کی اس شعبہ میں رہنمائی کر سکے۔ آج بھی ہندوستان میں شرح تعلیم کی یہ صورت حال ہے کہ ملک کے معصوم بچے، پرائمری تعلیم سے محروم ہیں۔ حفظان صحت کا معا ملہ یہ ہے کہ تغذیہ کی کمی کی وجہ سے کئی شیر خوار بچے موت کے منہ میں چلے جا تے ہیں۔ معا شی نا ہمواری کا سلسلہ اتنا دراز ہے کہ دادا سود لیتا ہے تو پوتا بھی اس کو ساری عمر محنت کر کے ادا نہیں کر سکتا۔ ہندوستان جو زرعی ملک ہے، لیکن اسی ملک میں کسان خود کشی کر تے ہیں۔ اس قسم کے گھمبیر مسائل کو رکھتے ہوئے ہم عالمی مسا بقت میں اول نمبر پر آ نے کی بات کر تے ہیں تو یہ بات کانوں کو تو اچھی لگتی ہے لیکن حقیقت سے اس کا دور کا بھی تعلق نہ ہو گا۔ پچاس دن کے لاک ڈاؤن نے ملک کے عام شہر یوں اور خا ص طور پر غریب اور مزدور طبقہ کی جو حالت کر دی وہ آج ساری دنیا کے سا منے ہے۔ مہاجر مزدور، حالات سے تنگ آ کر سڑکوں پر نکل آ ئے ہیں۔ ہزاروں میل کا سفر وہ پیدل طے کر نے پر مجبور ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے بیوی بچے سروں پر اپنا سا مان اٹھائے گرما کی اس چلچلاتی دھوپ میں بھوکے پیاسے اپنی منزل کی تلاش میں نکل پڑے ہیں۔ کئی تو ایسے ہیں جو اپنے آ بائی مقام کو پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں دم توڑدیے۔ ملک کی عوام نے وہ دلخراش وا قعہ دیکھا اور پڑھا بھی کہ چند مزدور ریل کی پٹریوں پر سورہے تھے اچا نک ٹرین آ ئی اور انہیں روندتے ہو ئے چلی گئی۔ کسی میڈیا چینل نے حکومت سے یہ سوال نہیں کیا کہ ان غریب افراد کی موت کے کون ذ مہ دار ہیں۔ حکومت نے لاک ڈاؤن تو ملک میں گذشتہ پچاس دن سے نا فذ کر رکھا ہے لیکن روز کی محنت کر نیوالوں کا پیٹ کیسے بھر ے گا اس بارے میں شاید سوچنا بھی گوارا نہیں کیا۔ جو لوگ چھوٹا موٹا کاروبار کر تے تھے لاک ڈاؤن کی اس لمبی مدت کے دوران اپنے کاروبار سے محروم ہو گئے۔ غیر مقیم مزدور سفر کی ساری مصیبتیں اٹھاتے ہوئے آ خر کیوں اپنے وطن جا نے کے لئے بے چین ہیں۔ وہ اس لئے کہ وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ کم از کم موت آئے تو ان کے خاندان کے لوگ ان کے قریب ہوں گے۔ اس بھیانک صورت حال میں کیا واقعی ہندوستان 21ویں صدی میں دنیا کی قیادت کر سکتا ہے؟
وزیر اعظم نے اندورن دو ماہ چار مرتبہ قوم سے ٹیلی ویژن پر راست خطاب کر تے ہوئے بہت کچھ وعدے کیے اور قوم کو دلاسہ بھی دیا کہ بہت جلد مصیبت کی یہ گھڑیاں ختم ہو جا ئیں گی۔ 22/ مارچ کو جنتا کرفیو کے نفاذ سے پہلے انہوں نے 21/ مارچ کی رات قوم سے خطاب کیا تھا۔ پھر 24/ مارچ کی رات قوم سے خطاب کرتے ہوئے اچانک پورے ملک میں 25/ مارچ سے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا۔ جب جب لاک ڈاؤن میں توسیع کی گئی وزیراعظم ٹی وی پر نمودار ہو تے رہے اور ملک کی عوام کو باور کر اتے رہے ہیں یہ وقت ملک کے لئے بڑا نازک ہے۔ عوام نے ان کی تمام با توں پر نہ صرف بھروسہ کیا بلکہ ہر مر حلہ پر ان کا ساتھ بھی دیا۔ اب جب کہ لاک ڈاؤن کا تیسرا مر حلہ ختم ہونے والا تھا وزیر اعظم نے اس میں توسیع کا صاف اشارہ اپنی گذشتہ منگل کی تقر یر میں دے دیا۔ کورنا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے لاک ڈاؤن کتنا ضروری ہے یہ ایک الگ سوال ہے۔ اس وقت یہ سوال اہم ہے کہ آ خر ملک کی 70فیصد آ بادی جو محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پا لتی ہے وہ ان دشورا گذار حالات کا مقا بلہ کیسے کرے گی۔ وزیر اعظم نے عوام کو را حت دینے کے لئے 20 لاکھ کروڑ روپئے کے پیا کیج کا اعلان کیا۔ لیکن اس کی تقسیم کیسے ہو گی اس کی کو ئی تفصیل نہیں بتا ئی۔ اس پیاکیج کو آ تما نر بھر بھارت ابھیان کا نام دیا گیا۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے اس معاشی پیاکیج میں مزدوروں اور کسانوں کا خا ص خیال رکھا جا ئے گا۔ لاک ڈاؤن کا تیسرا مر حلہ 17/ مئی کو ختم ہو جائے گا۔ اس کے بعد چوتھے مر حلہ کے شروع ہو نے کے بعد عوام کو کچھ معاشی سہو لتیں فراہم کر نے کی وزیراعظم نے اپنے راست خطاب کے ذر یعہ عوام کو یقین دہا نی کر ائی ہے۔ وزیر اعظم نے ملک میں 25/ مارچ سے لاک ڈاؤن نافذ کر دیا اور بغیر کسی وقفہ کہ لاک ڈاؤن کا یہ سلسلہ جا ری ہے۔ انہیں چا ہیے تھا کہ لاک ڈاؤن کے پہلے مر حلے سے غریب عوام کا خیال رکھتے اور ان کو وہ سہو لتیں فراہم کر تے جس کے ذریعہ وہ کم از کم دو قت کھانا کھا تے۔ لیکن وزیراعظم کے اچا نک اعلان نے کتنے ہی خاندانوں کو فا قہ کشی میں مبتلا کر دیا۔ پچاس دن کے بعد وزیر اعظم معاشی پیا کیج کا اعلان کر تے ہیں تو اس سے ان لوگوں کو کیا راحت مل سکتی جو لاک ڈاؤن کی تاب نہ لاکر دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے اس پہلے بھی غریب عوام سے بہت سارے وعدے کئے تھے لیکن اپنی پہلی معیاد کے وعدوں کو انہوں نے پورا کیا اور نہ دوسری معیاد کے دوران وہ وعدے ان کی تر جیحات رہے ہیں۔ ہر غریب کے کھاتے میں پندرہ لاکھ جمع کر نے کا انہوں نے وعدہ کیا تھا، یہ وعدہ فضاء میں بکھر کر رہ گیا۔ بیرون ملک سے کا لے دھن کو واپس لا نے کی بات کی گئی تھی لیکن اس پر آج تک کوئی بات سننے میں نہیں آ ئی۔ جن سر مایہ داروں نے ملک کی دولت لو ٹی ہے ان کے قر ضے مودی حکومت نے معاف کردیے۔ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کو نعرہ بڑے زوروں سے لگا یا گیا۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ اس نعرے کی حقیقت کیا ہے۔ چند مٹھی بھر لو گوں کا وکاس ہوتا رہا اور غریب اپنی روٹی روزی کے لئے ہمیشہ پر یشان رہا۔ نوٹ بندی کے نام پر راتوں رات ملک میں ایک ہیجان پیدا کر دیا گیا۔ لوگ اپنا پیسہ بھی بنکوں سے نہیں نکال سکے۔ نوٹ بندی کا فا ئدہ بھی ان لوگوں کو ہوا جو معاشی بدعنوانیوں میں ملوث رہے۔ ایک سو سے زائد لوگ اس وقت بھی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب جب وزیر اعظم کرونا وائرس سے آئی ہوئی تباہی کو دور کر نے کے لئے بیس لاکھ کروڑ روپئے کے پیا کیج کا اعلان کر تے ہیں تو عوام کے یہ ذہن میں سوال اٹھتاہے کہ آخر یہ رقم کس کے حصے میں جائے گی۔ حکومت واقعی غریبوں کی ہمدرد ہوتی تو لاک ڈاؤن کے نافذ ہوتے ہی غریبوں کی مدد کے لئے اس معاشی پیاکیج کا اعلان کرتی تاکہ غریب عوام اس قدر پریشان نہ ہوتی۔لاک ڈاؤن نے کورونا سے زیادہ معاشی مسائل پیدا کر دئے اور حکومت اس بارے میں کوئی ٹھوس اقدامات کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔
