لاک ڈاؤن میں آخری عشرہ کا اعتکاف :- مفتی محمد ضیاءالحق قادری فیضی

Share

لاک ڈاؤن میں آخری عشرہ کا اعتکاف

مفتی محمد ضیاءالحق قادری فیضی
فون نمبر 9721009708

رمضان المبارک کا ایک اہم عمل اعتکاف ہے۔نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے رمضان کے اخیر عشرے میں نبی رحمت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم معتکف ہو جاتے تھے ۔(بخاری شریف)

اور دنیوی معاملات اور تعلقات سے بالکل علیحدہ ہو جایا کرتے تھے جس سال کریم آقا علیہ السلام کا وصال ہوا اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا رمضان کے اخیر عشرے میں اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے اگر کوئی بھی نہ کرے تو پوری بستی کے لوگ سنت موکدہ کے تارک اور گنہگار ہوں گے۔اعتکاف کی حالت میں انسان اللہ عزوجل کی بارگاہ رحمت میں ہمہ وقت حاضر رہتا ہے ۔نمازیں پڑھتا رہتا ہے ذکر و اذکار مشغول رہتا ہے اللہ عزوجل کے حضور دعاؤں میں اپنے گناہوں کو یاد کر گریہ و زاری کرتا ہے اپنے رب کی رضا چاہتا ہے اپنی آخرت کی کامیابی کا خواستگار ہوتا ہے یہ سب اعمال عبادت ہیں اس لئے اعتکاف مجموعہ عبادات ہے۔معتکف تمام گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور جو نیک کام معتکف اعتکاف کی وجہ سے نہیں کر سکتا ہے اس کو اس نیک کام کا بھی ثواب ملتا ہے ماہ صیام کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا اپنے رب کو راضی کرنے
بہترین ذریعہ ہے اس لئے امت مسلمہ کو اخیر عشرے کے اعتکاف کا اہتمام ہونا چاہیے اعتکاف کا سب سے عظیم فائدہ شب قدر کا پانا ہے
موجودہ حالات میں جب کہ ملک میں لاک ڈاؤن ہے اور مسجد میں عمومی جماعت پر پابندی ہے اور اخیر عشرہ تک اس پابندی کے برقرار رہنے کا قوی امکان ہے اس لئے ایک سوال کثرت سے معلوم کیا جا رہا ہے کہ کیا جس طرح گھر میں جمعہ و جماعت کا نظام قائم ہے اسی طرح گھر کا وہ حصہ جس مسجد بیت کہا جاتا ہے وہاں پر اعتکاف بھی کیا جا سکتا ہے کیا مسنون اعتکاف ادا ہو جائے گا؟
اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ لفظ اعتکاف کا مادہ عکف ہے جس کے معنی خود کو روک لینا ہے یا کسی کی طرف اس قدر متوجہ ہونا کہ چہرہ بھی اس سے نہ پھرے اہل لغت نے اعتکاف کا شرعی مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا ہے لمن لازم المسجد و اقام علی العبادة فیہ عاکف و معتکف
جو مسجد میں قیام کر لے اور عبادت میں مصروف ہوجائے اسے عاکف یا معتکف کہا جاتا ہے۔
مسنون اعتکاف کے لیے مسجد شرط ہے بلکہ ایسی مسجد جہاں پانچ وقتہ نماز جماعت سے ادا کی جاتی ہو اس مسجد میں اعتکاف ہو سکتا ہے اس کے علاوہ دوسری جگہوں پر مسنون اعتکاف نہیں ہوسکتا ہے۔علامہ ابن الہام فرماتے ہیں ثم الاعتکاف ثم لا یصح إلا مسجد الجماعة لقول حذيفة لا اعتکاف إلا فی مسجد جماعة وعن ابی حنیفة انه لا يجوز الا في مسجد يصلى فى الصلوات الخمس قيل اراد به غير الجامع اما الجامع فيجوز أن لم يصل فيه الخمس (فتح القدير باب الاعتكاف 593/2)حضرات ائمہ کے درمیان اختلاف ہے کہ کس مسجد میں اعتکاف درست ہے امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کے یہاں ہر مسجد میں اعتکاف درست ہے جب امام صاحب علیہ الرحمہ کے یہاں اس مسجد میں جس میں پنج وقتہ نماز ہوتی ہو درست ہے لیکن غیر مسجد میں اعتکاف کے صحیح نہ ہونے پر اتفاق ہے۔
جمعہ و جماعت پر اس کو قیاس کرنا صحیح نہیں ہے اس لئے کہ نماز کے لیے اللہ عزوجل نے پورے روے زمین کو مسجد بنایا ہے۔حدیث طیبہ میں ہے جعلت لي الارض مسجدا و طهورا لیکن پورے روے زمین کو اعتکاف کی جگہ نہیں بنایا ہے۔بلکہ اعتکاف کے لیے اللہ عزوجل نے متعین فرمایا ہے۔قرآن میں و لاتباثروهن و انتم عاكفون في المساجد(سورة البقرة 187) ترجمہ
اور عورتوں کو ہاتھ نہ لگاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو (کنز الایمان )
اعتکاف کے لغوی معنی کسی جگہ ٹھہرنے کے ہیں اور اصطلاح قرآن و سنت میں خاص شرائط کے ساتھ مسجد میں ٹھہرنے اور قیام کرنے کا نام اعتکاف ہے۔لفظ فی المسجد کے عموم سے ثابت ہوتا ہے کہ اعتکاف ہر مسجد میں ہو سکتا ہے۔جس میں جماعت ہوتی ہو غیر آباد مسجد جہاں جماعت نہ ہوتی ہو اس میں اعتکاف درست نہیں ہے یہ شرط در حقیقت مسجد کے مفہوم ہی سے مستفاد ہے کیوں کہ مساجد کے بنانے کا اصل مقصد جماعت کی نماز ہے ورنہ تنہا نماز تو ہر جگہ دوکان و مکان وغیرہ میں ہو سکتی ہے
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ عام حالات میں تو یہی حکم ہے لیکن موجودہ حالات میں جب کہ مسجد میں نماز پڑھنے پر پابندی ہے اس لئے مجبوری کی وجہ سے گھروں میں اعتکاف کی اجازت ہونی چاہیے بلکہ اگر کوئی گھر میں اعتکاف کرلے تو زیادہ ثواب ملے گا۔اس لیے کہ وہ مجبوری کی وجہ سے گھر میں نماز ادا کر رہا ہے لیکن یہاں موضوع بحث یہ ہے کہ اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے ایک دو لوگ اگر اعتکاف کر لیں تو مسنون اعتکاف ادا ہو جائے گا ۔اور سب لوگوں بری ذمہ ہو جائیں گے ظاہر ہے کہ موجودہ حالات میں اس کی گنجائش موجود ہے۔اور اگر یہ کہہ دی جائے کہ گھر میں اعتکاف ہو سکتا ہے تو ایک دو فرد مسجد میں اعتکاف کرتے ہیں وہ بھی مسجد میں اعتکاف نہیں کریں گے۔بلکہ گھر میں اعتکاف کا عذر کر لیں گے اس لیے موجودہ حالات میں بھی مسنون اعتکاف مسجد کے ذریعہ سے ادا ہوگا باقی لوگ اگر گھر میں اعتکاف کی جگہ مخصوص کر لیں تو ان کا یہ اعتکاف نفل ہوگا۔اور اس کے لیے اجر و ثواب کا باعث ہو گا اور اعتکاف کے دیگر فوائد کے ساتھ اہم فائدہ شب قدر پانے سے وہ محروم نہیں ہوگا اس لیے جتنے احباب کو حکومت ہند کی جانب سے نماز کو باجماعت سے ادا کرنے کی اجازت ملی ہو وہ مسجد میں اعتکاف کریں باقی لوگ گھر میں نفل اعتکاف کی نیت کر لیں۔علامہ ابن الہام نے حضرت امام ابو یوسف کا قول نقل کیا ہے کہ واجب اعتکاف بغیر مسجد کے نہیں ہو سکتا ہے البتہ نفل اعتکاف مسجد کے علاوہ میں بھی ہو سکتا ہے۔
خواتین کے اعتکاف میں ائمہ کرام کا اختلاف ہے امام مالک رحمہ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک عورت بھی مسجد میں اعتکاف کرے گی ۔مرد حضرات کی طرح اور احناف کے نزدیک عورتوں کا مسنون اعتکاف گھر میں ادا ہو جاتا ہے اس لئے کہ عورتوں کے لیے مسجد خانہ بالکل اس طرح ہے جس طرح مرد حضرات کے مسجد کا حکم ہے یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے لیے گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اس لئے عورتوں کا گھر میں اعتکاف کرنا افضل ہوگا ۔خواتین گھر میں کوئی جگہ مخصوص کر لیں اور اس میں اعتکاف کریں اور بلا عذر شرعی اور بشری ضرورت کے تحت اس جگہ سے نہ نکلیں۔
اللہ عزوجل حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور جمیع عبادات رمضان کے صدقے میں کورنا وائرس سے تمام عالم کے جان و مال کی حفاظت عطاء فرما آمین ثم آمین یا رب العالمین-

Share
Share
Share