ایک ایسے وقت جب کہ ملک کی عوام کورونا وائرس کی قہر سامانی کے ساتھ فقر و فاقہ کے دور سے گذر رہی ہے ایسے وقت وزیر اعظم کا قوم کو اس انداز میں خطاب کرنا کہ جس میں صرف اپنے کارناموں کو گِنا جائے کوئی معنوعیت نہیں رکھتا۔ وزیراعظم کی منگل کی رات کی گئی تقریر محض دل کو لبھانے والی تھی۔ اپنی لائیو ٹیلی کاسٹ تقریر کے ذریعہ وہ یہ باور کرا رہے تھے اس مصیبت کی گھڑی میں صرف عوام کو مصیبتیں جھیلنا ہے۔ تقریر کے دوران ایسا لگ رہا تھا کہ وزیر اعظم دانستہ طور پر کورونا وائرس کوپھیلنے سے روکنے کے لیے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں عوام جن مشکلات سے دوچار ہوئی ہے اس کا تذکرہ کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران دو ہزار سے زائد اموات ہو ئی ہیں لیکن مرنے والوں کے خاندان سے کسی ہمدردی کا اظہار وزیراعظم نے اپنی تقریر میں نہیں کیا۔ آنے والے دنوں میں بڑے پیمانے میں معا شی اصلاحات لانے کی بات تو کی گئی۔ ان معا شی تبدیلیوں کا اثر عوام کی زندگیوں پر کیسے پڑے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ایک طرف وزیر اعظم ملک کو خود مکتفی بنانے کی وکالت کر تے ہیں اور دوسری طرف ملک میں ایسا ما حول بنایا جاتا ہے کہ معاشی اور سماجی سطح پر عوام کے درمیان ایسے نازک وقت بھی دوریاں پیدا کرنے کی کو شش بعض ملک دشمن طا قتیں کر رہی ہیں اس پر وزیرا عظم نے کوئی لب کشائی نہیں کی۔ وزیر اعظم کیوں ان حقائق سے آ نکھیں چرا رہے ہیں کہ ان کے دورِ حکو مت میں کورونا وائرس کو روکنے کے بہا نے ملک کے ایک طبقہ کو بھی نشا نہ بنایا جارہا ہے۔ حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک روا رکھنے کی خبریں ذرائع ابلاغ کے ذریعہ منظرِ عام پر آئی وزیر اعظم نے اس پر کسی قسم کی پشیمانی کا اظہار اپنی تقریر میں نہیں کیا۔ کیا کسی ایک طبقہ کو حاشیہ پر لاکر ملک کو دنیا کے نقشے پر ایک طاقتور ملک کی حیثیت سے ابھارا جاسکتا ہے۔ اکیسویں صدی کو ہندوستان کی صدی بنانا ہر ہندوستانی کا خواب ہے۔ ہر محب وطن اس خواب کی تعبیر تلاش کر نے میں لگا ہوا ہے۔ لیکن ملک کی فر قہ پر ست طا قتیں اس ملک کو ایک خا ص رنگ میں رنگنا چاہتی ہیں۔ اس عالمی وباء کو مسلمانوں سے جوڑنے کی جو مذموم کو شش میڈیا کی جانب سے کی گئی وہ اب دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگئی ہے۔ دہلی میں ہوئے تبلیغی اجتماع کو نشانہ پر رکھ کر ملک کے سارے مسلمانوں کو گھیر نے کا منصو بہ بنایاگیا۔ گودی میڈیا نے جس غیرذمہ داری کے ساتھ اس زہر کو پھیلایا اس سے سارے ملک کی فضاء مسموم ہو گئی۔ صبح شام ہر بکاؤ چینل نے مسلمانوں کو بدنام کر نے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ ان کی اس شرانگیزی نے گاؤں، گاؤں میں مسلمانوں کو ناقابل بیان مصا ئب میں ڈال دیا۔ حقیقتِ حال سے واقف ہو نے کے باو جود ملک کے وزیراعظم اس صحافتی ڈاکوؤں کو لگام نہ دے سکے۔ ملک کو اکیسویں صدی میں لے جانے کے لئے حکمرانوں کے لئے لازمی ہے کہ وہ انتشار پسند طاقتوں پر قابو پائیں اور آزمائش کے وقت ان کو زبان درازی سے روکیں۔ اب جب کہ ساری دنیا وبائی مرض کے خلاف متحد ہو کر اس کا مقابلہ کر رہی ہے ایسے وقت ملک کے تکثیری ڈھانچے کو مسمار کرنے کی کو شش کر نا اور کسی خاص گروہ کو اس وباء کے لئے ذمہ دار ٹہرانا ملک کو کورونا سے زیادہ مصیبت میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اس سنگین صورت حال میں عوام کو سہولتیں پہنچانے کی پالیسی کو روبہء عمل لائیں۔ محض بلند با نگ دعوؤں سے عوام کے دلوں کو لبھایا جاسکتا ہے لیکن جب تک ٹھوس اقدامات نہیں کئے جاتے اکیسویں صدی کو ہندوستان کی صدی بنانے کی با تیں افسانوی قصہ ہوسکتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اور یہ خواب کی تعبیر اس وقت تک پوری نہیں ہوگی جب تک کہ ملک کے تمام شہریوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا۔

Share
Share
Share